ماخوذ: فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد ۲، صفحہ ۴۸۴
امام بخاری رحمہ اللہ سے منسوب ایک بے بنیاد واقعہ
سوال:
انوار خورشید دیوبندی نے حافظ ابن حجر کی کتاب ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری (جلد ۲، صفحہ ۲۵۳) کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ:
امام بخاری رحمہ اللہ تراویح کے بعد تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے۔
(حدیث اور اہلحدیث، صفحہ ۶۸۳)
سوال یہ ہے کہ:
کیا یہ بات درست ہے؟
نیز:
جو اشعار اس واقعے کے ساتھ منسوب کیے جاتے ہیں، کیا وہ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جس روایت کا ذکر کیا ہے، اس کی سند میں ایک راوی کا نام مقسم یا مسبح یا نسبح بن سعید یا سعد درج ہے۔
مندرجہ ذیل مراجع میں یہ تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے:
- ہدی الساری، صفحہ ۴۸۱
- تاریخ بغداد، جلد ۲، صفحہ ۱۲
- تاریخ دمشق، جلد ۵۵، صفحہ ۵۸
کچھ مخطوطات میں اس راوی کا نام فسیح یا مسیح بھی درج ہے۔
تاہم، ان تمام ناموں کے حوالے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ:
- ان میں سے کسی نام کا راوی اسماء الرجال کی معتبر کتب میں موجود نہیں۔
- لہٰذا یہ راوی مجہول (نامعلوم) ہے۔
نتیجہ:
- اس بنا پر یہ واقعہ باطل اور بے اصل قرار پاتا ہے۔
- امام بخاری رحمہ اللہ سے اس واقعے کا کوئی ثبوت صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب