امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

اس مضمون کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ پر بعض اہلِ علم کی علمی تنبیہات اور جزوی نقد (جسے علمِ حدیث میں “استدراک/تعقب” کہا جاتا ہے) امام بخاری کی امامت، ثقاہت اور صحیح بخاری کی اصل حجیت کو ختم نہیں کرتی۔ بعض حضرات ان علمی تنبیہات کو غلط مفہوم دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ائمہ نے “صحیح بخاری” کو باقاعدہ رد کر دیا ہو؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ابن ابی حاتم اور خطیب بغدادی وغیرہ کے اکثر مباحث امام بخاری کی “التاريخ الكبير” میں بعض رواۃ کی تعیین/تفریق جیسے فنی امور سے متعلق ہیں، اور امام دارقطنی کے استدراکات بھی اصولاً چند مخصوص احادیث و اسانید پر ہوتے ہیں جن کے متبادل طرق موجود ہوتے ہیں، یا پھر خود دارقطنی نے بعض مقامات پر اپنے پہلے تعقب سے رجوع بھی کیا ہے۔

اعتراض کا متن

ایک متعصب حنفی صاحبِ قلم نے امام بخاری پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ:
“ابن ابی حاتم نے بيان خطاء البخاری جیسی کتاب لکھ کر رد کیا، خطیب بغدادی نے الموضح اللاوھام میں امام بخاری کے اوہام جمع کیے، اور دارقطنی نے الإلزامات و التتبع میں بخاری و مسلم پر زبردست رد کیا… پھر اس کا جواب کیا ہے؟”

مختصر وضاحت:
یہ اعتراض “کتابوں کے نام” گنوا کر ایک بڑا نتیجہ نکالنے کی کوشش ہے، جبکہ حقیقت کو سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ دیکھا جائے: (1) وہ نقد کس کتاب پر ہے؟ (2) نقد کی نوعیت کیا ہے؟ (3) کیا وہ نقد صحیح بخاری کے اصل مقصود کو متاثر کرتا ہے یا نہیں؟

اصولی بات: ائمہ کی جزوی تنبیہات امام کی امامت کو ساقط نہیں کرتیں

علمِ حدیث میں بڑے بڑے ائمہ (مثلاً بخاری، مسلم، ابو حاتم، ابو زرعہ، دارقطنی، خطیب، ابن حجر وغیرہ) ایک دوسرے کی بعض تعلیقات پر علمی گفتگو کرتے ہیں۔ یہ منہج “علمی تحقیق” ہے، “ردِّ مطلق” نہیں۔ چنانچہ اگر کسی امام کی کسی تعیین یا کسی سند کے کسی پہلو پر تنبیہ کر دی جائے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ امام غیر معتبر ہو گیا، یا اس کی اصل کتاب (خصوصاً صحیحین) ساقط الاعتبار ہو گئی۔

ابن ابی حاتم کی کتاب: اصل محلّ (التاريخ الكبير) اور پانچ مثالیں

① مثال: جعفر بن أبي كثير / جعفر بن كثير

ابن ابی حاتم نے لکھا:

75 -[1 / 2 / 2182] جعفر بن ابى كثير عن ابيه (9) رواه بكر بن كليب.
وانما هو جعفر بن كثير.سمعت ابى يقول كما قال (بيان خطأ محمد بن إسماعيل البخاري في تاريخه)

اردو ترجمہ:
ابن ابی حاتم نے “التاريخ” میں امام بخاری کی ایک عبارت نقل کی کہ “جعفر بن ابی کثیر عن ابیہ” اور کہا: اصل میں “جعفر بن کثیر” ہے۔ یہ بات انہوں نے اپنے والد (ابو حاتم) سے سنی۔

بيان خطأ محمد بن إسماعيل البخاري في تاريخه

جواب (امام بخاری کی عبارت کے مطابق):

2182-جَعْفَر بْن أَبِي كثير (2) عَنْ أَبِيه – قاله لنا قتيبة: عَنْ بكر بْن كليب، وَقَالَ مسدد وغيره مُوسَى بْن إِسْمَاعِيل: عَنْ بكر عَنْ جَعْفَر بْن كثير، مرسل، حديثه في الْبَصْرِيّين. (التاريخ الكبير)

اردو ترجمہ:
امام بخاری نے واضح کیا کہ ان کے شیخ قتیبہ کے طریق میں “جعفر بن ابی کثیر” آیا، جبکہ دوسرے طریق (مسدد وغیرہ/موسیٰ بن اسماعیل) میں “جعفر بن کثیر” آیا۔ یعنی امام بخاری نے دونوں نقلیں ذکر کر کے حقیقت کی طرف اشارہ بھی کر دیا۔

التاريخ الكبير للبخاري

نتیجہ:
یہ معاملہ امام بخاری کے “وہم” سے زیادہ “طرق کے اختلاف” اور “شیوخ کی نقل” سے متعلق ہے، اور امام بخاری نے خود اختلافِ طرق کو بیان کر کے بات واضح کر دی ہے۔

② مثال: مقسم بن بجرة کی کنیت

ابن ابی حاتم نے لکھا:

576 -[4 / 2 / 2057] مقسم بن بجرة أبو هاشم .وانما هو أبو القاسم. (بيان خطأ محمد بن إسماعيل البخاري في تاريخه)

اردو ترجمہ:
انہوں نے کہا کہ امام بخاری نے “ابو ہاشم” لکھا ہے، جبکہ صحیح “ابو القاسم” ہے۔

بيان خطأ محمد بن إسماعيل البخاري في تاريخه

جواب (التاريخ الكبير کی عبارت):

2057- مِقسَم بن بُجَرة، أَبو القاسم، مَولَى عَبد اللهِ بْن الحارث، الهاشِمِيُّ، ويُقال: مَولَى ابْن عَبّاس.سَمِعَ ابْن عَبّاس. رَوَى عَنه: الحَكَم بْن عُتَيبَة، ويَزِيد بْن أَبي زِياد. (التاريخ الكبيرللبخاری)

اردو ترجمہ:
امام بخاری نے صاف طور پر “ابو القاسم” ہی لکھا ہے، اور نسب و سماع وغیرہ بھی ذکر کیا ہے۔

التاريخ الكبير للبخاري

نتیجہ:
یہ اعتراض “التاريخ الكبير” کے ناقص/غلط نقل شدہ نسخے کی وجہ سے پیدا ہوا؛ اصل عبارت میں امام بخاری کی بات درست ہے۔

③ مثال: ایوب بن سلمہ “الرملي”

ابن ابی حاتم نے لکھا:

54 -[1 / 1 / 1324] ايوب بن سلمة الزمن (3) سمع حجر بن الحارث.
وانما هو ايوب بن سلمة الرملي.سمعت ابى يقول كما قال.(بيان خطأ البخاري)

اردو ترجمہ:
انہوں نے “الزمن” پڑھا اور کہا کہ صحیح “الرملي” ہے۔

بيان خطأ محمد بن إسماعيل البخاري في تاريخه

جواب (التاريخ الكبير):

1324 – أيوب بْن سلمة الرملي سَمِعَ حجر بْن الحارث سَمِعَ منه مُحَمَّد بْن عَبْد العزيز (التاريخ الكبير)

اردو ترجمہ:
امام بخاری کی کتاب میں یہ راوی “الرملي” ہی ہے۔

التاريخ الكبير للبخاري

نتیجہ:
یہاں بھی اصل عبارت امام بخاری کے حق میں ہے، اعتراض نقل/نسخے کی خرابی سے بنا۔

④ مثال: فائد بن کیسان “الجزار / الخزان”

ابن ابی حاتم نے لکھا:

470 -[4 / 1 / 595] فائد بن كيسان أبو العوام الجزار.
وانما هو الخزان . سمعت ابى يقول كما قال..(بيان خطأ البخاري)

اردو ترجمہ:
انہوں نے “الجزار” کی تصحیح “الخزان” سے کی۔

بيان خطأ محمد بن إسماعيل البخاري في تاريخه

جواب (الدولابي کی نقل):

مَنْ كُنْيَتُهُ أَبُو الْعَوَّامِ أَبُو الْعَوَّامِ عِمْرَانُ بْنُ دَاوُدَ الْقَطَّانُ. وَأَبُو الْعَوَّامِ فَائِدُ بْنُ كَيْسَانَ الجَزَّارُ الْبَاهِلِيُّ.(الكنى والأسماء للدولابي متوفی 310ھ ه )

اردو ترجمہ:
الدولابی نے “ابو العوام فائد بن کیسان” کو صراحتاً “الجزار الباہلی” کہا ہے۔

الكنى والأسماء للدولابي

مزید یہ کہ ابن ابی حاتم نے خود “الجرح والتعديل” میں بھی یہی لکھا:

478 – فائد بن كيسان أبو العوام الجزار مولى باهلة بصرى روى عن أبي عثمان النهدي روى عنه حماد بن سلمة وزكريا بن يحيى بن عمارة الذراع سمعت أبي يقول ذلك.(الجرح والتعديل ابن أبي حاتم)

اردو ترجمہ:
فائد بن کیسان ابو العوام “الجزار” مولیٰ باہلہ… (یہی کنیت و لقب ذکر کیا)۔

الجرح والتعديل لابن أبي حاتم

نتیجہ:
اس مثال میں “الجزار” کی تائید دیگر مصادر سے بھی ہو رہی ہے، اور خود ابن ابی حاتم نے دوسری جگہ اسی کو اختیار کیا۔

⑤ مثال: محمد بن عمران الاخنسی / احمد بن عمران

ابن ابی حاتم نے لکھا:

25 -[1 / 1 / 625] محمد بن عمران الاخنسى، كان ببغداد، يتكلمون فيه، منكر الحديث عن ابى بكر بن عياش.وانما هو احمد بن عمران، قد كتبت عنه.سمعت ابى يقول كما قال.(بيان خطأ البخاري)

اردو ترجمہ:
انہوں نے کہا کہ “محمد بن عمران الاخنسی” دراصل “احمد بن عمران” ہے، اور انہوں نے اس سے لکھا بھی ہے۔

بيان خطأ محمد بن إسماعيل البخاري في تاريخه

حافظ ابن حجر کی توضیح:

1078 – "محمد” بن عمران الأخنسي بن أبي بكر بن عياش قال البخاري منكر الحديث يتكلمون فيه كان ببغداد كذا سماه البخاري وهو أحمد بن عمران(لسان الميزان)

[739] "أحمد” بن عمران الأخنسي عن عبد السلام بن حرب والطبقة قال البخاري يتكلمون فيه لكنه سماه محمدا فقيل هما واحد—- وأكثر أبو عوانة الرواية عنه في صحيحه أيضا عن محمد بن عمران —(لسان الميزان)

اردو ترجمہ:
ابن حجر نے واضح کیا کہ بخاری نے اسے “محمد” کہا، جبکہ وہی “احمد بن عمران” ہے اور دونوں ایک ہی ہو سکتے ہیں، نیز ابو عوانہ نے اپنے “صحیح” میں “محمد بن عمران” کے نام سے اس سے روایتیں زیادہ لی ہیں۔

لسان الميزان

نتیجہ:
یہ بحث “تعینِ اسماء” کی فنی بحث ہے، جس میں ایک راوی کے دو نام/القاب کا احتمال ہوتا ہے۔ اسے صحیح بخاری کی حجیت گرانے کے لیے ہتھیار بنانا درست نہیں۔

خطیب بغدادی کی طرف منسوب “موضح أوهام الجمع والتفريق”: بنیادی نکتہ اور خطیب کا اپنا تبصرہ

اس کتاب کی نسبت کے باب میں اہلِ تحقیق نے احتیاط ذکر کی ہے، کیونکہ اس کی سند میں یہ راوی ذکر ہوتا ہے: علي بن عبد الله بن موهوب (جس کے حال پر کلام کیا جاتا ہے)۔ اس کے باوجود، اسی کتاب میں خطیب بغدادی کا یہ اصولی تبصرہ موجود ہے:

قَالَ الْخَطِيب وَقد جمع عبد الرَّحْمَن بن أبي حَاتِم الرَّازِيّ الأوهام الَّتِي أَخذهَا أَبُو زرْعَة على البُخَارِيّ فِي كتاب مُفْرد وَنظرت فِيهِ فَوجدت كثيرا مِنْهَا لَا تلْزمهُ وَقد حكى عَنهُ فِي ذَلِك الْكتاب أَشْيَاء هِيَ مدونة فِي تَارِيخه على الصَّوَاب بِخِلَاف الْحِكَايَة عَنهُ

اردو ترجمہ:
خطیب نے کہا: عبدالرحمن بن ابی حاتم نے ابو زرعہ سے اخذ کر کے بخاری کے “اوہام” ایک مستقل کتاب میں جمع کیے۔ میں نے اسے دیکھا تو اس میں بہت سی باتیں ایسی پائیں جو بخاری پر لازم نہیں آتیں، اور اس کتاب میں بعض چیزیں بخاری کی طرف ایسی منسوب کی گئیں جو بخاری کی “التاريخ” میں اس کے خلاف درست طور پر درج ہیں۔

موضح أوهام الجمع والتفريق

نتیجہ:
یہ خود خطیب بغدادی کی شہادت ہے کہ ابن ابی حاتم کی جمع کردہ بہت سی چیزیں امام بخاری پر لازم نہیں آتیں، اور بعض نسبتیں اصل کتاب کے خلاف ہیں۔

خطیب کی چند “تعقبات” اور ان کے جوابات (پانچ مثالیں)

① حرام بن حکیم اور حرام بن معاویہ

خطیب کے نام سے منقول ہے:

الْوَهم التَّاسِع وَالْعشْرُونَ—وَقد وهم البُخَارِيّ فِي فَصله بَين حرَام بن حَكِيم وَحرَام بن مُعَاوِيَة لِأَنَّهُ رجل وَاحِ

اردو ترجمہ:
یہ دعویٰ کیا گیا کہ بخاری کو وہم ہوا کہ “حرام بن حکیم” اور “حرام بن معاویہ” دو ہیں، حالانکہ وہ ایک ہی شخص ہے۔

موضح أوهام الجمع والتفريق

حافظ ابن حجر کی توضیح:

411- "- حرام بن حكيم بن خالد بن سعد بن الحكم الأنصاري ويقال العبشمي ويقال العنسي الدمشقي ويقال هو حرام بن معاوية روى—–وذكره الدارقطني في المؤتلف والمختلف كما ذكره البخاري وكأنه اعتمد على قوله ونقله من تاريخه قلت وقد تبع البخاري بن أبي حاتم وابن ماكولا وأبو أحمد العسكري وغيرهم وفي الثقات لابن حبان حرام بن حكيم المذكور في التابعين وذكر أبو موسى المدني حرام بن معاوية في الصحابة

اردو ترجمہ:
ابن حجر نے بتایا کہ دارقطنی نے بھی “المؤتلف والمختلف” میں بخاری کی طرح ذکر کیا، ابن ابی حاتم، ابن ماکولا، ابو احمد عسکری وغیرہ نے بھی بخاری کی متابعت کی، ابن حبان نے حرام بن حکیم کو تابعین میں شمار کیا، اور ابو موسیٰ مدنی نے حرام بن معاویہ کو صحابہ میں شمار کیا۔

تهذيب التهذيب

نتیجہ:
اس مثال میں متعدد ائمہ نے امام بخاری کی تفریق کی تائید کی ہے۔

② الحكم بن عتيبة بن النحاس

امام بخاری کی عبارت:

2654- الحَكَم بن عُتَيبة، الكُوفي.——وَقَالَ بعضُ أهل النَّسَب: الحَكَم بْن عُتَيبة بْن النهاس، واسمه عَبدل(التاريخ الكبير.للبخاری)

اردو ترجمہ:
امام بخاری نے کہا کہ بعض اہلِ نسب کے نزدیک “الحکم بن عتیبہ” کا نسب “بن النحاس” بھی کہا جاتا ہے۔

التاريخ الكبير للبخاري

خطیب کے نام سے منقول تعقب:

الْوَهم الرَّابِع وَالْعشْرُونَ—وَذكر البُخَارِيّ هَذَا الْكَلَام الْأَخير فِي هَذَا الْموضع وهم لِأَن الحكم بن عتيبة بن النهاس الْعجلِيّ غير الحكم بن عتيبة الْكِنْدِيّ

اردو ترجمہ:
یہ دعویٰ کیا گیا کہ “بن النحاس العجلی” اور “الحکم بن عتیبہ الکندی” دو الگ ہیں۔

موضح أوهام الجمع والتفريق

حافظ ابن حجر کی توضیح:

[1370] "الحكم” بن عتيبة بن النحاس كوفي—– وقد اتفق أهل النسب على أن الحكم بن عتيبة بن النحاس —كذا قاله الكلبي في الجمهرة وأبو عبيد القاسم وابن دريد وابن حزم فالصواب مع البخاري.(لسان الميزان)

اردو ترجمہ:
ابن حجر نے لکھا کہ اہلِ نسب کا اتفاق ہے کہ “الحکم بن عتیبہ بن النحاس” یہی ہیں، اور کلبی، ابو عبید، ابن درید اور ابن حزم وغیرہ نے اسی کی تائید کی، لہٰذا صواب امام بخاری کے ساتھ ہے۔

لسان الميزان

③ محمد بن طلحہ بن عبد الله

خطیب کے نام سے منقول:

الْوَیهم السَّادِس—قَالَ البُخَارِيّ مُحَمَّد بن طَلْحَة بن عبد الله —–قَالَ الْخَطِيب وَهَذَا وَالَّذِي قبله وَاحِد وَقد وهم البُخَارِيّ إِذْ جعله اثْنَيْنِ

اردو ترجمہ:
یہ کہا گیا کہ یہ ایک ہی راوی ہے، بخاری نے دو بنا دیا۔

موضح أوهام الجمع والتفريق

امام بخاری کی عبارتیں:

356- مُحَمد بْن طَلحَة بْن عَبد اللهِ.
أن أباه طَلحَة خاصم إلى عُمَر بْن عَبد العزيز، قَولَهُ، سَمِعَ منه ابن جُرَيج.(التاريخ الكبير.للبخاری)

357- مُحَمد بْن طَلحَة بْن عَبد اللهِِ بْن عَبد الرَّحمَن بْن أَبي بَكر، القُرَشِيُّ.
قَالَ لِي إِسحاق: حدَّثنا أَبو عَامِرٍ، وشَبابَة، قَالَا:—-قَالَ أَبو عَبد اللهِ: أحسبه صاحب عُمَر بْن عَبد العزيز.(التاريخ الكبير.للبخاری)

اردو ترجمہ:
امام بخاری نے ایک جگہ “محمد بن طلحہ بن عبد اللہ” ذکر کیا، اور دوسری جگہ “محمد بن طلحہ بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکر القریشی” کا مستقل ترجمہ ذکر کیا، اور آخر میں قرینہ بھی بتایا کہ یہ عمر بن عبدالعزیز کے صاحب/معاصر ہو سکتے ہیں۔ اس میں امام بخاری نے لازماً یہ نہیں کہا کہ دونوں ایک ہی ہیں یا دونوں ضرور الگ ہیں؛ بلکہ تفصیلی معلومات کے ساتھ دونوں اندراجات ذکر کیے۔

التاريخ الكبير للبخاري

نتیجہ:
یہاں “بخاری نے دو بنا دیا” کا دعویٰ محلِ نظر ہے، کیونکہ امام بخاری نے دونوں جگہ تفصیلی سیاق ذکر کیا ہے، اور فیصلہ کن دعویٰ خطیب کی طرف سے مضبوط دلیل کے بغیر ہے۔

④ الکرمانی راوی: محمد بن إسحاق / محمد بن أبي يعقوب

خطیب کے نام سے منقول:

الْوَهم الثَّانِي–البُخَارِيّ فِي بَاب الْألف من آبَاء المُحَمَّدين مُحَمَّد بن إِسْحَاق هُوَ ابْن أبي يَعْقُوب الْكرْمَانِي—وَقَالَ فِي آخر بَاب الْيَاء مِنْهُم مُحَمَّد بن أبي يَعْقُوب أَبُو عبد الله الْكرْمَانِي سمع حسان بن إِبْرَاهِيم وَالوهم فِي هَذَا أظهر من أَن يذكر

اردو ترجمہ:
یہ کہا گیا کہ بخاری نے دو مختلف افراد کو ایک سمجھ لیا۔

موضح أوهام الجمع والتفريق

جواب (ائمہ کی تصریحات):

5056 – خ: مُحَمَّد بن إِسْحَاق بن مَنْصُور، أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بْن أَبي يعقوب الكرماني ، سكن البصرة.(تهذيب الكمال)

15400 – مُحَمَّد بن أبي يَعْقُوب الْكرْمَانِي وَاسم أبي يَعْقُوب إِسْحَاق يرْوى وَحسان بن إِبْرَاهِيم(الثقات لابن حبان)

5724- محمد ابن إسحاق ابن منصور أبو عبد الله ابن أبي يعقوب الكرماني نزيل البصرة ثقة من العاشرة مات سنة أربع وأربعين خ(تقريب التهذيب)

اردو ترجمہ:
امام مزی نے اس کا نام “محمد بن إسحاق بن منصور… ابن أبي يعقوب الكرماني” لکھا۔ ابن حبان نے واضح کیا کہ “محمد بن أبي يعقوب الكرماني” میں “ابو یعقوب” کا نام اسحاق ہے۔ ابن حجر نے اسے “ثقة” قرار دیا۔ یعنی یہ ناموں کا اختلاف ایک ہی راوی کی شہرت/کنیت کے اختلاف کی صورت ہے، نہ کہ لازمًا دو الگ افراد۔

تهذيب الكمال — الثقات لابن حبان — تقريب التهذيب

⑤ سليمان بن داود اليمامي / سليمان بن أبي سليمان

خطیب کے نام سے منقول:

الْوَهم الرَّابِع وَالثَّلَاثُونَ—-سليمَان بن دَاوُد اليمامي هُوَ سُلَيْمَان بن أبي سُلَيْمَان وَلَيْسَ بِغَيْرِهِ وَقد وهم البُخَارِيّ إِذْ جعله اثْنَيْنِ

اردو ترجمہ:
یہ کہا گیا کہ یہ دونوں ایک ہی راوی ہیں، بخاری نے دو شمار کر دیے۔

موضح أوهام الجمع والتفريق

حافظ ابن حجر کی توضیح:

[322] "سليمان” ابن أبي سليمان اليمامي هو بن داود تقدم وأما ابن عدي ففرق بينهما فقال في هذا سليمان ابن أبي سليمان الزهري —— وفرق بينهما البخاري وتعقبه الخطيب في الموضح ولم يأت على دعواه بدليل قوى (لسان المیزان)

اردو ترجمہ:
ابن حجر نے لکھا کہ بخاری نے ان دونوں میں تفریق کی، خطیب نے تعقب کیا مگر اپنے دعوے پر مضبوط دلیل پیش نہیں کی۔ ابن عدی نے بھی تفریق کی ہے۔

لسان الميزان

مزید یہ کہ ابن ابی حاتم نے بھی دونوں کو الگ الگ ذکر کیا:

487 – سليمان بن داود اليمامي روى عن0۔—-532 – سليمان بن أبي سليمان روى عن أبي سعيد الخدري (الجرح والتعديل ابن أبي حاتم)

اردو ترجمہ:
ابن ابی حاتم نے “سلیمان بن داود الیمامی” اور “سلیمان بن ابی سلیمان” کے الگ الگ ترجمے ذکر کیے۔

الجرح والتعديل لابن أبي حاتم

دارقطنی کی “الإلزامات والتتبع”: صحیحین پر نقد کی نوعیت

امام دارقطنی نے “التتبع/الإلزامات” میں صحیحین کی بعض احادیث پر نقد کیا۔ اس نقد کے بارے میں حافظ ابن حجر نے اصولی بات یوں ذکر کی:

الْفَصْل الثَّامِن فِي سِيَاق الْأَحَادِيث الَّتِي انتقدها عَلَيْهِ حَافظ عصره أَبُو الْحسن الدَّارَقُطْنِيّ وَغَيره من النقاد وإيرادها حَدِيثا حَدِيثا)—- وَقيل الْخَوْض فِيهِ يَنْبَغِي لكل منصف أَن يعلم أَن هَذِه الْأَحَادِيث وَإِن كَانَ أَكْثَرهَا لَا يقْدَح فِي أصل مَوْضُوع الْكتاب فَإِن جَمِيعهَا وَارِد من جِهَة أُخْرَى

اردو ترجمہ:
ابن حجر نے بیان کیا کہ دارقطنی اور دیگر ناقدین نے جن احادیث پر نقد کیا، انصاف کرنے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان میں سے اکثر صحیح بخاری کے اصل مقصود میں قدح نہیں کرتیں، اور یہ روایات دوسری جہت/دیگر طرق سے بھی وارد ہیں۔

هدي الساري مقدمة فتح الباري

اور امام نووی نے بھی اس نوعیت کے استدراکات سے متعلق فرمایا:

قد استدرك الدَّارَقُطْنِيّ على البُخَارِيّ وَمُسلم أَحَادِيث فطعن فِي بَعْضهَا وَذَلِكَ الطعْن مَبْنِيّ على قَوَاعِد لبَعض الْمُحدثين ضَعِيفَة جدا مُخَالفَة لما عَلَيْهِ الْجُمْهُور من أهل الْفِقْه وَالْأُصُول وَغَيرهم فَلَا تغتر بذلك

اردو ترجمہ:
دارقطنی نے بخاری و مسلم پر بعض احادیث میں استدراک کیا، لیکن یہ طعن بعض محدثین کے ایسے قواعد پر مبنی ہے جو بہت کمزور اور جمہور اہلِ فقہ و اصول وغیرہ کے خلاف ہیں، لہٰذا اس سے دھوکا نہ کھایا جائے۔

هدي الساري مقدمة فتح الباري (نقلاً عن كلام النووي)

دارقطنی کی بعض مثالیں اور ان کے جوابات

① “أبي بن عباس” پر دارقطنی کی جرح، پھر خود سنن میں اسناد حسن کہنا

دارقطنی نے لکھا:

73 – وأخرج البخاري حديث أبي بن عباس بن سهل بن سعد عن أبيه عن جده، قال: كان للنبي (صلى الله عليه وسلم) فرس يقال له اللحيف. وأبي هذا ضعيف

اردو ترجمہ:
دارقطنی نے کہا کہ بخاری نے “ابی بن عباس” کی حدیث نکالی، اور “ابی” کو ضعیف کہا۔

الإلزامات والتتبع للدارقطني

حافظ ابن حجر کی توضیح:

له عند البخاري حديث واحد تابعه عليه أخوه عبد المهيمن بن العباس وروى له الترمذي وابن ماجة(هدي الساري مقدمة فتح الباري)

اردو ترجمہ:
ابن حجر نے لکھا کہ بخاری کے یہاں اس کی ایک ہی روایت ہے اور اس میں اس کے بھائی عبدالمہیمن کی متابعت بھی ہے، نیز ترمذی اور ابن ماجہ نے بھی اس سے روایت لی ہے۔

هدي الساري مقدمة فتح الباري

مزید یہ کہ خود دارقطنی نے اپنی سنن میں اسی راوی کی روایت پر یہ حکم لگایا:

153 – نا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْهَيْثَمِ الْعَسْكَرِيُّ , نا عَلِيُّ بْنُ حَرْبٍ , نا عَتِيقُ بْنُ يَعْقُوبَ الزُّبَيْرِيُّ , نا أُبَيُّ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ أَبِيهِ , ——. إِسْنَادٌ حَسَنٌ

اردو ترجمہ:
دارقطنی نے اپنی سنن میں “أُبيُّ بن العباس” کی روایت نقل کر کے فرمایا: “اسناد حسن ہے۔”

سنن الدارقطني

نتیجہ:
یہ مثال بتاتی ہے کہ بعض مقامات پر دارقطنی کے پہلے تعقب کے بعد دوسری جگہ اس سے بہتر حکم بھی ملتا ہے، اور صحیح بخاری کی بنیاد اس سے متزلزل نہیں ہوتی۔

② ابو عثمان نہدی کی روایت: تحریری روایت کے جواز کی اصل

دارقطنی نے لکھا:

119- وإتفقا على إخرج حديث أبي عثمان قال: كتب إلينا عمر في الحرير إلا موضع إصبعين. وهذا لم يسمعه أبو عثمان من عمر وهو مكاتبه وهو حجة في قبول الإجازة.

اردو ترجمہ:
بخاری و مسلم دونوں نے ابو عثمان کی حدیث نکالی: “عمر نے ہمیں ریشم کے بارے میں لکھا…” ابو عثمان نے یہ براہِ راست عمر سے نہیں سنا، بلکہ یہ خط (مکاتبہ) ہے، اور یہ “اجازہ/کتابت” کے قبول ہونے کی حجت ہے۔

الإلزامات والتتبع للدارقطني

حافظ ابن حجر کی توضیح:

وَقَدْ نَبَّهَ الدَّارَقُطْنِيُّ عَلَى أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ أَصْلٌ فِي جَوَازِ الرِّوَايَةِ بِالْكِتَابَةِ عِنْدَ الشَّيخَيْن قَالَ ذَلِكَ بَعْدَ أَنِ اسْتَدْرَكَهُ عَلَيْهِمَا وَفِي ذَلِكَ رُجُوعٌ مِنْهُ عَنِ الِاسْتِدْرَاكِ عَلَيْهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ

اردو ترجمہ:
ابن حجر نے لکھا کہ دارقطنی نے واضح کیا کہ یہ حدیث “کتابت کے ذریعے روایت” کے جواز کی اصل ہے، اور یہ بات انہوں نے استدراک کے بعد کہی، جس سے استدراک سے رجوع کا پہلو بھی نکلتا ہے۔

فتح الباري

③ مسلم کی ایک سند پر تعقب، پھر “العلل” میں الزہری کو صواب کہنا

دارقطنی کا تعقب:

120- وأخرج مسلم حديث الزهري عن أبي الطفيل عن عمر أن النبي (صلى الله عليه وسلم) قال: ” إن الله يرفع بالقرآن أقواماً” وقد خالفه حبيب عن أبي الطفيل عن عمر قول

اردو ترجمہ:
دارقطنی نے کہا کہ مسلم نے الزہری عن ابی الطفیل عن عمر والی روایت نکالی، جبکہ حبیب نے ابی الطفیل سے روایت میں مخالفت کی ہے۔

الإلزامات والتتبع للدارقطني

پھر خود دارقطنی نے “العلل” میں فرمایا:

217- وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِالْقُرْآَنِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ.
فَقَالَ: رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ.——-وَحَدِيثُ الزُّهْرِيِّ هُوَ الصَّوَابُ.

اردو ترجمہ:
دارقطنی سے اسی حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: الزہری نے اسے ابی الطفیل سے روایت کیا ہے… اور “الزہری کی حدیث ہی صواب ہے۔”

العلل الواردة في الأحاديث النبوية

نتیجہ:
یہاں دارقطنی کے ابتدائی تعقب کے مقابلے میں بعد کی تصحیح موجود ہے۔

④ عمران بن حطان پر دارقطنی کی جرح، اور ابن حجر کی توضیح کہ بخاری نے متابعات میں لیا

دارقطنی نے لکھا:

117- وأخرج البخاري حديث عمران بن حطان عن ابن عمر عن عمر في لبس الحرير، وعمران متروك لسوء اعتقاده وخبث رأيه

اردو ترجمہ:
دارقطنی نے کہا کہ بخاری نے عمران بن حطان کی روایت نکالی، اور عمران کو اس کے اعتقاد کی خرابی کی وجہ سے متروک کہا گیا۔

الإلزامات والتتبع للدارقطني

حافظ ابن حجر کی توضیح:

قلت لم يخرج لَهُ البُخَارِيّ سوى حَدِيث وَاحِد ——-وَهَذَا الحَدِيث إِنَّمَا أخرجه البُخَارِيّ فِي المتابعات فللحديث عِنْده طرق غير هَذِه من رِوَايَة عمر وَغَيره

اردو ترجمہ:
ابن حجر نے کہا: بخاری نے اس سے صرف ایک حدیث لی ہے، اور وہ بھی متابعات میں؛ اور بخاری کے نزدیک اس حدیث کے دوسرے طرق بھی موجود ہیں۔

فتح الباري

اور ابن حجر نے رجوع کی خبر بھی نقل کی:

أَن أَبَا زَكَرِيَّا الْموصِلِي حكى فِي تَارِيخ الْموصل عَن غَيره أَن عمرَان هَذَا رَجَعَ فِي آخر عمره عَن رَأْي الْخَوَارِج

اردو ترجمہ:
ابو زکریا موصلی نے نقل کیا کہ عمران نے آخر عمر میں خوارج کے رائے سے رجوع کر لیا تھا۔

فتح الباري

⑤ “قاتل الله سمرة” والی روایت: دارقطنی کا تعقب، پھر العلل میں تصحیح

دارقطنی کا تعقب:

118- وأخرجا جميعاً حديث عمرو عن طاوس عن ابن عباس عن عمر: "قاتل الله سمرة”. عن ابن عيينة وروح بن القاسم عن عمرو وأرسله حماد بن زيد عن عمرو عن طاوس عن عمر.
وكذا قال الوليد عن حنظلة عن طاوس عن عمر والله أعلم.

اردو ترجمہ:
دارقطنی نے کہا کہ ابن عیینہ اور روح بن القاسم نے عمرو→طاوس→ابن عباس→عمر کی سند سے روایت کیا، جبکہ حماد بن زید نے اسے مرسل کیا، اور الولید نے بھی اسی طرح کہا۔

الإلزامات والتتبع للدارقطني

پھر دارقطنی نے “العلل” میں فرمایا:

وَقَوْلُ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ وَابْنِ عُيَيْنَةَ.هُوَ الصَّوَابُ لِأَنَّهُمَا حَافِظَانِ ثقتان

اردو ترجمہ:
روح بن القاسم اور ابن عیینہ کا قول ہی صواب ہے، کیونکہ وہ دونوں حافظ اور ثقہ ہیں۔

العلل الواردة في الأحاديث النبوية

حافظ ابن حجر کی مزید توضیح:

قلت صرح بن عُيَيْنَة عَن عَمْرو بِسَمَاع طَاوس لَهُ من بن عَبَّاس وَهُوَ أحفظ النَّاس لحَدِيث عَمْرو فروايته الراجحة وَقد تَابعه روح بن الْقَاسِم أخرجه مُسلم من طَرِيقه

اردو ترجمہ:
ابن حجر نے کہا کہ ابن عیینہ نے عمرو سے روایت میں طاوس کے ابن عباس سے سماع کی تصریح کی ہے، اور ابن عیینہ عمرو کی حدیث کے سب سے بڑے حافظ تھے، لہٰذا ان کی روایت راجح ہے، اور روح بن القاسم نے بھی متابعت کی جسے مسلم نے نکالا۔

هدي الساري مقدمة فتح الباري

نتیجہ

(1) ابن ابی حاتم کی کتاب اور خطیب کے مباحث کا بڑا حصہ “صحیح بخاری” پر نہیں بلکہ امام بخاری کی “التاريخ الكبير” میں رواۃ کی تعیین، کنیت، لقب اور تفریق جیسے فنی مباحث پر ہے، اور متعدد مثالوں میں اصل عبارت امام بخاری کے موافق نکلتی ہے یا اعتراض ناقص نقل/نسخے کی خرابی سے پیدا ہوتا ہے۔
(2) خطیب کی طرف منسوب “موضح أوهام الجمع والتفريق” میں خود خطیب کا تبصرہ موجود ہے کہ ابن ابی حاتم کی جمع کردہ بہت سی چیزیں بخاری پر لازم نہیں آتیں، اور بعض نسبتیں اصل کتاب کے خلاف ہیں۔
(3) امام دارقطنی کے “الإلزامات والتتبع” کا مطلب یہ نہیں کہ صحیحین مردود ہو گئیں؛ بلکہ یہ جزوی تعقبات ہیں جن کے بارے میں حافظ ابن حجر اور امام نووی جیسے ائمہ نے واضح کیا کہ یہ صحیح بخاری کے اصل مقصود میں قدح نہیں کرتیں، اور بہت سے مقامات پر دیگر طرق موجود ہوتے ہیں، بلکہ بعض جگہوں پر دارقطنی نے بعد میں “العلل” یا “سنن” میں اپنے پہلے تعقب کے برخلاف تصحیح بھی کی ہے۔

لہٰذا ائمہ کے علمی تعقبات کو بنیاد بنا کر امام بخاری کی امامت پر اعتراض کرنا یا صحیحین کی حجیت کو کمزور دکھانا درست طرزِ استدلال نہیں، بلکہ یہ علمِ حدیث کے منہج اور ائمۂ ناقدین کے طریقِ تحقیق کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔

اہم حوالاجات کے سکین

امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 01 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 02 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 03 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 04 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 05 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 06 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 07 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 08 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 09 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 10 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 11 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 12 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 13 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 14 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 15 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 16 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 17 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 18 امام بخاری پر ابن ابی حاتم، خطیب بغدادی اور دارقطنی وغیرہ کی جروحات کا دعویٰ – 19

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے