امام بخاری رحمہ اللہ کی قبر پر دعا کے ذریعے بارش کانزول
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کا عمل اوپر نہیں چڑھتا
حضرت ابو ایو ب انصاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فرشتے سات سال تک علی (رضی اللہ عنہ) پر درود پڑھتے رہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے ساتھ علی کے علاوہ کسی نے نماز نہ پڑھی تھی۔
یہ روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اس کے الفاظ ہیں:
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فرشتے مجھ پر اور علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر سات سال تک درود پڑھتے رہے لیکن یہ درود آسمانوں پر نہیں چڑھا۔ اور میرے اور علی کے علاوہ زمین سے آسمان تک کسی کی اس امر کی شہادت کہ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں سوائے میرے اور علی کے کسی کی بلند نہیں ہوتی۔ [اخرجه ابن عدى فى الكل فى ترجمه عباد۔ ابن جوزي فى الموضوعات: 340/1۔ وذكره السيوطي فى اللائي: 166/1]
اس امر میں اختلاف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت عطا ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیا عمر تھی۔ کوئی کہتا کہ پانچ سال تھی۔ کوئی سات، کوئی نو، کوئی گیارہ اور کوئی تیرہ سال بیان کرتا ہے۔
اگر فرض کرو ان کی عمر سات سال تھی تو چودہ سال کی عمر تک ان کے اور حضور کے علاوہ کسی کا درود آسمانوں پر نہیں پہنچا تو ہم اس صورتحال کو اس طرح قبول کریں گے کہ نبی کا درود نبوت کے باعث بلند ہوتا رہا۔ رہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ تو ان کا درود اس لیے اوپر چڑھتا رہا کہ وہ بچہ تھے۔ اور باقی چونکہ عمر رسیدہ تھے۔ لہٰذا ان کا درود اس لیے اوپر نہیں چڑھ سکا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی اگر پوری عمر کی عورت نہ ہوتیں بلکہ وہ بھی بچی ہوتیں تو شاید ان کا درود بھی اوپر چڑھ جاتا۔
حضرت ابو ایو ب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت میں محمد بن عبد اللہ بن ابی رافع ہے۔
محمد بن عبید اللہ:
محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع۔
یحیی کا بیان ہے کہ یہ کچھ نہیں۔
بخاری کہتے ہیں: منکر الحدیث ہے۔ [الموضوعات: 341/1]
ذہبی کا بیان ہے کہ محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع المدنی کو محدثین نے ضعیف کہا ہے۔
بخاری کہتے ہیں: یہ منکر الحدیث ہے۔ اس سے مندل اور علی ہاشم حدیث روایت کرتا ہے۔
یحیی بن معین کا بیان ہے کہ اس کی حدیث کچھ نہیں ہوتی۔
ابو حاتم کا بیان ہے کہ انتہا سے زیادہ منکر الحدیث ہے۔ ردی قسم کا آدمی ہے۔ [ميزان الاعتدال: 246/6۔ تهذيب الكمال: 876/2۔ تقريب: 187/2۔ تاريخ البخاري الكبير: 171/1۔ الجرح والتعديل: 6/8۔ الكاشف: 225/2۔ ضعفاء ابن جوزي: 83/3]
ترمذی اور ابن ماجہ نے اس سے حدیث روایت کی ہے۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ اس کا شمار کوفہ کے شیعوں میں ہوتا ہے۔
طبرانی نے اس سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اول جو اشخاص جنت میں داخل ہوں گے ان میں، میں اور تو اور حسن و حسین ہوں گے۔ اور ہمارے پیچھے ہماری اولاد ہوگی اور ہمارے شیعہ ہمارے دائیں اور بائیں ہوں گے۔
[ميزان الاعتدال: 247/6]
رہ گئی دوسری روایت تو اس کا راوی عباد بن عبد الصمد ہے۔
عباد بن عبد الصمد:
ابن عدی کا بیان ہے کہ یہ عباد غالی قسم کا شیعہ ہے۔
عقیلی کا بیان ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ اس نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک نسخہ روایت کیا ہے۔ جس کی عام روایات منکر ہیں۔ اور اس کی عام روایات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل سے متعلق ہوتی ہیں۔
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ انتہا سے زیادہ ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے۔ یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مردی ہے۔ جو ان شاء اللہ آگے پیش کی جائے گی۔
——————

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک مٹی سے پیدا ہوئے
موسیٰ بن جعفر اپنے والد کے ذریعہ اپنے دادا سے ناقل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہارون بن عمران علیہ السلام، یحیی بن زکریا اور علی بن ابی طالب ایک مٹی سے پیدا ہوئے۔ [ميزان الاعتدال: 135/6۔ واخرجه الخطيب فى التاريخ: 59/6۔ وأورده ابن جوزي فى الموضوعات: 339/1۔ وذكره ابن عراق فى التنزيه الشريعه: 351/1۔ اللائي: 165/1]

محمد بن خلف:
یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے وضع کی گئی ہے۔ اور اس روایت میں وضع حدیث کا الزام مروزی کے سر ہے۔ یعنی محمد بن خلف المروزی جو یہ روایت موسی بن ابراہیم سے نقل کر رہا ہے۔
یحیی بن معین فرماتے ہیں یہ محمد بن خلف الروزی کذاب ہے۔
دارقطنی کا قول ہے کہ یہ مروزی متروک ہے۔
ابن حبان کہتے ہیں یہ ایک مغفل انسان تھا۔ اسے جو بات بتائی جاتی وہی گانا شروع کر دیتا۔ اس لیے یہ قابل ترک قرار پایا۔ [الموضوعات: 1/ 339]
ذہبی میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں: محمد بن خلف المروزی کو یحیی بن معین نے کذاب کہا ہے۔
ابن جوزی نے الموضوعات میں یہی بات تحریر فرمائی ہے۔ اور یہ روایت موضوع ہے۔ [ميزان الاعتدال: 135/6۔ الكشف الحثيث: 656]
ہماری سمجھ میں صرف اتنی بات آتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور انسان ہونے کے ناتے ان کی تخلیق بھی مٹی سے ہوئی تھی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کون کی مٹی سے پیدا ہوئے، اس میں آپ لوگ لڑتے رہیے کیونکہ سبائیہ کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نور سے پیدا کیا گیا ہے۔ اور اس میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہیں۔ لیکن علی رضی اللہ عنہ اعلیٰ ہونے کے باعث حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی شریک ہیں۔ لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس علی رضی اللہ عنہ اعلیٰ سے کوفہ کے علاوہ تمام علاقہ چھین لیا۔ اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور عمرو بن العاص نے حکم ہونے کی حیثیت سے انہیں خلافت سے معطل کر دیا۔
——————

امام غزالی کی احیاء العلوم کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر اور عمر نے مطالعہ کیا اور کتاب کے مندرجات کی تصدیق کی
یافعی رحمہ اللہ نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ مشہور فقیہ امام ابو الحسن علی حرزہم احیاء العلوم پر نکتہ چینی کیا کرتے تھے، با اثر اور صاحب صلاحیت عام تھے، ایک دن احیاء العلوم کے تمام نے جمع کرنے کا حکم دیا ارادہ یہ تھا کہ جتنے نسخے مل جائیں گے انہیں جمعہ کے دن جامع مسجد کے صحن میں آگ دے دی جائے گی، لیکن جمعہ کی شب میں انہوں نے عجیب و غریب خواب دیکھا، انہوں نے دیکھا کہ وہ جامع مسجد میں ہیں وہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر اور حضرت عمر بھی موجود ہیں، امام غزالی رحمہ اللہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں جب ابن حرزہم پر ان کی نگاہ پڑی تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ میرا مخالف ہے اگر میری کتاب ایسی ہی ہے جیا کہ یہ شخص سمجھتا ہے تو میں اللہ کی راہ میں توبہ و استغفار کروں گا، اور اگر میں نے اس میں وہ سب کچھ لکھا ہے جو مجھے آپ کی برکت اور اتباع سنت کے طفیل میں حاصل ہوا ہے تو اس شخص سے میرا حق مجھے دلائیے، امام غزالی کا یہ دعوی سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”احیاء العلوم“ ہاتھ میں لی اور شروع سے آخر تک ایک ایک صفحہ دیکھا پھر فرمایا: بخدا یہ تو بہت عمدہ چیز ہے، پھر حضرت ابو بکر صدیق نے کتاب اٹھائی، پوری کتاب پر ایک نظر ڈالی اور عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو پیغمبر بنا کر بھیجا، یہ تو بڑی عمدہ کتاب ہے، آخر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کتاب ہاتھ میں لی، اس پر ایک نظر ڈالی اور کچھ تعریفی جملے کہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ فقیہ علی بن حرزہم کی پشت نگی کی جائے اور اس پر وہ حد جاری کی جائے جو مفتری پر جاری کی جاتی ہے، آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی اور کوڑے لگائے گئے، جب پانچ کوڑے لگ چکے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سفارش کی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! شاید انہوں نے اس کتاب کو آپ کی سنت کے خلاف سمجھا ہو امام غزالی نے حضرت ابو رضی اللہ عنہ ان کی سفارش منظور کر لی، جب ابن حرزہم بیدار ہوئے تو کوڑے کے نشانات ان کے جسم پر تھے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بلا کر یہ نشانات دکھلائے، پورا واقعہ بیان کیا اور غزالی کی مخالفت سے توبہ کی لیکن ایک مدت تک کوڑوں کی تکلیف باقی رہی، رات کی آہ وزاری کے بعد ایک دن خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں آپ نے ان کے جسم پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ تکلیف دور ہو گئی، اس دن سے احیاء العلوم کا مطالعہ شروع کر دیا، پھر اس فن میں اس قدر انہماک ہوا کہ علم ظاہر کے ساتھ ساتھ علم باطن میں بھی آپ کو زبردست شہرت حاصل ہوئی، یافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ واقعہ ایک مسلسل سند کے ساتھ پہنچا ہے، اس سند کی آخری کڑی شیخ المشائخ ابو الحسن شاذلی ہیں، شیخ موصوف ابن حرزہم کے معاصر تھے وہ فرماتے تھے کہ جب ابن حرزہم کا انتقال ہوا اور انہیں غسل دیا جانے لگا تو کوڑوں کے نشانات موجود تھے۔
——————

دوسرا واقعہ:
حافظ ابن عساکر بھی امام غزالی کے معاصرین میں سے ہیں، ان دونوں حضرات کی ملاقات بھی ثابت ہے، فرماتے ہیں کہ مجھے شیخ ابو الفتح شادی کے ایک جواب کی تفصیل مشہور فقیہ صوفی سعید بن علی بن ابی ہریرہ اسفرائی رحمہ اللہ کے ذریعہ معلوم ہوئی، شیخ شاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد حرام میں داخل ہوا، مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری تھی، بیٹھنے اور کھڑے ہونے کی سکت ہی باقی نہیں رہی تھی، اسی حالت میں کعبہ کی طرف منہ کر کے دائیں کروٹ سے لیٹ گیا، میں اس وقت باوضو تھا، اگرچہ میری پوری کوشش یہ تھی کہ کسی طرح نیند نہ آئے لیکن میں اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا اور غنودگی سی چھا گئی، میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، آپ نے خوبصورت عمامہ باندھ رکھا ہے اور بہترین لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں، چاروں ائمہ کرام شافعی، مالک، ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، اور اپنے اپنے مذاہب بیان کر رہے ہیں، آپ ہر امام کا مذہب سنتے ہیں اور اس کی تصدیق فرما دیتے ہیں، اسی دوران ایک بدعتی شخص بار یابی چاہتا ہے لیکن اسے دھتکار دیا جاتا ہے، پھر میں آگے بڑھتا ہوں اور عرض کرتا ہوں یا رسول اللہ ! میرا اور تمام اہل سنت کا عقیدہ تو یہ کتاب احیاء العلوم ہے، اگر آپ کی ا جازت ہو تو میں اس کتاب کا کچھ حصہ پڑھ کر سناؤں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت مرحمت فرماتے ہیں، میں ”احیاء العلوم“ کے باب ”قواعد العقام“ کی ابتدائی سطریں پڑھتا ہوں «بسم الله الرحمن الرحيم» کتاب العقائد میں چار فصلیں ہیں، پہلی فصل اہل سنت کے عقیدہ کی تشریح میں جب میں اس عبارت پر پہنچتا ہوں «انه تعالى بعث النبى الأمي القرشي محمدا صلى الله عليه وسلم إلى كافه العرب والعجم والجن والانس» تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار دیکھتا ہوں، آپ مجمع کی طرف متوجہ ہو کر فرماتے ہیں، غزالی کہاں ہیں؟ غزالی کھڑے ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: یا رسول اللہ ! میں یہاں ہوں، پھر وہ آگے بڑھتے ہیں اور سلام عرض کرتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں اور اپنا دست مبارک غزالی کی طرف بڑھاتے ہیں، غزالی آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بوسہ دیتے ہیں، اپنی آنکھوں سے لگاتے ہیں اور اپنے سر پر رکھتے ہیں، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی مسرت کے عالم میں صرف اس وقت دیکھا جب غزالی کی احیاء العلوم پڑھی جا رہی تھی، اس واقعہ کے بعد میں بیدار ہو گیا، خواب کے اثرات ابھی تک باقی تھے، میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے، میرے خیال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاہب اربعہ کی تصدیق کرنا اور غزالی کے بیان کردہ عقائد پر اظہار مسرت فرمانا اللہ تعالیٰ کا ایک زبردست انعام ہے، خداوند کریم ہمیں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم رکھے اور شریعت نبوی پر موت دے۔
تحقیق الحدیث
اسنادہ ضعیف:
یہ سارا قصہ من گھڑت ہے،
اس میں مجھول راوی ہیں نیز احیاء العلوم میں موضوع روایات موجود ہیں آپ اسے کیسے پسند کر سکتے تھے، تفصیل کے لیے دیکھیں۔ [تعريف الاحياء بفضائل الاحياء لعبد القادر العيد دوسي وهو مطبوع بهامش الاحياء 19/16/1 والمطبوع ايضا بهامش اتحاف السادة المتقين 8/1۔ 10]
مزید دیکھیں: [كتاب القول المبين فى التحرير من كتاب احياء علوم الدين، للشيخ عبد اللطيف بن عبدالرحمن بن حسن آل شيخ و كتاب احياء علوم الدين فى ميزان العلماء و المؤرخين للشيخ على بن حسن بن على بن عبدالحميد۔]
——————

فضیل بن عیاض تیس سالوں میں صرف اس دن مسکرائے جب ان کے بیٹے کی وفات ہوئی
ابو نعیم اپنے والد عبد اللہ سے، ابو حسن بن ابان، ابو بکر بن عبید، قاسم بن ہاشم اسحق بن عباد بن موسی کے سلسلہ سند سے مروی
ہے کہ ابو علی رازی کہتے ہیں میں 30 سال تک فضیل بن عیاض کی صحبت میں رہا اس دوران میں نے انہیں ہنستے دیکھا اور نہ ہی مسکراتے، صرف ایک دن وہ تھوڑے سے مسکرائے جس دن ان کے بیٹے نے وفات پائی۔ چنانچہ اس کے بارے میں فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ آدمی سے محبت کرتے ہیں جس سے اللہ محبت کرتا ہے اس سے میں بھی محبت کرتا ہوں۔
تحقیق الحدیث
اسنادہ ضعیف:
یہ قصہ فضیل بن عیاض تک باسند صحیح ثابت نہیں اس کی سند ضعیف ہے۔
اس میں مجھول راوی ہے، اسحاق بن عباد راوی کے حالات نہیں ملتے، دیکھیں: [حلية الاولياء: 100/8 الرضا عن الله بقضائه ص: 18، رقم 90 لابن أبى الدنيا، تاريخ بغداد 373/6۔ 374]
یاد رہے یہ قصہ درایتاً بھی ٹھیک نہیں۔
——————

امام بخاری رحمہ اللہ کی قبر پر دعا کے ذریعے بارش کانزول
یہ واقعہ تیسر الباری شرح صحیح بخاری کے دیباچہ صفحہ 64 ناشر نعمانی کتب خانہ لا ہور۔ میں نقل کیا گیا ہے۔
قسطلانی نے ارشاد الساری میں نقل کیا ابو علی حافظ سے، انہوں نے کہا: مجھ کو خبر دی ابو الفتح نصر ابن الحسن سمر قندی نے جب وہ آئے ہمارے پاس 424ھ میں کہ سمر قند میں ایک مرتبہ بارش کا قحط ہوا لوگوں نے پانی کے لیے کئی بار دعا کی پر پانی نہ پڑا۔ آخر ایک نیک شخص آئے قاضی سمرقند کے پاس اور ان سے کہا: میں تم کو ایک اچھی صلاح دینا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا بیان کرو۔ وہ شخص بولے تم سب لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر امام بخاری رحمہ اللہ کی قبر پر جاؤ اور وہاں جا کر اللہ سے دعا کرو، شاید اللہ جل جلالہ ہم کو پانی عطا فرما دے۔ یہ سن کر قاضی نے کہا: تمہاری رائے بہت خوب ہے۔ اور قاضی سب لوگوں کو ساتھ لے کر امام بخاری رحمہ اللہ کی قبر پر گیا۔ اور لوگ وہاں روئے اور صاحب قبر کے وسیلہ سے پانی مانگا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وقت شدت کا پانی برسانا شروع کیا یہاں تک کہ شدت بارش سے سات روز تک لوگ خرتنگ سے نکل نہ سکے۔
تحقیق الحدیث
اسنادہ ضعیف: [ارشاد الساري ج 1، ص: 39]
اس کی سند ضعیف ہے۔ قسطلانی سے لے کر ابو علی الحافظ تک سند نا معلوم ہے۔ اور ابو علی حافظ مجہول ہے۔ لہٰذا قبر پر بارش کا قصہ ثابت نہیں۔
——————

میرے بعد علم علی، اعر سلمان سے حاصل کرنا
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، یا رسول اللہ ! آپ کے بعد علم کی باتیں کس سے لکھیں، فرمایا: علی اور سلمان سے۔ [ميزان الاعتدال: 234۔ تاريخ جرجان: 64۔ العلل المتناهية: 284/1]
تحقیق الحدیث
اس روایت کا راوی احمد بن ابی روح ہے۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ اس کی احادیث درست نہیں ہوتیں۔
ذہبی کا بیان ہے کہ اس شخص نے اس روایت کی سند میں جن لوگوں کا نام لیا ہے۔ ان سب پر اتہام ہے۔ [ميزان الاعتدال: 94/1]
بلکہ ذہبی نے لکھا ہے کہ یہ روایت اس سند کے ساتھ موضوع ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کو چونکہ علی رضی اللہ عنہ سے پرخاش تھی اس لیے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھی حاضر نہیں ہوئے۔ رہ گئے سلمان رضی اللہ عنہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں انتقال کر گئے تھے، اور سبائی اس وقت تک وجود میں نہ آئے تھے۔ لہٰذا یہ روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ پر ایک کھلا جھوٹ ہے۔
اس احمد بن ابی روح سے نقل کرنے والا احمد بن ابی حفص السعد کی ہے۔ جو امام ابن عدی رحمہ اللہ کا شیخ ہے۔ لیکن ابن عدی کا بیان ہے کہ یہ منکر روایات بیان کرتا ہے۔ لیکن عمدا جھوٹ نہیں ہوتا۔ ہاں دوسروں کے جھوٹ کی اشاعت کرنا اور بات ہے۔
——————

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اونٹ کی خریداری کا قصہ اور علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک اعرابی اونٹ لے کر آیا تاکہ انہیں فروخت کر سکے۔ عمر ان کا بھاؤ تاؤ کرنے گئے۔ عمر رضی اللہ عنہ ایک ایک اونٹ کو اٹھانے کی کوشش کرنے لگے، اور اسے پیر مارتے تاکہ اونٹ کھڑا ہو اور عمر رضی اللہ عنہ اس کا دل دیکھ سکیں۔ اس پر وہ شخص بولا: تیرا باپ نہ ہو میرے اونٹوں سے علیحدہ ہو جا۔ عمر رضی اللہ عنہ اس پر بھی باز نہ آئے تو وہ شخص بولا:، میرا خیال ہے تو بہت برا آدمی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کام سے فارغ ہو گئے تو اس سے اونٹ خریدا اور کہنے لگے کہ اے کھینچ کر لیا اور اس کی قیمت لے لے۔ اس اعرابی نے کہا: اچھا میں اس کا کجاوہ اور لگام اتار دوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے جب اونٹ خریدا تھا تو یہ چیزیں اس پر موجود تھیں۔ اس پر اعرابی بولا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو بہت برا آدمی ہے۔
یہ دونوں باہم جھگڑ ہی رہے تھے۔ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ آگئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اونٹ والے سے کہا کیا تو اس پر راضی ہے کہ یہ شخص میرے اور تیرے درمیان فیصلہ کر دے۔ اونٹ والے نے اقرار کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کے سامنے سارا قصہ بیان کیا۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔
اے امیر المؤمنین ! اگر اونٹ خریدتے وقت آپ نے کجاوے اور لگام کی شرط لگائی تھی۔ تب تو یہ آپ کی ہیں ورنہ اونٹ کا مالک اپنے دام میں اس قیمت پر اضافہ کر سکتا ہے۔ [ميزان الاعتدال: 316/2]

حفص بن اسلم الاصفر:
اس کا راوی حفص بن اسلم الاصفر ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ یہ عجیب عجیب کہانیاں نقل کرتا ہے۔ بخاری کا بھی یہی بیان ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں۔ یہ بے اصل روایات نقل کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے۔ کہ اس نے یہ روایت خود وضع کی ہے۔ [ميزان الاعتدال: 3162۔ المغني: 179/1۔ الجرح والتعديل: 169/3 – الضعفاء والمتروكين: 220/1]
یہ سارا قصہ جھوٹا اور من گھڑت ہے۔
——————

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے