امام ابو حنیفہ کی تقلید کے دلائل

یہ تحریرمولانا ابو صحیب داؤد ارشد حفظہ اللہ کی کتاب تحفہ حنفیہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب دیوبندی عالم دین ابو بلال جھنگوی کیجانب سے لکھی گئی کتاب تحفہ اہلحدیث کا مدلل جواب ہے۔

لفظ امام اعظم کی حقیقت:

فرماتے ہیں کہ ہم امام صاحب کو امام اعظم کہتے ہیں لیکن آئمہ کے مقابلے میں ہم تو امام صاحب کو صحابہ کرام کے مقابلے میں بھی امام اعظم نہیں کہتے چہ جائیکہ معاذ اللہ حضور علیہ السلام کے مقابلے میں امام اعظم کہا جائے۔
اگر امام اعظم صرف محمد ﷺ ہیں اور ان کے علاوہ کسی اور کے ساتھ اعظم کا لفظ لگانا گناہ ہے تو پھر فاروق اعظم بھی صرف حضرت محمد ﷺ ہونگے ۔ بقول آپ کے حضرت عمر نہیں ہو نگے۔ صدیق اکبر ابوبکر نہیں ہونگے بلکہ صدیق اکبر صرف نبی ﷺ ہونگے ۔ قائد اعظم بھی محمد ﷺ ہونگے۔ مناظراعظم رو پڑی صاحب نہیں ہونگے مناظر اعظم حضرت محمد ﷺ ہونگے۔ خطیب اعظم شیخو پوری صاحب نہیں ہونگے بلکہ صرف محمد ﷺ ہونگے ۔ پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی نہیں ہونگے بلکہ پیران پیر حضرت محمد ﷺ ہو نگے ۔ شیخ الکل فی الکل نذیر دہلوی صاحب نہیں بلکہ شیخ الکل فی الکل حضرت محمد مصطفیﷺ ہو نگے۔

خدا جب عقل لیتا ہے،حماقت آہی جاتی ہے
آئمہ پر تیرا سے ضلالت آ ہی جاتی ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 80,81)

الجواب:

اولاً :
لفظ ’’امام‘‘ ایک مشترک لفظ ہے جو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور ہر متبوع پر بولا جاتا ہے ۔ آئمہ لغت نے صراحت کی ہے کہ جس کی بھی پیروی واتباع کی جاتی ہو اسے امام کہتے ہیں۔ خواہ وہ قول میں ہو یا فعل میں۔
(لسان العرب ص 24 ج 12)

اللہ تعالی نے امامت کے لفظ کو نبوت کے معنی میں بھی استعمال کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ
إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا
(البقرة: 124)

جمہور مفسرین کرام کے نزدیک یہاں امامت سے نبوت مراد ہے۔ جبکہ آپ حضرات امام ابو حنیفہ کو علی الاطلاق امام اعظم کہتے ہیں جس سے ظاہر ہوا کہ آپ ان کو انبیاء کرام اور صحابہ کرام سے معزز و برتر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اعظم اسم تفصیل ہے جس کا معنی ہوتا ہے معزز ترین یا بہت بڑا بزرگ۔ مگر آپ اس حقیقت کا انکار کرتے ہیں حالانکہ بعض غالی مقلدین کا یہی موقف و نظریہ ہے امام علی بن جریر فرماتے ہیں کہ
تركت بالكوفة قوما يدعمون أن أبا حنيفة اعلم من رسول الله ﷺ
(تاریخ بغداد 413 ج 13)

یعنی میں نے اہل کوفہ کو اس لیے ترک کر دیا کہ ان میں سے بعض کا یہ عقیدہ تھا کہ امام ابو حنیفہ ( نعوذ باللہ ) خاتم المرسلین ﷺ سے بھی زیادہ علم و معرفت رکھتے تھے۔ یہ روایت سند کے لحاظ سے صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے
(التنکیل ص 350 ج1)

ثانیاً:
بالفرض آپ کی بات کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو تب بھی غلط ہے۔ آپ مقلد اعمی ہو کر آئمہ دین میں سے کسی کو امام اعظم اور باقی کو فروتر قرار دینے کا کیا حق رکھتے ہیں۔ اور آپ نے کس پیانے سے ناپ لیا ہے کہ امام ابو حنیفہ دیگر آئمہ سے اعظم تھے۔ جبکہ حقیقت بالکل اس کے بر عکس ہے۔ امام عبد اللہ بن مبارک ، امام سفیان ثوری ، امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، اور امام بخاری و غیر ہ اور بہت سے دیگر آئمہ امام ابو حنیفہ سے علم و فضل میں بڑھ کر تھے۔ بقول امام یحیٰی بن آدم ، امام سفیان ثوری ، امام شریک بن عبدالله اور حسن بن صالح۔
ادركنا أبا حنيفة وما يعرف بشى من الفقه ما نعرفه الاب الخصومات
یعنی ابو حنیفہ فقہ سے واقف و آشنانہ تھے۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ صرف خصومات سے واقف تھے۔
(تاریخ بغداد ص 406 ج 13)

پھر شاید آپ کو یاد ہو کہ نہ ہو کہ امام محمد نے امام شافعی رحمہ اللہ سے مناظرہ میں تسلیم کر لیا تھا کہ قرآن سنت اور آثار صحابہ کرام کے بڑے عالم امام ابو حنیفہ نہیں بلکہ امام مالک رحمہ اللہ ہیں۔
(مقدمه الجرح والتعديل ص 4)

ثالثاً:
لفظ امام اعظم چوتھی صدی ہجری کا ایجاد کردہ ہے۔ چوتھی صدی سے پہلے ابو حنیفہ پر کسی نے لفظ امام اعظم کا استعمال نہیں کیا اس کے خلاف ایک مثال بھی آپ پیش نہیں کر سکتے۔ پھر اس لقب کی پرو پیگنڈہ کے ذریعے تشہیر کی گئی کہ بعد میں آنے والے غیر احناف بھی غیر شعوری طور پر اس کا استعمال کرنے لگے۔

رابعاً:
جبکہ لفظ مناظر اور خطیب امتی اور انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان مشترک نہیں کہ آپ ان کی امثلہ دے رہے ہیں کہ مناظر اعظم اور خطیب اعظم محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔ جبکہ اس کے بر عکس لفظ امام مشترک ہے ۔ علاوہ ازیں یہ بات ظاہر ہے کہ حافظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ اپنے وقت کے اہل حدیث کے مناظر اعظم اور شیخوپوری خطیب اعظم ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ شیخوپوری کے الفاظ ہی مقید ہونے کی دلیل ہیں۔ جس سے ثابت ہوا کہ ان بزرگوں کو ہم پوری امت مرحومہ کے بالتقابل مناظر اعظم اور خطیب نہیں کہتے۔ پھر ان کی وفات کے بعد تو اس لقب کا لاحقہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔

خامساً:
آپ تقلید کے نشے میں ایسے مست ہیں کہ آپ کو معلوم ہی نہیں ہو رہا کہ کیا کہہ رہا ہوں۔ حضرت ابو بکر کا لقب صدیق تو واقعہ معراج کے بعد پوری امت مرحومہ میں مشہور ہو گیا تھا بلکہ خود آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے بھی اپنی زبان اقدس سے ان کے حق میں صدیق کا لفظ استعمال کیا ہے۔
(بخاری رقم الحدیث 3686)

صدیق کا لفظ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کے ساتھ اکبر کے لاحقہ کی ضرورت ہی نہیں۔ لیکن یہ علم و فہم کی باتیں، آپ کو تقلیداً نہیں مل سکتیں۔ آپ کسی اہل حدیث کے مدرسہ میں داخلہ لے لیں۔ فاروق کا معنی ہوتا ہے حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر کے ایمان لانے کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو شرف قبولیت بخشا تو حضرت عمر نے ہی مکہ میں علی الاعلان اسلام کا اظہار کیا جس سے کفر و اسلام میں تفریق ہو گئی۔ اسی وجہ سے آپ کو فاروق کہا جانے لگا۔
(لسان العرب ص 303 ج 10)

اس وجہ تسمیہ میں کسی کا اختلاف نہیں۔ اگر اس میں کوئی حرج و قباحت ہوتی تو قرآن میں اس کی ممانعت نازل ہوتی مگر ایسا نہیں ہوا جس سے ثابت ہوا کہ آپ نے غلط بحث کی ہے ۔ اصل جواب کی بجائے ادھر ادھر کی فضول بھرتی کر کے وقت کو ٹالنے کی کوشش کی ہے۔ اصل اعتراض اپنی جگہ پر بدستور قائم ہے کہ آپ حضرات امام ابو حنیفہ کو امام اعظم کہتے ہیں جس سے مسلمانوں کے دل مجروح ہوتے ہیں کہ اس سے تو ہین کا پہلو مترشح ہوتا ہے۔ بالخصوص جب امت کے ایک کثیر حصہ کو اس سے اختلاف ہے ۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس کو ترک کیجیے۔

◈امام ابو حنیفہ اور علم حدیث :

قاضی ابو یوسف سے ایک طویل روایت مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا کر میں نے تحصیل علم کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ فقہ کے علاوہ جتنے علوم ہیں سب کے حاصل کرنے میں بڑی زحمتیں ہیں اور انجام کے اعتبار سے بے فائدہ بھی۔ نیز تمام علوم میں عیوب بھی ہیں۔ حتی کہ (نعوذ باللہ ) تفسیر وحدیث کا بھی یہی حال ہے۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ فقہ کے علاوہ کسی بھی علم کو حاصل نہیں کرونگا۔ حتی کہ علم حدیث کی بابت فرمایا
(لا حاجة لي في هذا)
مجھے علم حدیث حاصل کرنے کی کوئی بھی ضرورت نہیں۔ لہذا میں نے صرف علم فقہ حاصل کیا۔
(تاریخ بغداد ص 331 332 ج 13 و عقود الجمان ص 163 تا 164 و اخبار الي حديقة للصيمري ص 5, 6 والخیرات الحسان ص 64)

امام صاحب کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے علم حدیث پڑھا ہی نہیں۔ بلکہ انہوں نے فقہ کی طرف توجہ دی اور اسی میں ہی انہوں نے کمال پیدا کیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ
وكان ابو حنيفة” الزمهم بمذهب ابراهيم وأقرانه لا يجاوزه الاماشاء الله وكان عظيم الشان فى التخريج على مذهبه دقيق النظر في وجوه التخريجات مقبلا على الفروع اتم اقبال وان شئت أن تعلم حقيقة ما قلنا فلخص أقوال ابراهيم وأقرانه من كتاب الآثار لمحمد رحمه الله وجامع عبد الرزاق ومصنف ابي بكر بن أبي شيبه ثم قاسة بمذهبه تجده لا يفارق تلك المحجة الافى مواضع يسير فهو فى تلك اليسيرة أيضاً لا يخرج عماذهب اليه فقهاء الكوفة
یعنی امام ابو حنیفہ ابراہیم نخعی اور ان کے ہم عصر علماء کے مذہب کو لازم پکڑتے تھے۔ اور بہت ہی کم ان سے تجاوز کرتے۔ ابراہیم نخعی کے مذہب کی تخریج میں بڑی شان رکھتے اور تخریج کی وجوہ میں باریک بین تھے۔ فروع پر پوری توجہ اور انہماک تھا۔ اگر تجھے میری بات کی سچائی و تحقیق مطلوب ہے تو امام محمد کی کتاب الاثمار عبد الرزاق کی جامع اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ابراہیم نخعی اور ان کے معاصر علماء کے اقوال کو چن ڈال۔ پھر امام ابو حنیفہ کے مذہب سے مقابلہ کر لو تو اس طریقہ سے کہیں فرق نہیں پائے گا۔ مگر چند مقامات پر اور ان چند مقام پر بھی امام ابو حنیفہ دیگر فقہاء کو فہ کے مذہب سے باہر نہیں جاتے۔
(حجۃ اللہ البالغہ ص 146 ج1)

اس عبارت پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں بلکہ یہ اپنا مقصد واضح کرتی ہے کہ امام ابو حنیفہ نے اپنی پوری توجہ ابراہیم نخعی کے قواعد پر مسائل نکالنے پر لگائی۔ جس سے صریحاً ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے علم حدیث کی طرف توجہ نہ کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کی معروف کتب بالخصوص صحاح ستہ میں امام ابو حنیفہ سے کوئی روایت مروی نہیں یہاں البتہ بعض روایات تیسرے اور چوتھے درجہ کی کتب میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن ان میں بھی زیادہ مرسل منقطع ضعیف ہیں۔ بلکہ اکثر جگہ پر تو امام صاحب کے استاذ کذاب راوی بھی ہیں۔ جن کی ضروری تفصیل خاکسار نے دین الحق ص 61,62 ج 1 میں درج کر دی ہے۔
اور بعض جگہ پر امام صاحب مبہم راوی سے روایت کرتے ہیں مثلا ’’عن رجل یا عمن‘‘ حدیثہ کہہ کر روایت بیان کرتے ہیں مثلا دیکھیے کتاب الاثار الامام ابو یوسف صفحہ 5,6,45 46,50,63,68,92,93,80,84,91 پر مرفوع روایات کی تعداد تو اس قدر کم ہے کہ وہ سندیں جیسی بھی ہیں کچھ زیادہ نہیں۔ امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی دنیا بھر میں مسند روایات کی تعداد صرف ایک سو تیس ہے ان میں بھی ایک سوبیس میں غلطیاں کی ہیں۔ کسی کی سند بدل دی ہے اور کسی کا متن تبدیل کر دیا ہے۔
(کتاب المجر و حین ص 63 ج 3)

آل سعود اور مبتدعین دیوبند

ہمارے معاصر نے تحفہ اہل حدیث ص ۸۳ تا ۸۴ میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ آل سعود بھی ہمارے موافق ہیں۔ پھر بعض جزوی و فروعی مسائل میں بزعم خود اختلاف ثابت کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ اب بتاءو تمہارے ہیں یا ہمارے۔ چلو ایک اور طریقے سے آزمالو آپ بھی امام خانہ کعبہ کے پاس چلو میں بھی چلتا ہوں۔ میں کہوں گا کہ میں امام اعظم ابو حنیفہ کا مقلد ہوں۔ آپ کہیں چاروں آئمہ میں سے جو کسی کی تقلید کرے وہ مشرک اور گمراہ ہے۔ آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید سراسر گمراہی ہے۔ پھر دیکھیں گے کہ وہ امام کعبہ ہاتھ کس کے چومتا ہے اور جوتے کس کو مارتا ہے۔ پھر دیکھیں گے سعودیہ والے تمہارے ساتھ یا ہمارے ساتھ ہیں۔ انتھی بلفظم

الجواب:

اولاً : آئیے چلتے ہیں خرچہ آپ کے ذمہ رہا کیونکہ دعوت آپ نے دی ہے۔ کعبہ کے امام کو منصف مان لیتے ہیں۔ خاکسار اکابر دیوبند کے عقائد فاسدہ ہو اور نظریات باطلہ کی نشان دہی کرے گا۔ پھر قدرت الہی کا کرشمہ دیکھنا کہ وہ آپ کے بارے میں کیا فیصلہ صادر کرتے ہیں۔

ثانیاً : تقلید کو صرف ہم نے ہی شرک نہیں کہا بلکہ متعدد اہل علم نے اس کے شرک ہونے کی صراحت کی ہے۔ اوروں کو جانے دیجیے آپ کے استاذ المکرم مولانا محمد سر فراز خان صفدر اور مولوی اشرف علی تھانوی وغیرہ نے بھی شرک کہا ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے۔

ثالثاً:
مولوی احمد رضا خاں بریلوی نے۱۳۲۴ ھ میں علماء حرمین سے آپ کی تکفیر پر مشتمل فتوی حاصل کیا تھا جو حسام الحرمین کے نام سے شائع بھی ہو گیا تھا جواب تک متعدد بار طبع ہو چکا ہے اور مارکیٹ سے دستیاب ہے۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ معتبر ہے یا غیر معتبر ہے۔ اگر غیر معتبر کہتے ہو تو ہم کس طرح مان لیں کہ آج کے فتوی کو مان کر اپنے عقائد فاسدہ سے آپ رجوع کرلیں گے۔

رابعاً : بیت اللہ اور مسجد نبوی کے اماموں سے ہم یہ بھی عرض کریں گے کہ جتنی دیر سعودیہ والے غریب تھے تو دیوبندیوں کے اکابر آپ تمام حضرات پر فاسق و فاجر اور جاہل وغیرہ کا فتویٰ لگاتے تھے۔ اب چونکہ اللہ تعالی نے ان پر کنوز الارض کھول دیئے ہیں جس کی وجہ سے آج کے دیلینہ نے زکوۃ و عشر فطرانہ وصدقات وصول کرنے کی غرض سے منافقت کا روپ دھار لیا ہے۔ ورنہ یہ لوگ در پردہ آپ کی تکلفیز کے قائل ہیں۔
مولوی انور شاہ کاشمیری کہتا ہے کہ
(اما محمد بن عبدالوهاب التجدى فكانه رجلا بليدا قليل العلم فكان يتسارع إلى الحكم بالكفر)
محمد بن عبد الوہاب نجدی نہایت بے وقوف اور کم علم شخص تھا اور وہ مسلمانوں پر کفر کا حکم لگانے میں بہت تیز تھا۔
(فیض الباری ص 171)

◄۔۔۔مولوی حسین احمد مدنی لکھتا ہے کہ

❀ صاحبو ! محمد بن عبد الوہاب نجدی ابتدا تیرھویں صدی نجد عرب سے ظاہر ہوا اور چونکہ یہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا۔ .. وہ ایک ظالم اور باغی خونخوار فاسق شخص تھا۔
(شہاب ثاقب ص 42)

❀ نجدی اور اس کے اتباع کا اب تک یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی حیات فقط اسی زمانہ تک ہے جب تک وہ دنیا میں تھے۔ بعد ازاں وہ اور دیگر مومنین موت میں برابر ہیں اگر بعد وفات ان کی حیات ہے تو وہی حیات ان کو برزخی ہے اور احاد امت کو ثابت ہے بعض ان کے حفظ جسم نبی کے قائل ہیں مگر بلا علاقہ روح۔
(شہاب ثاقب ص45)

❀ زیارت رسول مقبول صلى الله عليه وسلم و حضوری آستانه شریف و ملاحظه روضہ مطہرہ کو یہ طائفہ بدعت حرام و غیر ہ لکھتا ہے اس نیت سے سفر کرنا محظور و ممنوع جانتا ہے۔
(لا تشددا الرحال الا الى ثلثة مساجد)
ان کا مستدل ہے بعض ان میں سے سفر زیارت کو معاذ اللہ زنا کے درجہ کو پہنچاتے ہیں ۔ اگر مسجد نبوی میں جاتے ہیں تو صلوۃ و سلام ذات اقدس نبوی علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں پڑھتے اور نہ اس طرف متوجہ ہو کر دعا وغیرہ مانگتے ہیں۔
(شہاب ثاقب ص 45.46)

❀ وہابیه اشغال باطنیه و اعمال صوفیہ مراقبہ ، ذکر و فکر وارادت و مشخیت وربط القلب بالشیخ و فنا و بقاو خلوت وغیرہ اعمال کو فضول و لغو اور بدعت و ضلالت شمار کرتے ہیں۔ اور ان اکابر کے اقوال و افعال کو شرک وغیرہ کہتے ہیں اور ان سلاسل میں داخل ہونا بھی مکروہ و مستقیہ بلکہ اس سے زائد شمار کرتے ہیں۔
(شہاب ثاقب ص 59)

❀ وہابیہ کسی خاص امام کی تقلید کو شرک فی الرسالہ جانتے ہیں اور آئمہ اربعہ اور ان کے مقلدین کی شان میں الفاظ واہیہ خبیثہ (جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو ابو صھیب) استعمال کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ سے مسائل میں وہ گروہ اہل سنت و الجماعت کے مخالف ہو گئے ہیں ۔ چنانچہ غیر مقلدین ہند اسی طائفہ شنیعہ کے پیروکار ہیں۔ وہابیہ نجد و عرب اگر چہ بوقت اظہار دعویٰ حنبلی ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن عمل در آمدان کا ہر گز جمله مسائل میں امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے مذہب پر نہیں ہے۔ بلکہ وہ بھی اپنے فہم کے مطابق جس حدیث کو مخالف فقہ خیال کرتے ہیں اس کی وجہ سے فقہ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا بھی مثل غیر مقلدین کے اکابر امت کی شان میں الفاظ گستاخانہ ہے ادبانہ استعمال کرنا معمول ہو گیا ہے۔
(شہاب ثاقب ص 62)

❀ مثلاً علی العرش استوی وغیرہ آیات میں طائفہ وہابیہ استوا ظاہری اور جہات و غیرہ ثابت کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے ثبوت جسمیت وغیرہ لازم آتا ہے۔ (لعنتہ اللہ علی الکاذبین ابو صھیب)
على هذا القياس مسئله ندا رسول اللہﷺ
میں وہابیہ مطلق منع کرتے ہیں۔
(شہاب ثاقب ص 64)

الغرض اس طرح کی متعدد عبارات ہیں جس میں مدنی صاحب نے خشیت الہی کو بالائے طاق رکھ کر دیار عرب کے لوگوں پر کذب و افترا کر کے ان کو فاسق وفاجر قرار دیا ہے ۔ مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے (التصديقات لدفع التلبیسات ص 28 29) میں بھی اسی طرح کے گل کھلائے ہیں ۔ اور یہ ماشاء اللہ وہ کتاب ہے جس کی تصدیق کرنے والوں میں مولوی محمود حسن خاں، مولوی احمد حسن امروہی، مولوی عزیز الرحمن ، مفتی کفایت اللہ دہلوی ، مولوی اشرف علی تھانوی ، مولوی شبیر احمد عثمانی اور حبیب الرحمن دیوبندی وغیرہ شامل ہیں۔ اور مبتدعین دیابنہ اس کتاب کو عقائد اہل سنت والجماعۃ ،کے عام فہم نام سے شائع کرتے ہیں، مطبوعہ دارالاشاعت مقابل مولوی مسافر خانہ کراچی نمبر 1۔
مگر ہمارے معاصر کو غالبا وہاں سے صدقات وصول کرنے کا شوق دامن گیر ہے جس کی وجہ سے اپنے اکابرین کے بر عکس ہم کو للکار رہا ہے کہ آئیے امام کعبہ سے انصاف کروا لیتے ہیں۔
بھائی جب ہم نے پوری حقیقت کھولی تو یقینا جوتے منافقین کو لگیں گے ۔ ہم اللہ کے فضل سے محفوظ رہیں گے ۔ (ان شاء اللہ)

◈تفسیر عثمانی کی اشاعت :

فرماتے ہیں کہ تفسیر عثمانی مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی کی تفسیر ہے۔ شاہ فہد نے چھاپ کر پوری دنیا میں تقسیم کی ہے۔ اگر تمہارے ہیں تو تمہاری تفسیر تقسیم کرتے۔ دیوبندی کی تفسیر کبھی تقسیم نہ کرتے۔
(تحفہ اہل حد ير ث ص 84)

الجواب:

اولاً : علماء اہل حدیث کی متعدد کتب کو آل سعود نے شائع کیا اور لاکھوں کی تعداد میں مفت تقسیم بھی کیا اگر ان کی فہرست بنائی جائے تو بات لمبی ہو جائے گی۔ صرف اتنا عرض کئے دیتے ہیں کہ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تعالی کی تفسیر احسن البیان کو سعودی عرب والوں نے لکھوا کر لاکھوں کی تعداد میں مفت تقسیم کیا ہے۔

ثانیاً: بلاشبہ سعودی عرب والوں نے تفسیر عثمانی کو شائع کیا۔ مگر جب علماء اہل حدیث کی طرف سے وضاحت کی گئی کہ اس تفسیر میں بعض شدید قسم کے غلط و باطل عقائد میں بالخوص صفات باری تعالیٰ میں تاویل و تحریف کی گئی ہے اور اس کے شروع میں ہی لکھا ہے کہ
’’اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل نا جائز ہے ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الہی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت در حقیقت حق تعالٰی ہی سے استعانت ہے۔‘‘
( تفسیر عثمانی ص 2)

اس عبارت میں غیر اللہ سے استعانت کو جائز و صحیح کہا گیا ہے جو شرک کا چور دروازہ ہے۔ الغرض اس وضاحت کے بعد سعودی عرب والوں نے تفسیر عثمانی کی تقسیم بند کر دی۔ اب اگر اس کی اشاعت سعودیہ والوں سے کرا دو تو ہم مان جائیں گے ۔ مگر یہ کبھی بھی ممکن نہیں۔ ان شاء اللہ

◈تقلید کی دلیل اول:

قرآن پاک میں ہے
فاسئلو الاهل الذكر ان كنتم لا تعلمون
اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو۔
پوچھ کر مان لینے کا نام ہی تو تقلید ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 85)

الجواب:

اولاً : آپ ماشاء اللہ خطیب و امام میں لوگ آپ سے مسائل دریافت کرتے ہیں۔ کیا وہ آپ کے مقلد ہیں ؟ اگر آپ کہہ دیں کہ چونکہ میں فقہ حنفی کے موافق فتویٰ دیتا ہوں لہٰذا وہ امام ابو حنیفہ کے مقلد ہوئے۔ تو جواباً عرض ہے کہ اس کی دلیل دیجیے کہ مسئول امام ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دے۔ کیونکہ زیر بحث آیت میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس کا یہ معنی ہو کہ مفتی قول امام ابو حنیفہ پر فتوی دے۔

ثانیاً: عامی آپ سے سوال کرتا ہے کہ حضرت مولانا اللہ ایک ہے یا متعدد۔ آپ اس کا جواب دیتے ہیں کہ اللہ صرف ایک ہی ہے ۔ یا عامی آپ سے پوچھتا ہے کہ عبادت صرف اللہ کی ہی کرنی چاہیے یا اس کے علاوہ بھی کسی کی کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ آپ جواب دیتے ہی کہ عبادت خاص اللہ کی ہی کی جاتی ہے۔ وہ آپ کی بات مان لیتا ہے۔ بتائیے کہ یہ تقلید ہے کہ نہیں ؟ اگر آپ کہہ دیں کہ یہ تقلید ہی ہے تو جو اباً عرض ہے کہ یہ خالص جھوٹ ہے کیونکہ عقائد میں آپ بھی تقلید کے قائل نہیں۔ آپ کے استاذ المکرم فرماتے ہیں کہ اصول دین عقائد اور منصوص احکام میں نہ تو اجتہاد جائز ہے اور نہ صرف تقلید آئمہ کرام پر اکتفاء درست ہے۔
( الكلام المفيد ص 182)

ثالثاً : مفتی سے جب مستفتی حکم شریعت دریافت کرے گا تو مفتی استفتاء میں قرآن و سنت سے جواب دے گا جو دلیل شرعی ہیں۔ اور بادلیل بات کو مانا تقلید نہیں جیسا کہ پہلے ہم عرض کر چکے ہیں کہ تقلید کہتے ہیں کسی کے قول کو بلادلیل قبول کرنا۔ مگر مفتی تو دلیل شرعی نقل کر رہا ہے اور مستفتی اس سے مطمئن ہو کر عمل کرتا ہے تو یہ دلیل کی پیروی ہوئی نہ کہ تقلید ۔ لیکن جھنگوی صاحب اس کا نام تقلید رکھتے ہیں حالانکہ آئمہ اصول نے صراحت کی ہے کہ عامی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اور یہ کہ مفتی کی طرف رجوع تقلید نہیں۔ .
(فالرجوع الى النبى اوالى الاجماع ليس منه وكذا العامي الى المفتى والقاضي إلى العدول)
(مسلم الثبوت ص 360 2)

یعنی نبیﷺ کی بات ماننا یا اجماع پر عمل کرنا یا بے علم کا عالم کی طرف رجوع کرنا یا قاضی کا گواہوں کے قول پر اعتماد کرنا تقلید نہیں ہے۔

رابعاً : ارشاد ربانی ہے کہ
فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ (یونس: 94)
(یعنی اے محمد ﷺ) جو لوگ تم سے پہلے کی (اتری ہوئی) کتابیں پڑھتے ہیں ان سے پوچھ لو۔
تو کیا معاذ اللہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو بھی اہل کتاب کی تقلید کا حکم ہے۔ حاشا و کلا معلوم ہوا کہ سوال کرنے کو تقلید کہنا ہی غلط ہے۔

خامساً : آئیے ہم آپ کو مذکورہ آیت کا معنی و مفہوم سمجھاتے ہیں۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٤٤﴾‏ (النحل: 44-43)
’’اور ہم نے تجھ سے پہلے مردوں ہی کو رسول کر کے بھیجا ہے جن کو ہم وحی کیا کرتے تھے۔ تمہیں اگر علم نہ ہو تو علم داروں سے پوچھ لو۔ کھلے کھلے نشان اور واضح مسائل لے کر آتے رہے اور ہم نے تیری طرف نصیحت کی بات اس لیے اتاری ہے تاکہ جو کچھ لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اترا ہے تو اس کو واضح کر کے بیان کر دے کہ وہ اس میں فکر کریں۔‘‘

ان آیات سے معلوم ہوا کہ اس آیت کے مخاطب منکرین نبوت محمدیہ ہیں اور اہل الذکر سے مراد اہل کتاب ہیں۔ اور منکرین کو دعوت فکر دی جارہی ہے کہ اگر تم اس حقیقت سے ناواقف ہو کہ رسول بشر ہوتا ہے تو اہل کتاب سے دریافت کر لو۔ کیونکہ وہ بوجہ آپ کو بتادیں گے کہ نبی آدمی و بشر ہی ہوتا ہے۔ پھر اگلی آیت میں رسول اللہ ﷺ کا منصب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے تیری طرف کتاب کو نازل کیا تا کہ آپ لوگوں کو سمجھا دیں اور جن کی طرف نازل ہوا ہے وہ اس میں فکر و تدبر کریں۔

بھائیوں کا دعویٰ ہے کہ ان آیات میں تقلید علماء کا ذکر ہے حالانکہ غور وفکر اور تدبر کا حکم دیا گیا ہے جبکہ تقلید محض حسن ظن اور اندھی عقیدت کا نام ہے جس میں غور و فکر اور تدبر کو یکسر دخل ہی نہیں۔

◈تقلید کی دوسری دلیل :

دوسری جگہ فرمایا کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ
’’ اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور مجتہدین کی۔ ‘‘
( تحفہ اہل حدیث ص 85)

ہمارے مہربان نے اولی الامر کا معنی مجتہدین کیا ہے جس پر دلیل یہ قائم کی ہے کہ قرآن پاک میں وَأُولِي الْأَمْرِ سے مراد اہل استنباط ہیں۔
(النساء: 83) ( بلفظہ تحفہ اہل حدیث ص 85)

الجواب:

اولاً : ’’أُولِي الْأَمْرِ‘‘ ولی الامر کی جمع ہے ولی بمعنی کسی کو کسی علاقہ کا حاکم والی یا بادشاہ بنانا۔ مگر ہمارا معاصر اس سے منکر ہے۔ پھر صریحاً جھوٹ بولا کہ قرآن میں انہیں معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ حالانکہ سورہ النساء کی آیت 83 میں أُولِي الْأَمْرِ کا معنی شاہ عبد القادر نے حاکم سردار شاہ رفیع الدین نے صاحب حکم مولوی محمود حسن دیوبندی نے حاکموں کیا ہے۔ مگر جھنگوی صاحب اتنے بے شرم ہیں کہ قرآن میں معنوی تحریف کرتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی۔

ثانیاً : آپ نے پوری آیت نقل نہیں کی۔ آگے الفاظ ربانی میں
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ
(النساء: 59)
اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔

ان الفاظ کا مفاد یہ ہے کہ حکمران کی بھی معصیت میں اطاعت نہیں ہوتی۔ بلکہ صرف امر معروف میں ہی اس کی اتباع کی جائے گی جو دراصل اللہ ورسول کی اطاعت ہے ۔ جیسا کہ
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ
ومن يطع الأمير فقد اطاعني
’’یعنی جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری ہی اطاعت کی۔‘‘
(الحدیث بخاری ص 415 ج 1 و مسلم ص 124 ج 2)
معصیت اور معروف میں امتیاز کے لیے نصوص کی طرف رجوع کے بغیر چارہ نہیں۔ اور یہ اجتہاد ہے نا کہ تقلید ۔ الغرض اس آیت سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو وہ تقلید کا بطلان اور اجتہاد کی تلقین۔

◈کیا تقلید کا لفظ قرآن میں ہے؟

پہلے اعتراض نقل کرتے ہیں کہ تقلید کا لفظ قرآن میں نہیں ۔ پھر جواب تحریر کرتے ہیں کہ جنازہ کا لفظ قرآن پاک میں نہیں ہے۔ لہذا جنازے کا کوئی فائدہ نہ ہوا آپ کو بغیر جنازہ کے دفن کر دیں گے فکر مت کریں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 86)

الجواب :

اولاً : سوال تو بڑا معقول تھا کہ اگر واقعی اللہ تعالیٰ نے امام ابو حنیفہ کی تقلید کو فرض و واجب کہا ہے تو کیا تقلید کا لفظ قرآن میں ہے یا کہ نہیں۔
جھنگوی صاحب اصل جواب دینے کی بجائے فضول بحث لے کر بیٹھ گئے ہیں کہ جنازہ کا لفظ بھی قرآن میں نہیں۔ حالانکہ ارشاد ربانی ہے کہ
وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا (التوبه :84)
تصل سے مراد نماز جنازہ ہے ۔ جملہ مترجمین نے اس کا یہی معنی کیا ہے۔ کسی مفسر و محدث و فقہی کا اس میں اختلاف نہیں۔ گویا اس پر امت مرحومہ کا اجماع ہے انکار ہے تو صرف جھنگوی صاحب کو ۔
پھر متعدد احادیث میں جنازہ کا لفظ موجود ہے۔(بخاری۔ مسلم) مگر تقلید کا لفظ توکسی حدیث میں بھی نہیں۔

ثانیاً: خبث باطن دیکھئے کہتے ہیں آپ کو بغیر جنازہ دفن کر دیں گے فکر مت کریں۔ اِانا للہ وانا اليه راجعون
معلوم ہوتا ہے کہ ہمار امعاصر جیسے متعصب ہے اس سے ہزار گناہ زیادہ جاہل بھی ہے۔ اسے یہ معلوم نہیں کہ مومن کی نماز جنازہ فرض ہے۔ اس کے انکار کو فقہاء احناف نے بھی کفر لکھا ہے۔ کیونکہ یہ اجماع کا انکار ہے۔
(در مختار مع ردالمختار ص 207 ج 2)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنازہ کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے۔ اگر بالفرض اور کوئی دلیل نہ بھی ہوتی تو اجماع ہی کافی تھا۔ مگر یہاں تو نص موجود ہے جیسا کہ ہم پہلے نقل کر چکے ہیں مگر جھنگوی صاحب کو اہل حدیث سے اتنا شدید بغض ہے کہ وہ اس کا انکار کرتے ہیں۔

◈تقلید اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

حضرت شاہ صاحب کی زندگی کے مختلف دور ہیں۔ جن میں انہوں نے متعدد تصانیف تحریر فرمائی ہیں۔ جو حصہ تصوف کے متعلق ہے اس میں ایسا مواد ملتا ہے کہ جس سے بریلویت کی خاصی تائید ہوتی ہے جو آج کل کے بریلوی علماء دیوبندی مکتب فکر پر حجت کی غرض سے نقل بھی کرتے ہیں۔
بلا شبہ شاہ صاحب کا رجحان بعض جگہ احناف کی طرف ہے۔ لیکن وہ جمود کے سختی کے ساتھ مخالف ہیں۔ آج جو بیداری کی تحریک حدیث فکر موجود ہے اس کی ابتداء حضرت شاہ صاحب سے ہوئی۔ جن کو حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی اور ان کے تلامذہ نے پروان چڑھایا۔
جس دور میں حضرت شاہ صاحب نے تقلید کے خلاف آواز کو بلند کیا اور جس انداز اور فکر سے اس کو سامنے لائے وہ ایک غنیمت ہے۔ وہ تقلید و جمود کی بعض جگہ کھل پر تردید کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم مقلدین کا طرز عمل کے زیر عنوان حضرت شاہ صاحب کا فوز الکبیر سے کلام نقل کر چکے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ وہ تقلید میں تقسیم کے قائل تھے ۔ مگر یہ زمانہ کی مجبوری اور حالات کا تقاضا تھا۔ ورنہ شاہ صاحب جمود کے زبردست مخالف تھے ۔ حجتہ اللہ البالغہ میں الکلام علی الفرق بین اہل الحدیث وائل المرای اور الکلام علی حال الناس قبل المائة الرابعہ کے ابواب کی ابحاث قابل دید ہیں جو ہمارے موقف کی مؤید ہیں۔

◈شیخ عبد القادر جیلانی

حضرت شاہؒ صاحب ایمان میں زیادتی اور کمی کے قائل ہیں۔ وہ اعمال کو ایمان کا حصہ کہتے ہیں۔
(غنیۃ الطالبین ص 143 مترجم طبع مکتبہ رحمانیہ لاہور 1394ھ)

اسی طرح وہ صفات باری تعالٰی میں تاویل کے قائل نہیں بلکہ تاویل کے قائلین کو انہوں نے گمراہ فرقوں میں شمار کیا ہے۔ غنیٌہ ص 192 اہل بدعت کی وہ یہ پہچان بتاتے ہیں کہ وہ اہل حدیث کو جھوٹا کہتے ہیں اور ان کی غیبت کرتے ہیں۔
(غنیٌتة ص 175)

سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے حنفیہ کو گمراہ فرقوں کے ضمن میں شمار کرتے ہوئے انہیں مرجیہ و جہمیہ قرار دیا ہے۔
(غنيٌتة ص 192,193)

مگر ہمارے جھنگوی صاحب بعض جزوی مسائل کاذکر کرتے ہوئے آخر اپنے راگ کی تان اس پر توڑتے ہیں کہ باقی اگر صرف رفع الیدین سے آدمی غیر مقلد بن جاتا ہے تو شیعہ رافضی سارے اہل حدیث غیر مقلد ہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 87)
حالانکہ شیعہ تقلید کے قائل ہیں اور اس کو وہ لازم و ضروری اور واجب کا درجہ دیتے ہیں۔
(توضیح المسائل ص 4-1 مؤلفه شینی)
رہا رفع الیدین کا معاملہ تو وہ متعدد مقامات پر مزید بھی کرتے ہیں۔ لہذا اشتراک نہ رہا۔ جبکہ شیخ عبد القادر اور ہماری نماز میں رفع الیدین کے مسنون طریقہ میں اشتراک ہے۔ جبکہ مکحول نفسی نے امام ابو حنیفہ سے نقل کیا ہے کہ جو رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرے تو اس کی نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
(الجواہر المفية ص 180 ج 2)
گو بعض حنفیہ نے اس کی صحت سے انکار کیا ہے۔
(الفوائد البيد ص 217)
مگر ان کا عمل اسی پر ہی ہے کہ مبتد معین دیابنہ کو جتنی چڑا اس سنت سے ہے شاید ہی کسی دوسری سے ہو ۔ حالانکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت متواترہ ہے۔
(الازهار المتناثره)

◈صحابہ کی تقلید

فرماتے ہیں کہ بعض صحابہ مجھد تھے اور بعض غیر مجتہد ۔ تو دوسرے صحابہ کرام مجتہد صحابہ کرام کی تقلید کرتے تھے ۔ نبی صلى الله عليه وسلم کے زمانہ میں یمن میں حضرت معاذ کی تقلید شخصی ہوتی رہی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب الانصاف میں فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ ہر شہر میں کسی نہ کسی صحابی کی تقلید ہوتی تھی۔ حضرت ابن عباسؓ کی مکہ میں حضرت زید بن ثابتؓ کی مدینہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی کوفہ میں اور بصرہ میں حضرت انسؓ کی تقلید ہوتی تھی۔
(تحفہ اہل حدیث ص 90)

الجواب:

اولاً : یہ سب کذب و افترا اور مؤلف کی خود ساختہ کہانی ہے۔ ہمارا چیلنج ہے کہ وہ کسی صحیح و معتبر سند سے ان صحابہ کرام کی تقلید ثابت نہیں کر سکتا۔ راقم حیران ہے کہ یہ شخص خدا اور رسول پر افترا کرنے میں اور صحابہ پر بہتان باندھنے میں اس قدر جری و دلیر کیوں ہے؟

ثانیاً: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ
لا يقلدن احدكم …. رجلا
یعنی دین میں کوئی شخص کسی کی تقلید نہ کرے۔
(طبرانی کبیر ص 152 ج 9)
ھیشمی فرماتے ہیں اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔
(مجمع الزوائد ص 185 وفی نعید الاخر بی ص 182 ج 1)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ
وقد صح اجماع الصحابة كلهم أولهم عن اخرهم واجماع التابعين أولهم عن آخرهم واجماع تبع التابعين أولهم عن أخرهم على الامتناع والمنع من ان يقصد احد الى قول انسان منهم أو ممن قبلهم فياخذه كله
( عقدالجيد ص 40)

یعنی بلا شبه تمام صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین کا اول تا آخر اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ کوئی شخص اپنے میں سے یا سابقین میں سے کسی عالم کے سب اقوال پر عمل نہ کرے ۔
لیکن اس حقیقت کے برعکس جھنگوی صاحب کہتے ہیں کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کی تقلید
کرتے تھے۔ انا للہ وانا اليه راجعون

اگر لوگ ان صحابہ کرام کی تقلید کرتے تھے تو کیا وجہ ہے کہ آپ حضرات صحابہ کرام کی تقلید کی بجائے امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں۔ اور صحابہ کرام کی تقلید سے منع کرتے ہیں۔ جیسا کہ ابن ھمام نے ’’التحریر‘‘ میں صراحت کی ہے۔
(بحوالہ مجموعہ فتاوی عبد المی ص 193 ج 3)

کتنے ستم کی بات ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ حضرت انسؓ کی بصرہ میں تقلید ہوتی تھی۔ مگر آپ کا جید عالم اور خبیث اللسان کوثری حضرت انسؓ کے بارے میں بکواس کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے کہ
وقد انفرد برواية الرضخ انس” في عهد هرمه کانفراده برواية شرب ابوال الابل في رواية قتادة . ومن رأى أبي حنيفة أن الصحابة رضى الله عنهم مع كونهم عدولا ليسوا بمعصومين من مثل قلة الضبط الناشئة من لامية اوكبر السن
(تانیب الخطیب ص 117 طبع مکتبہ اسلامیہ کو ئٹہ)

یعنی اس روایت کو نقل کرنے میں حضرت انسؓ منفرد ہیں جو بڑھاپے اور ان پڑھ ہونے کی وجہ سے قلیل الضبط تھے۔ اس طرح وہ اونٹ کا پیشاب پینے والی روایت میں بھی منفرد ہیں ۔ اور ابو حنیفہ کا اصول یہ ہے کہ صحابہ معصوم نہیں ان پڑھ یا بڑھاپے کی وجہ سے قلت ضبط کی بنا پر ان سے روایت حدیث میں غلطی ہو سکتی ہے۔ نیز انسؓ غیر فقیہ بھی تھے اور غیر فقیہ سیئی الحفظ صحابہ کی روایت فقیہ کے مقابلہ میں مرجوع ہے۔
دیکھیے کوثری نے حضرت انسؓ سے مروی مرفوع احادیث کو رد کرنے کے لیے ان کے بڑھاپے اور ان پڑھ ہونے کا عذر کیا ہے۔ اور ان کو غیر فقہی کہہ کر اپنے خبث باطن کا اظہار کیا ہے۔
گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ جھنگوی صاحب اپنے اکابرین کی تقلید کی وجہ سے در پردہ عقیدہ تو یہی رکھتے ہیں کہ حضرت انسؓ غیر فقہی ان پڑھ اور بڑھاپے کے سبب سترے ہترے گئے تھے ۔ (معاذ اللہ) لیکن یہاں صرف مطلب بر آری کے لیے ان کو بصرہ کا فقہی کہہ کر ان کی تقلید ثابت کر رہے ہیں۔

◈اہل حدیث کے تقلیدی مسائل :

ہمارے فاضل بھائی کو یہ بھی شکوہ ہے کہ اہل حدیث بعض غیر منصوص مسائل میں تقلید کرتے ہیں لیکن مانتے نہیں ہیں۔ پھر جذباتی انداز میں فرماتے ہیں کہ غیر منصوص مسائل ہم جن بزرگوں سے لیتے ہیں ان کو دعائیں دیتے ہیں، غیر مقلدین جن بزرگوں سے مسائل لیتے ہیں ان کو گالیاں دیتے ہیں بس فرق اتنا ہے اس کے بعد انہوں نے تقریباً بیس مسائل کی نشاندہی کی ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 92-90)

الجواب :

اولاً:
حاشاء و کلا ہم کسی بزرگ کو گالیاں نہیں دیتے یہ آپ کا خالص افترا ہے۔

ثانیاً:
یار آپ بڑے خود غرض ہیں کہ صرف جن سے مسائل اخذ کرتے ہیں صرف ان کے حق میں ہی دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن تو فوت شدہ جملہ مومنین کے حق میں مغفرت کی دعا کی تلقین کرتا ہے۔
ثالثاً : اگر اخذ و استفادہ تقلید ہے تو امام ابو حنیفہ بھی ابراہیم نخعی کے مقلد تھے۔ جیسا کہ ہم حضرت شاہ ولی اللہ محدث دھلوی کا کلام نقل کر چکے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ابراہیم نخعی کے اصول و قواعد پر مسائل کا استخراج کرتے تھے اور ان کے اقوال سے باہر نہیں جاتے تھے۔

رابعاً:
یہ بھی غلط بیانی ہے کہ ہم جن سے مسائل لیتے ہیں ان کو دعاخیر سے ہی یاد کرتے ہیں امام ابو حنیفہ نے جابر جعفی سے کسب فیض کیا تھا ان سے ان کی روایات بھی ہیں (جامع المسانيد ص 304 ج 1)

مگر اسی جابر کے متعلق خود ہی فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے بڑھ کر کسی کو جھوٹا نہیں دیکھا۔
(میزان ص 380 ج 1 و كتاب القراة ص34)

جب آپ کے مقتدا کی یہ حالت ہے تو آپ کی بہر حال فروتر ہو گی۔
اس سے بھی بڑھ کر سنئے کہ امت مرحومہ کے سب سے زیادہ محسن صحابہ کرامؓ ہیں۔ مگر ان میں سے بعض کو غیر فقہی (بے وقوف) کہا گیا ہے۔
خامساً : ہمارے نزدیک اصل دلائل تو قرآن و حدیث ہی ہیں لیکن قرآن وسنت کے مفہوم اور معانی میں ہم سلف صالحین سے خروج کو جائز نہیں جانتے۔ حضرت حافظ عبداللہ روپڑی مرحوم فرماتے ہیں کہ جو شخص سلف کی رائے پر اپنی رائے کو ترجیح دے وہ اہل حدیث نہیں۔
(فتاوی اہل حدیث ص 646 ج2)

الغرض ہم اصول و فروع میں صحابہ کرام کے منہج پر گامزن ہیں۔ جو چیز قرآن وسنت سے نہ ملتی ہو اسے ہم آثار صحابہ سے لیتے ہیں۔ غیر منصوص مسائل میں ہم اولہ اربعہ کے قائل ہیں۔ لیکن جمود کے منکر ہیں۔ پوری امت مرحومہ کے فقہاء کے اقوال کو پیش نظر رکھ کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں ۔ ہمارا اور آپ کا فرق یہ ہے کہ آپ امام ابو حنیفہ کے قواعد پر مسائل کا استنباط کرتے ہیں اور نظیر پر نظیر کو محمول کر کے مسئلہ کا حل تلاش کرتے ہیں مگر ہم پوری امت مرحومہ کا امام ابو حنیفہ کو وارث نہیں مانتے۔ بہر حال آیئے آپ کے پیش کردہ مسائل کا ترتیپ دار جواب تحریر کرتے ہیں ان کو ملاحظہ کیجیے۔

◈بھینس کی حلت :

ہمارے بھائی کو یہ شکوہ ہے کہ بھینس کو نام لے کر قرآن وحدیث میں حلال نہیں ٹھہرایا گیا اس میں غیر مقلد تقلید کرتے ہیں مگر مانتے نہیں؟
(تحفہ اہل حدیث ص 90)

الجواب:

اولاً:
حاشاء وکلا ہم حلت و حرمت میں کسی کی تقلید کریں یہ آپ کا ہم پر خالص افترا ہے۔ ہمت ہے تو اس کا ثبوت دیں کہ اہل حدیث بھینس کو فلاں امام کی تقلید میں حلال جانتے ہیں۔ حوالہ کسی اہل حدیث محقق کا ہو اور صحیح ہو ۔ کیونکہ آپ کو جھوٹ بولنے کی کثرت سے عادت ہے۔

ثانیاً:
شریعت میں حلت و حرمت کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ حرام کو بیان کر دیا گیا ہے
اور حلال کی وضاحت نہیں کی گئی۔ ارشاد ربانی ہے کہ
وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ (الانعام: 119)
اور جو حرام ٹھہرادی ہیں ان کی تفصیل بیان کر دی ہے۔
جانوروں کے متعلق رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے یہ اصول بتایا ہے کہ
كل ذي ناب من السباع فاكله حرام
ہر کچلی والا درندہ کھانا حرام ہے۔
(صحیح مسلم ص 147 ج 2 و مشکوۃ ص 359)

حضرت ابن عباسؓ راوی ہیں کہ
نهى رسول الله عن كل ذي ناب من السباع وكل ذي مخلب من الطير
(صحیح مسلم ص 147 ج 2 و مشکوۃ ص 359)
رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی والے درندے اور پنجے کے ساتھ شکار کرنے والے پرندے کے کھانے سے منع کیا ہے۔ اس ارشاد نبوی کی روشنی میں ہر عاقل و سمجھدار دیکھ سکتا ہے کہ بھینس ذی ناب درندہ ہے کہ نہیں۔ اگر کچلی والی درندہ نہیں۔ یقیناً نہیں تو فرمان نبوی اور دستور سے یہ حلال ثابت ہوئی۔ اس میں بھلا تقلید کی کونسی بات ہے۔

ثالثاً:
ابن عباسؓ فرماتے ہیں :
فما احل هو حلال مما حرم فهو حرام وما سكت عنه فهو عفو
(ابوداؤد کتاب الاطعمة باب مالم یذکر تحریمہ حدیث نمبر 3800)

اللہ تعالی نے جس کو حلال قرار دیا ہے وہ حلال ہے اور جس کو حرام قرار دیا ہے وہ حرام ہے اور جس سے خاموشی اختیار کی ہے وہ قابل عفو ہے ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت سلمان فارسی سے مرفوع حدیث ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
وما سكت عنه فهو مما عفا عنه
شیخ البانی اور گوندلوی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے جس سے واضح ہے کہ شریعت نے جس چیز سے خاموشی اختیار کی ہے وہ در اصل حالت کے حکم میں ہے۔ بھینس کے بارہ میں شریعت نے کہیں حرام ہونے کا حکم نہیں لگایا جس سے ظاہر ہے کہ بھینس حلال ہے۔ مگر جھنگوی اس اصول سے ناواقف ہے اس لئے اہل حدیث پر تقلید کا الزام لگاتا ہے۔

رابعاً:
کیا آپ امام ابو حنیفہ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت کر سکتے ہیں کہ انہوں نے بھینس کا نام لے کر اس کی حلت کی وضاحت کی ہو۔

◈سنن و فرائض کی تقسیم :

اس کے تحت وہی پرانی رام کہانی پیش کرتے ہیں کہ سنن و فرائض کی حدیث سے تقسیم ثابت نہیں جبکہ فقہ سے ثابت ہے۔ اور یہ تقلید ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 91)
اس کا جواب را قم تفصیل سے عرض کر چکا ہے اور احادیث صحیحہ سے ثبوت دے چکا ہے۔

◈قنوت میں ہاتھ اٹھانا :

فرماتے ہیں کہ اہل حدیث وتروں میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں۔ یہ امام شافعی کی تقلید کرتے ہیں یہ مسئلہ حدیث میں نہیں ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 91)

الجواب :

اولاً:
آپ نے حدیث پڑھی نہیں صرف آپ کو ایک سال دورہ پڑا تھا ورنہ اس پر حدیث موجود ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ
فلقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة الغداة رفع يديه فدعا عليهم
(الحديث) (مسند احمد ص 137 ج 3)

میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ صبح کی نماز میں آپ نے ہاتھ اٹھا کر دشمنان اسلام پر بددعا کی۔
علامہ البانی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
(ارواء الغلیل ص 181 ج 2)
یہ حدیث گو قنوت نازلہ کے بارے میں ہے لیکن قنوت وتر کو بھی یہ شامل ہے۔
سیدنا عمر فاروقؓ، ابن عباسؓ، عبد اللہ بن مسعودؓ، اور ابوہریرہؓ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ (قیام اللیل ص 230 ومرعاة ص 300 ج 4)

ثانیاً:
اس سنت مصطفی ﷺ کے منکرو اور تعامل صحابہ سے بغاوت کرنے والو ذرا اس کی بھی وضاحت کیجیے تکبیر کہہ کر رفع الیدین کرتے ہوئے دوبارہ ہاتھ باندھ کر دعا قوت مانگنے کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے۔ یہاں حدیث مرفوع درکار ہے کیونکہ ہم نے مرفوع متصل اور صحیح حدیث پیش کی ہے۔

◈مسئلہ طلاق ثلاثہ :

فرماتے ہیں کہ مسئلہ طلاق میں ابن تیمیہ کی تقلید کرتے ہیں۔

الجواب:

اولاً:
جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ (تحفہ اہل حدیث ص 91)

ثانیاً:
ایک دم دی گئی طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پر قرآن وحدیث کے دلائل ہمارے ساتھ ہیں۔ تفصیل دین الحق حصہ دوم میں راقم نے بیان کر دی ہے۔ یہاں اختصار کی بنا پر عرض ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی پوری زندگی مبارک حضرت ابو بکرصدیقؓ کی پوری مدت خلافت میں اور ابتداء خلافت فاروقی کے دو سالوں تک ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی صحیح مرفوع متصل حدیث اس پر گواہ ہے۔
(صحیح مسلم ص 477ج1)
حضرت رکانہ نے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو رسول اللہ نے اسے ایک ہی رجعی طلاق قرار دیا تھا۔
(مسند احمد ص 265 ج 1 و بیہقی ص 339 ج 7 و ابو یعلی ص 64 ج 2)

ثانیاً:
آپ بھی ذرا وضاحت کریں کہ حلالہ میں آپ کن لوگوں کے مقلد ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو اس رسم بد میں آپ کفار عرب کی تقلید کرتے ہیں۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ میں تم کو ادھار لیا گیا سانڈ نہ بتاؤں ؟ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ ﷺ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا
هو المحلل لعن الله المحلل والمحلل له
وہ حلالہ کرنے والا ہے، اللہ کی لعنت ہو جس نے حلالہ کیا اور جس نے کروایا۔
(ابن ماجہ (1936) متدرک حاکم ص 198 ج 2 و بیہقی ص 208ج7)

اس ارشاد نبوی کے بر عکس حنفیہ کا موقف یہ ہے کہ حلالہ اگر اس غرض سے کیا جائے کہ حلالہ کرنے والا یہ قصد کرلے کہ یہ عورت میرے پہلے بھائی کے لیے حلال ہو جائے تو اس کی اس نیت پر اسے اجر ملے گا۔
(فتح القدير ص 34 ج 4 والبحر الرائق ص 58 ج 4)

◈ثناء و تعوذ کا آہستہ پڑھنا :

فرماتے ہیں نماز میں ثناء ، تعوذ آہستہ پڑھنا چاہیے ۔ فقہ کا مسئلہ ہے اس میں غیر مقلدین اہل فقہ کی تقلید کرتے ہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 91)

الجواب :

اولاً:
ہمیں آپ سے ایک شکوہ ہے وہ یہ کہ آپ خود مطالعہ کر کے اعتراض نہیں کرتے بلکہ ماسٹر محمد امین صفدر کی قے خوری کرتے ہیں۔ لیکن نام نہیں لیتے۔

ثانیاً : اگر آپ کتب فقہ کی بجائے سنت سے محبت کے جذبہ سے کتب حدیث اور اسوہ رسول صلى الله عليه وسلم کو پڑھتے تو یقیناً آپ ایسا فضول دعوئی نہ کرتے۔ حضرت ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ كان رسول الله يسكت بين التكبير وبين القرأة اسكانة قال احسبه قال هنية فقلت بابی و امی یارسول الله اسكاتك بين التكبيرو بين القراة ما تقول قال اقول اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم تقنى من الخطايا كما ينقى الثوب الابيض من الدنس اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج والبرد
رسول اللہ ﷺ تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان تھوڑی دیر خاموش رہتے ،ابو زرعہ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ابو ہریرہؓ نے یوں کہا کہ یارسول اللہ صلى الله عليه وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان کی خاموشی میں کیا پڑھتے ہیں ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں پڑھتا ہوں
اللهم باعد بینی و بین خطایای کما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من الخطايا كما ينقى الثوب الابيض من الدنس اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج والبرد (بخاری ص 103 ج 1 ء مسلم ص 219 ج 1)
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ حضرت انسؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نماز میں قرآت کو الحمد للہ رب العلمین سے شروع کرتے۔ (بخاری ص 103 ج 1 و مسلم ص 172 ج 1)
ان دونوں احایث صحیحہ مرفوعہ سے ثابت ہوا کہ قرآت سے پہلے ثناء تعوذ جہر سے نہیں بلکہ آہستہ پڑھنا مسنون ہے۔

ثالثاً:
حنفی مقلدین جو نگاہ پڑھتے ہیں اس کا کیا ثبوت ہے کیا آپ اس پر کوئی مرفوع حدیث پیش کر سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں ہم آپ کو سنت مصطفی ﷺ پر عمل کی دعوت دیتے ہیں۔ اللہ آپ کو توفیق دے۔

◈امام کی تکبیرات انتقال کو مقتدی بلند کیوں نہیں کہتا؟ :

اس سلسلہ میں جھنگوی صاحب نے تکبیر تحریمہ اور سلام کا ذکر کیا ہے کہ اس کی تقسیم حدیث سے ثابت نہیں کہ امام بلند کہے اور مقتدی آہستہ ۔ بلکہ یہ فقہ کا مسئلہ ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 91)

الجواب:

اولاً:
نماز ذکر ہے۔
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي (طہ ۱۴)
اور میرے ذکر کے لیے نماز پڑھا کرو ( 20-14) اور ذکر میں اصل اخفا ہے۔ ارشاد ربانی ہے
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً (الاعراف: 55)
’’اپنے رب کو عاجزی اور چپکے چپکے سے پکارو۔ ‘‘

نماز تو بالخصوص ذکر ہے اور اس میں شرعی طور پر اخفا ہے اور اس پر صحیح صریح حدیث موجود ہے۔ تفصیل کے لئے کتاب ھذا کا حصہ اول فصل چہارم میں (16) عداوت اہل حدیث میں حدیث رسول صلى الله عليه وسلم کا انکار کے زیر عنوان ملاحظہ کریں۔
قارئین کرام جب آپ نے اس بات کو بخوبی سمجھ لیا ہے، تو اب جہاں اور جس جگہ کے لیے جہر ثابت ہوگا وہ تو بلند آواز سے کہے گا باقی اصل حالت اخفا میں رہیں گے۔ امام کا تکبیر تحریمہ سلام پھیرنا اور دیگر تکبیرات انتقال کا بلند آواز سے کہنا احادیث متواترہ سے ثابت ہے ۔ اس کا انکار محض ضد اور تعصب کی وجہ سے کیا جارہا ہے ۔ اور یہ لاعلاج مرض ہے۔ الغرض حدیث میں امام کی تکبیرات و تحمید کے بلند آواز سے کہنے کا ذکر موجود ہے۔
(بخاری ص 114 ج 1 و بیہقی ص 18 ج 2)

جبکہ مقتدی کا تکبیرات وغیرہ کا بلند کہنا ثابت نہیں پوری امت محمدیہ کا نسل در نسل تواتر سے مقتدی کا آہستہ کہنا ہی عمل ہے۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے مرضی الموت میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو امامت کرنے کا حکم فرمایا جماعت کھڑی ہو گئی تو خود رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بازو میں بیٹھ کر امامت کروائی مگر رسول اللہ ﷺ کی آواز بوجہ بلند نہ تھی، جس کی وجہ سے مکبر کی ضرورت پیش آئی اور حضرت ابو بکر مکبر بن کر تکبیرات انتقال بلند آواز سے کہنے لگے بخاری میں ہے کہ وابو بكر يسمع الناس التكبير (رقم الحديث 712) باب من اسمع الناس تکبیر الامام یعنی حضرت ابو بکر لوگوں کو نبی صلى الله عليه وسلم کی تکبیر سنا رہے تھے
اگر امام اور مقتدی دونوں ہی بلند آواز سے تکبیرات کہنے کے مکلف ہوتے تو سیدنا ابو بکر کو مکبر بننے کی ضرورت نہ تھی۔

ثانیاً:
امام تو تکبیرات وغیرہ کو بلند آواز سے مقتدی کے لیے کہتا ہے تاکہ وہ متابعت کرے جیسا کہ حدیث ہے کہ امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پوری پوری اقتدا کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ (الحديث مسلم ص 177ج1)
یہ حدیث برہان ہے کہ امام کو تکبیرات بلند کہنی چاہیں جبکہ مقتدی کے بلند کہنے کا ثبوت آپ دیجیے۔

ثالثاً:
جب مقتدی تکبیرات و تحمید اور باقی اذکار نماز کو جہر سے ادا کرے گا تو منازعت کی صورت پیدا ہو گی۔ اور یہ بالا تفاق ناجائز ہے۔
حضرت عمران بن حصینؓ راوی ہیں کہ
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی (پھر نماز کے بعد ) فرمایا کہ تم میں سے کس نے میرے پیچھے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى پڑھا تھا۔ ایک شخص نے عرض کیا میں نے پڑھا تھا ۔ اور میرا ارادہ اس سے صرف ثواب تھا۔ تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ
قد علمت ان بعضكم خالجنيها
میں سمجھا کہ تم میں سے کوئی مجھ سے قرآن چھین رہا ہے۔ (صحیح مسلم ص 172 ج 1 او نسائی ص 111 ج 1 وابو عوانہ ص 132 ج 2 ومسند احمد ص 431 ج 4)
اس فرمان میں اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے مقتدی کو بلند آواز سے پڑھنے سے منع کیا ہے۔

جیسا کہ امام نووی نے (شرح صحیح مسلم) میں علامہ ابن عبدالبر نے (التمہید ص 52 ج 11) میں اور علامہ شوکانی نے (نیل الاوطار ص 229 ج 1) میں صراحت کی ہے۔

علامہ محمد طاہر فتنی مرحوم حنفی التونی 986ھ فرماتے ہیں کہ
خلج جهر خلفه قارى فقال خالجنيها اى نازعنيها كانه ينزعها من لسانه ولا يدل على منع القراة لانه انما انكر الجهر بل فيه انهم كانوا يقرؤونها خلفه
یعنی خلیج کا مفاد یہ ہے کہ پڑھنے والے نے آپ کے پیچھے بلند آواز سے پڑھا تھا۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ (خالجنيها) یعنی مجھ سے جھگڑا کر رہا تھا جیسا کہ وہ میری زبان سے الفاظ قرآن کو چھین رہا ہے۔ تو یہ الفاظ نبوی قراۃ خلف الامام کی ممانعت پر دلالت نہیں کرتے۔ کیونکہ آپ علیہ السلام نے اس شخص پر انکار بلند آواز کے پڑھنے پر کیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام آپ علیہ السلام کے پیچھے قرآۃ کرتے تھے۔
(مجمع بحار الانوار ص 83 ج 2)
لیجیے جناب اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مقتدی کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ اذکار نماز کو آہستہ پڑھے لیکن کسی خاص ذکر کا بلند کرنا ثابت ہو تو وہ جدا ہے۔

رابعاً:
فقہ سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ اگر فقہ فی الدین ہے تو اس کے ہم منکر نہیں بلکہ اصل امت کے فقہا ہی محدثین ہیں۔ اگر فقہ سے آپ کی مراد اقوال الرجال اور فقہ حنفی کے متون و شروح ہیں تو بتائیے کہ یہ فقہ پہلے مرتب ہوئی یا نماز کی فرضیت ؟ اور ان کے اذکار وارکان کی کما حقہ رسول اللہ ا نے توضیح و تشریح کی تھی یا کہ نہیں ؟
اگر آپ کہہ دیں کہ نماز بعد میں فرض ہوئی اور اس کی پوری تفصیل اللہ کے حبیب صلى الله عليه وسلم نے بیان نہیں کی اور فقہ حنفی کے متون و شروح اس سے پہلے کے ہیں تو یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے جو تمہارے کے سوا شیطان بھی بولتے ہوئے شرمائے۔ اگر آپ اس بات کا اقرار کرلیں کہ واقعی نماز کی فرضیت پہلے ہوئی اور اس کی پوری وضاحت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے بیان کر دی تھی تو اس اعتراف سے آپ کے سارے دعوے باطل و مردود ہو گئے ۔ کیونکہ آپ نے صاف اقرار کر لیا کہ نام ابو حنیفہ کی پیدائش 80 سے پہلے بھی امت مرحومہ نماز ادا کرتی تھی اور یہ طریقہ نماز پوری امت مرحومہ میں معروف تھا۔ تبع تابعین نے تابعین کرام سے اخذ کیا اور تابعین نے صحابہ کرام سے اس طریقہ نماز کو سیکھا۔ یہ اب آپ کی صواب دید پر ہے کہ بتائیں کہ صحابہ کرام نے نماز کس سے سیکھی؟ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم سے یا آپ کے فقہاء سے ؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ ان مسائل کا حدیث سے ثبوت نہیں تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ فقہ حنفی کی تدوین تک دین ناقص تھا اس کی تکمیل فقہ حنفی کی تدوین کے بعد ہوئی.

خامساً:
آپ حنفی ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں۔ آپ اس کی صراحت کریں کہ امام ابو حنیفہ نے ان مسائل کو کہاں بیان کیا ہے ؟ یہاں بعد کے فقہاء کا نام نہ لینا بلکہ صریحاً امام ابو حنیفہ کا قول پیش کرنا ۔ اگر آپ صحیح سند سے امام ابو حنیفہ کا قول پیش کر دیں تو ہم آپ کو حق محنت کے عوض یک صد روپیہ انعام دیں گے ۔ اگر آپ پیش نہ کر سکے یقیناً پیش نہیں کر سکیں گے تو پھر کس منہ سے فقہ کا نام لیتے ہو؟

◈امام کا سلام بلند اور مقتدی کا آہستہ :

فرماتے ہیں کہ امام سلام بآواز بلند کہتا ہے ۔ مقتدی آہستہ آواز سے یہ مسئلہ فقہ کا ہے حدیث کا نہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 91)

الجواب:

اولاً : آپ غلط بیانی کرنے کے عادی ہیں ورنہ یہ مسئلہ فقہ کی بجائے۔ حدیث سے ثابت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے نماز سے فارغ ہونے کو لوگوں کے بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے سے جان لیتا تھا۔ (بخاری کتاب الصلوة باب الذكر بعد الصلوة)
حضرت ابن عباس بچے تھے اور آخری صف میں کھڑے ہوتے تھے ، جنہیں نبی ﷺ کے سلام کی آواز نہ پہنچ پاتی سلام کے بعد جب صحابہ کرام مل کر اللہ اکبر کہتے تو وہ جان لیتے کہ رسول اللہ اللہ نے سلام پھیر دیا (فتح الباری) اس سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی اقتداء میں سلام کو آہستہ کہتے تھے۔ الغرض یہ مسئلہ حدیث اور امت مرحومہ کے تواتر عمل جو نسل در نسل چلا آ رہا ہے سے ثابت ہے۔ گویا اس پر امت کا اجماع ہے۔ الغرض یہ مسئلہ تو فقہ حنفی کے مرتب ہونے سے پہلے بلکہ امام ابو حنیفہ کی پیدائش سے بھی قبل امت مرحومہ کا معمول یہ تھا۔ لہذا آپ یہ ثابت کریں کہ فقہ حنفی کے مرتب ہونے سے قبل مسلمانوں میں آج کے عمل کے برعکس تعامل تھا۔ اگر آپ ثابت نہیں کر سکتے یقیناً ثابت نہیں کر سکتے تو پھر کس منہ سے فقہ کا نام لیتے ہو ؟

ثانیاً:
امام کے تکبیرات انتقال بلند آواز سے کہنے پر حدیث موجود ہے ۔ (بخاری ص 114 ج 1) اس کی حکمت یہی ہے کہ مقتدی امام کی متابعت کرتے ہوئے اس کی اقتدا کرے اگر امام سلام کو آہستہ کہے گا تو مقتدی کو کیسے پتہ چلے گا کہ امام نے سلام پھیر دیا ہے۔ خصوصاً جبکہ نمازی نے اسوہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی پیروی میں تشہد میں اپنی نگاہ کو دائیں ہاتھ کی انگلی پر مرکوذ رکھا۔ (ابوداؤد مع عون ص 376 ج 1 و نسائی ص… وابن خزیمہ (718) وابو عوانہ ص 226 ج 2 و بیہقی ص 132 ج 2)
اس سے واضح ہے کہ مقتدی کو تشہد کی حالت میں پیش امام کی طرف دیکھنے کی بجائے رفع سبابہ کرتے ہوئے انگلی پر نگاہ رکھنا مسنون ہے۔ جبکہ سلام کے متعلق شرعی حکم ہے کہ جب امام سلام کہے تو تم بھی سلام پھیر دو۔ جیسا کہ عتبان بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ (صلينا مع النبي صلى الله عليه وسلم فسلمنا حين سلم ) (بخاری رقم الحدیث 838)
یعنی ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی اور ہم نے اس وقت سلام پھیرا جب آپ علیہ السلام نے سلام پھیرا تھا۔
اگر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے پوشیدہ و آہستہ سلام پھیرا تھا تو صحابہ کرام (جن میں حضرت ابو بکر صدیق جیسے متقی و عابد بھی تھے ) کو کیسے پتہ لگ گیا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے سلام پھیر دیا ہے۔ جس سے واضح ہوا کہ امام سلام کو بلند آواز سے ہی کہے گا اور یہ مسنون طریقہ ہے۔ ہاں البتہ مقتدی آہستہ ہی سلام کہے گا کہ اس کے بلند کرنے پر کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔

ثالثاً:
یہ طریقہ تو امت مرحومہ میں اجماع کے ساتھ تواتر سے نسل در نسل چلا آ رہا ہے آپ اس میں اختلاف ثابت کریں اور پھر تقلید ابو حنیفہ کی وجہ سے اتفاق ثابت کریں تو ایک بات ہے خالی آپ کے دعوی کو کون سنتا ہے۔

رابعاً:
آپ کے نزدیک تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد اگر نمازی نے سلام پھیرنے کی بجائے کوئی فعل منافی نماز کے جان بوجھ کر کر دیا مثلا کلام کر دیا یا ہوا خارج کر دی تو اس کی نماز ہو جائے گی۔ (مستملی ص 298) اس کا ثبوت دیجیے۔

◈رکوع کی تسبیحات :

فرماتے ہیں کہ رکوع و سجدہ کی تسبیحات آہستہ پڑھنی چاہئیں یہ مسئلہ فقہ کا ہے۔حدیث کا نہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 91)

الجواب:

اولاً :
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد جن لوگوں کے پیچھے نمازیں ادا کی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی نماز کے مشابہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی نماز تھی اور ہم نے آپ کی رکوع و سجدات کی تسبیحات کا اندازہ دس تسبیحات لگایا۔
(ابوداؤد ص 331 ج 1 1 بیتی ص 110 ج 2)
جس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ کو رکوع و سجود کی تسبیحات کو آہستہ کہتے تھے اور خیر القرون میں اس پر عمل تھا۔ اگر بلند آواز سے کہی جانی تھیں تو حضرت انس انداذہ کی بجائے فرماتے ہم نے دس تسبیحات کو شمار کیا۔

ثانیاً:
آپ یہ ثابت کریں کہ اس پر تواتر سے امت مرحومہ میں تعامل نہیں ہے۔ اگر آپ یہ ثابت نہ کر سکیں تو پھر فقہ کا نام کس منہ سے لیتے ہو ؟

ثالثاً : یہ تو بتائیے کہ آپ کے نزدیک رکوع و سجدہ کی تسبیحات کے بغیر نماز ہو جاتی ہے اس کا کیا ثبوت ہے؟

◈جماعت سنن کی ہوتی ہے کہ فرائض کی :

فرماتے ہیں کہ سنتیں اکیلی پڑھی جاتی ہیں۔ جماعت صرف فرضوں کی ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ فقہ کا ہے حدیث کا نہیں ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 91)

الجواب:

اولاً:
اس پر اس قدر احادیث ہیں کہ اگر ان کو ہم لکھنا شروع کر دیں تو بات لمبی ہو جائے گی۔ مگر جھنگوی صاحب دو پہر کے وقت سورج کا انکار کرنے کی قسم کھانے بیٹھے ہیں۔ بہر حال مختصر عرض ہے کہ ہم جو دن میں پانچ نمازوں کے ساتھ بارہ سنتیں پڑھتے ہیں یہ در اصل نوافل ہیں۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
(مسلم ص 250 ج 1)
ان کے متعلق آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا معمول یہ تھا کہ انہیں گھر میں ادا کرتے تھے۔ ام المومنین صدیقہ کائنات حضرت عائشہؓ راویہ ہیں کہ
كان يصلي في بيتى قبل الظهر اربعاً ثم يخرج فيصلي بالناس ثم يدخل فيصلى ركعتين وكان يصلي بالناس المغرب ثم يدخل فيصلى ركعتين ويصلي بالناس العشاء ويدخل بيتي فيصلي ركعتين وكان يصلى من الليل تسع ركعات فيهن الوتر و كان بصلى ليلا طويلا قالما وليلا طويلا قاعدا وكان اذا قرا وهو قائم ركع وسجد وهو قائم و ذا قرأ قاعدا ركع وسجدو هو قاعدو كان اذا طلع الفجر صلى رکعتین
(مسلم ص 252 ج 1)
یعنی آپ علیہ السلام میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعت (نفل) پڑھتے تھے پھر باہر تشریف لے جاتے اور لوگوں کے ساتھ فرض نماز پڑھتے تھے اور پھر گھر میں آکر دور کعت (نفل) پڑھتے تھے اور لوگوں کے ساتھ مغرب پڑھتے پھر گھر آکر دور کعت (نفل) پڑھتے اور لوگوں کے ساتھ عشاء پڑھتے اور پھر میرے گھر تشریف لاکر دور کعت (نفل) پڑھتے اور رات کو نو رکعت پڑھتے انہیں میں وتر ہوتا اور لمبی رات تک کھڑے کھڑے پڑھتے تھے اور لمبی رات تک بیٹھ کر پڑھتے اور کھڑے ہو کر قرآت فرماتے تو رکوع و سجود بھی کھڑے ہو کر کرتے تھے ۔ اور جب قرآت بیٹھ کر کرتے تو رکوع و سجود بھی بیٹھ کر کرتے تھے اور جب طلوع فجر ہو جاتی تو دور کعت (نفل) پڑھتے۔
(ترجمہ صحیح مسلم ص 616 ج1 مترجم مولوی عابد الرحمن صدیقی کاندھلوی دیوبندی طبع قرآن محل کراچی)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت جماعت کراتے وقت فرض ادا کرتے تھے اور سنن گھر میں منفر د پڑھتے تھے۔

ثانیاً:
متعدد احادیث میں جماعت کی نماز پر صلوۃ فجر صلوۃ ظہر ، صلوة عصر ، صلوة مغرب صلوة عشاء کے الفاظ بولے گئے ہیں۔ مثلا امامت جبریل کے واقعہ کو ہی دیکھ لیجیے۔
ہمارا یہ دعوی ہے کہ یہ فقط فرائض پر ہی بولا جاتا ہے جس کا قرینہ متعدد احادیث میں (صلى قبل الظهر اربعا) کے الفاظ ہیں اور امامت جبریل میں بھی (صلی بی الظهر) وغیرہ کے الفاظ ہیں۔
(مسند احمد ص 333 ج 1 وابوداؤد ص 62 ج 1)
لہذا آپ کسی دلیل شرعی سے ثابت کریں کہ یہ الفاظ نوافل وفرائض کے در میان مشترک ہیں مثلا اگر کسی نے ظہر کے وقت میں چار رکعت نوافل ادا کئے تو ان نوافل پر بھی قرآن و سنت میں (صلوة الظهر) وغیرہ کے الفاظ بولے گئے ہیں۔ اگر آپ یہ ثابت کر دیں تو آپ کو منہ مانگا انعام دیا جائے۔ یہ بات الگ ہے کہ جھنگوی صاحب انعام سے محروم رہے۔ آپ کیا اگر قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی اور محمود حسن خاں بھی زندہ ہو کر آجائیں تو اس کا ثبوت پیش نہیں کر سکتے۔ جب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی تو اب سنئے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت مالکؒ بن حویرثؓ کو حکم دیا تھا کہ
(فاذا حضرت الصلوة فليوذن احدكم ثم ليومكم اكبركم)
یعنی جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے اور سب سے بڑا امامت کرائے۔ ( صحیح مسلم ص 236 ج 1)

ثالثاً:
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ فرض نماز کے لیے اذان کے ساتھ جماعت کروائی جائے۔ جبکہ آپ یہ ثابت کریں کہ اذان کے ساتھ نوافل کی جماعت کروانا بھی جائز ہے۔

◈آمین کو بلند آواز سے کہنے کا ثبوت :

فرماتے ہیں کہ صبح ،مغرب، عشاء میں مقتدی کا آمین بلند کہنا اور ظہر اور عصر کی نماز میں نہ کہنا یہ حدیث کا مسئلہ نہیں ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 91)

الجواب:

اولاً:
یہاں مؤلف نے اس دعوئی کو ترک کر دیا ہے کہ یہ فقہ کا مسئلہ ہے حالانکہ ثابت تو یہ کر رہے ہیں کہ اہل حدیث بھی مقلد ہیں مگر تقلید کی دلیل دینے کی بجائے عمل اہل حدیث کا ثبوت مانگ رہے ہیں۔

ثانیاً:
آمین کے عمل کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔
(بخاری ص 108 ج 1 و مسلم ص 176 ج 1)
جس سے ثابت ہوا کہ جہری نمازوں میں آمین جہر سے اور سری میں سری کہی جائے گی۔ وجہ یہ کہ اگر امام نے آمین ہی آہستہ کہی تو مقتدی کو کیسے پتا چلے گا کہ امام نے آمین کہی ہے ظاہر ہے کہ یہ صورت صرف جہری نمازوں میں ہی پیش آسکتی ہے۔

ثالثاً:
اما محمد نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ امام آمین بلند یا آہستہ کہے ہی نہ (اف لکم ) (موطا امام محمد ص 103) یہی قول علامہ خوارزمی حنفی نے علامہ سرخسی کی مبسوط سے نقل کیا ہے۔
(کفایہ شرح ہدایہ ص 256 ج 1)
تفصيل دين الحق ص 314 ج 1 میں دیکھئے اس کا ثبوت دیجیے۔

◈اگر تعوذ و ثناء رہ جائے :

فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کی تعوذ یا ثناء رہ جاتی ہے اس کی نماز ہو گی یا نہیں ہو گی۔یہ مسئلہ فقہ کا ہے حدیث کا نہیں ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 92)

الجواب:

اولاً:
ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے صحابی سے دریافت کیا کہ اے میرے بھتیجے جب تو نماز ادا کرتا ہے تو تو کیسے قرآت کرتا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ
اقرء بفاتحة الكتاب واسال الله الجنة واعوذ به من النار واني لا ادرى مادندنتك ولادندنة معاذ فقال النبي لانى و معاذ حول هاتين
میں سورہ فاتحہ پڑھتا ہوں اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ علیہ السلام کیا قرآت کرتے ہیں اور معاذ کیا کرتارہتا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
میں اور معاذ بھی جنت اور دوزخ کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں۔
(سنن ابی داؤد مع عون ص 292 ج 1)
اس کی سند صحیح ہے۔ اور ایک ضعیف روایت ابن عباسؓ میں بھی سورہ فاتحہ پر اقتصار کی صراحت ہے۔
(مسند احمد ص 282 ج 11 بیتی ص 62 ج 2)
یہ حدیث اس بات پر گواہ ہے کہ اگر ثناء رہ جائے تو نماز ہو جاتی ہے۔
ثانیاً:
حنفیہ کا موقف ہے کہ مسبوق جب باقی نماز کو ادا کرنے کے لیے کھڑا ہو تو وہ ثناء و تعوذ کو پڑھے۔
(فتاوی عالم گیری ص 1 9 ج 1)
اس عمل پر آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ مقتدی باقی ماندہ رکعات میں ثناء پڑھے۔

◈سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی کیفیت :

فرماتے ہیں کہ دو سجدوں کے درمیان ہاتھ کہاں رکھنے چاہئیں۔ یہ مسئلہ حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ فقہ سے ثابت ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 92)

الجواب:

اولاً:
کیارسول اللہ ﷺ نے نماز میں بیٹھنے کا طریقہ نہیں بتایا؟ اگر بتایا ہے یقیناً بتایا ہے تو پھر یہ اعتراض لغو ہے۔

ثانیاً:
آپ کا دعویٰ ہے کہ فقہ حنفی قرآن و سنت کا نچوڑ ہے تو اس میں کہا گیا ہے کہ تشہد کی طرح بیٹھے۔
(مستملی ص 322)

سوال یہ ہے کہ آیا یہ قرآن وسنت کے موافق ہے یا مخالف ؟ اگر آپ کہہ دیں کہ یہ قرآن و سنت کے موافق ہے تو خود آپ کی زبانی ہی اعتراض لغو ثابت ہوا۔ اور اگر یہ کہہ دیں کہ یہ قرآن وسنت سے ماخوذ نہیں، تو آپ کا دعویٰ کہ فقہ حنفی قرآن و سنت کا نچوڑ ہے، باطل ہوا۔

ثالثاً:
جس صحابی نے جلدی جلدی نہ نماز ادا کی تھی اس کو آپ صلى الله عليه وسلم نے دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی کیفیت بتاتے ہوئے کہا تھا کہ
فاقعد على فخذك اليسرى
یعنی دونوں سجدوں کے درمیان بائیں ران پر بیٹھ۔
(ابوداود مع عون ص 321 ج 1)
اس فرمان نبوی کے بر خلاف حنفیہ نا یہ موقف ہے کہ
دونوں پاؤں دائیں طرف بچھا کر سرین پر بیٹھیں (مستملی ص 333 و نماز مسنون ص 371)
اس پر آپ قرآن و سنت سے کوئی واضح دلیل پیش کریں

رابعاً:
یہ دعویٰ آپ کے مسلمات کے خلاف ہے کیونکہ فریقین کے نزدیک اس میں ہاتھ رکھنے کی کیفیت تشہد کی طرح ہے اور اس شخص سے زیادہ نادان و جاہل کون ہے جو خصم پر ایسا اعتراض کرتا ہے جس کی زد میں وہ خود آتا ہو۔ رہا یہ اعتراض کہ یہ تقلید ہے بھائی یہ تقلید نہیں اجماعی مسائل میں موافقت ہے۔ آپ تصنیف و تالیف کی بجائے پہلے علوم رسمیہ میں تجربہ حاصل کریں۔

◈رکوع کے بعد ہاتھوں کو کھولنا :

فرماتے ہیں کہ قومہ میں ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں یہ مسئلہ حدیث کا نہیں اس میں غیر مقلدین اہل فقہ کی تقلید کرتے ہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 92)

الجواب:

اولاً:
ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ موافقت اور تقلید میں فرق ہے۔ کسی اصول میں موافقت کا نام تقلید نہیں رکھا۔ حضرت عمر فاروق کی رائے کے موافق متعدد آیات قرآن میں نازل ہو ئیں تو کیا اللہ تعالی بھی عمر فاروق کی تقلید کرتا تھا۔ – لا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم۔ آپ تصنیف کی بجائے کسی اچھے طبیب سے اپنا علاج کروائیں اور ساتھ ساتھ لاحول کا وظیفہ بھی کریں اور زیادتی علم کی دعا بھی کریں ان شاء اللہ اس اکسیر سے شفاء ہو گی۔

ثانیاً:
حالت قیام سے جب اللہ کے رسول اللہ ہی رکوع میں جاتے تو باندھے ہوئے ہاتھ کو کھول کر رفع الیدین کرتے پھر رکوع میں جاتے جیسا کہ ابن عمر کی حدیث۔ ( بخاری ص 102 ج 1 ء مسلم ص 165 ج 1) اور حضرت وائل بن حجرہ کی حدیث(مسلم ص 173 ج 1) سے ثابت ہوتا ہے اب حالت قیام میں ہاتھوں کو کھولنا تو ثابت ہوا۔ رکوع کے بعد کے قیام میں باندھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ رکوع کے بعد قومہ میں ہاتھوں کو لٹکا کر رکھنا ہی مسنون ہے۔

◈شرائط نماز :

فرماتے ہیں کہ غیر مقلدین کی نماز کی شرائط حدیث سے نہیں ملتیں۔ شرائط نماز میں احناف کی تقلید کرتے ہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 92)

الجواب:

اولاً:
شرائط نماز سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اگر وہی ہے جو حنفی بیان کرتے ہیں تو آپ پہلی فرصت میں اپنے استاذ المکزم صوفی عبدالحمید سواتی کی تالیف (نماز مسنون ص 264 274) تک مطالعہ کریں جہاں انہوں نے قرآن اور احادیث سے شرائط نماز کو بیان کیا ہے اگر ان کے دلائل صحیح ہیں تو آپ کا اعتراض لغو ہے ۔

ثانیاً:
شرائط نماز میں احناف نے تطہیر بدن، تطہیر ثیاب، تطہیر مکان ،ستر عورت ، قبلہ کی طرف رخ اور نیت کو شمار کیا ہے۔ اب آپ صراحت سے بیان کریں کہ ان میں سے کس چیز کا قرآن و حدیث میں ذکر نہیں ؟ مگر مجھے یقین کامل ہے کہ آپ کسی چیز کے متعلق دعویٰ نہیں کر سکتے۔ حالانکہ اسلام کا دستور و قانون ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیت پر موقوف ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (انما الاعمال بالنيات)
(بخاری ص 2 ج 1 و مسلم ص 140 ج 2)

اگر آپ کی نیت سے مراد عوام الناس میں معروف طریقہ زبان سے نیت کرنے کا ہے تو اس کا کوئی بھی اہل حدیث قائل نہیں بلکہ تمام ہی اسے بدعت سید کہتے ہیں۔ کیونکہ نماز کی ابتداء نبی صلى الله عليه وسلم اللہ اکبر سے کرتے تھے۔ اور تمہارے خود ساختہ الفاظ ادا نہیں فرماتے تھے۔ جس طرح اللہ کے پیارے رسول حضرت محمد صلى الله عليه وسلم نے نماز ادا کی ہے وہ تمام طریقہ ہی دراصل ارکان نماز سے ہے۔ حضرت مالک بن حویرثؓ کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے نماز کے معاملہ میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ
(صلوا کما رایتمونی اصلی)
تم نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔
(بخاری باب الاذان للمسافرين الحديث 63)

اس سے واضح ہوا کہ جو شخص جان بوجھ کر نبی ﷺ کے طریقہ کے مطابق نماز نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ مثلاً نبی صلى الله عليه وسلم نماز کا سلام کے ساتھ انتقام کرتے تھے اب اگر کوئی شخص سلام کی جگہ پر جان بوجھ کر ہوا خارج کر دے تو اس کی نماز بے کار ہے۔

◈کیا اہل حدیث ابن حجر کے مقلد ہیں؟ :

فرماتے ہیں کہ اسماء الرجال میں غیر مقلدین امام ابن حجر کی تقلید کرتے ہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 92)

الجواب:

اولاً:
اس کا جواب صرف لعنت اللہ علی الکاذبین کافی ہے۔

ثانیاً : آپ نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتب رجال کا غالبا مطالعہ نہیں کیا اور نہ ایساد دعویٰ نہ کرتے۔ بھائی انہوں نے تہذیب اور لسان میں آئمہ جرح و تعدیل کے اقوال کو جمع کیا ہے۔ اور راوی کے ثقہ و ضعف پر دلائل نقل کیے ہیں ان کو قبول کرنا گواہی کے زمرے میں آتا ہے۔ تقلید کی تعریف اس پرفٹ نہیں ہوتی۔

ثالثاً:
جرح و تعدیل کی بنیاد امور محسوسہ یعنی مسموعات و مشاہدات پر ہے نہ کہ قیاس و اجتہاد یا نظن و تخمین پر۔

رابعاً:
تقریباً تمام مقلدین حضرات اہل حدیث کو غیر مقلد کے نام سے مخاطب کرتے ہیں۔ جھنگوی صاحب وضاحت کریں کہ اہل حدیث کو غیر مقلد کہنے میں اکابرین دیوبند کاذب ہیں یا پھر آپ ؟

◈روزہ و قربانی کی فرضیت :

فرماتے ہیں کہ روزہ فرض ہے ، قربانی فرض ہے یہ حدیث میں لفظ نہیں ہیں۔ احناف کی تقلید کرتے ہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 92)

الجواب:

اولاً:
روزے کی فرضیت کا تو قرآن کریم میں واضح بیان ہے ۔ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ)اور کتب کا یہاں معنی صرف اور صرف فرض ہے۔ بھلا بتاؤ قرآن چھوڑ کر فقہ حنفی کی تقلید کوئی اہل حدیث کر سکتا ہے؟

ثانیاً:
غالباً آپ نے مشکوۃ بھی نہیں پڑھی ورنہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ رمضان المبارک کا مہینہ آگیا ہے۔
(فرض الله عليكم صيامه)
اللہ تعالی نے اس کے روزے تم پر فرض کیسے ہیں۔
(مسند احمد و نسائی بحوالہ مشکوۃ ص 173)

علاوہ ازیں روزے کی فرضیت تو قرآن سے ثابت ہے آپ کسی اہل حدیث مدرسہ میں داخلہ لے کر پہلے قرآن پاک کا ترجمہ ضرور پڑھیں۔

ثالثاً:
اہل حدیث اور جمہور امت کے نزدیک قربانی سنت ہے۔ یہی امام محمد اور محاوی کا قول ہے تفصیل کے لیے دیکھئے (مرعاۃ ص 71 ج 5)
لہذا آپ کا قربانی کی فرضیت کو اہل حدیث کی طرف منسوب کرنا ہی غلط بیانی ہے اور اسے احناف کی تقلید میں باور کرانا ڈبل جھوٹ ہے۔

◈نماز جنازہ کی ترتیب :

فرماتے ہیں کہ غیر مقلدین جنازے میں جو ترتیب رکھتے ہیں یہ ترتیب حدیث پاک میں نہیں ہے۔ یعنی پہلی تکبیر کے بعد ثناء، تعویذ، تسمیہ، فاتحہ، اگلی سورت، دوسری تکبیر کے بعد درود ابراہیمی ، تیسری تکبیر کے بعد بارہ تیرہ دعائیں اکٹھی کرنا یہ طریقہ جنازہ کا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 92)

الجواب:

اولاً:
صرف قراۃ فاتحہ میں اختلاف ہے باقی تمام چیزوں میں اشتراک ہے۔ ایک سے زیادہ دعاؤں کا پڑھنا احناف کو بھی مسلم ہے۔
(نماز مسنون ص 732)
اس طرح ترتیب بھی فریقین کے نزدیک اختلافی نہیں کیونکہ اس کی حدیث سے تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابو امامہ سھل بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے تکبیر کہی جائے اس کے بعد سورہ فاتحہ پڑھی جائے پھر نبی ﷺ پر درود بھیجا جائے اور درود کے بعد خلوص نیت سے میت کے حق میں مغفرت کی دعا کی جائے پھر پست آواز سے دائیں جانب سلام پھیرا جائے اور قرآۃ صرف پہلی تکبیر کے بعد کی جائے۔
(مصنف عبدالرزاق ص489 490 ج 3 ابن ابی شیبہ ص 296 ج 3 والمحلی لابن حزم ص 353 ج 3)
یہ حدیث سنن نسائی ص 228 ج1 میں بھی مختصر مروی ہے جس میں ہے کہ سنت یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کو سراً پڑھے پھر تین تکبیریں کہے اور آخری تکبیر کے ساتھ سلام پھیرا جائے۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس سے ترتیب نماز جنازہ ثابت ہے۔ رہا یہ کہ سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورۃ ملانا تو یہ بھی سنت سے ثابت ہے۔
جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ کی صحیح حدیث میں ہے۔
(نسائی میں 228 ج 1 و باقی ص 38 ج 4 و ابن حبان ص 69 ج6)

ثانیاً:
آپ اس امر کی وضاحت کریں کہ حنفیہ کا جو یہ موقف ہے کہ جس میت پر نماز جنازہ نہ پڑھا گیا اس پر جتنی دیر تک یہ گمان ہو کہ لاش پھٹ نہ گئی ہوگی تب تک اس کا جنازہ پڑھنا مشروع ہے۔ اس کے بعد نہیں۔ اس پر آپ کے پاس قرآن و سنت سے کیا دلیل ہے ؟ علاوہ ازیں آپ جس مسجد کے خطیب ہیں اس کے بانی محترم حافظ عبد الشکور رحمہ اللہ کو دیوبندی حضرات نے مسجد کے صحن میں دفن کر رکھا ہے اور ان کی قبر کے ارد گرد یکی دیوار بنارکھی ہے اور سنگ مر مر کا کتبہ لگا کر ان کا نام اور سن وفات وغیرہ درج ہے۔ اس کی دلیل آپ کے پاس کیا ہے ؟ قرآن و سنت سے نہ سہی اپنے امام ابو حنیفہ سے ہی اس کے جواز پر کوئی قول پیش کر دیں۔ معلوم ہوا کہ آپ مقلد بھی نہیں صرف عوام کو مغالطہ دے رکھا ہے۔

ثالثاً:
نماز جنازہ میں ثناء کا پڑھنا کسی اہل حدیث کا موقف نہیں الغرض آپ کا اس مسئلہ کو اہل حدیث کی طرف منسوب کرنا جھوٹ ہے۔ پھر اسے تقلید کہنا ڈبل جھوٹ ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کو جھوٹ بولنے اور لکھنے کی بری عادت سے توبہ کی توفیق دے۔

رابعاً:
جھنگوی صاحب کے اعتراض کا اصل مقصود نماز جنازہ میں کثرت سے دعائیں کرنے پر ہے حالانکہ یہ حدیث سے ثابت ہے حضرت یزید بن رکانہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جب جنازہ پڑھتے تو یہ دعا کرتے (ثم يدعو ما شاء الله ان يدعو) پھر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جو اللہ کو منظور ہوتا وہ جنازے میں دعائیں کرتے۔ (طبرانی کبیر 249/22 (647) وابن قانع بحوالہ الاصابہ 515/6ر قم الترجمہ 9279)
علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ (احکام الجنائز ص 159)
اس حدیث کے علاوہ حضرت عوف رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اس کی دلیل ہے، جس میں وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کی اقتداء میں جنازہ پڑھا اور آپ کی دعا سے یہ دعا یاد کی۔ فحفظت من دعائه ( صحیح مسلم)
یہ حدیث بالکل اسی طرح ہے جس طرح جھنگوی صاحب کا یہ فقرہ ہے، غیر متقدین نماز کے بعد دعا کو بدعت کہتے ہیں (تحفتہ اہلحدیث ص 66)
حالانکہ مبتدعین فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر ڈھیروں دعائیں کرتے ہیں، مگر اسے تمام ہی ’’دعا‘‘ سے ماسوم کرتے ہیں ’’دعائیں‘‘ کوئی جاہل بھی نہیں کہتا !کیوں ؟ لفظ دعا مصدر ہے جو جمع پر بھی بولا جاتا ہے اور حضرت عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث میں (من دعائه) کے الفاظ سے جمع ہی مراد ہے۔ اگر جھنگوی صاحب کا دل اس حقیقت کو نہیں مانتا تو بہانے ہزار ہیں۔

فصل یازدهم

علماء اہل حدیث کے کذبات یا جھنگوی کے مغالطے

جھوٹ کی تعریف :

مؤلف تحفہ اہل حدیث نے حکیم محمد صادق سیالکوٹی مرحوم اور مولانا محمد یوسف جیپوری مرحوم کے حوالے سے انیس کذبات کا ذکر کیا ہے (جن کی حقیقت آگے تفصیل سے آرہی ہے) کہ یہ انہوں نے جھوٹ بولا ہے۔ بات کو مختصر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے جھوٹ کی تعریف کرلی جائے۔ تاکہ تفہیم میں آسانی رہے ۔ واضح رہے کہ کذب کی تعریف میں علم شرط ہے۔ یعنی جان بوجھ کر غلط بیانی یا غلط خبر دینے کو جھوٹ کہتے ہیں۔ لغت کی معروف کتاب المنجد میں ہے۔
(كذب أخبر عن الشي بخلاف ما هو مع العلم به) (المنجد الا بجدى ص 834)
اس تعریف کی رو سے اگر زید نے جھنگوی کو مسجد میں دیکھا اور پانچ منٹ بعد زید سے عمر نے جھنگوی صاحب کا پتا پوچھا اور زید نے مسجد بتایا حالانکہ جھنگوی صاحب پہلے منٹ میں ہی مسجد سے نکل کر بازار چلے گئے تھے، تو زید جھوٹا نہیں۔ کیونکہ اسے جھنگوی صاحب کے مسجد سے چلے جانے کا علم نہیں۔ ایساہی اگر کوئی سہو یا غلطی سے خلاف واقعہ بات کہہ دے تو وہ جھوٹ نہیں کہلائے گا۔ ورنہ سہو و غلطی وغیرہ کے الفاظ لغو و فضول اور بے کار محض ہیں۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایک بار نماز پڑھائی اور چار کی بجائے دور کعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ حضرت ذوالیدینؓ نے عرض کی کہ یارسول اللہ ﷺ
انسيت ام قصرت الصلوة .
یعنی آپ علیہ السلام بھول گئے ہیں یا نماز کم ہو گئی ہے۔
تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا
لم انس ولم تقصر
یعنی نہ ہی میں بھولا ہوں اور نہ ہی نماز کم ہوئی ہے۔ تب حضرت ذوالیدینؓ نے کہا کہ
بلی قد نسبت
نہیں بلکہ آپ بھول گئے ہیں۔ جس پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے دوسرے صحابہ سے دریافت فرمایا۔ انہوں نے ذوالیدینؓ کی بات کی تصدیق کر دی۔ اس پر آپ صلى الله عليه وسلم نے مزید دور کعت نماز پڑھائیں۔
(بخاری ص 164 ج 1)
اب جھنگوی صاحب غالباً اس پر بھی واویلہ مچادیں گے کہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے
لم انسى ولم تقصی
(نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم ہوئی ہے)
میں جھوٹ بولا ہے۔ مگر ہم اس جاہل کو کہیں گے یہ کذب نہیں سہو ہے۔
حقیقت میں خود جھنگوی جھوٹا و کذاب ہے۔
جھنگوی صاحب نے مؤلف حقیقۃ الفقہ کے دس عدد جھوٹ بتائے ہیں۔ ان کی تفصیل میں جانے سے پہلے آئے ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ کا مختصر تعارف ہو جائے ۔ حضرت مولانا محمد یوسف جیپوری مرحوم نے شفیت کے رد میں ایک مبسوط کتاب تالیف کی ہے جو ایک مقدمہ رد تقلید و غیرہ اہم مباحث پر مشتمل ہے۔ آگے اس کے دو حصے (یعنی ابواب) ہیں۔ ایک میں فقہ حنفی کے مردود مسائل کا بیان ہے تو دوسرے میں قرآن وحدیث کے موافق بعض فتاوی کا ذکر ہے۔ حصہ اول و دوم کے مراجع کا مصنف نے حقیقۃ الفقہ ص 137 میں مطبع ان کا منہ طبع با قاعدہ درج کیا ہے یہ مراجع تمام کے تمام فقہ حنفی کے تراجم ہیں مزید مصنف نے یہ التزام کیا ہے کہ کتاب کے ہر صفحہ کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ کتب مندرجہ فقہ سے مراد ان کے تراجم ہیں۔
اس حقیقت سے خود جھنگوی صاحب بخوبی واقف ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہیں۔ کتاب کے متن کی اصل عبارت پیش کی جائے۔ غیر مقلد علماء ہر گز اصل عبارت پیش نہیں کر سکیں گے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 96)

دیکھیے مصنف ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ تو اپنے پیش کردہ حوالہ جات کو فقہ حنفی کی کتب کے تراجم کی طرف نسبت کرتا ہے۔ مگر جھنگوی صاحب کتاب کے متن کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جس سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ جھنگوی صاحب بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ مصنف نے کتب فقہ کے تراجم سے عبارات نقل کی ہیں۔

الغرض یہ جھنگوی صاحب کی عیاری ومکاری اور فریب کاری ہے کہ مصنف کے پیش کردہ حوالہ جات کی بجائے متن کتاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ دعویٰ ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ نے کیا ہی نہیں، تو مطالبہ کیا۔ اگر ان تراجم میں گڑبڑ کی گئی ہے تو اس کے ذمہ دار مولانا جیپوری مرحوم نہیں بلکہ فقہ حنفی کے خفی ترجمہ کرنے والے ہیں۔ بہر حال آئیے اب ترتیب وار ان عبارات کا حال ملاحظہ کریں جن پر جھنگوی صاحب کو اعتراض ہے۔

مؤلف حقیقۃ الفقہ کے جھوٹ یا جھنگوی کے مغالطے

(۱) ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی حدیث ضعیف ہے۔ حوالہ ہدایہ کا دیا ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 95)
بھائی مولانا جے پوری نے اس کا حوالہ عین الھدایہ کا دیا ہے جیسا کہ ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ کے اس صفحہ میں اس کی تفصیل موجود ہے اور یہ عبادت میں الہدایہ ترجمہ ہدایہ صفحہ 350 جلد اول طبع نول کشور 1896ء میں موجود ہے ۔ علاوہ ازیں ابن حمام الفتح القدیر ص 249 ج 1 میں اور علامہ طلبی (مستملی ص301) میں علامہ نووی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ
(اتفقوا على تضعيفه)
یعنی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی روایت کے ضعیف ہونے پر محدثین متفق ہیں۔

(۲) سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت صحیح ہے۔ حوالہ ہدایہ کا دیا ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 95)

بھائی یہ حوالہ بھی عین الہدایہ کا ہی ہے اور یہ عبارت عین الہدایہ ص 350 ج1 طبع ایضا اور نور الہدایہ ترجمہ شرح وقایہ ص 93 طبع مجیدی کانپور 1914ء میں موجود ہے۔

(۳) بجائے ( سبحانك اللهم ) کے (اللهم باعد بینی ) زیادہ صحیح ہے۔ حوالہ شرح وقایہ کا دیا ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 95)

بھائی یہ عبارت’’حقیقۃ الفقہ‘‘ ص 193 میں نور الہدایہ ترجمہ شرح وقایہ ص 94 طبع مجیدی کانپور 1914ء کے حوالے سے ابن حمام کا قول نقل کیا ہے جو بلا شبہ ترجمہ شرح وقایہ کے مذکورہ صفحہ پر موجود ہے۔ علاوہ ازیں ابن ھمام سے یہ نقل بھی درست ہے ۔چنانچہ وہ ہدایہ کی شرح میں فرماتے ہیں کہ
(وهو اصح الكل لانه متفق عليه )
یعنی اللهم باعد بینی کی حدیث اس بارہ میں تمام سے صحیح ہے۔ کیونکہ یہ بخاری و مسلم کی حدیث ہے۔
(فتح القدير ص 253 ج 1 )

(۴) امام کے پیچھے فاتحہ چھوڑنے کی روایات ضعیف ہیں۔ حوالہ شرح وقایہ کا دیا ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 95)
بھائی یہ حوالہ نور الہدایہ ترجمه شرح وقایہ ص 108,109 طبع مجیدی کانپور 1914ء میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں مولانا عبد الحی لکھنوی حنفی مرحوم نے التعلیق المجد ص99 میں اور امام الکلام ص 212 میں لکھا ہے کہ فاتحہ خلف الامام کی ممانعت پر جس قدر روایات بیان کی جاتی ہیں وہ تمام کی تمام بے اصل اور غیر صحیح ہیں۔
اچھا آپ اس بارہ میں کوئی ایک حدیث پیش کر دیں۔

(۵) (اذا كبر الامام فكبروا ) یہ حدیث ضعیف ہے۔ حوالہ شرح وقایہ کا دیا ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 95)
بھائی یہ حوالہ نور الہدایہ ترجمہ شرح وقایہ کا ہے اور یہ عبارت اس کے ص 110 طبع ایضا میں موجود ہے۔

(۶) آمین مہر قبولیت ہے۔ حوالہ ہدایہ کا دیا ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 95)
عزیز بھائی یہ حوالہ بھی عین الہدایہ ترجمہ ہدایہ کا ہے اور یہ عبارت اس کے ص 364 ج 1 طبع نول کشور 1896ء میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں یہ تو حدیث نبوی کا مفہوم ہے جو سنن ابی داؤد ص 135 ج 1 میں حضرت ابو زہیرؓ سے مروی ہے۔

(۷) مقتدی امام کی آمین سن کر آمین کہے۔ حوالہ در مختار کا دیا ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 95)
بھائی یہ حوالہ غایہ الاوطار ترجمہ در مختار کا ہے اور یہ عبارت اس کے ص229 ج 1 طبع نول کشور 1900ء بار چہارم میں موجود ہے۔

(۸) رفع الیدین کی احادیث بہ نسبت نہ کرنے کے قوی ہیں۔ بحوالہ ہدایہ۔
(تحفہ اہل حدیث ص 95)
بھائی یہ حوالہ میں الہدایہ ترجمہ ہدایہ کا ہے اور یہ عبارت اس کے ص 389 ج1 طبع نول کشور 1896ء میں موجود ہے۔

(۹) رفع الیدین چھوڑنے کی احادیث ضعیف ہیں۔ حوالہ شرح و قایہ کا دیا ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 96)
بھائی یہ حوالہ نور الہدایہ ترجمہ شرح وقایہ کا ہے اور یہ عبارت اس کے ص 102 طبع مجیدی کانپور 1914ء میں موجود ہے۔

(۱۰) جو رفع الیدین کرے اس سے مناقشہ (جھگڑا) حلال نہیں۔ بحوالہ ہدایہ
( تحفہ اہل حدیث ص 96)
بھائی یہ حوالہ عین البدایہ ترجمہ ہدایہ کا ہے اور یہ عبارت اس کے ص389 ج1 طبع نول کشور 1896ء میں موجود ہے۔

◈تلك عشرة كاملة :

یہ دس عدد کذبات ہیں جو مؤلف تحفہ اہل حدیث نے جان بوجھ کر بولے ہیں۔ ہماراد عویٰ ہے کہ حضرت مولانا حافظ محمد یوسف مرحوم کے بیان کردہ حوالہ جات درست و صحیح ہیں۔ اور جھنگوی صاحب کا ان سے انکار محض دفع الوقتی اور حقیقت پر مٹی ڈالنے کی فضول و بے کار کوشش ہے۔

◈صلوۃ الرسول میں اوہام :

ہمارے جھنگوی صاحب نے حضرت مولانا حکیم محمد صادق سیالکوٹی مرحوم کی کتب پر بھی نظر عنایت کی ہے اور ان کے چند حوالہ جات کو نشانہ بنا کر انہیں کونے کی کوشش کی ہے ۔ حضرت حکیم صاحب مرحوم متعدد کتب کے مصنف تھے ۔ مگر کسی جگہ انہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم پر افترا نہیں کیا۔ جبکہ جھنگوی صاحب کی صرف یہی کتاب تصنیف کردہ ہے جو چھوٹے سائز کے 98 صفحات پر مشتمل ہے ۔ جن میں انہوں نے دو احادیث اپنی طرف سے وضع کی ہیں۔ اور متعدد جھوٹ بولے ہیں۔ انہیں اپنی آنکھ کا شهتیر تو نظر نہیں آتا مگر غیر کی آنکھ کا تنکا بھی انہیں کھٹکتا ہے ۔ بہر حال آئے جھنگوی صاحب نے جن جن حوالہ جات کی صحت پر اعتراض کیا ہے ان کی حقیقت ملاحظہ کریں۔

(1) ص 131 پر اذان لکھ کے بخاری و مسلم کا حوالہ دیا ہے۔ حالانکہ یہ روایت بخاری میں نہیں ہے۔ یہ بخاری پر تہمت ہے۔
(تحفہ اہل بدیث ص94)

الجواب:

اولاً : بات یہ ہے کہ حضرت حکیم صاحب نے کلمات اذان کی صراحت کی ہے۔ روایت بیان کرنا مقصود نہیں۔ غالباً کتابت کی غلطی سے آخر میں بخاری و مسلم لکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقہ نسخہ میں صرف کلمات اذان ہی ہیں۔ حوالہ نہیں ہے۔ اگر حکیم صاحب کا مقصود احادیث کی روشنی میں کلمات اذان لکھنا مقصود ہوتا تو پہلے راوی حدیث کی صراحت کرتے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

ثانیاً:
اگر اسے کتابت کی غلطی تسلیم نہ بھی کیا جائے تب بھی مضائقہ نہیں کیونکہ یہ کلمات اذان بخاری سے معناً ثابت ہیں۔ حضرت انسؓ راوی ہیں کہ
حضرت بلال کو اذان کے کلمات دو دو بار اور اقامت کے ایک ایک بار کہنے کا حکم ہوا تھا۔
(بخاری ص 85 ج 1 و مسلم ص 164 ج 1)

اس حدیث کی روشنی میں کلمات اذان وہی بنتے ہیں جو حضرت حکیم صاحب نے درج کیے ہیں۔

(۲) صفحہ 161۔ پر دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے جائیں پاکانوں تک حوالہ بخاری و مسلم کا دیا ہے۔ یہ لفظ بخاری میں نہیں ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص94)

الجواب:

اولاً:
کندھوں تک ہاتھ اٹھانے کی حدیث حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت سے بخاری ص 102 ج 1 و مسلم ص 168 ج 1 میں موجود ہے ۔ اور کانوںں تک ہاتھ اٹھانے کی حدیث حضرت مالک بن حویرثؓ سے مسلم ص 168 ج 1 وابو عوانہ ص 94 ج 2 میں موجود ہے۔

ثانیاً:
اگر آپ کا مقصود یہ ہے کہ کانوں تک ہاتھ اٹھانے کی روایت بخاری میں نہیں تو بھائی عرض ہے کہ یہ قصور حکیم صاحب کا نہیں بلکہ صاحب مشکوۃ نے مشکوۃ ص 75 میں حضرت مالک بن حویرثؓ کی حدیث کو نقل کیا ہے۔ اور الفاظ (حتى يحاذی بهما فروع اذنيه)کو بخاری و مسلم کی طرف منسوب کیا ہے ۔ اور غالباً حکیم صاحب نے مشکوۃ پر اعتماد کرتے ہوئے بخاری کا حوالہ دیا ہے ۔ اگر یہ جھوٹ ہے تو اس کو بولنے والے (معاذ اللہ) صاحب مشکوۃ ہیں۔ مگر ہم تو اسے وہم سے تعبیر کریں گے۔

(۳) صفحہ 179 – پر ایک روایت لکھی ہے قرآة مسنون کے تحت حوالہ موطا امام مالک کا دیا ہے یہ بھی جھوٹ ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 94)

الجواب:

اولاً:
یہ حدیث سنن ابوداؤد (814) و بیہقی ص 388 ج 2 میں موجود ہے ۔ اور طبرانی کبیر ص 365 ج 12 میں ابن عمر سے اس کی شاہد روایت بھی موجود ہے۔

ثانیاً:
بھائی اگر یہ جھوٹ ہے تو اس کا ذمہ دار صاحب مشکوۃ ہے۔ کیونکہ انہوں نے ہی مخلوة ص 82 میں اس پر موطا امام مالک کا حوالہ دیا ہے بلکہ ملاعلی القاری نے مرقاة ص 308 ج 2 میں اسے موطا امام مالک کی طرف منسوب کیا ہے۔ حکیم صاحب کو جھوٹا کہنے سے پہلے ان دو بزرگوں پر مذکو رہ فتویٰ لگا ئیں ۔ کیونکہ حکیم صاحب نے تو انہیں پر اعتماد کیا ہے۔ مگر ہم کسی کو بھی جھوٹا نہیں کہتے بلکہ بشری کمزوریوں کی بنا پر اسے سہو و نسیان اور وہم سے تعبیر کرتے ہیں۔

(۴) صفحہ 135 – پر چار دفعہ اللہ اکبر والی اذان لکھ کر مسلم کا حوالہ دیا ہے۔ حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 94)

الجواب:

اولاً:
بلاشبہ صحیح مسلم میں چار بار اللہ اکبر کا ذکر نہیں ہے لیکن سنن ابوداؤد مع عون ص 191 ج 1 میں چار بار اللہ اکبر کا ذکر ہے۔

ثانیاً:
اگر یہ جھوٹ ہے تو صاحب مشکوۃ کا ہے کیونکہ انہوں نے ہی مشکوۃ ص 63 میں صحیح مسلم کے حوالے سے چار بار اللہ اکبر نقل کیا ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ اسے جھوٹ کہنے والا خود جھوٹا ہے ۔ کیونکہ یہ صاحب مشکوۃ کا وہم ہے اور حکیم صاحب کو مشکوۃ پر اعتماد کی وجہ سے غلطی لگی ہے۔

(۵) صفحہ 134 – پر لا یستبدر کے لفظ لکھ کر بخاری مسلم کا حوالہ دیا ہے۔ حالانکہ دونوں کتابوں پر جھوٹ ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 94)

الجواب:

اولاً : یہ روایت ابو داود مع عون ص 205 ج 1 و بیہقی ص 395 ج1 میں موجود ہے ۔ یہ سہو ہے جھوٹ نہیں اور غالباً انہیں یہ وہم حافظ ابن حجر کی تالیف بلوغ المرام ص 14 سے ہوا ہے۔ جہاں انہوں نے اس روایت کو ابو داؤد سے نقل کر کے کہا ہے کہ (واصله في الصحيحينن ) یعنی اس روایت کی اصل بخاری و مسلم میں ہے۔ بلاشبہ یہ روایت اصل کے لحاظ سے بخاری ص 88 ج 1 و مسلم ص 196 ج 1 میں موجود ہے۔

ثانیاً:
حضرت حکیم صاحب نےلا یستبدر کے الفاظ کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اذان میں (حى على الصلوة) اور (حی علی الفلاح) کے وقت دائیں بائیں گردن کو موڑیں گھوم نہیں جانا چاہیے۔
(صلوۃ الرسول ص 156)

جبکہ بخاری و مسلم کی روایت میں دائیں بائیں منہ کرنے کا ذکر ہے اور ابوداءود کی روایت میں نفی ہے۔ حافظ ابن حجر نے ان میں موافقت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گھومنے سے مراد سر اور گردن کا گھمانا ہے اور نفی پورے بدن کے تھمانے کی ہے۔
(فتح الباری ص 91 ج 2)

الغرض حکیم صاحب نے جو مفہوم بیان کیا ہے وہ بخاری و مسلم کی روایات میں پایا جاتا ہے ہاں البتہلا یستبدر کے الفاظ نقل کرنا ان کا سہو ہے ۔ ان جیسے اوہام کو جھوٹ کہنا آپ جیسے علامہ و فہامہ کا ہی فعل ہو سکتا ہے کوئی دانا و عاقل اسے جھوٹ نہیں کہہ سکتا۔ اگر یہ جھوٹ ہے تو صاحب صدایہ اس جیسے سینکڑوں جھوٹ بولے ہیں ان کے بچاؤ کی کوئی تدبیر سوچیں۔ آپ نے ابوداؤد ص 1397 کے حوالے سے حدیث نبوی کے الفاظ (قاربوا بينهما) نقل کیے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 24)

حالانکہ ابو داؤد میں (بینھا) کے الفاظ ہیں۔ تو کیا یہ آپ کا جھوٹ ہے؟ نہیں میرے بھائی یہ آپ کا سہو ہے۔ ایسے ہی صاحب صلوۃ الرسول کا بھی یہ وہم ہے جھوٹ نہیں۔

◈سبیل الرسول میں اوہام

(۱)حدیث یوں نقل کرتے ہیں کہ
افضل الاعمال الصلواة في أول وقتها
حوالہ بخاری کا ہے نرا جھوٹ ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 94)

الجواب:

اولاً:
یہ حدیث حضرت ام فروہؓ کی روایت سے مسند احمد ص 374 ج 6 وابود لود مع عون ص 163 ج 1 و ترمذی مع تحفہ ص 154 ج 1 ودار قطنی ص 247 ج1 میں صحیح سند سے مروی ہے حاکم و ذہبی اور علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
(تحقیق مخلوة ص 193 ج 1)

ثانياً:
معناً یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ
سالت رسول الله الى العمل افضل قال الصلوة لوقتها
یعنی میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سوال کیا کہ سب سے افضل عمل کونسا ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔
(الحدیث بخاری ص 76 ج 1 و ص 882 ج 2 ص 1124 و مسلم ص 62 ج 2)

لوقتها کا معنی اول وقت ہے ۔ جیسا کہ اسی حدیث میں اول وقتها کے الفاظ بھی آتے ہیں
(متدرک حاکم ص 188 ج 1 صحیح ابن خزیمہ ص 169 ج 11 صحیح ابن حبان ص 19 ج 4 رقم الحدیث 1477 و بیعتی ص 434 ج 1 )

اس روایت کو حاکم وذہبی نے صحیح کہا ہے۔
ا:لوقتها کی بجائے فی اول لوقتها مصنف کا سہو ہے یا کتابت کی غلطی ہے۔ مگر اسے کوئی جھوٹ نہیں کہہ سکتا۔ کہ اسی حدیث کے طرق میں فی اول لوقتها کے الفاظ بھی موجود ہیں اور لوقتها کا معنی بھی پہلا وقت ہے۔ فلا اعتراض

(r)طلاق ثلاثہ کے متعلق روایت لکھ کر حوالہ بخاری کا دیا ہے جو بخاری میں نہیں ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 94)

الجواب:

اولاً : یہ حدیث صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ کے زمانہ اور ابو بکر صدیقؓ کے دور خلافت اور عمر فاروقؓ کی خلافت میں بھی دو سال تک تین طلاقیں (ایک دم دی ہو ئیں) ایک رجعی طلاق ہوتی تھی ۔
(صحیح مسلم ص 477 ج 1)

ثانیاً:
صحیح مسلم کی بجائے صحیح بخاری لکھا جانا سہو ہے۔ خواہ مصنف کا ہے یا کتابت کی غلطی ہے۔ آپ کے استاذ المکرم مولانا سرفراز خان صفدر نے سماع الموتی ص 69 طبع 1984 میں سورہ الاعراف کی آیت 188 کو نقل کر کے سورہ الانفال کی آیت 23 کا حوالہ دیا ہے تو کیا یہ جھوٹ ہے یا سہو ؟ جو بھی صورت اختیار کریں وہی مولانا سیالکوٹی مرحوم کی طرف سے ہمارا جواب ہے۔

(۳) اسی طرح طلاق ثلاثہ والی روایت کے ترجمے میں ایک بارگی کا لفظ بڑھایا ہے جو سیاہ پا سفید جھوٹ ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 95)

الجواب:

اولاً:
مولانا سیالکوئی مرحوم نے مشکوۃ سے حدیث کو نقل کرتے ہوئے صرف ترجمہ درج کیا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس لیے یکبارگی تین طلاقیں دینے کو قرآن کے ساتھ استہزا فرمایا ہے۔ اور اس کام پر غضبناک ہوئے ہیں۔
(سبیل الرسول ص 267)

ہمارے بھائی کو اعتراض ہے کہ یکبارگی کا لفظ اپنی طرف سے اضافہ ہے اور سیاہ وسفید جھوٹ ہے ۔ حالانکہ یہ اعتراض ہی کو راچنا جھوٹ ہے ۔ کیونکہ مولانا کی عبارت کا سیاق و سباق اس بات کی غماضی کرتا ہے کہ انہوں نے اس لفظ کو بیک وقت کے معنی میں استعمال کیا ہے اور حدیث میں ایسے الفاظ موجود ہیں
طلق امراته ثلاث تطليقات جميع
مولانا قطب الدین حنفی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ
طلاق دی اپنی بی بی کو تین طلاقیں اکٹھی۔
(مظاہر حق ص 188 ج 3 طبع نول کشور ۱۹۳۶ء)
مولانا عبد الحق محدث دھلوی ان الفاظ کا معنی کرتے ہیں کہ
سہ طلاقیں یکبارگی۔ (اشعۃ اللمعات ص 165 ج 3)
ملا علی القاری اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ
(ولذا انكر على المطلق بالثلاث دفعة واحدة ) (مرقاة ص 293 ج 6)
یعنی اسی وجہ سے ہی رسول اللہ اللہ نے یک دم دی گئی تین طلاق پر انکار کیا ہے۔

الفرض اگر یہ سیاہ وسفید جھوٹ ہے تو اس کو بولنے والے فقط مولانا سیالکوٹی ہی نہیں بلکہ آپ کے اکابر مولوی قطب الدین شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور ملا علی القاری جیسے شارحین حدیث بھی ہیں۔ مگر ہم عرض کرتے ہیں کہ یہ نہ مولانا سیالکوٹی کا جھوٹ ہے اور نہ ہی کسی اور کا۔ بلکہ آپ بغض و تعصب کی بنا پر غلط بیانی اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اللہ آپ کو تو بہ کی توفیق دے۔ آمین

ثانیاً:
ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ آپ نے تحفہ اہل حدیث کے صفحہ 24 پر حاذوا بین المناكب اور حاذوا بالاعناق اور قاربوا بينها وغیرہ کے الفاظ میں معنوی تحریف کی ہے اس پر ہم آئمہ لغت اور شارحین حدیث کے اقوال کو بھی آپ کے رد میں نقل کیا تھا کہیے اس بے ایمانی اور سیاہ جھوٹ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔

(۴) فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے قرآت فاتحہ جو واقعہ فجر کاذکر ہے اس میں حوالہ ابن ماجہ اور موطا امام مالک کا بھی دیا ہے حالانکہ جھوٹ ہے۔ ان کتابوں میں یہ حدیث نہیں ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 95)

الجواب:

اولاً:-
یہ حدیث حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی ﷺ نے فجر کی نماز پڑھائی فارغ ہو کر پوچھا کہ کیا تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ مقتدیوں نے عرض
کیا ہاں حضور ہم پڑھا کرتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ
سورہ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھا کرو۔(الحدیث)
(ابوداؤد ص 119 و ترمذی مع تحفہ ص 253 ج 1 و نسائی ص 111 ج 1 و مستدرک حاکم ص 238 ج 1 و بیہقی ص 641 وابن حبان ص137 ج 4 وابن خزیمہ ص 36 ج 3 ومسند احمدص 136ج1)

مگر معترض کو اعتراض ہے کہ اس حدیث کا ابن ماجہ اور موطا کا حوالہ بھی دیا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بھائی یہ سہو ہے جھوٹ نہیں۔ ہم پہلے جھوٹ کی تعریف بیان کر چکے ہیں کہ جان بوجھ کر غلط بیانی کو کذب کہا جاتا ہے وہم کا نام جھوٹ نہیں۔ جب ایک درجن سے زائد کتب حدیث میں یہ حدیث نبوی موجود تھی تو مولانا کو کیا ضرورت تھی کہ وہ جھوٹ بول کر ابن ماجہ اور موطا کا نام درج کرتے۔ لامحالہ ان سے سہو ہوا ہے۔

ثانیاً :
آپ جناب نے خود تو جی بھر کر کتاب میں کذبات تحریر کیے ہیں۔ حقیقۃ الفقہ پر آپ کے جس قدر اعتراضات ہیں وہ تمام کے تمام کذب و افتراء اور جھوٹ ہیں۔ اس طرح آپ نے علامہ وحید الزمان کی جملہ عبارات میں غلط بیانی کی ہے۔ تفصیل گذر چکی ہے کہیے ان کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے۔

مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم کی ایک عبارت

فرماتے ہیں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کا ترک تقلید پر تاسف اور گذشتہ زندگی پر افسوس ہی افسوس اس کے بعد جھنگوی صاحب نے اشاعۃ السنہ 1888ء کی فائل سے ایک عبارت نقل کی ہے کہ پچیس برس کے تجربے سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ لآخر اسلام کو سلام کر بیٹھتے ہیں ان میں سے بعض عیسائی ہو جاتے ہیں ، بعض لامذہب جو کسی دین و مذہب کے بغیر نہیں رہتے اور احکام شریعت سے فسق و خروج تو اس آزادی کا ادنی کرشمہ ہے۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ مگر دینداروں کے بے دین ہونے کے لیے بے علمی کے ساتھ ترک تقلید بڑا بھاری سبب ہے آگے لکھتے ہیں کہ ترک تقلید سے ڈرنا چاہیے۔
(تحفہ اہل حدیث صفحه آخر)

الجواب:

اولاً :
یہ تحریر 1888 ء کی ہے مولانا مرحوم کی وفات 1920ء میں ہوئی تھی نزعة الخواطر ص ۴۲۸ ج ۸ اس تحریر کے بعد مولانا مرحوم تقریباً 32 سال زنده رہے۔ اور پورے جزم و یقین کے ساتھ حفیت کی تردید کرتے رہے۔ اور تقلید کے رد میں متعدد مقالات تحریر کیے۔ جس پر اشاعۃ السنہ کی فائلیں گواہ ہیں۔ مگر جھنگوی صاحب الٹی گنگا بہاتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے گذشتہ زندگی پر افسوس کا اظہار کیا۔ حالانکہ وہ آخری لمحات تک بفضلہ تعالی مسلک محدثین کی نشر و اشاعت میں گامزن رہے اور ایک منٹ کے لیے بھی خفیت یا تقلید کو قبول نہیں کیا۔ الغرض ان کی زندگی کے تعامل سے ہی جھنگوی صاحب کا کذب واضح ہو جاتا ہے کہ مؤلف تحفہ اہل حدیث نے ان کی عبارات کو غلط رنگ دیکر کانٹ چھانٹ اور بددیانتی کر کے نقل کیا ہے۔

ثانیاً :
آیئے ہم آپ کو مولانا بٹالوی رحمہ اللہ کی پوری عبارت اس کا مطلب اور پس منظر سمجھا دیتے ہیں۔ مولانا بٹالوی مرحوم کو ایک شخص نے مخط لکھا جس میں یہ نصیحت کی کہ موجودہ تورات وانجیل مسلمانوں کے لیے ویسے ہی واجب العمل ہے جیسا کہ قرآن حکیم اور مسلمانوں کو اس قید کو کہ عمل صرف قرآن و حدیث اور اسلامی کتب پر چاہیے توڑ کر ترک تقلید و اجتہاد کو ایسی وسعت دیں کہ اس میں قرآن وحدیث کی پابندی نہ رہے۔
(اشاعۃ السنة ص 52 ج 11 شمارہ نمبر 2 مطبوعہ 1888ء)

اس مراسلے کے جواب میں مولانا بٹالوی مرحوم نے بڑی تفصیل سے تورات وانجیل کی شرعی حیثیت بیان کی ہے۔ اور اس میں تغیر و تحریف کا اور صرف قرآن و حدیث کی مشروعیت و حجیت کا اثبات پیش کیا ہے۔ بڑا مدلل اور محققانہ علمی مقالہ ہے جو اڑھائی سو (250) صفحات پر مشتمل اور قابل مطالعہ ہے اس کے اول و آخر میں مذکورہ مراسلہ نگار جیسے ناکنده تراش مجتہدوں کے بارے جو ترک تقلید کے مدعی ہیں مولانا بٹالوی نے اس انداز کی بات کی ہے جس کو جھنگوی صاحب نے نقل فرمایا ہے اور اسے بلاوجہ اہل حدیث پر چسپاں کر ڈالا ہے اور درمیان سے اور آگے پیچھے سے بہت سے فقرے حذف کر دیئے ہیں۔ مولانا بٹالوی مرحوم نے مذکورہ اقتباس سے پہلے یہ فرمایا کہ
اس مقام میں ہم سے اس قدر بیان کرنے سے رہا نہیں جانا کہ اس قسم کے اجتہادات و خیالات بے قید و آزاد جو اس مراسلت میں ظاہر کیے ہیں اس ترک تقلید کا نتیجہ ہے جو باوجود لاعلمی کے وقوع میں آتی ہے۔ اور بے علموں یا نہایت کم علموں بہ مصداق نیم ملا خطرہ ایمان سے سرزد ہوتی ہے۔

اس عبارت میں مولانا بٹالوی مرحوم کا روئے سخن ظاہر ہے کہ اہل حدیث کی طرف نہیں ہے۔ اہل حدیث تو ترک تقلید کی دعوت قرآن وحدیث کی بالاتری کے لیے دیتے ہیں نہ کہ سرے سے ان کی حجیت ہی کے انکار کے لیے۔ جیسا کہ مذکورہ مراسلہ نگار نے ایسی ہی گمراہی کا مشورہ دیا تھا اور ایسے ہی گم کردہ راہ جاہل مجتہدوں کے بارے میں مولانا مرحوم نے وہ طرز تخاطب اختیار کیا ہے مطلق ترک تقلید کے حامیوں کے لیے نہیں۔ کیونکہ ترک تقلید کی تبلیغ و تائید تو خود مولانا بٹالوی مرحوم ہمیشہ کرتے رہے ہیں اور بڑے شدومد اور نہایت پر زور انداز سے کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس مقام پر بھی ہمارے نقل کرده اقتباس کے بعد اور جھنگوی صاحب کے نقل کردہ اقتباس سے پہلے فرماتے ہیں کہ ترک تقلید کا مسئلہ صحیح ہے اور سلف و خلف کی تالیفات میں اس کی ترغیب بکثرت پائی جاتی ہے۔
مگر اس مسلے کے محل صدق وہی لوگ ہیں جو بصیرت رکھتے ہوں۔ ان ہی لوگوں کے لیے خاص ان ہی مسائل میں جن میں ان کو بصیرت حاصل ہو ترک تقلید جائز بلکہ ضروری ہے۔ لیکن جو لوگ قرآن وحدیث سے خبر نہ رکھتے ہوں۔ علوم عربیہ ادبیہ (جو خادم قرآن وحدیث ہیں) سے محض نا آشنا ہوں۔ صرف اردو فارسی تراجم پڑھ کر یا لوگوں سے سن کریا ٹوٹی پھوٹی عربی جان کر مجتہد اور ہر بات میں تارک التقلید بن بیٹھیں ان کے حق میں ترک تقلید سے بجز ضلالت کسی ثمرے کی توقع نہیں ہو سکتی۔

اس عبارت سے بھی واضح ہے کہ مولانا مرحوم کے سامنے اہل حدیث نہیں جن کے علماء بفضلہ تعالیٰ قرآن وحدیث اور علوم عربیہ میں پورا ادارک رکھتے ہیں اور قرآن وحدیث کے فہم و تعبیر میں وہ آزاد روی کی بجائے صحابہ و تابعین کے منہج اور مسلک فقہائے محدثین کی پابندی کو ضروری خیال کرتے ہیں اور ان کے عوام بھی خود مجتہد نہیں بن بیٹھتے بلکہ اپنے علماء سے قرآن وحدیث کی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ اس قسم کی نصیحت کے مواقع پر وہ مسلک اہل حدیث کے حاملین کو بھی متنبہ فرماتے تھے کہ دیکھو تمہارے اندر ترک تقلید کی وجہ سے قرآن وحدیث اور علوم سلف سے وہ بے اعتنائی نہ آ جائے جو بہت سے نام نہاد مدعیان علم و تحقیق میں آئی ہے اور جس نے انہیں بالکل بے عمل گمراہ اور قرآن وحدیث سے بے بہرہ بنا دیا ہے۔ اس تنبیہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ترک تقلید کی آڑ میں وہ گمراہ ہو گئے ہیں اور دین سے بے پرواہی ان کے اندر آگئی ہے جیسا کہ جھنگوی صاحب باور کرانا چاہتے ہیں حالانکہ ان کی نقل کردہ عبارت کا آخری حصہ قابل غور ہے۔ گر وہ اہل حدیث میں جو بے علم یا کم علم ہو کر ترک مطلق تقلید کے مدعی ہیں وہ ان نتائج سے ڈریں اور جن مسائل میں وہ قرآن و حدیث سے کچھ علم و خبر نہ رکھتے ہوں ان میں اجتہاد نہ کیا کریں بے علمی کا علاج سوال اور اہل علم کی پیروی ہے۔ ان کے لیے آزادی و خود اجتہادی ہر گز جائز نہیں ہے۔ (اشاعۃ السنہ ص 1888ء)

بتلائیے ! اس میں ترک تقلید کا ماتم کب اور کہاں ہے ؟ اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ جو شخص براہ راست قرآن وحدیث کا علم نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ مستند علمائے کرام سے رجوع کرے اور ان سے دینی رہنمائی حاصل کرے۔ خود اجتہاد نہ کرے۔ ایک شخص جاہل مطلق ہونے کے باوجود علمائے کرام سے دینی رہنمائی حاصل کرنے کو عبث اور فضول سمجھے تو یہ ہے بقول مولانا بٹالوی ترک مطلق تقلید ، جس سے مولانا بٹالوی مرحوم اہل حدیث کو ڈرا رہے ہیں۔ ترک تقلید اور چیز ہے اور ترک مطلق تقلید اور چیز ترک تقلید کا تو مولانا نے پر زور اثبات کیا ہے البتہ ترک مطلق تقلید سے ڈرایا ہے۔
(منقول از صراط مستقیم اور اختلاف امت ص 36)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل