سوال:
انتظامی امیر کا کیا حکم ہے؟
جواب:
امیر دو طرح کا ہوتا ہے:
1. شرعی امیر
2. انتظامی امیر
شرعی امیر سے مراد وہ امیر اور حاکم ہے، جس کی امارت پر تمام صحیح العقیدہ مسلمان متفق ہوں۔ شرعی امیر کی اطاعت سے خروج بغاوت ہے۔ انتظامی امیر سے مراد وہ امیر ہے، جسے کسی معاملے کی دیکھ بھال کے لیے بعض مسلمان منتخب کر لیں۔ شرعی دلائل سے انتظامی امیر کی ضرورت اور اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ایک گھر سربراہ کے بغیر نہیں چل سکتا، ایک جماعت یا مسلمانوں کا ایک گروہ بغیر امیر یا سربراہ کے کیسے چل سکتا ہے؟
شرعی حدود میں رہتے ہوئے انتظامی جماعت بنانا جائز ہے، ان جماعتوں کے کئی فوائد ہیں، جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایک کام جو انفرادی طور پر کرنا مشکل ہو، اسے جماعتی نظم کے ساتھ سرانجام دینا آسان اور مستحکم ہوتا ہے۔ جماعت کے امیر کی رسائی حکام اعلیٰ تک ہوتی ہے، جو اہل حق کی سرکاری سطح پر نمائندگی کر سکتا ہے۔ معاشرے میں دعوت و تبلیغ کا منظم اور مرتب نظام جماعت کے ذریعے زیادہ بہتر اور فعال ثابت ہوتا ہے۔ اگر جماعتی احباب میں کوئی ناراضی یا تنازع ہو جائے، تو امیر جماعت فریقین کے مابین صلح کرا دیتا ہے۔ کسی کارکن پر ناگہانی آفت آ پڑے، تو جماعتی نظم کے ذریعے اس کی خاطر خواہ اعانت کی جا سکتی ہے۔ اہل باطل کی طرف سے اگر کسی فرد کے ساتھ زیادتی ہو، تو جماعت اس پر قانونی کارروائی کر سکتی ہے۔ جماعتی زندگی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ کسی فتنے کی سرکوبی کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے اور ہر کارکن انفرادی کاوش کے بجائے اجتماعی طور پر کوشش کرتا ہے، جو جلد بارآور ثابت ہوتی ہے۔ جماعتی نظم کے اور بھی کئی فوائد ہیں۔ البتہ انتظامی جماعت اس وقت تک جائز اور مفید رہتی ہے، جب اسے شرعی حدود میں رہنے دیا جائے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اہل حق کی ایک جماعت کے کارکن اہل حق کی دوسری جماعت کے کارکنوں سے نفرت کرتے ہیں، ان کے علماء کے متعلق توہین آمیز باتیں کرتے ہیں، ان کی مساجد میں داخل نہیں ہوتے، ان کے جلسوں، کانفرنسوں اور پروگراموں کا بائیکاٹ کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی ہوتی ہے۔ یہ نری حزبیت ہے اور عقیدة الولاء والبراء کے خلاف ہے، اس کا کوئی شرعی جواز نہیں۔ اہل حق کی ایک سے زائد جماعتیں ہو سکتی ہیں۔ ہر ایک کے اہداف مختلف ہو سکتے ہیں، مثلاً ایک جماعت کا قیام اس مقصد کے لیے ہو کہ وہ ویلفیئر کے کام کرے گی اور ناگہانی آفات میں متاثرین کی مدد کرے گی، دوسری جماعت کا مقصد ہو کہ وہ پورے ملک یا صوبے میں منظم انداز سے دعوت و تبلیغ، دروس اور کانفرنسیں منعقد کرائے گی، تیسری جماعت کو کسی دوسرے صحیح مقصد کے لیے قائم کیا جائے۔ تو ایسا کرنا جائز ہے، جب تک ان کے عقائد و اعمال اہل سنت والجماعت کے ہیں، یہ سب حق کی جماعتیں ہیں، ان سب پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔ ان سب کی بطور مسلمان ایک دوسرے سے محبت ہونی چاہیے، کیونکہ اس کا تعلق عقیدة الولاء والبراء سے ہے۔ ایک جماعت کے کارکن دوسری جماعت کے بارے میں توہین آمیز باتیں کرتے ہیں، مگر ہمارے ہاں ایک ہی جماعت کے افراد ایک دوسرے کے متعلق بھی پروپیگنڈا کرتے دکھائی دیتے ہیں، جماعتی عہدے کے لیے ایک مسلمان کی کردار کشی تک کر دیتے ہیں، ان کی غیبتیں کرتے ہیں، ان پر الزام تراشیاں کرتے ہیں، نفرتیں پال لیتے ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے، جس کی اصلاح کے لیے جماعتی امراء کو بہتر لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔
❀ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
بعث النبى صلى الله عليه وسلم سرية، وأمر عليهم رجلا من الأنصار، وأمرهم أن يطيعوه، فغضب عليهم، وقال: أليس قد أمر النبى صلى الله عليه وسلم أن تطيعوني؟ قالوا: بلى، قال: قد عزمت عليكم لما جمعتم حطبا، وأوقدتم نارا، ثم دخلتم فيها فجمعوا حطبا، فأوقدوا نارا، فلما هموا بالدخول، فقام ينظر بعضهم إلى بعض، قال بعضهم: إنما تبعنا النبى صلى الله عليه وسلم فرارا من النار أفندخلها؟ فبينما هم كذلك، إذ خمدت النار، وسكن غضبه، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: لو دخلوها ما خرجوا منها أبدا، إنما الطاعة فى المعروف
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ روانہ کیا، اس پر ایک انصاری شخص کو امیر مقرر کر دیا، سریہ والوں سے کہا کہ اپنے امیر کی اطاعت کیجئے گا۔ تو ہوا یوں کہ امیر ان پر غصہ ہو گیا، کہنے لگا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اطاعت کا حکم نہیں دیا؟ کہا: کیوں نہیں، تو کہنے لگا: میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ لکڑیاں جمع کر کے آگ لگاؤ اور اس میں کود جاؤ، انہوں نے لکڑیاں جمع کیں، آگ لگائی، جب کودنے لگے، تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ تو بعض نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع آگ سے بچنے کو کیا ہے، اب کیا آگ میں ہی داخل ہو جائیں؟ وہ یہی سوچ رہے تھے کہ آگ بجھ گئی، امیر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی گئی، تو فرمایا: اگر یہ لوگ آگ میں داخل ہو جاتے، تو اس سے کبھی نہ نکلتے، اطاعت صرف معروف میں ہے۔
(صحيح البخاري: 7145، صحیح مسلم: 1840)
یہ حدیث دلیل ہے کہ اگر انتظامی امیر کسی غیر شرعی کام کا حکم دے، تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی، بلکہ جماعت کے علماء اور اہل فتویٰ کو چاہیے کہ بروقت اصلاح کریں۔ جماعت کی غیر شرعی پالیسی کا دفاع کرنا یا اس کے لیے دلائل کشید کرنا درست اقدام نہیں، کیونکہ جب ایک صحابی کے غیر شرعی حکم کو رد کیا جا سکتا ہے، تو دوسروں کے غیر شرعی فیصلوں کو بالاولیٰ رد کیا جا سکتا ہے۔ جماعت کے امراء کو بھی چاہیے کہ ہر جماعتی پالیسی ماہر علماء کی مشاورت سے طے کریں، یہ بھی اختلاف و تشنج سے بچنے کا راستہ ہے۔
❀ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إذا كنتم ثلاثة فى سفر، فأمروا أحدكم
جب آپ تین لوگ سفر کریں تو ایک کو امیر مقرر کر لیں۔
(مسند ابن الجعد: 430، وسنده صحيح)
❀ علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1250ھ) فرماتے ہیں:
فيها دليل على أنه يشرع لكل عدد بلغ ثلاثة فصاعدا أن يؤمروا عليهم أحدهم لأن فى ذلك السلامة من الخلاف الذى يؤدي إلى التلاف، فمع عدم التأمير يستبد كل واحد برأيه ويفعل ما يطابق هواه فيهلكون، ومع التأمير يقل الاختلاف وتجتمع الكلمة، وإذا شرع هذا لثلاثة يكونون فى فلاة من الأرض أو يسافرون فشرع يسكنون القرى والأمصار ويحتاجون لدفع التظالم وفصل التخاصم أولى وأحرى
یہ روایت دلیل ہے کہ تین یا تین سے زائد افراد موجود ہوں، تو ان کے لیے مشروع ہے کہ ایک کو امیر منتخب کر لیں، کیونکہ اس کے ذریعے اختلاف سے بچا جا سکتا ہے، جو تباہی کا سبب ہے۔ امیر نہ ہو، تو ہر کوئی اپنی رائے میں خود مختار اور مطلق العنان ہو جاتا ہے اور اپنی خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے، جس سے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ امیر ہوگا، تو اختلافات کم ہوں گے اور آواز مجتمع رہے گی۔ امیر بنانا جب تین افراد کے لیے مشروع ہے جو کسی بیابان علاقے میں ہیں یا سفر کر رہے ہیں، تو اس کی مشروعیت تین سے زائد افراد کے لیے جو بستیوں اور شہروں میں رہتے ہیں اور انہیں آپسی ظلم اور جھگڑوں کے فیصلے کرانے کی ضرورت ہوتی ہے، اولیٰ اور زیادہ لائق ہے۔
(نيل الأوطار: 8/294)