اللہ کے کلام کے بارے میں صحیح عقیدہ
یہ عقیدہ بالکل واضح اور برحق ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِن أَحَدٌ مِنَ المُشرِكينَ استَجارَكَ فَأَجِرهُ حَتّىٰ يَسمَعَ كَلـٰمَ اللَّهِ… ﴿٦﴾… سورةالتوبة
(سورۃ التوبہ:6)
’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اُسے پناہ دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔‘‘
یہ آیت واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو قرآن لوگوں کو پڑھ کر سناتے تھے، وہ اللہ کا حقیقی کلام تھا، نہ کہ کسی انسان یا مخلوق کا بنایا ہوا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِنَّهُ لَتَنزيلُ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿١٩٢﴾… سورةالشعراء
’’اور بے شک یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔‘‘
سلف صالحین کا عقیدہ
قرآن اللہ کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے
سلف صالحین میں سے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نے قرآن کے غیر مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھا۔ ان میں سے چند کے اقوال درج ذیل ہیں:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ: جب سورۃ الروم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، تو مشرکین مکہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’یہ تیرا کلام ہے یا تیرے ساتھی کا؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا: ’’نہ یہ میرا کلام ہے اور نہ میرے ساتھی کا، بلکہ یہ اللہ عزوجل کا کلام ہے۔‘‘ (کتاب الاعتقاد للبیہقی، ص108، وسندہ حسن)
امام سفیان بن عیینہ (متوفی 198ھ): ’’میں نے ستر سال سے اپنے استادوں کو، جن میں عمرو بن دینار (تابعی) بھی تھے، یہی کہتے ہوئے سنا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے۔‘‘ (خلق افعال العباد للبخاری، ص7، وسندہ صحیح)
امام جعفر صادق (متوفی 148ھ): ’’قرآن مخلوق نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے۔‘‘ (مسائل ابی داود، ص265، وسندہ حسن)
امام مالک بن انس (متوفی 179ھ): ’’جو شخص کہے کہ قرآن مخلوق ہے، اسے مار مار کر سزا دی جائے اور قید میں رکھا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے۔‘‘ (الشریعہ، ص79، وسندہ حسن)
امام شافعی (متوفی 204ھ): ’’جو شخص کہے کہ قرآن مخلوق ہے، وہ کافر ہے۔‘‘ (حلیۃ الاولیاء، 9/113، وسندہ حسن)
امام احمد بن حنبل (متوفی 241ھ): ’’قرآن کو مخلوق کہنے والا کافر ہے۔‘‘ (مسائل ابی داود، ص262، وسندہ صحیح)
کیا اللہ کے کلام میں حرف اور صوت ہونا جسمیت ثابت کرنا ہے؟
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اللہ کے کلام کو حرف و صوت سے مرکب مانا جائے تو اس سے اللہ کے لیے جسمیت ثابت ہو جاتی ہے، جو کہ غلط ہے۔ امام احمد بن حنبل، امام ابن تیمیہ اور دیگر جمہور اہل سنت والجماعت کے نزدیک اللہ تعالیٰ حروف اور آواز کے ساتھ بولتا ہے، لیکن اس کی کیفیت مخلوق جیسی نہیں ہوتی۔
دلائل:
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا
﴿وَلَمّا جاءَ موسىٰ لِميقـٰتِنا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ …﴿١٤٣﴾… سورةالاعراف
’’اور جب موسیٰ ہمارے مقررہ وقت پر پہنچا، تو اس کے رب نے اس سے کلام کیا۔‘‘
اگر کوئی شخص کہے کہ اللہ نے بغیر آواز اور حرف کے کلام کیا، تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کیا سنا؟ کیا وہ خیالی یا نفسی کلام تھا؟ یہ نظریہ جہمیت کی طرف لے جاتا ہے جو اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی آواز سے پکارے گا۔‘‘ (صحیح بخاری:7483)
امام احمد بن حنبل نے فرمایا: ’’جی ہاں! تمہارا رب آواز (صوت) کے ساتھ کلام کرتا ہے۔‘‘ (کتاب السنہ، 1/280)
کیا ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے عرش کو قدیم کہا؟
انور شاہ کشمیری دیوبندی نے اپنی ملفوظات میں لکھا کہ: ’’ابن تیمیہ نے کہا کہ عرش قدیم ہے، حالانکہ حدیث میں عرش کے پیدا ہونے کا ذکر ہے۔‘‘ (ملفوظات، ص203)
یہ بات حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر جھوٹ ہے۔ ان کے کسی مستند کتاب میں ایسا قول نہیں ملتا۔ بلکہ وہ واضح طور پر کہتے ہیں:
"فإن العرش أيضاً مخلوق” ’’بے شک عرش بھی مخلوق ہے۔‘‘ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، 18/214)
استواء علی العرش کا مطلب جلوس نہیں
انور شاہ کشمیری نے ابن تیمیہ پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے استواء کا مطلب "جلوس” لیا، حالانکہ ابن تیمیہ نے کبھی "جلوس” یا "بیٹھنے” کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
"اللہ تعالیٰ حقیقتاً اپنے عرش پر مستوی ہے، بغیر کیفیت اور تشبیہ کے۔”
(مجموع فتاویٰ، 3/217)
حرفِ آخر
اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام حروف و صوت کے ساتھ ہے، لیکن وہ مخلوق کے کلام کے مشابہ نہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے، مگر اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں۔