الله کے ساتھ شرک
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ عالم اسلام کی ایک جلیل القدر شخصیت ہیں جن کے بارے میں علامہ ذہبی لکھتے ہیں: ”الشيخ، الإمام، العلامة، الحافظ المفسر، شيخ الإسلام، مفخر العراق“ (سیر اعلام النبلاء 365/21)۔
آپ کی بہت سی تصانیف عالم اسلام میں شائع و ذائع اور متداول ہیں، انہیں میں ایک کتاب” تذكرة أولي البصائر في معرفة الكبائر“ ہے جس میں آپ نے کبیرہ گناہوں سے متعلق امت مسلمہ کو باخبر کیا اور ان کی قباحت و شناعت کو واضح کیا تاکہ لوگ ان سے اجتناب کی سعی و جہد کو بروئے کار لاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا و رحمت کے مستحق بن جائیں۔ ان میں ”الكبيرة الأولى“ کے عنوان سے آپ نے دین اسلام میں سب سے بڑے گناہ شرک پر بحث فرمائی ہے۔ ہر شخص کے ساتھ اختلاف کیا جا سکتا ہے سوائے امام کائنات فخر موجودات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ کی ہر بات و عمل سے اتفاق صرف ضروری ہی نہیں بلکہ شرط ایمان ہے۔ والله يوفقنا
استاذی المحترم فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی صاحب حفظہ اللہ کی خواہش و حکم پر ناچیز نے قارئین ماہنامہ الحدیث کے لئے اس کتاب کے ”الكبيرة الأولى“ کا ترجمہ کر دیا ہے۔
اللہ عز وجل اسے لوگوں کے لئے مفید بنائے۔ آمین (محمد صدیق رضا)
اللہ عز وجل نے فرمایا: ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا﴾
یقیناً اللہ اس بات کی مغفرت نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ جو گناہ وہ چاہے بخش دے۔ (النساء: 48)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾
یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان: 13)
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے کہ ﴿إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ﴾ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرائے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ (المائدہ: 72)
جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے پھر اس حال میں مرے کہ وہ مشرک ہو تو وہ قطعی جہنمیوں میں سے ہوگا اگرچہ اس نے کتنے ہی نیک اعمال کیے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے متعلق خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
﴿وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا﴾
اور ہم اس کی طرف آئیں گے، انہوں نے جو کوئی بھی عمل کیا ہوگا ہم اسے بکھرا ہوا غبار بنا دیں گے۔ (الفرقان: 23)
پھر اس (مشرک) کا قتل بھی مباح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ﴾ پس مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ انہیں قتل کر دو۔ (واضح رہے کہ یہ کام عوام کا نہیں بلکہ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ دعویٰ اسلام کے باوجود شرک میں مبتلا ہونے والوں کی اصلاح کی بھرپور کوشش کریں، رجوع نہ کرنے کی صورت میں ان کے خلاف اسلامی احکام کے مطابق برتاؤ کریں، جس طرح سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ کے ساتھ جہاد کیا اس طرح ان کے ساتھ جہاد کریں۔ توحید کا مسئلہ بہرحال نماز و زکوٰۃ سے اہم و مقدم ہے۔ نیز محض کسی طبقہ یا گروہ سے تعلق ہی مجرم بنانے کے لئے کافی نہیں جب تک کہ فرد خاص سے جرم ثابت نہ ہو جائے، بلاشبہ بعض سنجیدہ اہل علم اور بکثرت عوام قبر پرستی کے شرک سے متنفر و محفوظ ہیں، اس لئے محض کسی فرقے سے تعلق کی بنیاد پر انہیں اس جرم کے ساتھ متہم نہیں کیا جا سکتا مگر جو مبتلائے شرک ہیں ان کی روک تھام کے لئے تمام اسلامی احکام کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی ریاست کو اپنی ذمہ داری نبھانا از حد ضروری ہے۔) /محمد صدیق رضا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من بدل دينه فاقتلوه جس کسی نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا (یعنی اسلام کو چھوڑ کر کافر ہوا) اسے قتل کر دو۔ (صحیح البخاری: 3017)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
ألا أنبئكم بأكبر الكبائر؟ الإشراك بالله … إلخ
کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے متعلق نہ بتلاؤں؟ (پھر فرمایا:) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا …. (صحیح البخاری: 2654، صحیح مسلم: 87)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اجتنبوا السبع الموبقات … إلخ
” سات (7) ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو ..“ (صحیح البخاری: 2762، صحیح مسلم: 89)
( شرک کیا ہے؟) شرک یہ ہے کہ اللہ جل مجدہ کے لئے کوئی شریک بنانا یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ اس کے علاوہ کسی حجر، شجر، بشر یا چاند، سورج، ستارے یا کسی نبی، جن یا فرشتے اور پیر وغیرہ کی عبادت کی جائے۔
(قبر پرستی) دین اسلام کی طرف منسوب ہونے والے بعض جاہل اپنی جہالت کی بنا پر ان امور میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو مشائخ میں سے کسی شیخ کی طرف منسوب ہیں، جیسے پیر احمد بن الرفاعی (بانی سلسلہ رفاعیہ) یا پیر یونس اور پیر عدی یا ان کے علاوہ کسی اور شیخ کی طرف خود کو منسوب کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے علاوہ ان پیروں کے ذکر و محبت میں وارفتہ رہتے ہیں، ان کی قبروں پر (مجاوری اختیار کرتے ہوئے) معتکف رہتے ہیں، انہیں چومتے اور سجدہ کرتے ہیں، ان مشائخ سے مشکل کشائی کی فریادیں کرتے ہیں، بخشش اور اپنی حاجات و ضروریات پوری کرنے کی درخواست و عرضیں پیش کرتے ہیں۔ در حقیقت یہ قبر پرستی ہی بتوں کی پوجا میں مبتلا ہو جانے کی بنیاد بنی، اور یہ قبر پرستی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ لات و عزى: جن کی مشرکین عبادت کیا کرتے تھے۔ (انسان و مخلوق تھے۔)
مجاہد، ابو صالح اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ﴿اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ﴾ میں لات کو تشدید کے ساتھ پڑھا اور اس سے متعلق کہا: یہ نیک آدمی تھا حاجیوں کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا جب یہ فوت ہوا تو مشرکین نے اس کی قبر پر اعتکاف کیا اور اس کی عبادت کرنے لگے۔
عزى تو وہ ایک درخت (کو کہا جاتا) تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کو بھیجا تو انہوں نے اسے کاٹ ڈالا۔ (مسند ابی یعلی: 902 وسندہ حسن)
علماء نے یہ بھی بیان کیا کہ ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نیک لوگوں کے نام ہیں جو سیدنا آدم اور سیدنا نوح علیہما السلام کے درمیانی عرصہ کے لوگ تھے۔ امام محمد بن جریر الطبری اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ ثوری نے موسیٰ سے اور انہوں نے محمد بن قیس سے نوح علیہ السلام کے اس قول: ﴿وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ (نوح: 23) کے متعلق فرمایا:
یہ نوح اور آدم علیہما السلام کے درمیانی دور کے نیک لوگ تھے، ان کے کچھ پیروکار تھے جو ان کی اقتدا کیا کرتے تھے، جب یہ فوت ہوئے تو ان کی پیروی کرنے والے لوگوں نے کہا: کیوں نہ ہم ان بزرگوں کی تصاویر بنائیں، یہ طریقہ ہمیں عبادت کی طرف زیادہ شوق دلائے گا کہ جب بھی ہم انہیں یاد کریں گے۔ پھر انہوں نے ان کی تصاویر بنا لیں جب یہ تصاویر بنانے والے فوت ہو گئے اور ان کے بعد والی نسلیں آئیں تو ابلیس نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دی اور کہا کہ تمہارے یہ بڑے انہی کی عبادت کیا کرتے تھے۔ انہی کے وسیلے سے بارش طلب کرتے تھے، پھر بعد والے ان کی عبادت کرنے لگے۔ قتادہ نے کہا: یہ آلھہ (معبود) ہیں کہ نوح علیہ السلام کی قوم جن کی عبادت کیا کرتی تھی پھر ان کے بعد عرب کے لوگوں نے بھی انہیں معبود بنا لیا، اس سے ظاہر ہوا کہ اولیاء و صالحین کی تصاویر کی (ناجائز) تعظیم ہی اوثان و اصنام کی عبادت کی بنیاد بنی ہے۔ اسی لئے شارع علیہ السلام نے قبروں کی تعظیم، وہاں نماز پڑھنے اور ان پر اعتکاف سے منع فرمایا، کیونکہ اسی چیز نے گزشتہ امتوں کو شرک اکبر میں مبتلا کردیا۔
اور اسی سبب سے ہم بعض ایسی گمراہ قوموں کو پاتے ہیں جن پر شیطان غالب آچکا ہے۔ وہ قبروں کے سامنے اور اپنے مشائخ کا تذکرہ سنتے وقت عاجزی و انکساری سے گڑگڑاتے رہتے ہیں اور دل سے خشوع و خضوع کے ساتھ ان کی ایسی عبادت کرتے ہیں جیسی عبادت نہ مساجد میں کرتے ہیں نہ ہی سحری کے سنہری اوقات میں اور ان گمراہ لوگوں میں سے کچھ لوگ قبروں کو سجدہ کرتے ہیں، یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے۔ ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باسند صحیح یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
اللهم لا تجعل قبري وثنا يعبد فى الارض، اشتد غضب الله علىٰ قوم اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد
اے اللہ! میری قبر کو ایسا نہ بنانا کہ زمین میں اس کی عبادت کی جائے، اللہ کا سخت غضب ہو اس قوم پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو عبادت گاہ بنالیا۔ (مسند احمد: 2/246،ح 7358، مسند حمیدی: 1025، وسندہ حسن)
(اس فرمان کے ذریعہ سے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو یہود و نصاری کے طرز عمل سے ڈرا رہے تھے۔ جب (انبیاء علیہم السلام اور) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ کرنے پر اسقدر شدید وعید ہے تو ان کے علاوہ ان مشائخ کو سجدہ کرنے سے متعلق کیا گمان کیا جا سکتا ہے (یعنی اس کی وعید کس قدر سخت ہوگی؟)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے درمیان نماز پڑھنے سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لا تجلسوا على القبور، ولا تصلوا إليها
قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھو۔ (صحیح مسلم: 972، مسند احمد: 4/135)
اسی طرح اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے ان مشائخ سے فریادیں کرنا، ان کی قسمیں کھانا، ان کے تذکرے کے وقت رقت طاری کرنا جو کہ یہ لوگ ذکر الہی اور آیات قرآنیہ سنتے وقت بھی نہیں کرتے تو یہ امور بھی ممنوع ہیں۔
جس کسی نے غیر اللہ سے (مافوق الاسباب طور پر) مدد طلب کی جیسا کہ یہ مشائخ کے عشق میں دیوانے (متوالے) لوگ کہا کرتے ہیں: یا سیدی یا شیخ فلان (یا غوث پاک، یا معین الدین چشتی وغیرہ وغیرہ) تو اس نے یقیناً اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے غیر کو شریک ٹھہرایا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
پس اللہ تعالیٰ کے شریک نہ بناؤ جبکہ تم جانتے ہو۔ (البقرة: 22)
”انداد“ یعنی شرکاء جن سے تم مدد طلب کرتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله
جب تو کچھ مانگے تو اللہ سے مانگ اور جب مدد طلب کرے تو اللہ سے مدد طلب کر۔ (ترمذی: 2516 وقال: هذا حديث حسن صحيح، وسندہ حسن)
جب کسی نے غیر اللہ سے مغفرت طلب کی یا اپنی حاجت بر لانے کی درخواست کی یا (مافوق الاسباب طور پر) مدد طلب کی اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا، اسی طرح غیر اللہ کی قسم کھائی جیسے فلاں شیخ کی زندگی کی قسم، یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم، کعبہ یا امانت کی قسم کھانا سخت منع ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کسی شخص کو کعبہ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا: غیر اللہ کی قسم مت کھاؤ بے شک کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
من حلف بغير الله فقد كفر وأشرك
جس کسی نے غیر اللہ کی قسم کھائی، اس نے کفر و شرک کیا۔ (مسند احمد: 2072، ترمذی: 1535، مستدرک: 4/297، حاکم نے اسے شیخین کی شرط پر صحیح کہا اور ذہبی نے ان کی موافقت کی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حلف بالأمانة فليس منا
جس نے امانت کی قسم کھائی وہ ہم میں سے نہیں۔ (ابو داود: 3253، وسندہ صحيح، ابن حبان: 4362، مسند احمد: 22980)
نسائی نے قبیلہ جہینہ کی ایک خاتون قتیلہ (رضی اللہ عنہا)کی سند سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک یہودی حاضر ہوا اور کہا: آپ (کی قوم کے) لوگ شرک کرتے ہیں( جب یہ) کہتے ہیں کہ جو اللہ چاہے اور تم چاہو اور کہتے ہیں کعبہ کی قسم، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (صحابہ کو) حکم دیا کہ جب وہ قسم کا ارادہ کریں تو یوں کہیں: رب کعبہ کی قسم اور یہ کہیں کہ جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں۔ (سنن نسائی: 3804، وسندہ صحيح)
سیدنا عبد اللہ بن صوت رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:
إن الرقى والتمائم والتولة شرك
(شرکیہ) جھاڑ پھونک، منکے اور محبت پیدا کرنے کے لئے کیے جانے والے عملیات شرک ہیں۔ (سنن ابی داود: 3883، وسندہ ضعیف / الاعمش مدلس و عنعنہ)
تولہ: جادو کی ایک قسم ہے جو شوہر کے دل میں بیوی کی محبت پیدا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
تمائم: تمیمہ کی جمع ہے یہ وہ منکا ہے جو بچے کے گلے میں اس زعم سے لٹکاتے ہیں کہ یہ نظر بد کو ٹالتا ہے۔ (یہ زعم باطل ہے)۔
اسی طرح اعمال میں ریاکاری، نیک عمل کا مقصد لوگوں کو دکھلانا یا یہ مقصود ہو کہ اس کے متعلق یہ کہا جائے: نیک آدمی ہے یا بڑا دیندار ہے اور اس کی تعریفیں کی جائیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا﴾
آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں مجھ پر وحی کی جاتی ہے تمہارا الہ تو بس ایک الہ ہے پس جو کوئی اپنے رب سے ملاقات کا یقین رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ نیک عمل کرے، اپنے رب کی عبادت میں کسی ایک کو بھی شریک نہ کرے۔ (الكهف:110)
تو لوگوں کو دکھلانے کے لئے اعمال صالحہ کرنا شرک اصغر ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يقول الله – عز وجل – أنا أغنى الشرركاء عن الشرك، فمن عمل عملا أشررك فيه معي غيري، فهو للذي أشرك، وأنا منه بريء
اللہ تعالىٰ فرماتا ہے:میں تمام شریک ٹھہرانے والوں کے شرک سے سب سے زیادہ بےنیاز ہوں، جو کوئی ایسا عمل کرے کہ اس میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔ صحیح مسلم: 2985، مسند احمد: 7999، ابن ماجه: 4202
اور صحیح مسلم میں ایسے تین لوگوں کے بارے میں حدیث ہے جو اللہ کی مخلوق میں سے سب سے پہلے جہنم میں ڈالے جائیں گے، قرآن کا قاری، مجاہد اور سخی، اسلئے کہ ان کی قراءت، جہاد اور سخاوت لوگوں کو دکھلانے کے لئے ہوگی۔ اللہ تعاللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالىٰ ہمیں ہر اس شرک سے محفوظ رکھے کہ جسے ہم جانتے ہیں اور جسے ہم نہیں جانتے، اس کے لئے ہم اللہ تعاللَىٰ سے مغفرت طلب کرتے ہیں، یقینا وہ اللہ سخی کریم ہے۔ (الكبيرة الأولى ختم ہوا۔)