رات کے آخری حصے میں نزول باری تعالیٰ سے کیا مراد ہے؟
سوال:
یہ بات معلوم ہے کہ رات زمین پر گردش کرتی رہتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ عزوجل ہر رات کے آخری تہائی حصے میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ پوری رات آسمانِ دنیا پر رہتا ہے کیونکہ زمین پر تو رات مسلسل کسی نہ کسی حصے میں جاری رہتی ہے۔ اس اشکال کا کیا جواب ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اُن تمام اسماء و صفات پر ایمان لائیں جن کے ذریعے اس نے خود کو اپنی کتاب (قرآن) یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے موسوم و موصوف کیا ہے۔ ان صفات کو ماننے کے سلسلے میں ہمیں چار باتوں سے بچنا چاہیے:
❀ تحریف: یہ نصوص میں تبدیلی یا ان کا غلط مطلب نکالنے سے متعلق ہے۔
❀ تعطیل: اللہ کی صفات کا انکار کرنا یا ان سے خالی قرار دینا۔
❀ تکییف: صفات کی کیفیت بیان کرنا۔
❀ تمثیل: اللہ کی صفات کو مخلوق کی صفات جیسا قرار دینا۔
یہ بات ضروری ہے کہ ہمارا ایمان ان چاروں ممنوعات سے پاک ہو۔ ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں "کیوں” اور "کیسے” جیسے سوالات نہ کریں۔ صفات کی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش میں پڑنے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔
جس شخص کی زندگی کا طرزعمل یہی ہوگا، وہ ذہنی سکون اور اطمینان محسوس کرے گا۔ یہی طریقہ سلف صالحین رحمہم اللہ کا تھا۔
امام مالک بن انس رحمہ اللہ کا واقعہ:
ایک شخص امام مالک رحمہ اللہ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا:
"اے ابو عبداللہ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾، تو وہ عرش پر کیسے مستوی ہوا؟”
یہ سن کر امام مالک رحمہ اللہ نے اپنا سر جھکا لیا اور پسینے سے شرابور ہوگئے، پھر فرمایا:
«اَلْاِسْتَوَائُ غَیْرُ مَجْهوْلٍ، وَالْکَیْفُ غَیْرُ مَعْقُولٍ، وَالْاِیْمَانُ بِه وَاجِبٌ، وَالسُّؤَالُ عَنْه بِدْعَة، وَمَا اَرَاکَ اِلاَّ مُبْتَدِعًا»
ترجمہ: "استواء مجہول نہیں ہے، اس کی کیفیت عقل میں نہیں آتی، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔ میں تمہیں بدعتی سمجھتا ہوں۔”
اصل سوال کے جواب کی وضاحت:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری تہائی حصے میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی یہ سوال نہ کیا کہ پوری زمین پر رات تو گھومتی رہتی ہے، تو کیا اللہ تعالیٰ ہمیشہ آسمانِ دنیا پر رہتا ہے؟
اگر یہ سوال کسی مخلص اور اطاعت گزار مومن کے دل میں پیدا ہوتا، تو یقیناً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت فرما دیتے۔
اس اشکال کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے:
❀ جب تک ہماری جہت (علاقہ) میں رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہتا ہے، اس وقت تک نزولِ الٰہی بھی ہوتا ہے۔
❀ جب رات ختم ہو جاتی ہے، تو نزول بھی ختم ہو جاتا ہے۔
البتہ نزولِ باری تعالیٰ کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں، اور ہمارا علم اس کا احاطہ بھی نہیں کر سکتا۔
لیکن ہم یقین رکھتے ہیں کہ "لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ”، لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو دل سے تسلیم کریں اور کہیں:
"ہم نے سن لیا، ہم ایمان لائے، اور ہم نے اطاعت و اتباع اختیار کر لی”۔
یہی مومن کی شان اور ذمہ داری ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب