اللہ کی بعض صفات بندوں میں ہونے کا بریلوی دعویٰ
اس کے آگے موصوف نے حضرت شبلی رحمہ اللہ کی خود ساختہ کہانی لکھی ہے ایسے قصے بے سند باتیں ہمارے لیے حجت نہیں اس لیے کہ جب دلیل ہی نہیں تو اس کا جواب کیا معنی رکھتا ہے۔
حفیظ الرحمن قادری صاحب اپنی لمبی چوڑی کہانی لکھتے ہیں کہ بندے کو داتا کہنا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اتنی جلدی عربی پولیس والے نے داتا کی اردو میں لکھی ہوئی کہانی پڑھ لی اور قادری صاحب کو گرفتار کر کے بھی لے گیا حقیقت میں یہ لوگ کہانی قصہ گھڑنے کے بہت ماہر ہیں کہ ان کا دین ہی ایسے قصے کہانیوں پر مبنی ہے۔ قرآن وحدیث سے انہیں کوئی واسطہ نہیں اتنی لمبی کہانی لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ بندے کو داتا کہنا جائز ہے۔ دوسری دلیل یہ دینے کی کوشش کی ہے کہ بندے بھی اللہ کی صفات میں شریک ہیں۔ بندے کو مولانا کہتے ہیں جبکہ قران مجید میں ہے۔
أَنتَ مَوْلَىٰنَا فَٱنصُرْنَا عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَـٰفِرِينَ2/ البقرہ: 286
تو ہمارا مولا ہے تو کافروں پر ہمیں مدد دے۔
کہتے ہیں پھر یہ شرک نہیں ہوتا ایک اور دلیل قادری صاحب کی:
هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ17/ بني اسرائيل:1
بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
انسان کے بارے میں کہا:
جَعَلْنَـٰهُ سَمِيعًۢا بَصِيرًا 76 / الدهر : 2
تو انہیں سنتا دیکھتا کر دیا۔
دیکھو اللہ عز وجل خود اپنی صفت سمیع اور بصیر سننے والا اور دیکھنے والا بتلا رہا ہے اور خود ہی فرما رہا ہے کہ میں نے انسان کو سمیع اور بصیر بنایا اس طرح بندہ سمیع اور بصیر بھی ہوا اسی طرح قرآن مجید میں ہے۔
بِٱلْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌۭ رَّحِيمٌ 9/ التوبہ 128
مسلمانوں پر کمال مہربان ہیں۔
اس طرح سورہ حشر میں فرمایا :
ترجمہ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں بادشاہ نہایت پاک سلامتی دینے والا امان بخشنے والا حفاظت فرمانے والا۔ اسی طرح کچھ اور صفات کو ذکر کرنے کے بعد قادری صاحب کہتے ہیں کہ یہ صفات اللہ کی ہیں بندوں میں بھی پائی جاتی ہیں تو کیا یہ شرک نہیں یعنی وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ خدائی صفات کو بندوں میں تسلیم کرنا شرک نہیں انہوں نے جو باتیں لکھی ہیں کہتے ہیں کہ یہ صفات اللہ کی ہیں اور بندوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔
کتاب مذکورہ صفحہ 34
✔ پہلا جواب:
حق و باطل میں فرق تو یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ:
یہ لوگ اللہ کا شریک ٹھہرانے کے راستے تلاش کر رہے ہیں اور ہم اللہ کے لاشریک ہونے کے دلائل پیش کر رہے ہیں میرے بھائیو! یہ بات یاد رکھو کہ اللہ کا نہ کوئی ذات میں شریک ہے نہ صفات میں وہ ہر لحاظ سے وحدہ لاشریک ہے۔
قادری صاحب کہتے ہیں کہ اللہ بھی سمیع بندہ بھی سمیع اللہ بصیر بندہ بھی بصیر لیکن موصوف کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ اللہ جو سمیع ہے ہر وقت ہر زبان ہر بولی ہر جگہ سے ہر ایک پکار کو سننا اللہ کی صفت ہے۔ مخلوق میں سے کسی کو عطا نہیں کی مخلوق جو کچھ سنتی ہے یہ سب ماتحت الاسباب ہے اسباب کے علاوہ دور ونزدیک سے سننا مخلوق کی صفت نہیں ہے مخلوق جو سنتی ہے اس کی سماعت محدود ہے لامحدود نہیں کیوں کہ جس کسی بندے کو آواز دی جائے تو وہ ایک رینج تک آواز سنتا ہے اگر رینج کے باہر سے اُسے پکارا جائے تو وہ نہیں سنتا مثال کے طور پر محلہ کی مسجد میں اذان بغیر لاؤڈ سپیکر کے دی جائے تو لوگوں کو سنائی نہیں دیتی جو مسجد کے تھوڑے فاصلے پر ہوں کیوں کہ بندوں کی سماعت محدود ہے۔ پھر اللہ نے اپنی قدرت دکھانے کے لیے بعض لوگوں کو سماعت کی قوت سے محروم رکھا کہ بندے کو میں قوت سماعت عطا نہیں کروں تو کوئی دے نہیں سکتا۔ بندے کی سماعت فانی ہے اللہ کی سماعت لافانی ہے۔
بندہ سمیع بننے میں اللہ کا محتاج ہے اللہ کسی کا محتاج نہیں پھر سمیع ہونے میں برابر کیسے ہو گئے اللہ بندے کو سمیع بنانے والا بندہ بننے والا دونوں برابر کیسے ہو گئے ۔ اللہ سمیع ہے جو مستوی عرش ہو کہ زمین پر چلنے والی چیونٹی کی آواز کو بھی سنتا ہے کیا کوئی بندہ بھی ایسا سن سکتا ہے۔
ایسی صفت بصیر اندھیرے میں اجالے میں خشکی وتری میں دور نزدیک سے ہر چھوٹی بڑی چیز دیکھنا اللہ کی صفت ہے کسی اور کی صفت نہیں کیوں کہ بندے کا دیکھنا محدود ہے ایک حد تک انسان کی نگاہ کسی چیز کو دیکھ سکتی ہے۔
روشنی میں بندہ دیکھ سکتا ہے مگر اندھیری رات میں بغیر کسی روشنی کے کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ اسی طرح اللہ بصیر ہے مستوی عرش ہو کر زمین کے اندر نیچے سمندر کی گہرائیوں میں بھی مکمل دیکھتا ہے کیا کوئی بندہ بصیر ہونے کے لحاظ سے ایسا دیکھ سکتا ہے؟
یقینا نہیں دیکھ سکتا تو پھر وہ اللہ کی اس صفت میں برابر کیسے ہوا؟
اگر کوئی یہ صفت اُسی طرح کسی بندے میں تسلیم کرتا ہے جیسے اللہ کی صفت ہے یہ شرک ہوگا کیوں کہ اللہ اپنی صفات میں بھی لاشریک ہے۔
✔ دوسرا جواب :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ تَعَالَوْا۟ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْۖ أَلَّا تُشْرِكُوا۟ بِهِ شَيْـًٔا6/ الانعام: 151
(اے نبی) آپ کہہ دیجئے آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا حرام کیا ہے تم اللہ کے ساتھ ذرا سا بھی شرک نہ کرو۔
قرآن مجید کے دوسرے مقام پر فرمایا:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا7/ الاعراف:33
(اے نبی) آپ کہہ دیجئے کہ یقینا میرے پروردگار نے کھلی اور پوشیدہ بے حیائی کو گناہ اور ناحق زیادتی کو اور اللہ کے ساتھ شرک کرنے کو جس کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی حرام کیا ہے۔
ان آیات سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شرک کو حرام قرار دیا ہے اور اس کی قرآن میں کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی غیر کے سمیع و بصیر ہونے کی دلیل اللہ نے قرآن میں نازل کی ہے اس طرح جو بندوں کی محدود صفات ہیں جو قرآن میں موجود ہیں تو یہ شرک نہیں ہوسکتا کیوں کہ شرک کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل ہی نہیں فرمائی۔
اگر یہ عارضی صفات شرک ہوتا تو اللہ تعالیٰ انسانوں کو یہ صفت عطا نہ فرماتا ایک طرف اللہ شرک کو حرام اور اس پر سخت عذاب کی وعید سناتے ہیں اس کو ظلم عظیم قرار دے اور دوسری طرف انسان کی تخلیق ایسے فرمائے کہ شرک کا نہ ہونا محال ہو جائے۔
اس کا ہر گز کوئی اہل ایمان تصور بھی نہیں کر سکتا۔
کیوں کہ خالق اور مخلوق کی صفات یکساں و مشابہ نہیں ہو سکتی اللہ دل کی دھڑکنوں کو بھی سنتا ہے خفیہ آواز کو بھی سنتا ہے۔
جب کے انسان کی صفات محدود ہیں پس بندے اور رب کی صفت کا زمین آسمان کا فرق ہے دونوں کی صفات کو ایک قرار دینا ظلم عظیم ہے۔
اللہ کسی سبب کا محتاج نہیں جبکہ بندہ اسباب کا محتاج ہوتا ہے۔ اللہ کی صفت اختیار کلی ہوتا ہے اس کی کوئی حد نہیں ہوتی جبکہ مخلوق کی صفت جزوی اور
محدود ہوتی ہے اللہ کی صفت ابدی ہوتی ہے مخلوق کی عارضی ہوتی ہے۔