اللہ تعالیٰ کے اولیاء پر 21 انعامات
یہ تحریر ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی کی کتاب اولیاء اللہ کی پہچان سے ماخوذ ہے۔

1۔ جنت الفردوس

اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کو گونا گوں اور متنوع انعامات سے نوازا ہے۔ ذیل میں ہم چند انعامات الہیہ کا ذکر کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَن يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَىٰ . ‏ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ مَن تَزَكَّىٰ﴾
(20-طه: 75)
”اور جو مومن بن کر آئے گا، اور اعمال بھی نیک کیے ہوں گے، تو ایسے ہی لوگوں کے لیے بلند درجات ہیں۔ سدا بہار ہمیشگی کے باغات جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہر اس شخص کا انعام ہے جو پاک ہوا۔“
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا﴾
(4-النساء: 124)
”جو ایمان والا مرد ہو یا عورت اور وہ نیک اعمال کرے، یقیناً ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور کھجور کی گٹھلی کے برابر بھی ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ ان آیات کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
﴿وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ﴾ (النساء: 124) ”اور جو نیک اعمال کرے۔“ اس میں تمام اعمال قلب اور اعمال بدن شامل ہیں اور عمل کرنے والوں میں جن وانس، چھوٹا بڑا اور مرد و عورت سب داخل ہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِن﴾ ”مرد ہو یا عورت بس وہ مومن ہو ۔“ ایمان تمام اعمال کی قبولیت کے لیے اولین شرط ہے۔ کوئی عمل اس وقت تک نیک ہوسکتا ہے نہ قبول اور نہ اس پر ثواب مترتب اور نہ وہ کسی عذاب سے بچا سکتا ہے جب تک کہ عمل کرنے والا مومن نہ ہو۔ ایمان کے بغیر اعمال اس درخت کی شاخوں کی مانند ہیں جس کی جڑ کاٹ دی گئی ہو اور اس عمارت کی مانند ہیں جسے پانی کی موج پر تعمیر کیا گیا ہو۔ ایمان در حقیقت وہ اصل ، اساس اور قاعدہ ہے جس پر ہر چیز کی بنیاد ہے اس قید کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے یہ عمل جو مطلقاً بیان کیا گیا ہو وہ ایمان کی قید سے مقید ہے۔ ﴿فَأُولَٰئِكَ﴾ ”تو ایسے لوگ“ یعنی وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح ان دونوں صفات کے جمع کرنے والے ہوں تو وہ ﴿فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ﴾ ”جنت میں داخل ہوں گے ۔“

2 ۔ بڑے ثواب اور اچھی جزا کا وعدہ

اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو قیامت والے دن بڑے ثواب اور اجر عظیم سے نوازے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ﴾
(5-المائدة: 9)
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو ایمان لائیں اور نیک کام کریں ان کے لیے وسیع مغفرت اور بہت بڑا اجروثواب ہے۔“
عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
﴿وَعَدَ اللهُ﴾ ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے ۔“ یعنی اس اللہ تعالیٰ جو وعدہ خلافی نہیں کرتا ان لوگوں کے ساتھ وعدہ فرماتا ہے جو اس پر اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ”اور جنہوں نے نیک عمل کیے ۔“ جو واجبات و مستحبات پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ان کو بخش دینے ، ان کے گناہوں کی سزا کو معاف کر دینے اور ان کو اجر عظیم کے عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہے جس کی بڑائی کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾
(32-السجدة: 17)
”کوئی متفنس نہیں جانتا کہ ان کے لیے ان اعمال کے صلہ کے طور پر آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ۔ “
(تفسیر السعدی: 662/1)

3۔ بخشش کا وعدہ

اللہ نے ان سے بخشش کا وعدہ کر رکھا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ﴾
(11-هود: 11)
”سوائے ان کے جو صبر کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ انہی کے لیے بخشش بھی اور بہت بڑا نیک بدلہ بھی ہے۔ “
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
یہ انسان کی فطرت ہے سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ توفیق سے نواز دے اور اسے ان مذموم اخلاق سے نکال کر اخلاق حسنہ کی طرف لے جائے اور یہ وہ لوگ ہیں جو مصائب اور تکالیف کے وقت اپنے نفس کو صبر پر مجبور کرتے ہیں اور مایوس نہیں ہوتے اور خوشی کے وقت بھی صبر کرتے ہیں پس خوشی میں اتراتے نہیں ہیں اور نیکیوں میں واجبات و مستحبات پر عمل کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ؟ ﴿أُولَٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ﴾ ”ان کے لیے ان کے گناہوں کی مغفرت ہے۔“
(تفسیر السعدی)
ایک جگہ فرمایا:
﴿لِّيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ﴾
(34-سبأ: 4)
”تا کہ وہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو بدلہ عطا فرمائے ، یہی لوگ ہیں کہ جن کے لیے مغفرت اور باعزت رزق ہے۔ “

4۔ اللہ اپنے مخلصین اولیاء کا اجر ضائع نہیں کرتا

ارشاد باری تعالی ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا ﴿‎۳۰﴾ أُولَٰئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۚ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا﴾
(18-الكهف: 30 ، 31)
”یقیناً جو لوگ ایمان لائیں، اور نیک اعمال کریں تو ہم کسی نیک عمل کرنے والے کا ثواب ضائع نہیں کرتے۔ ان کے لیے ہمیشگی والے باغات ہیں، ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، وہاں یہ سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور سبز رنگ کے نرم و باریک اور موٹے ریشم کے لباس پہنیں گے، وہاں تختوں کے اوپر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے۔ کیا خوب بدلہ ہے، اور کس قدر عمدہ آرام گاہ ہے۔“
مزید فرمایا:
﴿مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾
(9-التوبة: 120)
”مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گردو پیش ہیں ان کو یہ حق نہیں کہ رسول اللہ کا ساتھ نہ دیں، اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں، یہ اس سبب سے کہ ان کو اللہ کی راہ میں جو پیاس لگی اور تکان پہنچتی اور جو بھوک لگی اور جو کسی ایسی جگہ پر چلے جو کفار کو غصہ دلائے ، اور دشمنوں کی جو کچھ خبر لی ان سب پر ان کے نام ایک ایک نیک کام لکھا گیا۔ بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔“

5 ۔ خوف اور غم سے نجات

اللہ اپنے ان مقرب بندوں سے خوف اور غم کو دُور کر دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
﴿يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾
(7-الأعراف: 35)
”اے اولاد آدم ! اگر تمہارے پاس پیغمبر آ ئیں جو تم ہی سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے، اور اصلاح کرے سو ان لوگوں پر نہ خوف ہوگا، اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
﴿فَمَنِ اتَّقى﴾ ”پس جس شخص نے تقوی اختیار کیا،“ یعنی جو ان امور سے بچ گیا جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے مثلاً شرک اور دیگر کبیرہ اور صغیرہ گناہ ﴿وَأَصْلَحَ﴾ ”اور اس نے (ظاہری اور باطنی اعمال کی ) اصلاح کر لی ۔“ ﴿فَلا خَوفٌ عَلَيْهِمْ﴾ ”تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا ۔“ یعنی وہ اس شر کے خوف سے مامون ہوں گے جس سے دیگر لوگ خوف زدہ ہوں گے۔ ﴿وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ ”اور نہ وہ (گزرے ہوئے واقعات پر ) غمگین ہوں گے ۔“ جب ان سے حزن و خوف کی نفی ہو گئی تو انہیں کامل امن اور ابدی فلاح و سعادت حاصل ہوگئی ۔ (تفسیر السعدی)
نیز فرمایا:
﴿وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿٦١﴾ ‏ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾
(10-يونس: 61، 62)
”اور آپ کسی بھی حال میں ہوں اور منجملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں، اور تم جو کام بھی کرتے ہو ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام کو کرنا شروع کرتے ہو، اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں، اور نہ آسمان میں، اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ، اور نہ کوئی بڑی مگر یہ ایک واضح کتاب میں موجود ہے۔ (کان لگا کر غور سے سن لو کہ ) بے شک اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“

6۔ عمدہ رزق

ان کو اللہ تعالیٰ عمدہ رزق سے نوازتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
‎ ﴿وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا ‎ ﴿١١﴾
(64-الطلاق: 11)
”جو شخص اللہ پر ایمان لایا اور نیک و شائستہ عمل کیے ، اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، یہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہت اچھا رزق رکھا ہے۔“

7 ۔ گناہ مٹادیے جائیں گے

اللہ تعالیٰ ایک انعام ان پر یہ کرتا ہے کہ ان کے گناہ ان سے مٹا دیتا ہے ۔ ارشاد فرمایا:
‎ ﴿يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ‎ ﴿٩﴾ ‏
(64-التغابن: 9)
”جس دن وہ تمہیں جمع کرنے کے دن کے لیے جمع کرے گا یعنی قیامت کے دن، یہ ہار جیت کا دن ہے اور جو اللہ پر ایمان لائے اور وہ اچھے کام کرے وہ (اللہ ) اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اسے (ان ) باغات میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
حضرت ماجدہ فرماتے ہیں اس سے زیادہ تغابن کیا ہو گا کہ ان کے سامنے انہیں جنت میں اور ان کے سامنے انہیں جہنم میں لے جائیں، گویا اس کی تفسیر اس کے بعد والی آیت میں ہے کہ ایمان دار لوگوں کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، اور بہتی نہروں والی ہمیشگی کی جنت میں اسے داخل کیا جائے گا، اور پوری کامیابی کو پہنچ جائے گا۔ اور کفر و تکذیب کرنے والے جہنم کی آگ میں جائیں گے، جہاں پڑے جلتے جھلتے رہیں گے ، بھلا اس سے بُر اٹھکانا اور کیا ہوسکتا ہے؟
(تفسير ابن كثير: 430/1 )
مزید فرمایا:
‎ ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎ ﴿٧﴾
(29-العنكبوت: 7)
”اور جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے ہم ان سے ان کی برائیاں ضرور دور کریں گے ، اور انہیں ان کو ان کے نیک اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے۔ “
عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
یعنی وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح سے نوازا ، وہ ان کے گناہوں کو ختم کر دے گا کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں ﴿وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎﴾ اور ہم ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا صلہ دیں گے اس سے مراد اعمال خیر ہیں مثلاً واجبات و مستحبات وغیرہ اور یہ بندے کے بہترین اعمال ہیں کیونکہ بندہ مباح کام بھی کرتا ہے ۔“
(تفسير السعدي: 2/ 2022)

8 ۔ دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل

ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ارشاد فرمایا:
﴿مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ ۖ وَمَا عِندَ اللَّهِ بَاقٍ ۗ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎ ﴿٩٦﴾ ‏ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎ ﴿٩٧﴾ ‏
(16-النحل: 96، 97)
”تمہارے پاس جو کچھ ہے سب فانی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہے باقی رہنے والا ہے۔ اور صبر کرنے والوں کو ہم اچھے اعمال کا بہترین بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے۔ جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن مومن ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور بہ ضرور دیں گے۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
پس جو کوئی ایمان اور عمل صالح کو جمع کر لیتا ہے ﴿فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً﴾ ”تو ہم اس کو زندگی دیں گے اچھی زندگی“ یہ زندگی اطمینان قلب، سکون نفس اور ان اُمور کی طرف عدم التفات پر مشتمل ہے جو قلب کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح رزق حلال سے نوازتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ﴿وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ﴾ اور ہم بدلے میں دیں گے ان کو یعنی آخرت میں ﴿أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ”ان کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ“ یعنی اللہ تعالیٰ انہیں مختلف قسم کی لذات سے نوازے گا جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں کبھی ان کا خیال گزرا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بھی بھلائی سے نوازے گا اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کرے گا۔“
(تفسير السعدي: 1430/2)
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
‎ ﴿وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ وَالْكَافِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ‎ ﴿٢٦﴾
(42-الشورى: 26)
”ان لوگوں کی دعا سنتا ہے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور انھیں اپنے فضل سے زیادہ دیتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے۔ “

9۔ رحمت کا سایہ

اللہ کی رحمت کا سایہ ان بندوں پر ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ‎ ﴿٥٦﴾
(7-الأعراف: 56)
”یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے نزدیک ہے۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعد ی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
”اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مقام احسان پر پہنچنے والے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے والے لوگ ۔ پس بندہ جتنا زیادہ احسان کے مقام پر فائز ہوگا اتنی ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے قریب ہو گی اس آیت کریمہ میں احسان کی ترغیب ہے جو مخفی نہیں ۔ “
(تفسیر السعدی)
نیز فرمایا:
‎ ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ‎ ﴿١٠﴾
(49-الحجرات: 10)
”مسلمان (آپس میں) بھائی بھائی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔“

10۔ بڑی کامیابی ملے گی

اللہ تعالیٰ انہیں قیامت والے دن بڑی کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
‎ ﴿يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ‎ ﴿٩﴾ ‏
(64-التغابن: 9)
”جس دن وہ تمہیں جمع کرنے کے دن کے لیے جمع کرے گا (یعنی قیامت کے دن ) یہ ہار جیت کا دن ہے اور جو اللہ پر ایمان لائے اور وہ اچھے کام کرے وہ (اللہ ) اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اسے (ان ) باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔“
دوسری جگہ اللہ رب العزت نے فرمایا:
‎ ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ‎ ﴿١٣﴾ ‏
(4-النساء: 13)
”یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گا، اسے اللہ باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ “

11۔ اللہ تعالیٰ کی دوستی

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
‎ ﴿إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ ‎ ﴿١٩٦﴾ ‏
(7-الأعراف: 196)
”یقیناً میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کا مددگار بنتا ہے۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
ان ولی نے اللہ ”میرا حمایتی تو اللہ ہے۔“ جو میری سر پرستی کرتا ہے پس مجھے ہرقسم کی منفعت عطا کرتا ہے اور ہر قسم کے ضرر سے بچاتا ہے۔ ﴿إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ﴾ جس نے کتاب نازل فرمائی ۔ جس میں ہدایت ، شفا اور روشنی ہے یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے خاص بندوں کی دینی تربیت کے لیے سر پرستی ہے ۔ ‎ ﴿وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ﴾ ‏ ”اور حمایت کرتا ہے نیک بندوں کی“ وہ لوگ جن کی نیتیں ، اعمال اور اقوال پاک ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا دوست اور سر پرست ہے جو ایمان لائے ، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔“
(البقرہ: 257)
پس صالح مومن، جب ایمان اور تقویٰ کے ذریعے سے اپنے رب کو اپنا دوست اور سر پرست بنا لیتے ہیں اور کسی ایسی ہستی کو اپنا دوست نہیں بناتے جو کسی کو نفع پہنچا سکتی ہے نہ نقصان ، تو اللہ تعالیٰ ان کا دوست اور مددگار بن جاتا ہے ، ان کو اپنے لطف وکرم سے ونوازتا ہے ان کے دین و دنیا کی بھلائی اور مصالح میں ان کی مدد کرتا ہے اور ان کے ایمان کے ذریعے سے ان سے ہر نا پسندیدہ چیز کو دُور کرتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‎ ﴿إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ ‎ ﴿٣٨﴾ ‏
(22-الحج: 38)
”اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے ان کے دشمنوں کو ہٹاتا ہے ۔ “
(تفسير السعدى: 1 / 961، 960)
نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
‎ ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا ‎ ﴿٩٦﴾ ‏
(19-مريم: 96)
”بے شک جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے شائستہ اعمال کیے ہیں، ان کے لیے اللہ رحمن محبت پیدا کر دے گا۔“

12۔ فلاح اور نجات

اللہ کے دوستوں پر جو انعامات خداوندی ہیں، ان میں سے ایک انعام فلاح اور جہنم سے نجات ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
‏ ‎ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎ ﴿٧٧﴾ ‏
(22-الحج: 77)
”اے ایمان والو ! رکوع سجدہ کرتے رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہوتا کہ کامیاب ہو جاؤ۔“
‎ ﴿‏ فَأَمَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَىٰ أَن يَكُونَ مِنَ الْمُفْلِحِينَ ‎ ﴿٦٧﴾ ‏
(28-القصص: 67)
”ہاں جو شخص توبہ کرلے، ایمان لے آئے اور نیک کام کرے، یقین ہے کہ وہ نجات پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔“

13۔ صراطِ مستقیم کی طرف راہنمائی

ارشادِ باری تعالی ہے:
‎ ﴿‏ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ ‎ ﴿٨٢﴾
(20-طه: 82)
”ہاں ! بے شک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں، ایمان لائیں، نیک عمل کریں اور راہ راست پر بھی رہیں۔“
عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
”بایں ہمہ بندے نے خواہ کتنا بڑا گناہ کیوں نہ کیا ہو اس کے لیے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ‏ ﴿وَإِنِّي لَغَفَّارٌ﴾ یعنی جو شخص بدعت اور فسق و فجور سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان لے آتا ہے اور قلب ، بدن اور زبان کے ذریعے سے نیک عمل کرتا ہے تو میں بہت زیادہ بخشنے والا اور بے پایاں رحمت کا مالک ہوں ۔ تم اھتدی یعنی پھر وہ صراط مستقیم پر گامزن ہوا۔ رسول کریم مل نے ایم کی اتباع اور دین قیم کی پیروی کی۔ پس یہ وہ شخص ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دے گا وہ اس کے گزشتہ گناہوں اور ان پر اس کے اصرار کو معاف کر دے گا کیونکہ وہ بخشش اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لیے سب سے بڑا سبب لے کر اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا ہے بلکہ تمام اسباب انہی اشیاء پر منحصر ہیں کیونکہ تو بہ گذشتہ تمام گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔
راہِ ہدایت کی تمام اقسام پر گامزن رہنا مثلاً علم حاصل کرنا کسی آیت یا حدیث کا معنی سمجھنے کے لیے ان میں تدبیر کرنا دین حق کی طرف دعوت دینا، بدعت، کفر و ضلالت کا رد کرنا ، جہاد اور ہجرت وغیرہ اور ہدایت کی دیگر جزئیات۔ یہ سب گناہوں کو مٹا دیتی ہیں اور منزل مطلوب کے حصول میں مدد دیتی ہیں۔
(تفسير السعدي: 2/ 1630)

14۔ اچھا انجام

اللہ کے مقرب بندوں کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
‎ ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ طُوبَىٰ لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ ‎ ﴿٢٩﴾ ‏
(13-الرعد: 29)
”جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام بھی کیے، ان کے لیے خوشحالی ہے اور بہترین ٹھکانہ“
عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ لوگ ایمان ائے اور نیک عمل کیے ۔ یعنی جو اپنے دل سے اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ یعنی اعمال قلوب مثلاً محبت الہی ، خشیت الہی اور اللہ تعالیٰ پر امید وغیرہ اور اعمال جوارح مثلاً نماز وغیرہ کے ذریعے سے اس ایمان کی تصدیق کرے ﴿طُوبَىٰ لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ﴾ ”ان کے لیے خوش حالی اور عمدہ ٹھکانا ہے ۔ “ یعنی ان کا حال پاک صاف اور ان کا انجام اچھا ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ انہیں دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی طرف سے اکرام و تکریم حاصل ہے اور انہیں کامل راحت اور پورا اطمینان قلب عطا کیا گیا ہے۔ ان جملہ نعمتوں میں ، ”جنت کا شجر طوبی“ بھی شامل ہے کہ اگر ایک سوار اس درخت کے سائے میں ایک سو سال تک چلتا رہے گا مگر سایہ ختم ہونے کو نہیں آئے گا۔“
(تفسير السعدي: 2 / 1324 )

15۔ دیدار الہی

اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور مقرب بندوں کو روز قیامت اپنے دیدار سے بہرہ یاب کرے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
‎ ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ‎ ﴿١١٠﴾ ‏
(18-الكهف: 110)
”آپ اعلان کر دیجیے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ۔ ہاں میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، تو جسے بھی اپنے پرودگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پرودگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
﴿قُلْ﴾ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کفار سے کہہ دیجیے ۔ ﴿إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ﴾ ”میں بھی ایک آدمی ہوں جیسے تم“ یعنی میں معبود نہیں ، اقتدار الہی میں میرا کوئی حصہ نہیں، نہ میرے پاس کوئی علم غیب ہے اور نہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہی ہیں ۔ ﴿إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ﴾ میں اپنے رب کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں ۔ ﴿يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ﴾ وحی آتی ہے مجھ پر کہ تمہارا معبود ایک معبود ہے۔ یعنی مجھے تم پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ میری طرف وحی کرتا ہے اور جلیل ترین وحی یہ ہے کہ اس نے تمہیں آگاہ کیا ہے کہ تمہارا معبود ایک ہے ، یعنی اس کا کوئی شریک نہیں اور نہ کوئی ذرہ بھر عبادت کا مستحق ہے اور میں تمہیں ان اعمال کی دعوت دیتا ہوں جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب اور اس کے ثواب سے بہرہ ور کرتے ہیں اور تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دُور کرتے ہیں ، اس لیے فرمایا: ﴿فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا﴾ ”پس جس کو امید ہو اپنے رب سے ملاقات کی ، سو وہ کرے نیک عمل ۔“ اس سے مراد وہ اعمال ہیں جو واجب اور مستحب ہیں ۔ ﴿وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا﴾ ”اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے ۔ یعنی اپنے اعمال میں ریا سے کام نہ لے بلکہ اس کے اعمال خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوں ۔ یہی وہ چیز ہے جو اخلاص اور اتباع کی جامع ہے اور اسی سے مطلوب ثواب حاصل ہو سکتا ہے ۔ اس طریقے کے سوا دیگر طریقوں کو اختیار کرنے والے لوگ اپنی دنیا و آخرت میں خائب و خاسر لوگ ہیں جو اپنے آقا ومولیٰ کے قرب اور اس کی رضا کے حصول سے محروم ہوں گے ۔ “
(تفسیر السعدي: 2 /1559، 1560)

16۔ رضائے الہی

انعامات ربانی میں سے ایک انعام اللہ کی رضا ہے اور یہی مطلوب و مقصود ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
‎ ﴿فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ‎ ﴿١٩﴾ ‏
(27-النمل: 19)
”اس کی اس بات سے سلیمان ہنس کر مسکرا دیے، اور دعا کرنے لگے کہ اے پرودگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجالاؤں جو تو نے مجھ پر، اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہیں اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے، اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل کر لے۔“
ایک مقام پر نیک بندوں کو اپنی رضا کا پروانہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
‎ ﴿يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ‎ ﴿٢٧﴾ ‏ ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ‎ ﴿٢٨﴾ ‏ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي ‎ ﴿٢٩﴾ ‏ وَادْخُلِي جَنَّتِي ‎ ﴿٣٠﴾ ‏
(89-الفجر: 27تا30)
”اے اطمینان پانے والی روح ! اپنے رب کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی تو میرے نیک بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنت میں داخل ہو جا۔“

17 ۔ نیک لوگوں میں داخلہ

ارشاد باری تعالی ہے:
‎ ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ ‎ ﴿٩﴾ ‏
(29-العنكبوت: 9)
”اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کیے، ہم انہیں نیک لوگوں میں ضرور داخل کریں گے ۔“
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
‎ ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا ‎ ﴿٦٩﴾ ‏
(4-النساء: 69)
”اور جو اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کریں، تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا (یعنی ) نبیوں ، صدیقوں ، شہداء اور صالحین کے ساتھ ، اور یہ لوگ کتنے ہی اچھے ساتھی ہیں۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
یعنی ہر وہ شخص جو اپنے حسب حال قد رواجب کے مطابق ، خواہ مرد ہو یا عورت اور بچہ ہو یا بوڑھا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔ ﴿فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم﴾ ‎ پس یہی وہ لوگ ہیں جو ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے فضل کیا۔ یعنی ان کو عظیم نعمت سے نوازا جو کمال فلاح اور سعادت کی مقتضی ہے۔ ﴿مِّنَ النَّبِيِّينَ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے وجی عطا کر کے فضیلت بخشی اور انہیں خصوصی فضیلت عطا کی کہ ان کو لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور انہوں نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی۔ ﴿وَالصِّدِّيقِينَ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس وحی کی کامل کی تصدیق کی جو رسول لے کر آئے تھے انہوں نے حق کو جان لیا اور یقین کامل کے ساتھ اس کی تصدیق کی اور پھر اپنے قول و فعل ، حال اور اللہ کی طرف دعوت دے کر اس حق کو قائم کیا۔ ﴿وَالشُّهَدَاءِ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کیا تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو اور قتل کر دیے گئے ۔ ﴿وَالصَّالِحِينَ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ظاہر و باطن درست ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے اعمال درست ہیں پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے وہ ان لوگوں کی صحبت سے بہرہ ور ہو گا۔
﴿وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا﴾ ان مذکورہ اصحاب فضیلت کے ساتھ نعمت والے باغوں میں اکٹھے ہونے اور اللہ رب العالمین کے جوار میں ان اصحاب کی قربت کا انس ایک بہت ہی اچھی رفاقت ہے۔ ﴿ذَٰلِكَ الْفَضْلُ﴾ یہ فضیات جو انہوں نے حاصل کی ہے۔ ﴿مِنَ اللَّهِ﴾ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے انہیں اس کی توفیق سے نوازا اس کے حصول میں ان کی مدد کی اور انہیں اتنا زیادہ ثواب عطا کیا کہ ان کے اعمال وہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے ۔ ﴿وَكَفَىٰ بِاللَّهِ عَلِيمًا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے احوال کا علم رکھتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ان میں سے کون ان اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے جن پر ان کا دل اور اعضاء متفق ہوں ثواب جزیل (زیادہ اجر ) کا مستحق ہے۔

18۔ برائیوں کے بدلے نیکیاں ملیں گی

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
‎ ﴿إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ‎ ﴿٧٠﴾ ‏
(25-الفرقان: 70)
”سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں۔ ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا ، نہایت مہربان ہے۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ: ﴿إِلَّا مَن تَابَ﴾ مگر جس نے تو بہ کی یعنی جس نے ان گناہوں اور دیگر گناہوں سے تو بہ کی اس نے فی الفوران گناہوں کو ترک کر دیا اور ان گناہوں پر نادم ہوا اور پختہ عزم کر لیا کہ اب وہ دوبارہ گناہ نہیں کرے گا۔ ﴿وَآمَنَ﴾ اور ایمان لایا۔ یعنی اللہ تعالیٰ پر صحیح طور پر ایمان لایا جو گناہوں کو ترک کرنے اور نیکیوں کے اکتساب کا تقاضا کرتا ہے۔ ﴿وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا﴾ اور اچھے کام کیے ۔ یعنی وہ ایسے نیک کام کرتا ہے جن کا شارع نے حکم دیا ہے اور ان سے اللہ تعالی کی رضا مقصود ہے۔ ﴿فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ﴾ تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا۔ یعنی ان کے وہ افعال اور اقوال جو بُرائی کی راہ میں سرانجام پانے کے لیے تیار تھے نیکیوں میں بدل جاتے ہیں چنانچہ ان کا شرک ایمان میں بدل جاتا ہے ان کی نافرمانی اطاعت میں اور وہ برائیاں جن کا انہوں نے ارتکاب کیا تھا نیکیوں میں بدل جاتی ہیں پھر ان کا وصف یہ بن جاتا ہے کہ جو بھی گناہ ان سے صادر ہوتا ہے تو وہ اس کے بعد تو بہ کرتے اور اطاعت کا راستہ اختیار کرتے ہیں، جس سے وہ گناہ بھی نیکیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں جیسا کہ آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے اس ضمن میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے جو اس شخص کے بارے میں ہے جس کے بعض گناہوں کا اللہ تعالیٰ محاسبہ کرے گا اور ان گناہوں کو اس کے سامنے شمار کرے گا پھر ہر برائی کو نیکی میں بدل دے گا وہ شخص اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گا:
«قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني لأعلم آخر أهل الجنة دخولا الجنة ….. فيقال عملت كذا وكذا ، كذا وكذا ، وعملت يوم كذا وكذا ، كذا وكذا فيقول نعم لا يستطيع أن ينكر وهو مشفق من كبار ذنوبه أن تعرض عليه فيقال له فإن لك مكان كل سيئة حسنة ، فيقول: رب قد عملت أشياء لا أراه هاهنا»
صحیح مسلم، کتاب الايمان، باب ادنى اهل الجنة منزلة فيها، رقم: 190 ۔
”اے میرے رب ! میری تو بہت سی برائیاں تھیں جو مجھے دکھائی نہیں دیتیں۔“
ایک جگہ ارشاد فرمایا:
‎ ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎ ﴿٧﴾ ‏
(29-العنكبوت:7)
”اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیسے ہم ان کے تمام گناہوں کومعاف کر دیں گے اور انہیں ان کے نیک اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے۔ “

19 ۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنا ساتھی بنالے گا

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‎ ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ‎ ﴿٦٩﴾ ‏
(29-العنكبوت:69)
”اور جن لوگوں نے ہمارے بارے میں پوری کوشش کی ہم انہیں ضرور اپنے راستے دکھا دیں گے۔ اور یقیناً اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“
عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا‏﴾ اور جن لوگوں نے ہمارے لیے کوشش کی ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی ، اپنے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی اتباع کرنے کی بھر پور کوشش کی ﴿لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ ”ہم ان کو ضرور اپنے راستے دکھا دیں گے۔“ ہم ان کو ان راستوں پر گامزن کر دیتے ہیں جو ہم تک پہنچتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیکوکار ہیں۔ ﴿وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ﴾ اور اللہ تعالیٰ اپنی مدد ، نصرت اور ہدایت کے ذریعے سے نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔“
یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صحیح بات کی موافقت کرنے کے حق دار اہل جہاد ہیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی احسن طریقے سے تعمیل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور ہدایت کے اسباب کو اس کے لیے آسان کر دیتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو کوئی شرعی علم کی طلب میں جدو جہد کرتا ہے اسے اپنے مطلوب و مقصود اور ان امور الہیہ کے حصول میں اللہ تعالیٰ کی معاونت اور رہنمائی حاصل ہوتی ہے جو اس کے مدارک اجتہاد سے باہر ہیں اور اُمور علم اس کے لیے آسان ہو جاتے ہیں کیونکہ شرعی علم طلب کرنا، جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے بلکہ یہ جہاد کی دو اقسام میں سے ایک ہے جسے صرف خاص لوگ ہی قائم کرتے ہیں ۔ اور وہ یہ ہے کہ وہ منافقین و کفار کے خلاف قولی اور لسانی جہاد کرتے ہیں۔ اُمور دین کی تعلیم کے لیے جدو جہد کرنا مخالفین حق ، خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں، کے اعتراضات کا جواب دینا بھی جہاد ہے۔
(تفسیر السعدی: 2057/3، 20580)

20۔ اللہ تعالیٰ کی مدد

اللہ کے انعاموں میں سے ایک انعام یہ بھی ہے کہ اللہ اپنی مددان کے شامل حال کر دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
‎ ﴿إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ ‎ ﴿٥١﴾ ‏
(40-غافر:51)
”بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔“
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
‎ ﴿بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ يَنصُرُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ‎ ﴿٥﴾ ‏ وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ‎ ﴿٦﴾ ‏ يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ ‎ ﴿٧﴾
(30-الروم:5تا7)
”اللہ کی مدد سے، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ وہی سب پر غالب نہایت رحم والا ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ وہ تو صرف دنیوی زندگی کے ظاہر کو ہی جانتے ہیں اور وہ آخرت سے تو بالکل ہی غافل ہیں۔“

21 ۔ قرب الہی

اللہ تعالیٰ اپنے مقدس کلام میں اپنے مقرب بندوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
‎ ﴿وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ ‎ ﴿١٠﴾ ‏ أُولَٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ ‎ ﴿١١﴾ ‏ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ‎ ﴿١٢﴾ ‏
(56-الواقعة:10تا12)
”اور جو پہل کرنے والے ہیں، وہی آگے بڑھنے والے ہیں۔ یہی لوگ قریب کیے ہوئے ہیں ۔ نعمت کے باغوں میں ۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ﴿وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ‏ أُولَٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ﴾ اور سبقت لے جانے والے تو سبقت لے جانے والے ہی ہیں یہی لوگ مقرب ہیں۔ یعنی جو دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کرتے تھے، وہی آخرت میں جنت میں داخل ہونے کی طرف سبقت کریں گے یہ وہ لوگ ہیں جو جنت کے اندر اعلیٰ علیین میں بلند منازل پر مقربین کے وصف سے موصوف ہوں گے اس سے بلند تر کوئی منزل نہیں ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اللہ تعالیٰ کے فرمان کو آگے بڑھ کر دوسروں پر سبقت کر کے قبول کرنے والے سب اس میں داخل ہیں ۔ قرآنِ کریم میں اور جگہ ہے:
‎ ﴿وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ‎ ﴿١٣٣﴾ ‏
(3-آل عمران:133)
”اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو جس کا عرض مثل آسمان و زمین کے ہے پس جس شخص نے اس دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کی وہ آخرت میں اللہ کی نعمتوں کی طرف بھی سابق ہی رہے گا۔“
ہر عمل کی جزا اسی جنس سے ہوتی ہے جیسا جو کرتا ہے ویسا ہی پاتا ہے اسی لیے یہاں ان کی نسبت فرمایا گیا کہ یہ اللہ کے مقربین ہیں یہ نعمتوں والی جنت میں ہیں ۔
(تفسیر ابن کثیر ، ج 5 )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے