اسمائے الہی میں الحاد کرنے کے نتائج
سوال:
اللہ تعالیٰ کے اسماء (ناموں) میں الحاد یعنی کجی اور انحراف اختیار کرنے کے کیا معنی ہیں اور اس کی کتنی اقسام ہیں؟
مقدمہ
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحاد کا لغوی مطلب "میلان” یا "جھکاؤ” ہے۔ اسی معنی میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لِسانُ الَّذى يُلحِدونَ إِلَيهِ أَعجَمِىٌّ وَهـذا لِسانٌ عَرَبِىٌّ مُبينٌ ﴿١٠٣﴾… سورة النحل
"جس کی طرف یہ (تعلیم کی غلط) نسبت کرتے ہیں، اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔”
اسی مادہ سے "لحد” (قبر کی جانب جھکی ہوئی جگہ) بھی بنا ہے کیونکہ وہ ایک طرف کو مائل ہوتی ہے۔
الحاد کی معرفت اس وقت ہی مکمل ہو سکتی ہے جب استقامت کو بھی سمجھا جائے کیونکہ مشہور اصول ہے: "اشیاء کی معرفت ان کے اضداد سے ہوتی ہے”۔
استقامت کی تعریف
اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے بارے میں استقامت یہ ہے کہ:
◈ بغیر تحریف (یعنی معنی کو بگاڑے بغیر)،
◈ بغیر تعطیل (یعنی صفات کا انکار کیے بغیر)،
◈ بغیر تکییف (یعنی کیفیت بیان کیے بغیر)،
◈ بغیر تمثیل (یعنی مثال دیے بغیر)،
اللہ کے اسماء و صفات پر ایمان رکھا جائے۔ ہمیں ان کی حقیقت اور کنہ پر ایمان رکھنا چاہیے جو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لائق ہے۔ اہل سنت والجماعت کا یہی اصول اور عقیدہ ہے۔
الحاد کی اقسام
اہل علم نے اللہ تعالیٰ کے اسماء میں الحاد کی مختلف اقسام بیان کی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اسماء و صفات کے بارے میں جو اعتقاد رکھنا واجب ہے، اس سے انحراف کرنا الحاد ہے۔
اس الحاد کی چار بنیادی اقسام بیان کی گئی ہیں:
پہلی قسم: اللہ کے کسی اسم یا صفت کا انکار کرنا
◈ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے کسی اسم کا انکار کرے۔
مثال:
◈ "الرحمن” کو اللہ تعالیٰ کا نام ماننے سے انکار جیسا کہ مشرکین مکہ نے کیا تھا۔
◈ کوئی شخص اسماء تو مانے لیکن ان اسماء سے متضمن صفات کا انکار کرے۔
مثال:
◈ کہنا کہ اللہ "رحیم” ہے مگر "رحمت” کے بغیر۔
◈ کہنا کہ اللہ "سمیع” ہے مگر "سمع” کے بغیر۔
دوسری قسم: اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا نام رکھنا جو اس نے خود نہیں رکھا
◈ اللہ کے لیے کوئی ایسا نام تجویز کرنا جو قرآن و سنت میں موجود نہیں۔
◈ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء توقیفی ہیں، یعنی وہ صرف وہی نام رکھے جا سکتے ہیں جو اللہ نے خود بتائے۔
◈ یہ الحاد اس لیے ہے کیونکہ:
◈ اللہ کی طرف بغیر علم کے بات منسوب کرنا ہے۔
◈ یہ اللہ تعالیٰ کے حق میں زیادتی ہے۔
مثالیں:
◈ فلاسفہ نے اللہ کو "علت فاعلہ” کہا۔
◈ عیسائیوں نے اللہ کو "اب” (باپ) کہا۔
تیسری قسم: اللہ کے اسماء کو مخلوق کی صفات پر قیاس کرنا
◈ یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ کے اسماء مخلوق کے صفات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
◈ ان کا مطلب بطور "تمثیل” پیش کرنا کہ جیسے مخلوق کی صفات ویسی ہی صفات اللہ میں بھی ہیں۔
◈ اس الحاد کی بنیادی خرابی یہ ہے کہ:
◈ اللہ کے اسماء کو ان کے اصل معنی سے ہٹا دیا گیا۔
◈ اللہ کے کلام اور نبی کریم ﷺ کے کلام کو کفر کی طرف منسوب کیا گیا۔
◈ اللہ کی مخلوق کے ساتھ مثال دینا کفر ہے، کیونکہ اس سے درج ذیل آیات کی تکذیب لازم آتی ہے:
﴿لَيسَ كَمِثلِهِ شَىءٌ وَهُوَ السَّميعُ البَصيرُ ﴿١١﴾… سورة الشورى
"اس جیسی کوئی شے نہیں اور وہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔”
﴿هَل تَعلَمُ لَهُ سَمِيًّا ﴿٦٥﴾… سورة مريم
"بھلا تم کوئی اس کا ہم نام جانتے ہو؟”
امام بخاریؒ کے استاد نعیم بن حماد خزاعیؒ کا قول:
"جو شخص اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دے وہ کافر ہے،
جو شخص اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی صفت کا انکار کرے جس سے اس نے خود اپنی ذات کو متصف کیا ہے، وہ بھی کافر ہے،
اور اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان میں کوئی تشبیہ نہیں۔”
چوتھی قسم: اللہ کے اسماء کو بتوں کے لیے استعمال کرنا
◈ اللہ تعالیٰ کے اسماء سے بتوں کے لیے نام گھڑ لینا۔
◈ مشرکین نے:
◈ "الٰہ” سے "لات”،
◈ "عزیز” سے "عزیٰ”،
◈ "منان” سے "منات” تراش لیے۔
◈ یہ الحاد اس لیے ہے کہ:
◈ اللہ تعالیٰ کے اسماء صرف اللہ کی ذات کے لیے مخصوص ہیں۔
◈ یہ درست نہیں کہ ان اسماء کی دلالت مخلوق کی طرف منتقل کی جائے۔
◈ یہ شرک ہے کہ مخلوق کو وہ عبادت کا حق دیا جائے جو صرف اللہ کا ہے۔
نتیجہ
یہ چار اقسام الحاد کی وہ بنیادی شکلیں ہیں جن سے انکار یا انحراف اہل ایمان کو گمراہی اور کفریہ راستے پر ڈال سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اسماء و صفات پر صحیح عقیدہ رکھنے کی توفیق دے اور ہر طرح کے الحاد سے بچائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب