اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا: علو خاص کی حقیقت اور اس کی صفاتی وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی وضاحت

سوال:

اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ علو خاص ہے جو اللہ تعالیٰ کی جلالت اور عظمت کے لائق ہے۔ براہِ کرم اس کی مزید وضاحت فرمائیں؟

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم نے جو یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، تو اس سے مراد وہ علو خاص ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے شایان شان ہے۔

علو خاص کی وضاحت

◈ اس بیان سے ہماری مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ علو، عرش کے ساتھ مخصوص ہے۔
◈ یہ کوئی عام علو نہیں جو تمام مخلوقات پر صادق آتا ہو۔
◈ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات پر مستوی ہے، یا آسمان پر مستوی ہے یا زمین پر مستوی ہے، حالانکہ وہ ان تمام مخلوقات سے بلند ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں:
◈ اللہ تعالیٰ عرش سے بلند ہے۔
◈ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔

استواء اور علو میں فرق

استواء مخصوص علو کو کہا جاتا ہے جو عرش کے ساتھ متعلق ہے۔
علو اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات میں سے ہے جو اس کی ذات سے کبھی جدا نہیں ہوتی۔
◈ جبکہ استواء اللہ تعالیٰ کی فعلی صفات میں سے ہے، جو اس کی مشیت کے ساتھ متعلق ہے۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی وضاحت

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حدیثِ نزول کی تشریح میں اسی مفہوم کو واضح کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

’’اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ چھ دنوں میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بعد عرش پر مستوی ہوا، تو کیا اس سے پہلے وہ عرش پر مستوی نہ تھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ استواء سے مراد علو خاص ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی چیز پر مستوی ہو، وہ اس سے بلند بھی ہے لیکن ہر وہ شخص جو کسی چیز سے بلند ہو، وہ اس پر مستوی نہیں ہوتا، لہٰذا ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے عالی ہو اس کے لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس پر مستوی ہے یا اسے اس پر استواء حاصل ہوگیا ہے لیکن ہر وہ چیز جو کسی چیز پر مستوی ہوگی، اسے اس پر علو بھی حاصل ہوگا۔‘‘

(مجموع الفتاوی: ۵۲۲/۵، جمع وترتیب: ابن قاسم)

ہم نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی صفات کا اس کی شان کے مطابق ہونا

ہم نے جو یہ کہا کہ:

’’جس طرح اس کے جلال و عظمت کے شایان شان ہے‘‘

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ:
◈ جس طرح اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اس کی پاک ذات کے جلال و عظمت کے لائق ہیں،
استواء علی العرش بھی اسی طرح ہے – یعنی اس کی شان کے مطابق ہے۔

یہ مخلوقات کے استواء جیسا نہیں ہو سکتا۔

کیوں؟
◈ صفات، اپنے موصوف کے تابع ہوتی ہیں۔
◈ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات دیگر ذوات جیسی نہیں،
◈ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات بھی مخلوقات کی صفات جیسی نہیں ہو سکتیں۔

قرآن مجید کی دلیل:

﴿لَيسَ كَمِثلِهِ شَىءٌ وَهُوَ السَّميعُ البَصيرُ﴾ … سورة الشورى: 11
’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘

◈ نہ اللہ تعالیٰ کی ذات، کسی کے مشابہ ہے،
◈ نہ اس کی صفات۔

امام مالک رحمہ اللہ کا قول

جب امام مالک رحمہ اللہ سے استواء کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا:

"استواء غیر مجہول ہے، لیکن عقل اس کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔”

صفاتِ الٰہیہ کے بارے میں اصولی بات

◈ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات، اسی طرح ثابت ہیں جیسے اس نے اپنی ذات کے لیے خود انہیں ثابت کیا ہے۔
◈ ان میں:
تحریف (معنی بدلنا)،
تعطیل (انکار کرنا)،
تکییف (کیفیت بیان کرنا)،
تمثیل (کسی مخلوق سے تشبیہ دینا)
شامل نہیں ہونی چاہیے۔

صفات کو اس کی ذات کے شایان شان مانا جائے۔

علو عام اور علو خاص کا فرق

◈ اس وضاحت سے ہماری اصل بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ:
❀ استواء علی العرش سے مراد ایک علو خاص ہے جو عرش کے ساتھ مخصوص ہے۔
◈ علو عام تو اللہ تعالیٰ کے لیے:
❀ آسمان اور زمین کی تخلیق سے پہلے بھی تھا،
❀ تخلیق کے وقت بھی تھا،
❀ تخلیق کے بعد بھی ہے۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے:
❀ سمع (سننا)، بصر (دیکھنا)، قدرت (قدرت) اور قوت (طاقت) – یہ سب اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات ہیں۔

جبکہ استواء کا تعلق اس کے علو خاص سے ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1