دوسری صدی کے ائمہ کرام کی تصریحات
امام مقاتل بن حیان رحمتہ اللہ (م: قبل 150 ھ) فرمان باری تعالى:
(ما يكون من نجوى ثلثة إلا هو رابعهم)
(المجادلة: 7)
(تین آدمی جب سرگوشی کرتے ہیں، تو چوتھا ان کا اللہ ہوتا ہے۔) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
هو على العرش، وعلمه معهم.
’’اللہ تعالی عرش پر ہی ہے، لیکن اس کا علم ان کے ساتھ ہے۔‘‘
(تفسير الطبري: 12/28 ، الشريعة للآجري: 655، وسنده صحيح)
شیخ الاسلام، امام اوزاعی رحمتہ اللہ (157ھ) فرماتے ہیں:
كنا والتابعون متوافرون نقول: إن الله تعالى ذكره فوق عرشه ونؤمن بما وردت السنة به من صفاته جل وعلا.
’’ہم اور اکثر تابعین کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالٰی عرش پر ہے اور احادیث میں جو صفات باری تعالٰی بیان ہوئی ہیں، ان پر ہمارا ایمان ہے۔‘‘
(كتاب الأسماء والصفات للبيهقي 304/2، الرقم: 865، وسنده حسن)
اس کا راوی محمد بن کثیر مصیصی جمہور محدثین کے نزدیک ’’حسن الحدیث‘‘ ہے۔ اس اثر کی سند کو امام ابن تیمیہ (مجموع الفتاویٰ: 39/5)، امام ابن قیم (اجتماع الجيوش الإسلامية ص 131) اور حافظ ذہبی رحمتہ اللہ (تذكرة الحفاظ 180/1) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ نے اس کی سند کو ’’جید‘‘ قرار دیا ہے۔
(فتح الباري 408/13)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ (728ھ) اس اثر کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
إنما قال الأوزاعي هذا بعد ظهور جهم المنكر لكون الله فوق عرشه والمنافي لصفاته، ليعرف الناس أن منهب السلف خلاف ذلك.
’’امام اوزاعی رحمتہ اللہ نے یہ بات جہم بن صفوان کے ظہور کے بعد کہی تھی ، جو اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کا منکر اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر تھا۔ امام اوزاعی رحمتہ اللہ نے لوگوں کو یہ بتایا کہ مذہب سلف اس کے برعکس ہے۔‘‘
(مجموع الفتاوىٰ: 39/5)
شیخ الاسلام ثانی ، علامہ ابن قیم رحمتہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں:
هذا الأثر يدخل في حكاية مذهبه ومذهب التابعين.
’’یہ اثر امام اوزاعی اور تابعین رحمتہ اللہ کے مذہب کی حکایت کرتا ہے۔‘‘
(إجتماع الجيوش الاسلامية، ص 135)
امام مالک بن انس رحمتہ اللہ (179ھ) فرماتے ہیں:
الله عز وجل في السماء، وعلمه في كل مكان، لا يخلوا من علمه مكان.
’’اللہ عز وجل آسمانوں سے اوپر (عرش پر) ہے، لیکن اس کا علم ہر جگہ میں ہے، کوئی جگہ اس کے علم سے خالی نہیں۔‘‘
(الشريعة للآجري: 1076/3- 1077 ، الرقم: 652-653 ، مسائل الإمام أحمد لأبي داود، ص263 ، التمهيد لابن عبد البر: 138/7، وسنده صحيح)
امام حماد بن زید بصری رحمتہ اللہ (179ھ) فرماتے ہیں:
إنما يدورون على أن يقولوا: ليس في السماء إله يعني الجهمية.
’’جہمیہ کے اقوال کا ماحصل یہ ہے کہ آسمانوں کے اوپر کوئی الٰہ نہیں۔“
(العلو للعلي الغفّار للذهبي: 970/2، وسنده صحيح)
شیخ الاسلام، المجاہد، القدوه، الامام عبد اللہ بن المبارک رحمتہ اللہ (181ھ) کے بارے میں امام، حافظ ، ثقہ، علی بن الحسن بن شقیق رحمتہ اللہ (215 ھ) بیان کرتے ہیں:
سألت عبد الله بن المبارك: كيف ينبغي لنا أن نعرف ربنا عز وجل؟ قال: على السماء السابعة على عرشه، بائن من خلقه، ولا نقول كما تقول الجهمية : إنه هاهنا في الأرض.
’’میں نے امام عبداللہ بن المبارک رحمتہ اللہ سے سوال کیا: ہم اللہ کو کس طرح پہچانیں؟ فرمایا: (اللہ تعالیٰ) ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش پر ہے، مخلوق سے جدا ہے۔ ہم جہمیہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ یہاں زمین میں ہے۔‘‘
(السنة لعبد الله بن أحمد 111/1 ، ح 22، 174/1-175، الرقم: 216، الرد على المريسي للدارمي ، ص 103 ، الرد على الجهمية للدارمي، ص 50 الأسماء والصفات للبيهقي: 903 ، وسنده صحيح)
حافظ ذہبی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا صحيح ثابت.
’’یہ قول صحیح اور ثابت ہے ۔‘‘
(العرش : 240/2)
علامہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
روى عبد الله بن الإمام أحمد وغيره بأسانيد صحيحة عن ابن المبارك.
’’یہ بات عبداللہ ابن احمد رحمتہ اللہ وغیرہ نے صحیح سند کے ساتھ امام عبد اللہ بن المبارک رحمتہ اللہ سے نقل کیا ہے۔‘‘
(الفتاویٰ الحموية، ص 91)
حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:
قد صح عنه صحة قريبة من التواتر.
’’یہ قول آپ (ابن المبارک رحمتہ اللہ) سے تواتر کی حد تک صحیح ثابت ہے۔‘‘
(اجتماع الجيوش الإسلامية، ص 213- 314)
امام عبد الرحمن بن مہدی عنبری رحمتہ اللہ (198ھ) فرماتے ہیں:
أرادوا أن ينفوا أن يكون الرحمن على العرش استوى، وأرادوا أن ينفوا أن يكون القرآن كلام الله تعالى ، أرى أن يستتابوا، فإن تابوا وإلا ضربت أعناقهم.
’’جہمیہ استوا علی العرش کا انکار کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں، قرآن کو کلام اللہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیں، ان سے تو بہ کروائی جائے، اگر یہ تو بہ کریں، تو درست، ورنہ گردن اڑا دی جائے۔‘‘
(الأسماء والصفات للبيهقي: 546، وسنده حسن)
امام یزید بن ہارون رحمتہ اللہ (206ھ) سے ایک سائل نے پوچھا: أي شيء الجهمية؟ (حمیہ کیا ہیں؟)، انھوں نے اپنا سر جھکایا، پھر سر اٹھا کر فرمایا:
(من توهم الرحن على العرش استوى) (طه: 5) خلاف ما في قلوب العباد، فهو جهمي.
’’جس نے فرمانِ باری تعالٰی: (الرحمٰن على العرش استوى) (طه: 5) کا معنی وہ سمجھا ، جو بندوں کے دلوں میں موجود معنی (علو باری تعالیٰ) کے خلاف ہے، وہ جہمی ہے۔‘‘
(مسائل الإمام أحمد لأبي داود ص 268 وفي نسخة، الرقم: 1733 خلق أفعال العباد للبخاري، ص 11 ، وسنده حسن)
شاذ بن یحییٰ ’’موثق‘‘ ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ فرماتے ہیں: میں اسے پہچانتا ہوں، پھر آپ نے اس کا ذکر بالخیر فرمایا۔
(سؤالات أبي داود:442)
حافظ ذہبی رحمتہ اللہ نے اسے ’’شیخ صدوق‘‘ کہا ہے۔
(سیر أعلام النبلاء:434/10)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
هذا مذهب المسلمين وهو الظاهر من لفظ استوى عند عامة المسلمين الباقين على الفطرة السالمة التي لم تنحرف إلى تعطيل ولا إلى تمثيل، وهذا هو الذي أراده يزيد ابن هارون الواسطي المتفق على إمامته وجلالته وفضله، وهو من أتباع التابعين، حيث قال: من زعم أن الرحمن على العرش استوى خلاف ما يقر في نفوس العامة فهو جهمي، فإن الذي أقره الله تعالى في فطر عباده وجبلهم عليه أن ربهم فوق سماواته.
’’مسلمانوں کا یہی مذہب ہے اور لفظ (استوی) سے یہی ظاہر ہوتا ہے، وہ مسلمان جو فطرت سلیمہ پر قائم ہیں، وہ فطرت جو تعطیل و تحریف کی طرف نہیں جاتی۔ یہی مراد تھی امام یزید بن ہارون واسطی رحمتہ اللہ کی، جن کی امامت و جلالت اور فضیلت و منقبت پر مسلمانوں کا اتفاق ہے اور وہ تبع تابعین میں سے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے فرمان کہ وہ عرش پر مستویٰ ہے، کی ایسی تفسیر کرتا ہے، جو عام لوگوں کے دلوں میں موجود نظریے کے خلاف ہے، وہ جہمی ہے۔ اللہ نے اپنے بندوں کی فطرت میں یہ بات ودیعت کر دی ہے کہ ان کا رب آسمانوں سے اوپر ہے۔‘‘
(الفتاوی الکبریٰ: 153/5)
حافظ ذہبی رحمتہ اللہ (748ھ) فرماتے ہیں:
العامة، مراده بهم جمهور الأمة وأهل العلم.
’’یزید بن ہارون رحمتہ اللہ نے عام سے مراد جمہور امت اور اہل علم لیے ہیں۔“
(مختصر العلو: 168)
نیز لکھتے ہیں:
هذا الذي قاله هو الحق ، لأنه لو كان معناه على خلاف ما يقر في القلوب السليمة من الأهواء، والفطرة الصحيحة من الأدواء، لوجب على الصحابة والتابعين أن يبينوا أن استواء الله على عرشه على خلاف ما فطر الله عليه خلقه، وجبلهم على اعتقاده، اللهم إلا أن يكون في بعض الأغبياء من يفهم من أن الله فى السماء أو على العرش أنه محبر وأنهما حيز له، وأن العرش محيط به، فكيف ذلك في ذهنه وبفهمه، كما بدر في الشاهد من أي جسم كان، على أي جسم، فهذا حال جاهل، وما أظن أن أحدا اعتقد ذلك من العامة ولا قاله، وحاشا يزيد بن هارون أن يكون مراده هذا، وإنما مراده ما تقدم.
’’امام یزید بن ہارون رحمتہ اللہ کی یہ بات بالکل صحیح ہے، کیونکہ اگر عرش پر مستوی ہونے کا اصل معنی، ہوائے نفس سے سالم دلوں میں اور بیماریوں سے پاک فطرتوں میں موجود معنی کے خلاف ہوتا ، تو صحابہ و تابعین پر لازم ہوتا کہ وہ یہ وضاحت فرماتے کہ اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا وہ معنی نہیں، جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت وجبلت میں رکھا ہے۔ ہاں، یہ ہو سکتا ہے کہ بعض غیبی ذہن کے لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ اللہ کے آسمانوں سے اوپر یا عرش پر ہونے سے مراد یہ ہے کہ آسمان اور عرش اللہ تعالیٰ کی پناہ ہیں یا عرش اسے گھیرے ہوئے ہے۔ انھوں نے اپنے ذہن اور فہم میں اس کی ایک کیفیت بنالی ہے، جیسا کہ دیکھنے والے کو ایک جسم کے دوسرے جسم کے اوپر ہونے سے ذہن میں آتی ہے۔ یہ ایک جاہل کی حالت ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ عام مسلمانوں میں سے بھی کسی نے یہ بات سوچی یا کہی ہو، چہ جائیکہ امام یزید بن ہارون رحمتہ اللہ کی یہ مراد ہو۔ بلاشبہ ان کی مراد وہی ہے، جس کا تذکرہ پہلے کیا جاچکا ہے۔‘‘
(كتاب العرش 282/2-283)
علامہ ابن قیم رحمتہ اللہ (751ھ) لکھتے ہیں:
قال شيخ الإسلام: والذي تقرر في قلوب العامة هو ما فطر الله تعالى عليه الخليقة، من توجهها إلى ربها تعالى عند النوازل والشدائد والدعاء والرغبات إليه تعالى نحو العلو، لا يلتفت يمنة ولا يسرة من غير موقف وقفهم عليه، ولكن فطرة الله التي فطر الناس عليها، وما من مولود إلا وهو يولد على هذه الفطرة، حتى يجهمه وينقله إلى التعطيل من يقيض له.
’’شیخ الاسلام (امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ) فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کے دلوں میں وہی بات سمائی ہے، جو اللہ نے مخلوق کی فطرت میں ودیعت کی ہے، یعنی وہ مصیبتوں اور سختیوں، دعاؤں اور اللہ کی طرف رغبت کے مواقع پر اوپر کی طرف توجہ کرتی ہے۔ وہ دائیں بائیں نہیں دیکھتی ، حالاں کہ کسی نے اسے مجبور نہیں کیا، یہ تو اس فطرت کا تقاضا ہے، جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ ہر بچہ فطرت ہی پر پیدا ہوتا ہے، الا یہ کہ اسے اس کا کوئی ساتھی جہمی یا معطل نہ بنا دے۔‘‘
(اجتماع الجيوش الإسلامية على غزو المعطلة والجهمية ، ص: 214)