اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنے کی سنگینی
قرآن مجید کا انتباہ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّـهِ وُجُوهُهُم مُّسْوَدَّةٌ” ﴿الزمر: 60﴾
’’اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ ہوں گے۔‘‘
◈ جو شخص یہ کہے کہ اللہ نے فلاں بات فرمائی جبکہ حقیقت میں ایسا نہ ہو، یا اللہ کے کلام کی ایسی تفسیر کرے جو اس کے اصل مفہوم سے ہٹ کر ہو، وہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔
◈ رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹی احادیث منسوب کرنا بھی اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے کیونکہ نبی ﷺ اللہ کی طرف سے مبعوث کیے گئے۔
رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے کی وعید
◈ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
**”جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا، اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔”**
(بخاری، العلم، باب اثم من کذب علی النبی: 108؛ مسلم: 2)
◈ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
**”مجھ پر جھوٹ باندھنا، دوسروں پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں۔ لہٰذا جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے، اسے جہنم میں اپنا مقام تیار کر لینا چاہیے۔”**
(بخاری، الجنائز، باب ما یکرہ من النیاحۃ علی المیت: 1291؛ مسلم: 4)
◈ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
**”آخری زمانے میں دجال اور جھوٹے پیدا ہوں گے جو تمہیں ایسی حدیثیں سنائیں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی نہ تمھارے آباؤ اجداد نے۔ ایسے لوگوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا تاکہ وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور فتنے میں نہ ڈال دیں۔”**
(مقدمہ صحیح مسلم: 16)
یہ پیشن گوئی پوری ہو چکی ہے۔ خاص طور پر صوفیاء نے اپنے افکار، نظریات اور عبادات کے جواز کے لیے موضوع (من گھڑت) احادیث اپنی کتابوں میں شامل کیں۔ برصغیر میں اردو زبان میں لکھی جانے والی تفاسیر، فقہی کتب اور فضائل اعمال کی کتابوں میں ضعیف اور موضوع روایات کا چلن عام ہے۔
◈ شرک کے ثبوت میں احادیث گھڑی گئیں۔
◈ اہل قبور سے مدد مانگنے کی روایات ایجاد کی گئیں۔
◈ "تزکیہ نفس” کے نام پر غیر شرعی اعمال کا رواج دیا گیا جن کا سنت رسول ﷺ سے کوئی تعلق نہیں۔
صحیح احادیث کا انکار
◈ بعض لوگوں نے صحیح احادیث کا اس لیے انکار کیا کہ وہ ان کے گمان میں قرآن کے خلاف تھیں۔
◈ جیسے: دجال کا ظہور، عیسیٰ علیہ السلام کا نزول، رسول ﷺ پر جادو کے اثرات وغیرہ۔
◈ انہوں نے ان احادیث کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ قرآن کے خلاف ہیں، حالانکہ:
➤ بغیر احادیث کے نہ قرآن کی صحیح تفہیم ممکن ہے
➤ نہ اس پر عملدرآمد۔
نماز چھوڑنے کی سزا
قرآن کا بیان
"فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا” ﴿مریم: 59﴾
’’پھر ان کے بعد ایسے نااہل جانشین پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کر دی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، سو ان کی ہلاکت ان کے آگے آئے گی۔‘‘
"فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ” ﴿التوبہ: 11﴾
’’اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔‘‘
"مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ﴿٤٢﴾ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ﴿٤٣﴾” ﴿المدثر﴾
’’(جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے) تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا؟ وہ کہیں گے: ہم نمازی نہ تھے۔‘‘
احادیث کا بیان
◈ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
**”بے شک بندے اور شرک و کفر کے درمیان فرق نماز چھوڑنے کا ہے۔”**
(مسلم، الایمان، بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوٰۃ: 82)
◈ بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
**”ہمارے اور منافقوں کے درمیان عہد نماز ہے، جس نے نماز چھوڑ دی، پس اس نے کفر کیا۔”**
(ترمذی، الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلوٰۃ: 2621)
◈ ابو دردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
**”جو شخص جان بوجھ کر فرض نماز چھوڑ دے تو اللہ کی حفاظت اس سے ختم ہو گئی۔”**
(ابن ماجہ، الفتن، باب الصبر علی البلاء: 4034)
◈ عبداللہ بن شقیق سے روایت ہے:
**”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اعمال میں سے کسی کو ترک کرنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے۔”**
(ترمذی: 2622)
نماز کی کسی صورت میں معافی نہیں
◈ نماز وہ فرض ہے جو کسی حال میں معاف نہیں:
➤ مقیم ہو یا مسافر
➤ صحت مند ہو یا مریض
➤ امن ہو یا حالت جنگ
◈ مریض کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر، بیٹھ نہ سکے تو لیٹ کر، رکوع و سجدہ اشارے سے کرے۔
◈ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت بھی آپ کی زبان پر نماز کی تاکید تھی:
**”نماز (ادا کرنا) اور غلاموں (کا خیال رکھنا)”**
(ابن ماجہ، الوصایا، باب ھل اوصی رسول اللہ: 2698)
زکوٰۃ ادا نہ کرنے کا انجام
زکوٰۃ کی فرضیت اور حکومت کی ذمہ داری
◈ اللہ تعالیٰ نے نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا حکم دیا ہے۔
◈ اسلامی خلافت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زبردستی زکوٰۃ وصول کرے۔
◈ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت:
**”مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ جب وہ یہ کریں گے تو ان کی جان و مال محفوظ ہو جائے گا، مگر اسلام کا حق ان سے لیا جائے گا، اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔”**
(بخاری: 25؛ مسلم: 22)
زکوٰۃ نہ دینے کے دنیوی اور اخروی نتائج
◈ بارش کا رک جانا:
**”جب کوئی قوم زکوٰۃ ادا نہیں کرتی، تو آسمان سے ان کے لیے بارش روک دی جاتی ہے۔ اگر جانور نہ ہوں تو ایک قطرہ بھی نہ برسے۔”**
(ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات: 4019)
◈ زکوٰۃ نہ دینے والوں کا عذاب:
**”قیامت کے دن ان کے مال کو آگ کی تختیاں بنا کر ان کے پہلو، پیشانی اور کمر داغی جائے گی۔ یہ دن پچاس ہزار سال کا ہو گا اور فیصلے تک ایسا ہوتا رہے گا، پھر جنت یا جہنم میں لے جائے جائے گا۔”**
(مسلم، الزکوٰۃ، باب اثم مانع الزکوٰۃ: 987)
◈ زکوٰۃ نہ دینے والے کا مال سانپ بن جائے گا:
**”اللہ تعالیٰ کا دیا مال اگر اس کی زکوٰۃ نہ دی جائے تو وہ مال زہریلا سانپ بن کر طوق کی طرح گلے میں ڈال دیا جائے گا اور کہے گا: میں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں۔”**
(بخاری، التفسیر، آل عمران: 4565)
"وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ” (آل عمران: 180)
’’جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے۔ عنقریب قیامت کے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے‘‘۔
زکوٰۃ نہ دینے والوں سے جنگ
◈ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
➤ رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے بعد بعض عرب قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔
➤ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کا فیصلہ کیا۔
➤ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی، مگر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
**”اللہ کی قسم! جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا، میں اس سے ضرور جنگ کروں گا۔ اگر وہ رسول اللہ ﷺ کو ایک اونٹ کا بچہ دیا کرتے تھے اور اب نہ دیں گے تو میں اس پر بھی جنگ کروں گا۔”**
(بخاری، الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ: 1399؛ مسلم، الایمان، باب الامر بقتال الناس: 20)
جمعہ اور جماعت کی نماز چھوڑنے پر وعید
◈ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
**”لوگوں کو جمعہ چھوڑنے سے باز آ جانا چاہیے، ورنہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، پھر وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے۔”**
(مسلم، الجمعہ، باب التغلیظ فی ترک الجمعہ: 865)
◈ ابو الجعد ضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
**”جو شخص سستی کی وجہ سے تین جمعے چھوڑ دے، اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔”**
(ابو داود، الجمعہ، باب التشدید فی ترک الجمعہ: 1052)
◈ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
**”میرا دل چاہتا ہے کہ کسی کو امامت کا حکم دوں اور ان لوگوں کے گھر جلا دوں جو بغیر عذر کے جمعہ میں نہیں آتے۔”**
(مسلم، المساجد، باب فضل صلاۃ الجماعۃ: 652)
◈ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
**”جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں چاہتا ہوں لکڑیاں جمع کراؤں، اذان دوں، کسی کو امامت کے لیے کہوں اور ان لوگوں کے گھر جلا دوں جو باجماعت نماز میں حاضر نہیں ہوتے۔”**
(بخاری، الاذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ: 644؛ مسلم، المساجد: 651)
◈ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
**”جو شخص اذان سننے کے باوجود بغیر عذر کے نماز کے لیے مسجد میں نہیں آتا، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔”**
(ابن ماجہ، المساجد، باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعۃ: 793)