"السلام علیکم اور سلام علیکم میں فرق اور صحیح الفاظ”
ماخوذ : فتاوی علمیہ – جلد 3 – متفرق مسائل – صفحہ 278

سوال

قرآن مجید میں الفاظ "سلام علیکم” ہیں۔

اسی طرح صحیح ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ میں بھی یہی الفاظ ہیں، جیسا کہ امام دمیاطی نے "المتحبرالرابح” میں نقل فرمایا۔ سوال یہ ہے کہ اکثر لوگ ایک دوسرے کو سلام کرتے وقت "سلام علیکم” کہتے ہیں جبکہ سلام کے حوالے سے اکثر احادیث میں "السلام علیکم” کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ریاض الصالحین میں بھی اکثر ایسی احادیث کو جمع فرمایا ہے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

"السلام علیکم” کہنا زیادہ بہتر ہے جیسا کہ یہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔
(مثلاً دیکھئے: صحیح بخاری: 6227، صحیح مسلم: 2841/7163)

"سلام علیکم” بھی درست ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں موجود ہے:
(دیکھئے: سورہ الانعام: 54، سورہ الاعراف: 46، سورہ الزمر: 73)

اسی طرح، صرف "سَلَامٌ” اور "سَلَامًا” بھی قرآن میں آیا ہے:
(مثلاً دیکھئے: سورہ ھود: 69)

لیکن، کسی آیت یا حدیث میں "سلام علیکم” (یعنی "م” کی پیش کے ساتھ) نہیں آیا، اور نہ ہی سلف صالحین سے ایسے الفاظ منقول ہیں۔ لہٰذا "سلام علیکم” (یعنی "م” کی پیش کے ساتھ) نہیں کہنا چاہیے بلکہ "السلام علیکم” کہنا چاہیے کیونکہ یہ مسنون ہے۔

یاد رکھیں:

  • سلام کہنا سنت ہے اور اس کا جواب دینا ضروری (فرض و واجب) ہے۔
  • سلام کہنے والے کا جواب بھی صحیح اور بہتر طریقے سے دینا چاہیے۔ مثلاً: "السلام علیکم” کا جواب "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ” یا کم از کم "وعلیکم السلام” سے دینا چاہیے۔
  • جو لوگ سلام کے جواب میں صرف سر ہلا دیتے ہیں یا مسنون الفاظ کے بغیر جواب دیتے ہیں، وہ سخت غلطی پر ہیں بلکہ گناہ کے مرتکب ہیں۔

فائدہ

"السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ” کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔
(دیکھئے: سنن ابی داؤد: 5195، وسندہ حسن، سنن الترمذی: 2689، وقال حسن صحیح غریب)

(20 نومبر 2010ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1