اقامت کے جواب میں ”اَقَامَھَا اللہُ وَاَدَامَھَا“ کہنا
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال: بعض بھائی اقامت کے جواب میں اَقَامَهَا اللهُ وَاَدَامَهَا کے الفاظ کہتے ہیں، ان الفاظ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب : اقامت کا جواب دینے کے لیے جو اَقَامَهَا اللهُ وَاَدَامَهَا کہا جاتا ہے یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ اس سلسلہ میں سنن ابی داؤد میں جو روایت مذکورہ ہے وہ انتہائی ضعیف ہے، اس کے ضعف کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں درج ذیل تین علتیں پائی جاتی ہیں :
① محمد بن ثابت العبدی ضعیف راوی ہے۔ امام علی بن مدینی اور دیگر محدثین نے کہا ہے کہ یہ حدیث میں قوی نہیں ہے۔ امام ابن معین رحمہ اللہ نے فرمایا : ”یہ کچھ نہیں ہے “۔ [ميزان الاعتدال 495/3 ]
امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے کہا: ”یہ مضبوط نہیں ہے۔ “
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا: ”یہ اپنی بعض احادیث میں ثقات کی مخالفت کرتا ہے۔“
امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا : ”یہ قوی نہیں ہے۔ “
امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا: ”یہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔“ [تهذيب التهذيب 85/9 ]
رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ مجہول ہے، یعنی یہ بات معلوم نہیں کہ اہلِ شام میں سے کون سا آدمی ہے جس سے یہ روایت مروی ہے۔
③ تیسری خرابی یہ ہے کہ شہر بن حوشب متکلم فیہ ہے جیسا کہ کتب رجال اس پر شاہد ہیں۔ [ ميزان الاعتدال 283/2، تهذيب التهذيب 369/4 ]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں اسے كثرة الأوهام یعنی کثرت سے وہم میں مبتلا ہونے والا قرار دیا ہے۔
لہٰذا جب یہ روایت صحیح نہیں تو اس سے استدلال کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ یاد رہے کہ بڑوں کی بات کوئی حجت نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات ہی ہمارے لیے حجت ہیں۔ جو بات قرآن وسنت سے ملتی ہے وہ لے لو اور جس کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں اس پر عمل کرنے کے ہم مکلّف نہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوت کا سلسلہ شروع کیا تھا تو آپ کو بھی یہی جواب دیا گیا تھا کہ ہمارے بزرگ اور بڑے آج تک اسی طریقہ پر گامزن ہیں۔ کیا وہ غلط ہیں اور تم جو نیا دین لائے ہو وہ صحیح ہے ؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَإِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَا أَنْزَلَ اللهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُوْنَ﴾ [ البقرة : 170 ]
”جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ نے اتارا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا۔ اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہدایت یافتہ تھے “۔
معلوم ہوا منزل من اللہ دین کی بات کے مقابلے میں آباؤ اجداد کے اقوال و افعال پیش کرنا پر انے مشرکین و کفار کا طرز عمل تھا۔ اہلِ اسلام کو یہ زیبا نہیں کہ وہ شرعی احکامات کے سامنے اپنے آباؤ اجداد کو پیش کریں۔ لہٰذا جن مسائل کا ثبوت قرآن و سنت کی نصوص سے نصاً یا اشارۃً ملتا ہے انہیں لے لینا چاہیے اور اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے