اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان کلام کرنا کیسا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال :

اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان کلام کرنا کیسا ہے؟

جواب:

اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان کلام کرنا جائز ہے، اس کی ممانعت نہیں، بلکہ احادیث میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أقيمت الصلاة، فأقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بوجهه ، فقال : أقيموا صفوفكم وتراصوا، فإني أراكم من وراء ظهري.
”اقامت کہی جا چکی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخ انور ہماری طرف پھیرا اور فرمایا : صفیں مکمل کر کے خوب مل کر کھڑے ہوں۔ میں آپ کو پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔“
(صحيح البخاري : 719)
❀ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
أقيموا صفوفكم، فإني أراكم من وراء ظهري، وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه، وقدمه بقدمه.
”صفیں سیدھی کریں، ( دوران نماز ) میں آپ کو اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔ پھر ہم اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں چپکانے لگے۔“
(صحيح البخاري : 725)
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (804ھ) فرماتے ہیں:
فيه دليل على جواز الكلام بين الإقامة والإحرام بالصلاة ولا بأس به عند الفقهاء الحجازيين، وهو رد على الكوفيين.
”یہ حدیث دلیل ہے کہ اقامت اور تکبیر تحریمہ میں کلام کرنا جائز ہے، فقہائے حجاز کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ، اس حدیث میں اہل کوفہ کا رد ہے۔“
(التوضيح : 597/6)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے