افطار میں تاخیر کا کیا حکم ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

افطار میں تاخیر کا کیا حکم ہے؟

جواب:

روزہ جلدی افطار کرنا انبیاء کی سنت اور اہل سنت کا شعار ہے۔ احادیث متواترہ اور اجماع امت اس پر دلالت کناں ہیں اور اسی میں امت کی خیر پنہاں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ﴾
(البقرة: 187)
”روزہ رات تک مکمل کرو۔“
پوری امت کا اجماع ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جوں ہی سورج غروب ہو، روزہ افطار کر دیا جائے۔ احادیث صحیحہ اس کی تائید کرتی ہیں۔
❀ بشیر ابن الخصاصیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ ایسے رکھیں، جیسے اللہ نے حکم دیا ہے اور روزہ رات تک مکمل کریں، جوں ہی رات داخل ہو، افطار کر لیں۔“
(مسند الإمام أحمد: 225/5، وسنده صحيح)
❀ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب اس (مغرب کی) طرف سے رات نمودار ہو جائے، اس (مشرق کی) طرف سے دن ختم ہو جائے اور سورج غروب ہو جائے، تو روزے دار کی افطاری کا وقت ہو جاتا ہے۔“
(صحيح البخاري: 1954، صحیح مسلم: 1100)
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے افطار کیے بغیر مغرب کی نماز پڑھائی ہو، چاہے پانی کے ایک گھونٹ پر ہی افطار کر لیں۔“
(صحیح ابن حبان: 3504، وسنده صحيح)
❀سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم انبیاء کو حکم دیا گیا کہ ہم سحری میں تاخیر کریں اور افطاری میں جلدی کریں، نیز (حکم دیا گیا کہ) ہم نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر باندھیں۔“
(المعجم الكبير للطبراني: 199/11، وسنده صحيح)
❀امام ابن حبان رحمہ اللہ (1770) نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح “کہا ہے۔
(تنوير الحوالك: 133/1)
❀ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لوگ اس وقت تک خیر پر رہیں گے، جب تک افطار میں جلدی کریں گے۔“
(صحيح البخاري: 1957، صحیح مسلم: 1098)
❀ قاضی عیاض رحمہ اللہ (544 ھ) فرماتے ہیں:
”اس حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا ہے کہ (دنیوی و اخروی) معاملات کی بربادی کا سبب جلد افطار کرنے کی سنت کو بدلنا ہے۔ نیز افطاری میں تاخیر اور اس حوالے سے سنت کی مخالفت کرنا، جانتے بوجھتے امور (دین و دنیا) کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔“
(إكمال العلم بشرح صحیح مسلم: 34/4)
❀ علامہ توربشتی رحمہ اللہ (661 ھ) لکھتے ہیں:
”روزہ جلدی افطار کرنے میں یہود و نصاریٰ کی مخالفت ہے، یہ ستاروں کے طلوع ہونے پر افطار کرتے تھے، پھر یہ ہماری امت میں اہل بدعت کا شعار بن چکا ہے، یہ ان کی نشانی ہے، حالانکہ اس عمل پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی نہیں تھے۔“
(المُيسر في شرح مصابيح السنة: 463/2، المرقاة للملا علي: 1381/4)
❀ علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (702 ھ) فرماتے ہیں:
”غروب شمس کے یقین ہو جانے کے فوراً بعد افطار کرنا بالاتفاق مستحب ہے، اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔ نیز اس میں شیعہ کا رد ہے کہ جو افطار میں تاخیر کرتے ہیں اور ستاروں کے طلوع ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ شاید لوگوں کے خیر پر رہنے کا سبب جلدی افطار کرنا ہے، کیونکہ اگر وہ افطار تاخیر سے کریں گے، تو خلاف سنت عمل کے مرتکب ٹھہریں گے اور خیر پر تب تک رہیں گے، جب تک سنت پر عمل پیرا رہیں گے۔“
(إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام: 26/2)
❀ علامہ زیلعی رحمہ اللہ (743 ھ) لکھتے ہیں:
”اس حدیث میں شیعہ کا رد ہے، جو ستاروں کے طلوع ہونے تک افطاری میں تاخیر کرتے ہیں، کیونکہ یہ تاخیر خلاف سنت ہے۔“
(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق: 343/1)
❀ علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ (804 ھ) لکھتے ہیں:
”روزہ جلدی افطار کرنے میں شیعہ کا رد ہے، جو افطاری کو ستاروں کے طلوع ہونے تک مؤخر کرتے ہیں۔“
(التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 400/13)
❀ ان تمام احادیث کے متعلق حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (463 ھ) فرماتے ہیں:
”یہ احادیث متواتر اور ”صحیح “ہیں۔“
(الاستذكار: 345/3)
❀ علامہ ابن رشد قرطبی رحمہ اللہ (595 ھ) لکھتے ہیں:
”فقہا کا اجماع و اتفاق ہے کہ سحری میں تاخیر اور افطار میں جلدی کرنا روزے کی سنن میں شامل ہے۔“
(بداية المجتهد ونهاية المقتصد: 404/1)
❀ علامہ ابن الاثیر رحمہ اللہ (606 ھ) فرماتے ہیں:
”افطار میں جلدی کرنا بالاتفاق سنت ہے۔“
(الشافي في شرح مسند الشافعي: 198/3)
❀ امام ابو جمرہ ضبعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم (عالم اہل بیت) سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ہمراہ رمضان میں افطاری کیا کرتے تھے۔ جب شام ہوتی، تو سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اپنے سوتیلے بیٹے کو بھیجتے کہ وہ گھر کی چھت پر چڑھے۔ جوں ہی سورج غروب ہوتا، وہ خبر دیتا، تو سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کھانا شروع کر دیتے، ہم بھی کھانے لگ جاتے، کھانے سے فارغ ہوتے، تو اقامت کہی جاتی، آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھاتے، ہم بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھتے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 12/3، وسنده صحيح)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے