اعتکاف کے اہم مسائل، روایات کی تحقیق اور شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2ص154

اعتکاف کے بعض مسائل کی تخریج و تحقیق

سوال:

اعتکاف سے متعلق بعض احادیث کی تخریج و تحقیق درکار ہے۔ نیز درج ذیل مسائل کی شرعی حیثیت بھی واضح فرمائیں:

(الف) حدیث: اعتکاف صرف مسجد جامع میں

متن حدیث:

عن عائشة رضی اللہ عنها قالت:
السنة علی المعتکف ان لا یعود مریضا و لا یشهد جنازة ……… ولا اعتکاف الا فی مسجد جامع
(ابوداود: ۲۴۷۳)

تخریج و تحقیق:

یہ روایت مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے:

  • سنن ابی داود (۲۴۷۳)
  • سنن الدارقطنی (۲۰۱/۲، ح۲۳۳۸، ۲۳۳۹)
  • السنن الکبریٰ للبیہقی (۳۲۰/۴، ۳۲۱)

سند:
روایت کی سند الزہری عن عروہ بن الزبیر (اور سعید بن المسیب) عن عائشہ رضی اللہ عنہا ہے۔

تبصرہ محدثین:

  • شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ (ارداء الغلیل ۱۳۹/۴، ح۹۶۶)
  • تاہم امام زہری رحمہ اللہ ثقہ ہونے کے باوجود مدلس تھے۔

دیکھئے:

  • طبقات المدلسین بتحقیقی (۳/۱۰۲، المرتبۃ الثالثہ)
  • شرح معانی الآثار للطحاوی (۵۵/۱، باب مس الفرج)
  • جامع التحصیل للعلائی (ص۱۰۹)
  • التبیین لاسماء المدلسین للحلبی (ص۵۰)
  • کتاب المدلسین لابن العراقی (ص۹۰، رقم: ۶۰)

ابن العراقی نے طبری کی نقل سے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ بعض نے زہری کو مدلس قرار نہیں دیا، مگر اس میں اختلاف ہے۔

نتیجہ:

جب امام زہری کا تدلیس کرنا ثابت ہے، تو ان کی ’’عن‘‘ والی روایت غیرصحیحین (صحیح بخاری و مسلم کے علاوہ) میں تبھی قبول کی جاتی ہے جب سماع اور متابعت قویہ ثابت ہو۔
لہٰذا یہ روایت اصول حدیث کی روشنی میں ضعیف ہے، مردود ہے۔

تنبیہ:

یہی روایت مختصراً موقوفاً موطا امام مالک (۳۱۲/۱، ح۷۰۱ و ۳۷۴/۲، ح۷۵۶) میں بھی موجود ہے، جہاں زہری کا سماع ثابت ہے۔
التمهيد لابن عبد البر (۳۱۹/۸) میں بھی اس کی تصریح موجود ہے۔

الفاظ روایت:

ان عائشة کانت اذا اعتکفت لاتسال عن المریض الا وهی تمشی ولا تقف

تائید:
صحیح مسلم کی حدیث (کتاب الحیض، ح۲۹۷/۷، دارالسلام: ۶۸۵) میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

ان کنت لادخل البیت للحاجة و المریض فیه فما اسال عنه الا وانا مارة

غیر جامع مسجد میں اعتکاف کا حکم

وضاحت:
اعتکاف سے متعلق یہ تمام امور کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔ تاہم کچھ آثار صحیحہ درج ذیل ہیں:

آثار صحیحہ:

  1. عروہ بن الزبیر:

    لا اعتکاف الا بصوم (مصنف ابن ابی شیبہ ۸۷/۳، ح۹۶۲۶ – سند صحیح)

  2. سعید بن جبیر:
    جمعہ میں شریک ہو، مریض کی عیادت کرے اور حاکم وقت کی اطاعت کرے۔ (ابن ابی شیبہ ۸۸/۳، ح۹۶۳۲ – سند صحیح)
    مزید: جنازہ میں بھی شریک ہو۔ (ح۹۶۳۴ – سند صحیح)
  3. عامر الشعبی:
    قضائے حاجت، مریض کی عیادت، جمعہ، دروازے پر کھڑے ہونے کی اجازت۔ (ح۹۶۳۶ – سند صحیح)
  4. حسن بصری:
    جنازہ اور مریض کی عیادت کرے۔ (ح۹۶۳۹ – سند صحیح)
  5. ابن شہاب الزہری:
    نہ جنازہ، نہ عیادت، نہ دعوت۔ (ح۹۶۴۴ – سند صحیح)
  6. عروہ بن الزبیر:
    نہ دعوت، نہ عیادت، نہ جنازہ۔ (ح۹۶۴۶ – سند صحیح)

اختلاف کے باوجود راجح اور قوی اقوال پر عمل بہتر ہے۔

جامع مسجد میں اعتکاف کی رائے:

  • زہری: اعتکاف اسی مسجد میں ہونا چاہئے جہاں جماعت ہوتی ہو (ح۹۶۷۳ – سند صحیح)
  • دیگر ائمہ: حکم بن عتیبہ، حماد بن ابی سلیمان، ابو جعفر، عروہ بن الزبیر (ح۹۶۷۴-۹۶۷۶ – اسانید صحیحہ)

قرآن سے استدلال:

(وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ) (البقرة: 187)

اس آیت سے ہر مسجد میں اعتکاف کی اجازت کا عموم ثابت ہوتا ہے، چاہے جامع ہو یا غیر جامع۔

دیگر آثار:

  • ابو قلابہ نے اپنی بستی کی مسجد میں اعتکاف کیا۔ (ح۹۶۶۰ – سند صحیح)
  • سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی کی یہی تحقیق۔ (ح۹۶۶۳، ۹۶۶۵ – سند قوی)

خلاصہ:

بعض آثار کے مطابق غیر جامع مسجد میں اعتکاف درست ہے، بشرطیکہ جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ادا کی جائے۔
واللہ اعلم

اجماعی مسائل (اعتکاف و روزہ)

  • رمضان کی ہر رات نیت کرکے روزہ رکھنا کافی ہے۔
  • سحری کھانا مستحب ہے۔
  • بے اختیار قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
  • قصداً قے کرنے سے روزہ باطل ہوتا ہے۔
  • تھوک یا رال نگلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
  • عورت اگر ایام حیض میں ہو تو پاکی کے بعد قضا کرے گی۔
  • ضعیف و بوڑھے فدیہ دیں گے۔
  • اعتکاف فرض نہیں، نذر کی صورت میں واجب ہے۔
  • تین مسجدوں میں اعتکاف جائز ہے۔
  • پیشاب و پاخانہ کے لیے باہر جا سکتا ہے۔
  • مباشرت ممنوع ہے۔
  • عمداً جماع کرنے سے اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے۔ (الاجماع لابن المنذر ص۴۷، ۴۸)

(ب) حدیث: ایک دن اعتکاف اور دوزخ سے فاصلہ

متن حدیث:

عن ابن عباس رضی الله عنه قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم:
ومن اعتکف یوما ابتغاء وجه الله تعالیٰ جعل الله بینه و بین النار ثلاثة خنادق ابعنه مما بین الخالفقین
(طبرانی اوسط، بیہقی، الترغیب ۱۵۰/۲)

تخریج و تحقیق:
یہ روایت ان کتب میں موجود ہے:

  • المعجم الاوسط للطبرانی (۱۶۰/۸، ح۷۳۲۲)
  • شعب الایمان للبیہقی (۴۲۴/۳، ح۳۹۶۵)
  • اخبار اصبہان (۸۹/۱، ۹۰)
  • تاریخ بغداد (۱۲۶/۴، ۱۲۷، ترجمہ ۱۸۰۲)

سند:
بشر بن سلم البجلی → عبدالعزیز بن ابی رواد → عطاء → ابن عباس

تبصرہ محدثین:
بشر البجلی کے بارے میں ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں:

هو منکر الحدیث (الجرح و التعدیل ۳۵۸/۲)

ابن حبان نے کتاب الثقات (۱۴۳/۸، ۱۴۴) میں ذکر کیا، مگر یہ جرح کے مقابلے میں ناقابل قبول ہے۔

نتیجہ:

روایت سنداً ضعیف ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے:

  • السلسلۃ الضعیفۃ (۵۶۶/۱۱، ح۵۳۴۵)
  • ضعیف الترغیب و الترھیب (۱۷۷/۲)

باطل تائید:
مستدرک حاکم (۲۷۰/۴، ح۷۷۰۶) میں جو تائید آئی ہے، اس کے راوی محمد بن معاویہ ’’کذاب‘‘ اور ہشام بن زیاد ’’متروک‘‘ ہے۔

(ج) حدیث: 15 برائیاں اور ان کے اثرات

متن حدیث:

عن ابی هریرة رضی الله عنه قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم:
اذا اتخذ الفی دولا والا مانة مغنما والزکاة مغرما……… وآیات تتابع کنظام بال قطع سلکه فتتابع
(الترمذی، ابواب الفتن، باب ماجاء فی علامة حلول المسخ والخسف، ح۲۲۱۱)

تخریج و تحقیق:

  • روایت سنن الترمذی (۲۲۱۱) اور تلبیس ابلیس (ص۲۳۴) میں موجود ہے۔
  • راوی: رمیح الجذامی → عن ابی ہریرہ

تبصرہ محدثین:
رمیح مجہول ہے (تقریب التہذیب: ۱۹۵۷، الکاشف للذہبی: ۲۴۳/۱)

نتیجہ:

روایت سنداً ضعیف ہے۔

مکمل روایت: 15 برائیاں

  1. مالِ غنیمت کو ذاتی دولت بنانا
  2. امانت کو غنیمت سمجھنا
  3. زکوٰۃ کو بوجھ سمجھنا
  4. بیوی کی اندھی اطاعت
  5. ماں کی نافرمانی
  6. دوست کے ساتھ احسان
  7. باپ سے بدسلوکی
  8. مسجدوں میں آوازیں بلند کرنا
  9. ذلیل لوگ حکمران
  10. شر سے بچاؤ کی خاطر عزت دینا
  11. شراب نوشی
  12. ریشم پہننا
  13. ناچنے والی لڑکیوں کو رکھنا
  14. گانے بجانے کے آلات
  15. بعد کے لوگ، پہلے لوگوں پر لعنت کریں

نتیجہ:
جب یہ اعمال عام ہو جائیں تو سرخ آندھی، زمین میں دھنسنے اور چہرے مسخ ہونے کا انتظار کیا جائے۔

حوالہ: ترمذی (ح۲۲۱۰ – حدیث غریب)

ضعف کی تائید:

  • المجروحین لابن حبان (۲۰۷/۲)
  • تاریخ بغداد (۱۵۸/۳)
  • العلل المتناہیۃ لابن الجوزی (۳۶۷/۲)
  • امام دارقطنی نے فرج کی حدیث کو باطل کہا۔ (تاریخ بغداد ۳۹۶/۱۲)
  • فرج بن فضالہ ضعیف ہے۔ (تقریب التہذیب: ۵۳۸۳)

"وظھرت الاصوات فی المساجد” کا مطلب

یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ لوگ مسجدوں میں دنیاوی باتیں بلند آواز سے کریں گے۔
مگر یہ روایت بھی ضعیف و مردود ہے۔

نتیجہ

یہ تمام مسائل حدیث و فقہ کی روشنی میں واضح کیے گئے ہیں۔ جو روایات ضعیف ثابت ہوئیں، ان کو مردود قرار دیا گیا ہے۔ جہاں آثار صحیحہ موجود ہیں، وہاں ان پر عمل راجح اور محتاط ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے