اعتکاف سے متعلق روایت "لا اعتکاف” کی تحقیق
سوال:
روایت ’’لا اعتکاف‘‘ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ اس بارے میں آپ کی تحقیق کیا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اعتکاف کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے بعض محدثین نے ’’لا اعتکاف‘‘ والی روایت کے ضعف کی جانب اشارہ کیا ہے۔ اس بارے میں چند اہم حوالہ جات درج ذیل ہیں:
امام ابو حاتم رازی کی تحقیق
◈ امام ابو حاتم رازی نے ’’لا اعتکاف‘‘ والی روایت کے راوی امام سفیان بن عیینہ کی ایک حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
◈ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس حدیث میں سفیان بن عیینہ نے سماع (یعنی اپنے استاد سے براہ راست سننے) کی صراحت نہیں کی۔
◈ علل الحدیث، جلد ۱، صفحہ ۳۲، حدیث نمبر ۶۰
◈ المخطوطہ ۱۸
◈ فوائد فی کتاب العلل بقلم المعلمی، صفحہ ۲۹
شیخ ناصر بن حمد الفہد کی تحقیق
◈ شیخ ناصر بن حمد الفہد نے لکھا:
وهذا یفید ان ابن عیینة احیانا یدلس عن الضعفاء
"اور یہ اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ ابن عیینہ بعض اوقات ضعیف راویوں سے تدلیس کرتے تھے۔”
◈ منہج المتقدمین فی التدلیس، صفحہ ۳۶
شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن السعد کا تبصرہ
◈ سعودی عرب کے معروف عالم شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن السعد حفظہ اللہ نے مذکورہ کتاب پر تقریظ لکھی ہے، جو اس بات کی تائید کرتی ہے کہ اس روایت میں ضعف پایا جاتا ہے۔
نتیجہ
ان دو تازہ حوالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ روایت:
"لا اعتکاف الا فی المساجد الثلاثة”
("تین مسجدوں کے سوا اعتکاف نہیں ہے۔”)
یہ حدیث ضعیف ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب