کتاب و سنت کے دلائل کے مطابق جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع عقیدے سے متعلقہ امور میں واجب ہے
بعینہ اسی طرح فروعی مسائل جن میں اجتہاد جائز ہے، دلیل ظاہر ہو جانے پر ان میں بھی سنت کی اتباع لازم ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإنه من يعش منكم فسيري اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي و سنة الخلفاء المهديين الراشدين
کہ تم میں سے جو زندہ رہا بہت اختلافات دیکھے گا اس صورت میں میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑے رکھنا۔ [سنن ابی داؤد: ۴۶۰۷مسند احمد ۴؍۱۲۷ح ۱۷۱۴۵، الموسوعۃ الحدیثیۃ ۲۸؍۳۷۵،المواردح ۱۰۲ مسند دارمی۱؍۴۵ح۹۶]
اس امت کے سلف نے اسی طرح کی نصیحت کی جن میں ائمہ اربعہ یعنی ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور امام احمد شامل ہیں۔
ان کی نصیحت ہے کہ دلیل سے ثابت شدہ موقف کو اختیار کرنا چاہیئے اور یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث وارد ہو تو اس کے خلاف ہونے کی صورت میں ان کے اقوال ترک کر دیئے جائیں۔
امام مالک کا یہ مقولہ تو زبان زد عام ہے:
كل يؤخذ من قوله ويرد عليه إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم
ہر ایک کی بات پر عمل ہو سکتا ہے اور اسے رد بھی کیا جا سکتا ہے ماسوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (کہ آپ کا قول واجب الاتباع ہے) ۔
تنبیہ: بے سند قول ہے۔ یہ قول سند متصل سے نہیں ملا۔ نیز دیکھئے [مقدمه صفة الصلاة النبى صلى الله عليه وسلم ص ۱۰۳]
امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے:
”لوگوں کا اس امر پر اجماع ہے کہ جس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح ہو اس کے لئے روا نہیں کہ کسی شخص کے قول کے سبب (سنت) چھوڑ دے۔“ [كتاب الروح بن لاقيم ص ۳۹۵، ۳۹۶]
ابن قیم نے یہ قول نقل کرنے سے پہلے لکھا ہے کہ:
”جو شخص علماء کے اقوال کو نصوص پیش کرتا ہے ان سے موازنہ کرتا ہے اور انمیں سے جونص کے مخالف ہو اس کی مخالفت کرے تو ان کے اقوال بے وقعت کرنے یا ان کی شان میں گستاخی کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ ان کی اقتداء کرنے والا بنتا ہے اس لئے کہ ان سب نے اسی کا حکم دیا ہے۔ تو ان کا حقیقی پیرو وہ ہو گا جو ان کی اس نصیحت پر عمل پیرا ہو, نہ کہ وہ جو اس کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو۔“
ائمہ مذاہب اربعہ کی فقہ سے اشتغال رکھنے والے بعض علماء سے بھی منقول ہے کہ وہ ائمہ کے اقوال کے دلائل صحیحہ سے ٹکراؤ کی صورت میں دلائل پر اعتماد کرتے۔ چنانچہ اصبغ بن الفرج کہتے ہیں:
” حالت حضر میں (موزوں پر) مسح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ سے ہمارے نزدیک قوی تر ہے اور اس قدر ثابت ہے کہ ہم اس کے مقابلے میں امام مالک کے قول کی اتباع نہیں کر سکتے ۔ “ [فتح الباري : ۱/۳۰۶]
اور حافظ رحمہ اللہ فتح الباری(۱/۲۷۶)میں فرماتے ہیں:
” کتے کے برتن میں منہ ڈالنے کی صورت میں مالکی فقہاء اسے مٹی سے مانجھنا ضروری خیال نہیں کرتے۔ قرافی (مالکی) کہتے ہیں: اس بارے میں احادیث درجہ صحت کو پہنچی ہیں تو ان (مالکی فقہاء) پر تعجب ہے کہ انہوں نے ان کے مطابق قول اختیار کیوں نہیں کیا ۔“
ابن عربی مالکی کہتے ہیں:
”مالکی فقہاء کہتے ہیں کہ غائبانہ نمازجنازہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ جس بات پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا ان کی امت کو بھی ویسا ہی عمل کرنا چاہیئے کیونکہ اصل عدم خصوصیت ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زمین سکیڑ دی گئی اور جنازہ آپ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارا رب اس پر قادر ہے اور یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان بھی تھا لیکن وہی بات کہو جو روایت کے ذریعے تم تک پہنچی ہے، اپنی طرف سے بات نہ بناؤ۔ اور صرف ثابت شدہ احادیث و روایات بیان کرو۔ ضعیف روایات کو چھوڑو کیونکہ اس کا نتیجہ ناقابلِ تلافی نقصان کی صورت میں نکلے گا۔“ [فتح الباري: ۳/۱۸۹ ، نيل الاوطار للشوكاني: ۴/۵۴]
ابن کثیر رحمہ اللہ والصلٰوة الوسطي کے تعین کے بارے میں بحث کا خاتمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” حدیث پایئہ ثبوت کو پہنچ چکی کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے تو اس کو تسلیم کئے بغیر چارہ کار ہی نہیں“ پھر امام شافعی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں: ”میرا جو قول بھی ایسا ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحیح اس کے خلاف مروی ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اولیت رکھتی ہے اس صورت میں میری تقلید نہ کرو۔“ نیز فرمایا: ”جب حدیث پایئہ ثبوت کو پہنچ جائے اور میری رائے اس کے خلاف ہو (تو یوں سمجھو) میں اپنی اس رائے سے رجوع کر چکا ہوں اور میرا قول وہی ہے جو حدیث نبوی سے ثابت ہے۔“
یہ نقل کرنے کے بعد ابن کثیررحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”یہ چیز ان کی کمالِ امانت پر دلالت کرتی ہے ۔ بعینہ یہی بات ان کے تمام بھائیوں یعنی ائمہ کرام نے کہی۔ اللہ کی ان پر رحمت و رضوان ہو۔ آمین۔ اسی بنیاد پر قاضی ماوردی نے دو ٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ امام شافعی کا موقف یہ ہے کہ صلاۃ وسطی نماز عصر ہے حالانکہ انہوں نے جدید قول میں صراحت کی ہے کہ اس سے مراد فجر کی نماز ہے اور شافعی مذہب رکھنے والے محدثین کی ایک جماعت نے بھی اس طریقہ پر ان کی موافقت کی ہے۔ وللہ الحمد و المنۃ۔ “ [تفسير ابن كثير ۱؍۵۸۷بتحقيق عبدالرزاق المهدي]
حافظ ابن حجر فتح الباری (۲؍۲۲۲) میں فرماتے ہیں:
”ابن خزیمہ نے دو رکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ سنت ہے اگرچہ شافعی نے اس کا زکر نہیں کیا پس (اس کی) سند صحیح ہے اور شافعی کہہ چکے ہیں کہ سنت کے مطابق موقف اختیار کرو اور میرا قول چھوڑ دو۔“
فتح الباری (۳؍۴۷۰)میں ہے کہ بیہقی نے معرفۃ (السنن والآثار ۳؍۵۴ح ۱۹۳۴و سندہ صحیح)میں ربیع(شافعی کے تلمیذ خاص)کے واسطے سے زکر کیا ہے کہ امام شافعی نے فرمایا:
عورتوں کے عید گاہ میں جانے کے متعلق ایک حدیث مروی ہے اگر ثابت ہو تو وہی میرا قول ہے ۔ ان کا اشارہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی طرف تھا۔ اس لئے شوافع پر لازم ہے کہ اس کے قائل ہوں۔
امام نووی نے شرح مسلم (۴؍۴۹) میں اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:
”احمد بن حنبل اور اسحٰق بن راھویہ کا کہنا ہے کہ اس بارے میں دو احادیث ہیں ایک سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی اور دوسری سیدنا براء رضی اللہ عنہ کی یہ موقف قوی تر ہے اگرچہ جمہور اس کے خلاف ہیں۔“
حافظ ابن حجر نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث أمرت أن أقاتل الناس کی شرح میں مانعین زکوۃ کے بارے میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مابین ہونے والی بحث کا زکر کر کے لکھا ہے: ”اس قصہ میں دلیل ہے کہ سنت اکابر صحابہ پر بھی مخفی رہ سکتی ہے جبکہ ان میں سے عام آدمی اس پر مطلع ہو اس لئے سنت کے ہوتے ہوئے آراء کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھنا چاہیئے خواہ آراء بظاہر اچھی ہی کیوں نہ ہوں جب وہ سنت کے خلاف ہوں تو ان کی طرف نہیں دیکھنا چاہیئے۔ اور یہ نہیں کہنا چاہیئے کہ یہ سنت فلاں ہستی پر کیسے مخفی رہ گئی۔“ [فتح الباري: ۱/۷۶]
اور فتح الباری(۳/۵۴۴)میں فرماتے ہیں:
ھدی کو نشان لگانا سلف و خلف میں سے جمہور کا قول ہے۔ طحاوی نے ”اختلاف العلماء“ میں امام ابو حنیفہ سے اس کی کراہت نقل کی ہے جبکہ ان کے سوا ائمہ کا خیال ہے کہ سنت کی اتباع میں یہ مستحب ہے یہاں تک کہ ان کے شاگرد ان خاص محمد اور ابو یوسف بھی اسے مستحسن قرار دیتے ہیں۔
——————
تمام بدعات گمراہی ہیں کوئی بدعت حسنہ نہیں ہوتی
بدعات تمام کی تمام گمراہی اور ضلالت ہیں جس کی دلیل سیدنا جابر اور سیدنا عرباض رضی اللہ عنہما کی روایت کردہ احادیث میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم عام ہے کہ ‘‘ کل بدعۃ ضلالۃ’’ ہر بدعت گمراہی ہے۔ [سنن ابی داؤد: ۴۶۰۷]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان : كل بدعة ضلالة کا عموم واضح کر رہا ہے کہ جو شخص کہتا ہے یا سمجھتا ہے کہ اسلام میں کوئی بدعت حسنہ بھی ہوتی ہے تو اس کا یہ قول اور زعم باطل ہے۔
۔ مزید برآں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا موقف ان سے مروی اثر میں ہے کہ
كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة
ہر بدعت گمراہی ہے خواہ لوگ اسے اچھا ہی سمجھیں۔ [السنۃ للمروزی:۸۲ ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:
من سن فى الإسلام سنة حسنة فله أجرها و أجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيئ ومن سن فى الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غيرأن ينقص من أوزارهم شيئ
جس نے اسلام میں کوئی اچھا نمونہ قائم کیا تو اسے اپنے اس عمل کا ثواب ملے گا اور اس کے بعد اس پر تمام عمل کرنے والوں کا بھی ، بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ثواب میں کوئی کمی واقع ہو اور جس نے اسلام میں برا نمونہ قائم کیا تو اس کے سر اس کا بوجھ ہو گا اور اس کے بعد ومل کرنے والوں کا بھی، بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے بوجھ میں کوئی کمی واقع ہو۔ [مسلم:۱۰۱۷]
سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اسلام میں بدعت حسنہ بھی ہوتی ہے ، ہرگز روا نہیں، اس لئے کہ اس سے مراد ثابت شدہ نیک اعمال کی طرف سبقت کرنا ہے (نہ کہ بدعت جاری کرنا) جیسا کہ صحیح مسلم میں مزکور فرمان نبوی سے پہلے اس کا سبب بتایا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قبیلہ مضر کے کچھ لوگ مدینہ آئے ان پر فقر و فاقہ کے آثار ظاہر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کی ترغیب دلائی تو انصار میں سے ایک شخص ایک تھیلی لے کر آیا جسے اٹھانے سے اس کا ہاتھ عاجز آ رہا تھا(اس کے بعد لوگ پے درپے صدقات لے کر آئے) تو اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من سن فى الإسلام سنه حسنة (حوالہ مذکور ہے) اسی طرح ایسے علاقے میں جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ثابت شدہ سنت معروف نہ رہی ہو تو اسے وہاں زندہ کرنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہو گا۔ لیکن اس سے یہ معنی مراد لینا کہ دین میں نو ایجاد امور کو شامل کر دیا جائے تو یہ ہرگز روا نہیں، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذکر کیا جا چکا ہے:
من أحدث فى أمرنا هذا ماليس منه فهورد
جس نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے۔ [صحیح بخاری: ۲۶۹۷و صحیح مسلم : ۱۷۱۸]
اس لئے کہ شریعت مکمل ہے۔ بدعات اور نو ایجاد کاموں کی محتاج نہیں اور بدعات ایجاد کرنا درحقیقت شریعت پر نامکمل اور ناقص ہونے کا الزام لگانے کے مترادف ہے اور قریب ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول گزر چکا ہے۔ كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے اچھا ہی سمجھیں۔ [السنۃ للمروزی: ۸۲]
اور امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول بھی کہ جس نے اس میں کوئی بدعت نکالی اور اسے اچھا سمجھا تو اس نے یہ گمان کیا کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں خیانت کا ارتکاب کیا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے’’ تو جو کام اس روز دین نہیں تھا آج بھی دین نہیں ہو سکتا۔ [ديكهئے الحديث: ۱۵ص۳۳]
جہاں تک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لوگوں کو نمازِ تراویح میں ایک امام پر جمع کرنے کا تعلق ہے تو یہ ایک مسنون عمل کو ظاہر کرنے اور سنت کو زندہ کرنے کی مثال ہے اس لئے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی بعض راتوں میں لوگوں کو قیام رمضان کی نماز پڑھائی تھی۔ اور اسے مستقل طور پر ادا کرنا امت پر اس قیام کے فرض ہونے کے خدشے سے ترک کیا تھا جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا ہے۔ [حديث:۱۱۲۹]
اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو سلسلہ وحی کے منقطع ہو جانے کے سبب فرض ہونے کاخدشہ جاتا رہا، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کیا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نمازِ تراویح کے متعلق یہ جو کہا نعم البدعة هذه یہ اچھا آغاز ہے۔ [بخاری:۲۰۱۰] تو یہاں لفظ ”بدعت“ اپنے شرعی مفہوم میں نہیں لغوی مفہوم میں ہے۔
——————
لغوی ”بدعت“ (آغاز) اور شرعی ”بدعت“ (نو ایجاد) کا فرق
لغوی مطالب عام طور پر شرعی مفاہیم سے وسیع تر ہیں، زیادہ تر شرعی مفہوم لغوی معنی کا جزء ہوتا ہے۔ تقوی، صیام(روزہ) حج، عمرہ اور بدعت کے الفاظ اس کی مثالیں ہیں۔ چنانچہ تقوی کا لغوی معنی یہ ہے کہ انسان اپنے اور ایسی چیز کے درمیان جس سے وہ خوف محسوس کرتا ہے بچاؤ کے لئے کوئی چیز رکھ لے جو اسے دوسری چیز کے شر سے محفوظ رکھے جیسا کہ سورج کی گرمی اور سردی سے بچنے کے لئے مکانات تعمیر کئے جاتے ہیں یا خیمے لگائے جاتے ہیں۔ زمین پر بری اشیاء کے ضرر سے بچنے کے لئے جوتے استعمال کئے جاتے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں اللہ سے تقوی کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان اپنے اور اللہ کے غضب کے درمیان کوئی ایسی چیز رکھے جو اسے غضب الٰہی سے محفوظ رکھے اور یہ اس کے احکام بجا لانے اور اس کی ممنوعات سے پرہیز کرنے سے ہوگا۔
صیام(روزہ) لغت میں رکنے کو کہتے ہیں۔ جبکہ شریعت کی اصطلاح میں خاص قسم کے رکنے کو کہتے ہیں۔ اور وہ ہے کھانے پینے اور روزہ افطار کرنے کے جملہ اسباب سے طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک پرہیز کرنا۔ حج لغت میں ہرارادہ و قصد کو کہتے ہیں جبکہ شرعی اصطلاح میں خاص مناسک کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ کا ارادہ کرنے کو کہتے ہیں۔عمرہ لغوی طور پر ہر زیارت کو کہتے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں کعبہ کی زیارت جو اس کا طواف ، صفا مروہ کی سعی اور حلق یا تقصیر سے عبارت ہے۔اسی طرح لغت میں ہر وہ چیز جو پہلے سے مثال نہ ہوتے ہوئے نو ایجاد کی جائے اور شرعی اصطلاع میں وہ عمل و اعتقاد ہے جس کی دین میں کوئی اصل نہ ہو اور یہ سنت کی ضد ہے۔
——————
مصالح مرسلہ بدعات میں سے نہیں
مصلحت مرسلہ ایسی مصلحت کو کہتے ہیں کہ کوئی شرعی دلیل اس کے اعتبار کرنے یا اس کے ساقط کرنے پر دلالت نہ کرے۔ جبکہ وہ کسی شرعی مقصد کو پورا کرتی ہو جیسے کہ سیدنا ابو بکر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میں جمع قرآن، کتابوں کا لکھا جانا اور بیت المال سے وظیفہ لینے والوں کا ریکارڈ محفوظ کرنا۔ شریعت میں کوئی نص ان امور کے ثبوت یا ممانعت میں وارد نہیں۔ جہاں تک جمع قرآن کا تعلق ہے تو یہ ذریعہ ہے اس کے محفوظ رہنے کا اور اسی کی بدولت اس کا کوئی حصہ بھی ضائع نہیں ہوا۔ اور اسی سے اللہ عزوجل کا فرمان:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ’
”بے شک ہم ہی نے قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ “ [الحجر:۹] پورا ہوا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھی تو وہ متردد تھے انہوں نے کہا میں ایسا کام کیوں کر سکتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم یہ بہتر ہے ۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس امر پر بار بار کہتے رہے حتی کہ اللہ نے مجھے شرح صدر عطا کر دی اور میں عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق ہو گیا۔ [بخاري: ۴۶۷۹]
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے صحیفوں میں جمع کیا تھا جبکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے ایک مصحف میں جمع کیا ۔ رجسٹروں اور ریکارڈوں کی تیاری سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی۔ جب فتوحات بکثرت ہوئیں، غنیمت اور فئی کی صورت میں وافر مال بیت المال میں آ گیا تو لشکریوں اور بیت المال سے وظیفہ لینے والے دیگر افراد کے ناموں کا ریکارڈ رکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ نظام سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے پہلے وجود میں نہ آیا تھا۔ جبکہ یہ عمل ذریعہ ہے مستحق افراد کے حقوق کی یقینی ادائیگی کا۔ اور سد باب ہے ان میں سے کسی کے محروم رہ جانے کے خدشے کا۔ لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بعض بدعات کو مصالح مرسلہ میں شامل کر کے حسن قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ مصالح مرسلہ میں شریعت کے مقرر کردہ کسی مقصد کو پورا کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے برخلاف بدعات میں شریعت پر ناقص ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کے قول میں گزر چکا ہے۔
——————
نیت اچھی ہونے کے ساتھ سنت کی موافقت بھی ضروری ہے
بدعات کے معاملے کو معمولی سمجھنے والوں کی طرف سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے بدعت کا مرتکب ہوتا ہے اس کی نیت تو اچھی ہے اس لئے اس اعتبار سے اس کے عمل کو بھی اچھا ہی کہا جائے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ مقصد نیک ہونے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عمل سنت کے مطابق ہو اور یہ بھی نیک عمل کی قبولیت کی دو شرطوں میں سے ایک ہے جن کا تذکرہ ہو چکا ہے۔ یہ دو شرطیں ، اللہ کے لئے اخلاص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ا طاعت ہیں۔
اور وہ حدیث گزر چکی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نو ایجاد بدعات ایسا عمل کرنے والوں کو لوٹا دی جاتی ہیں (اللہ تعالیٰ کے حضور شرف قبولیت نہیں پا سکتیں) متفق علیہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
من أحدث فى أمرنا هذا ماليس منه فهورد
جس نے ہمارے دین میں ایسا عمل ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے۔ [بخاری:۲۶۹۷،مسلم:۱۷۱۸]
صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں:
من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورد
”جو کوئی ایسا عمل کرے جو ہمارے طریقہ پر نہیں تو وہ عمل مردود ہے۔“ [صحیح مسلم: ۱۷۱۸؍۱۸]
اور مقصد نیک ہونے کے ساتھ سنت کی اطاعت ضروری ہونے کے دلائل میں اس صحابی کا قصہ بھی ہے جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کر دیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاتك شاة لحم تمہاری ذبح کی وہ بکری ایسی ہے جس طرح گوشت کھانے کے لئے ذبح کی گئی بکری ہوتی ہے۔ (قربانی شمار نہیں ہو گی) [بخاري:۹۵۵،مسلم:۱۹۶۱]
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (۱۰/۱۷) میں لکھا ہے :
”شیخ ابو محمد بن ابی حمزہ کا قول ہے کہ اس سے ثابت ہوا کہ عمل اگرچہ اچھی نیت سے کیا گیا ہو اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ ہو۔“
سنن دارمی(۲۱۰)میں صحیح سند کے ساتھ مذکور اس واقعہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھے لوگوں کے پاس آئے جن کے ہاتھوں میں کنکریاں تھیں۔ ان میں سے ایک آدمی کہتا سو بار اللہ اکبر کہو۔ اور وہ کنکریوں پر شمار کر کے سو بار اللہ اکبر کہتے۔ پھر وہ کہتا سو بار لا الہ الا اللہ کہو۔ سو بار سبحان اللہ کہو۔ اور لوگ اسی طرح کرتے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا: یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ؟ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ابو عبدالرحمن ہم تکبیر تسبیح تھلیل کنکریوں پر شما رکرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: تو تم اپنے گناہ شمار کرو(یعنی ان اعمال سے توبہ کرو تو) میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہو گی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت!تم پر افسوس ہے تم اس قدر تیزی سے ہلاکت کی طرف لڑھک گئے۔ یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ وافر تعداد میں موجود ہیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ملبوسات ہیں جو ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے۔ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال کے برتن بھی نہیں ٹوٹے، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا تو تم ایسے طریقہ پر ہو جس میں ملت محمدیہ سے بھی زیادہ ہدایت پائی جاتی ہے یا تم گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو۔ وہ کہنے لگے۔ ابو عبدالرحمن ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی کا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نےفرمایا:بھلائی کا ارادہ کرنے والے کتنے لوگ ایسے ہیں جو اسے پا نہیں سکتے۔ ملاحظہ ہو [السلسله الصحيحه لمحدث الالباني رحمه الله ح:۲۰۰۵]
اس کی سند حسن ہے۔
بدعات کے خطرات اور اس حقیقت کا بیان کہ ”یہ گناہوں“ سے بدتر ہیں
بدعات کا معاملہ گھمبیر اور ان کا قضیہ غیر معمولی ہے۔ ان کے برے اثرات بہت وسیع ہیں یہ عام گناہوں اور نافرمانیوں سے زیادہ خطرناک ہیں اس لئے کہ عام گناہ کا مرتکب جانتا ہے اور مانتا ہے کہ وہ حرام میں ملوث ہے کبھی نہ کبھی اسے چھوڑ دیتا ہے اور تائب ہو جاتا ہے جبکہ بدعت کا رسیا یہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اس لئے مرتے دم تک اسی پر ڈٹا رہتا ہے جبکہ وہ اپنی خواہشات نفس کا پیرو ہوتا ہے اور راہ راست سے بھٹکا ہوا راہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْ ءُ عَمَلِهٖ فَرَ اٰهُ حَسَناً ط فَاِنَّ الله يُضِلُّ مَنْ يَّشَآ ءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاءُ
”بھلا وہ شخص جس کو اس کے اعمال بد آراستہ کر کے دکھائے جائیں اور وہ ان کو نیکی سمجھنے لگے تو وہ (بھلا راہ راست پر کیسے آئےگا ) بلا شبہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔“ [فاطر:۸]
نیز فرمایا:
اَفَمَنْ كَانَ عَليٰ بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ كَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْ ءُ عَمَلِهٖ وَاتَّبَعُوْا اَهْوَآ ءَ هُمْ [محمد:۱۴]
بھلا جو شخص اپنے رب کی مہربانی سے واضح ہدایت پرہو وہ ان لوگوں کے مانند ہو سکتا ہے جن کو ان کے برے اعمال مزین کرکے دکھائے جائیں اور وہ اپنی خواہشات کے غلام بن کر رہ گئے ہوں۔
نیز فرمایا:
وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰي فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللهِ [ص:۲۶]
”اور اپنی خواہش کے پیچھے نہ لگو کہ وہ تمہیں اللہ کےر استے سے ہٹا دے گی۔“
نیز فرمایا:
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰهُ بِغَيْرِ هُدًي مِّنَ اللهِ [القصص: ۵۰]
”اور اس شخص سے زیادہ کون گمراہ ہو گا جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے۔“
اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن الله حجب التوبة عن كل صاحب بدعة حتي يدع بدعته
”اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی سے توبہ کو اوجھل کر رکھا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی بدعات کو چھوڑ دے۔“
اس حدیث کو منذری نے ترغیب و ترہیب (۸۶) ترک سنت اور بدعات کے ارتکاب اور خواہشات کی پیروی پر وعید میں ذکر کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ نیز ملاحظہ ہو [سلسله صحيحه للالباني:۱۶۲۰]
یہ حدیث حمید الطویل کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ [ز۔ع]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جو سنتوں کی اتباع کرنے کی ترغیب دلاتی ہیں اور بدعتوں سے بچنے کی تلقین کرتی ہیں اور ان کی خطرناکی واضح کرتی ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
➊ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:
من احدث فى أمرنا هذا ماليس منه فهورد
”جس نے ہمارے احکام میں ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے۔“ [بخاري: ۲۶۹۷، مسلم: ۱۷۱۸]
صحیح مسلم میں ایک روایت ان الفاظ سے بھی وارد ہے:
من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورد
جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقہ کے مطابق نہیں تو وہ مردود ہے۔ [مسلم: ۱۷۱۸]
اور یہ دوسری روایت جو صحیح مسلم میں ہے معنی کے اعتبار سے پہلی روایت کی نسبت زیادہ عموم کی حامل ہے اس لئے کہ یہ بدعت کے موجد اور اس پر عمل کرنےو الے دونوں کو شامل ہے۔
اور یہ حدیث قبولیت اعمال کی دو شرطوں میں سے ایک یعنی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جو عمل بھی کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا تاوقتیکہ اس میں دو شرطیں پائی جائیں۔ پہلی یہ کہ اللہ وحدہ تعالیٰ کے لئے کامل اخلاص جس میں کوئی شائبہ نہ ہو اور یہی تقاضا ہے اس شہادت کا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور دوسری یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کامل اتباع ، اور یہ تقاضا ہے اس شہادت کا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مجموع الفتاویٰ [۱۸؍۲۵۰] میں ہے کہ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے فرمان باری تعالیٰ:
لِيَبْلُوَ كُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً
”کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھا عمل کون کرتا ہے۔ “ [الملك: ۲] میں ”اچھے“ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ”اس سے مراد یہ ہے کہ خالص ترین اور درست ترین۔“
یہ اس لئے کہ عمل اگرچہ خالص ہو لیکن درست نہ ہو تو مقبول نہیں ہوتا اسی طرح اگر درست ہو لیکن خالص نہ ہو وہ بھی مقبول نہیں ہوتا اور قبولیت اس وقت پاتا ہے جب خالص اور درست ہو۔ خالص سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے لئے ہو اور درست سے مراد یہ ہے کہ سنت کے مطابق ہو۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے ارشاد باری تعالیٰ:
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْ الِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَّلَايُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖ اَحَدًا
”تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھتا ہو اسے چاہئے کہ عملِ نیک کرے اور پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ “ [الکہف: ۱۱۰] کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فليعمل عملا صالحا (نیک عمل کرے) سے مراد ہے کہ ایسا عمل کرے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق ہو۔ اور ولا يشرك بعبادة ربه احدا (اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے سے مراد ہے کہ اپنا عمل بجا لاتے وقت صرف اللہ وحدہ کی خوشنودی کا طلبگار ہو۔ اللہ تعلایٰ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پانے والے عمل کے یہ دو رکن ہیں۔ ضروری ہے کہ وہ اللہ کے لئے خالص ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق درست ہو۔ [تفسیر ابن کثیر بتحقیق عبدالرزاق المھدی۴؍۴۵۲]
➋ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وعظ کیا اس قدر بلیغ کہ ہماری آنکھیں چھلک چھلک گئیں اور دل لرز لرز گئے تو ایک شخص عرض پرداز ہوا اے اللہ کے رسول!یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ الوداعی خطاب ہے !تو آپ ہمیں کیا نصیحت فرماتے ہیں؟ فرمایا: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، سمع وطاعت کو لازم پکڑنا خواہ حکم دینےو الا حبشی غلام ہو۔ اس لئے کہ تم میں سے جو زندہ رہا بہت اختلاف دیکھے گا تو میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کا التزام کرنا اسے تھامے رکھنا اور اسے دانتوں سے پکڑ لینا۔ خبردار نو ایجاد کاموں سے دور رہنا، ہر نو ایجاد کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے (ابو داؤد: ۴۶۰۷، یہ الفاظ بھی انہی کی روایت کے ہیں۔ ترمذی: ۶۲۷۶اور ابن ماجہ: ۴۳۔ ۴۴ترمزی نے اسے ‘‘حسن صحیح’’کہا ہے۔ )
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ مبارک کے قریبی عہد میں اختلاف رونما ہونے کی خبر دی تھی اور اس سے بچنے اور اس کے نقصانات سے محفوظ رہنے کے راستے کی طرف رہنمائی بھی فرما دی تھی۔ جو آپ سلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفائے راشدین کے طریقہ کار کی پیروی اور بدعات وار نو ایجاد کاموں سے اجتناب سے عبارت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت پر کاربند رہنے کی تلقین فرمائی اور اس کی ترغیب دلائی اور فرمایا: فعليكم بسنتي و سنة الخلفاء المهديين الراشيدين ”میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا۔“
اور بدعات اور نو ایجاد کاموں سے ڈرایا اور فرمایا:
وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة
➌ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (۸۶۷) میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ ارشاد فرماتے تو کہتے:
أما بعد فإن خير الحديث كتاب الله وخير الهدي هدي محمد و شرالأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة
امابعد: بہترین بات اللہ تعالی کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ اور بدترین کام وہ ہیں جو نو ایجادہوں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
فمن رغب عن سنتي فليس مني
”جس نے میری سنت سے بے رغبتی ظاہر کی وہ مجھ سے نہیں۔“ [بخاري۵۰۶۳، مسلم: ۱۴۰۱]
➎ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”لوگو! میں تم میں وہ کچھ چھوڑ رہا ہوں کہ اگر اس کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ۔“
نیز فرمایا:
”میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ان کے ہوتے کبھی گمراہ نہ ہو گے اللہ کی کتاب اور میری سنت۔“
[حاكم ۱؍۹۳ح۳۱۸ نيز ديكهئے‘‘الحديث’’14ص40]
حجۃ الوداع کے متعلق سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث ہے اور اس میں آپ سلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے۔
”میں تم میں وہ چیز چھوڑ چلا ہوں کہ اس کے ہوتے ہوئے تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے بشرطیکہ اسے مضبوطی سے تھام لو۔ وہ اللہ کی کتاب ہے۔ اور ہاں تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا کہو گے؟ سب نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے پیغام پہنچا دیا، امانت ادا کر دی اور خیر خواہی اور نصیحت کی۔ تو آپ نے انگشتِ شہادت کوآسمان کی طرف اٹھا کر لوگوں کی طرف جھکایا اور کہا: اے اللہ گواہ ہو جا، اے اللہ گواہ ہو جا، تین بار ایسے کہا۔ “ [صحیح مسلم: ۱۲۱۸]
➏ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (۷۲۸۰) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری ساری امت جنت میں داخل ہو گی سوائے اس کے جو انکار کر دے۔ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول !جنت میں جانے سے کون انکار کرتا ہے؟ فرمایا: جو میری اطاعت کرتا ہے جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کر دیا۔
➐ اور امام بخاری رحمہ اللہ (۷۲۸۸) اور امام مسلم (۱۳۳۷) نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ امام مسلم کی روایت کے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”میں تمہیں جس کام سے منع کروں اس سے اجتناب کرو اور جس چیز کا حکم دوں اسے اپنی طاقت کے مطابق انجام دو۔ تم سے پہلے لوگوں کو اسی بات نے ہلاک کیا کہ وہ اپنے انبیاء سے بہت سوال کرتے اور ان سے بہت اختلاف کرتے۔“
➑ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ اس کی خواہش میری لائی ہوئی شریعت کے تابع ہو جائے۔“
(۱) امام نووی رحمہ اللہ نے اربعین میں سیدنا عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ کی روایت سے صحیح قرار دیا ہے اور حافظ رحمہ اللہ نے فتح الباری (۱۳؍۲۸۹) میں کہا ہے:
بیہقی نے ”المدخل“ اور ابن عبدالبر نے اپنی تالیف ”بیان العلم“ میں حسن، ابن سیرین، شریح ، شعبی اور نخعی رحمہم اللہ جیسے تابعین کی ایک جماعت سے جید سندوں کے ساتھ محض رائے سے کسی بات کے قائل ہونے کی مذمت بیان فرمائی ہے اور ان تمام امور کو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جامع اور شامل ہے۔ تم سب سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا تا وقتیکہ اس کی خواہش میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو ۔
(۱) اسے حسن بن سفیان وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند کے راوی ثقہ ہیں اور نووی نے اربعین کے آخر میں اسے صحیح کہا ہے۔
➒ امام بخاری (۱۵۹۷) اور امام مسلم (۱۲۷۰) نے روایت کیا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اسے بوسہ دیا اور کہا:
”میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ تمہیں بوسہ دیتے تھے تو میں تمہیں بوسہ نہ دیتا۔“
➓ امام مسلم رحمہ اللہ (۲۶۴۴) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہدایت کی طرف دعوت دے اسے اس کی اتباع کرنے والوں کے اجروں کی مانند اجر ہے اس سے ان کے اجروں میں کمی واقع نہ ہو گی اور جو گمراہی کی طرف بلاتے ہیں اسے اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں کی مانند گناہ ہو گا، اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع نہ ہو گی۔
جس طرح کتاب و سنت میں سنت کی اتباع کی ترغیب و تاکید اور بدعات سے اجتناب کی تلقین کے بارے میں نصوص وارد ہوئی ہیں اسی طرح سلف امت یعنی کتاب و سنت کی مثال پیروی کرنے والے صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے زمانے کے صالحین سے بہت سے آثار وارد ہیں جن میں اتباع سنت کی تلقین کی گئی ہے بدعات سے متنبہ کیا گیا ہے اور ان سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے۔
ان میں سے چند یہ ہیں:
➊ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اتبعوا ولا تبتدعو فقد كفيتم
”اتباع کرو بدعت اختیار نہ کرو، تمہاری کفالت کی جا چکی یعنی تمہیں خود رائی کی ضرورت نہیں۔“ [دارمي: ۲۱۱]
➋ عثمان بن حاضر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
”میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ہاں گیا ان سے نصیحت کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا: ہاں اللہ سے تقوی کو لازم پکڑو استقامت اختیار کرو، اتباع کرو بدعت سے دور رہو۔ “ [دارمي: ۱۴۱]
➌ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
”جسے اس بات سے مسرت ہوتی ہو کہ کل اللہ کے حضور مسلمان ہونے کی حالت پیش ہو اسے چاہئے کہ جہاں اذان ہو ان نمازوں کو پابندی کے ساتھ (باجماعت) ادا کرے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہدایت کے طریقے مقرر کئے اور یہ نمازیں بھی ہدایت کے طریقوں میں سے ہیں اگر تم نے گھروں میں نماز پڑھنا شروع کر دی جیسا کہ جماعت سے پیچھے رہنے والے کرتے ہیں تو تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تارک ہو جاؤ گے اور اگر تم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت چھوڑ دی تو گمراہ ہو جاؤ گے۔“ [صحيح مسلم: ۶۵۴]
➍ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے:
”ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے اچھا ہی خیال کرتے ہوں۔“ [السنة للمروزي: ۸۲وسنده صحيح]
➎ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”نو ایجاد کاموں سے دور رہو اس لئے کہ جو بھی نو ایجاد کام ہے بلا شبہ گمراہی ہے۔“ [ابو داؤد: ۴۶۱۱إسناده صحيح]
➏ ایک شخص نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خط لکھا جس میں تقدیر کے متعلق استفسار کیا تھا تو انہوں نے جواب میں تحریر کیا۔
اما بعد: .
میں تمہیں اللہ کے تقویٰ، اس کے معاملہ میں میانہ روی اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے کی نصیحت کرتا ہوں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ثابت اور قائم ہو جانے کے بعد اہل بدعت نے جو ایجاد کیا اس سے اجتناب کرو کہ اس کی انہیں ضرورت نہ تھی۔ تو تم سنت کا التزام کرو کہ یہی اللہ کے فضل و کرم سے تمہیں بچا کر رکھے گی۔ [ابو داؤد: ۴۶۱۲]
➐ سہل بن عبداللہ کا قول ہے:
”علم میں جس کسی نے نئی چیز داخل کی اس سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا اگر سنت کے مطابق ہوئی تو بچ جائے گا وگرنہ نہیں۔ “ [فتح الباري ۱۳/۲۹۰]
➑ شیخ الاسلام ابو عثمان نیسا بوری کا قول ہے:
”جو اپنے آپ پر سنت کو قول و فعل میں حاکم بنا لیتا ہے اس کی زبان سے حکمت جھڑنے لگتی ہے۔ اور جو شخص اپنے قول و فعل میں خواہش نفس کو حاکم بنا لیتا ہے اس کی زبان سے بدعت جاری ہو جاتی ہے۔“ [حلية الاولياء: ۱۰؍۲۴۴و سنده صحيح]
➒ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”جو شخص اسلام میں بدعت جاری کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اچھی ہے تو اس نے یہ سمجھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں خیانت کی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔ تو جو چیز اس وقت دین نہیں تھی آج بھی دین نہیں ہو سکتی۔“ [الاعتصام للشاطبي: ۱؍۲۸]
➓ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”ہمارے ہاں اہل سنت کے اصول یہ ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے طریقہ کی سختی سے پابندی اور ان کی اقتداء، بدعات سے اجتناب، اور یہ اعتقاد کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔“ [شرح اصول اعتقاد اهل السنة للالكائي: ۳۱۷]