اسمائے حسنیٰ سے اللہ تعالیٰ کی معرفت
1 : الله :معبود حقیقی
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا
(59-الحشر:22)
”وہی اللہ ہے، جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔“
2 : الرحمن : حد سے زیادہ مہربان
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا
(17-الإسراء:110)
” کہہ دیجیے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو، تمام اچھے نام اللہ کے ہیں۔ اور اپنی نماز نہ بہت بلند آواز سے پڑھ، اور نہ اسے بالکل پست کر ، اور اس کے درمیان کا راستہ اختیار کر۔ “
ایک مقام پر فرمایا:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا
(25-الفرقان:60)
” ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ رحمن کیا ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو حکم دے رہا ہے، اور اس ( تبلیغ ) نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کر دیا۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”مشرکین مکہ کے لیے اللہ کے صفاتی نام رحمن و رحیم نامانوس تھے ، اور بعض آثار میں آتا ہے کہ بعض مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یارحمن ورحیم کے الفاظ سنے تو کہا کہ ہمیں تو یہ کہتا ہے کہ صرف اللہ کو پکارو اور خود دو معبودوں کو پکار رہا ہے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ “
رحمن رحیم اللہ کی صفات اور اسمائے حسنیٰ میں سے ہیں، لیکن اہل جاہلیت اللہ کو ان ناموں سے نہیں پہچانتے تھے، جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کے آغاز پر بسم الله الرحمن الرحيم لکھوایا تو مشرکین مکہ نے کہا: ہم رحمن و رحیم کو نہیں جانتے ، لہذا باسمك اللهم لکھو۔
(سیرت ابن هشام: 317/2۔)
ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
مَّنْ خَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ
(50-ق:33)
”اور جو رحمن سے بغیر دیکھے ڈر گیا، اور رجوع کرنے والا دل لے کر آیا۔“
3 : الرحيم : نہایت رحم کرنے والا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(12-يوسف:53)
” میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا۔ بیشک نفس تو برائی کا حکم دینے والا ہے ، مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے۔ یقیناً میرا رب بڑی بخشش اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے۔“
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ
(49-الحجرات:12)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بہت سے گمانوں سے بچو، بیشک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، اور ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو، اور تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ سو اس سے تم نفرت کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تو بہ قبول کرنے والا ، نہایت رحم والا ہے۔“
ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا
(4-النساء:110)
”اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے، پھر اللہ سے بخشش چاہے تو وہ اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔ “
مزید فرمایا:
وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(6-الأنعام:54)
” اور یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں، تو آپ یوں کہہ دیجیے کہ تم پر سلامتی ہے۔ تمہارے رب نے رحم کرنا اپنے آپ پر لازم کر لیا ہے کہ جو شخص تم میں جہالت سے برا کام کر بیٹھے، پھر وہ اس کے بعد تو بہ کر لے اور اصلاح کرلے تو یقیناً وہ بے حد بخشنے والا ، نہایت رحم والا ہے۔ “
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ
(11-هود:90)
”تم اپنے رب سے استغفار کرو، اور اسی کی طرف جھک جاؤ، یقین مانو کہ رب بڑی مہر بانی والا ، اور بہت محبت کرنے والا ہے۔ “
ایک اور جگہ قرآن میں یوں مذکور ہے:
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
(46-الأحقاف:8)
” کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے، آپ فرمادیں! اگر میں نے اسے خود گھڑ لیا ہے تو مجھے اللہ سے (بچانے کا ) تم کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے ، وہ ان باتوں کو زیادہ جاننے والا ہے، جن میں تم مشغول ہوتے ہو، وہی میرے اور تمھارے درمیان گواہ کے طور پر کافی ہے، اور وہی بے حد بخشنے والا ، نہایت مہربان ہے۔ “
نیز فرمایا:
إِلَّا مَن ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(27-النمل:11)
”لیکن جو لوگ ظلم کریں، پھر اس کے عوض نیکی کریں اس برائی کے پیچھے، تو میں بھی بخشنے والا اور مہر بان ہوں۔ “
عبد الرحمن ناصر السعد رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ رحمت ، احسان، سخاوت اور کرم کی صفات سے متصف ہے، اس کی رحمت و عطا الا محدود ہے، جو اس کی حکمت کے مطابق ہر موجود کو حاصل ہے، اس میں مومنوں کو وافر اور کامل تر حصہ نصیب ہوا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ
(7-الأعراف:156)
” میری رحمت ہر شے کو محیط ہے ، میں اسے ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقویٰ اختیار کریں گے۔“
”تمام نعمتیں اور احسان اس کی رحمت اور اس کےجود و کرم کا مظہر ہیں اور دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اس کی رحمت کے نشان ہیں ۔“
(تفسیر السعدی)
4 : الملک حقیقی بادشاہ
کائنات کا حقیقی بادشاہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے ، قرآن اس کو یوں بیان کرتا ہے:
وَتَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَعِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(43-الزخرف:85)
” اور وہ بہت برکت والا ہے، وہ جس کے پاس آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہی ہے، اور اس کی بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے، اور اسی کے پاس قیامت کا علم ہے، اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے۔“
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ۖ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ
(82-الإنفطار:19)
” جس دن کوئی شخص کسی شخص کا مالک نہ ہو گا ( کچھ بھلا نہ کر سکے گا)، اس دن حکم اللہ ہی کا ہوگا۔“
5 : القدوس : پاک نہایت پاکیزہ ، ہر عیب اور نقص سے پاک
اللہ تعالیٰ کے پیارے ناموں میں سے ایک نام القدوس بھی ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
(62-الجمعة:1)
”اللہ کا پاک ہونا بیان کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، ( جو ) بادشاہ ہے، بہت پاک ہے،سب پر غالب ہے، کمال حکمت والا ہے۔ “
6 : السلام: سلامتی والا ، سلامتی دینے والا ، سراسر سلامتی
قرآن مجید کی متعدد آیات کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ سلامتی والا ہے ،
ذیل میں ہم چند آیات ذکر کرتے ہیں:
سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ
(36-يس:58)
”مہر بان پروردگار کی طرف سے انھیں سلام کہا جائے گا۔“
قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ
(21-الأنبياء:69)
”ہم نے کہا: اے آگ ! تو ابراہیم پر سراسر ٹھنڈی اور سلامتی بن جا۔“
الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ ۙ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
(16-النحل:32)
” فرشتے اس حال میں ان کی (روح) قبض کرتے ہیں جو کہ پاک ہوتے ہیں، کہتے ہیں: سلام ہو تم پر جنت میں داخل ہو جاؤ اس کے بدلے جو تم کیا کرتے تھے۔“
7 : المومن: امن دینے والا، ایمان دینے والا ، تصدیق کرنے والا
اللہ تعالیٰ کی ذات ہی حقیقی امن دینے والی ہے۔ درج ذیل آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں:
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ
(49-الحجرات:7)
” اور جان لو کہ بے شک تم میں اللہ کا رسول موجود ہے، اگر وہ بہت سے کاموں میں تمھارا کہا مان لے تو یقیناً تم مشکل میں پڑ جاؤ، اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا، اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کر دیا، اور کفر ، گناہ اور نا فرمانی کو تمہارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ راہ راست پر گامزن ہیں۔“
اور فرمایا:
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
(58-المجادلة:22)
”تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور آخرت کے دن پر کہ وہ اس سے دوستی رکھتے ہوں، جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ، خواہ وہ ان کے باپ دادا ہوں یا ان کے بیٹے ہوں، یا ان کے بھائی ہوں، یا ان کے کنبے والے ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے، اور انھیں اپنی طرف سے ایک روح کے ساتھ قوت بخشی ہے اور وہ انہیں (ان ) باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، ان سے اللہ راضی ہوا، اور وہ اس سے راضی ، یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں، خوب یا درکھو، اللہ کا گروہ ہی ( دو جہان میں ) کامیاب ہونے والا ہے۔ “
8 : المھیمن : نگہبانی کرنے والا ، محافظ، نگران
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ
(5-المائدة:48)
”اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے، جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے،سوان کے درمیان فیصلہ کریں اس سے جو اللہ نے نازل کیا، اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کر اس سے ہٹ کر جو حق میں سے تیرے پاس آیا ہے۔“
9 : العزیز : سب پر غالب، غلبہ دینے والا
اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سب پر غالب ہے، اور غلبہ دینے والی ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیات اس حقیقت کو کھول کر بیان کرتی ہیں:
الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
(22-الحج:40)
” یہ وہ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا، صرف ان کے اس قول پر کہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹا تا رہتا تو عبادت خانے ،گرجے اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ویران کر دی جاتیں جہاں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے ۔ جو اللہ کی مدد کرے گا ، اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بیشک اللہ تعالی بڑی قوتوں والا ، بڑے غلبے والا ہے۔ “
مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
(22-الحج:74)
” انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی (جیسے ) اس کی قدر کرنے کا حق تھا، بیشک اللہ قوت والا ، سب پر غالب ہے۔ “
الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
(14-إبراهيم:1)
الر ، یہ ایک کتاب ہے ، ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے تا کہ آپ لوگوں کو نکالیں ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے اُجالوں کی طرف، غالب، خوبیوں والے اللہ کے راستہ کی طرف۔“
10 : الجبار : ملانے والا ، زور آور، بلند و بالا ، بڑا ز بر دست
خلاق دو عالم اپنے مقدس کلام میں ارشاد فرماتا ہے:
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ
(59-الحشر:23)
”وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ پاک،سب عیبوں سے صاف، امن دینے والا ، نگہبان، غالب، زور آور اور بڑائی والا ، پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں۔“
11 : المتکبر : بڑائی والا ، تکبر والا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ
(59-الحشر:23)
”وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ پاک،سب عیبوں سے صاف، امن دینے والا ، نگہبان، غالب، زور آور اور بڑائی والا ، پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں۔“
12 – الخالق : پیدا کرنے والا ، اندازہ کرنے والا
اللہ تعالیٰ کی ذات ہی خالق حقیقی ہے، اس کے علاوہ کوئی خالق نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿١١﴾ قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ﴿١٢﴾
(7-الأعراف:11،12)
”اور البتہ ہم نے تمہیں پیدا کیا، اور پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا،سوائے ابلیس کے، وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ تھا۔ اس (اللہ تعالیٰ) نے فرمایا: جب میں نے تجھے حکم دیا تو تجھے کس نے منع کیا کہ تو سجدہ نہ کرے؟ وہ بولا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔“
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ
(3-آل عمران:47)
”وہ بولی: اے میرے رب ! مجھے لڑکا کیسے ہو گا ؟ جبکہ کسی مرد نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا، اس نے کہا: اسی طرح اللہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس کو کہتا ہے ” ہو جا، پس وہ ہو جاتا ہے۔“
نیز فرمایا: إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
(3-آل عمران:59)
”اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسی کی مثال ہو بہو آدم کی مثال ہے، جسے مٹی سے پیدا کر کے کہہ دیا، ہو جا، پس وہ ہو گیا۔“
13 : الباری : پیدا کرنے والا ، ایجاد کرنے والا ، جان ڈالنے والا ، زندگی دینے والا
قرآن اس امر کی یوں صراحت کرتا ہے:
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
(2-البقرة:54)
” اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! بے شک تم نے بچھڑے کو اپنے پکڑنے کے ساتھ اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، پس تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف تو بہ کرو، پس اپنے آپ کو قتل کرو، یہ تمھارے لیے تمھارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے، تو اس نے تمھاری تو بہ قبول کر لی، بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا ، نہایت رحم والا ہے۔
14 : المصور : صورت بنانے والا
هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
(3-آل عمران:6)
”جو رحموں میں تمھاری صورت بناتا ہے جس طرح چاہتا ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے ۔“
15 : الغفار: خوب بخشنے والا ، ڈھالنے والا ، بار بار بخشنے والا ، ہر گناہ بخش دینے والا ، گناہوں کو سدا بخشنے والا
ارشاد باری تعالی ہے:
خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ
(39-الزمر:5)
”اس نے نہایت اچھی تدبیر سے آسمانوں اور زمین کو بنایا، وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے، اور اس نے سورج چاند کو تابع کر رکھا ہے۔ ہر ایک مقررہ مدت کے لیے چل رہا ہے۔ خوب سن لو! وہی سب پر غالب اور نہایت بخشنے والا ہے۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ”اللہ تعالیٰ کی معاف کرنے کی صفت ہمیشہ سے معروف ہے، اور بندوں کے گناہ بخش دینا سدا سے اس کی شان ہے ، ہر کوئی اس کی معافی اور مغفرت کا محتاج ہے ، جس طرح اس کی رحمت اور اس کے کرم کے بغیر کسی کو چارہ نہیں۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ جو شخص معافی کے ذرائع اختیار کرے گا اسے ضرور بخش دیا جائے گا ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ
(20-طه:82)
میں بہت بخشنے والا ہوں، اس کو ، جو تو بہ کرے ، ایمان لائے ، نیک عمل کرے، پھر ہدایت پر قائم رہے۔
(تفسیر السعدی: 46/1)
16 : القھار : بہت زیادہ زبر دست ،سب کو اپنے قابو میں رکھنے والا ، سب پر غلبہ پانے والا
ارشادِ باری تعالی ہے:
وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ
(6-الأنعام:61)
”اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے، اور تم پر نگہبان بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچتی ہے ، تو ہمارے فرشتے اس کی (روح) قبض کر لیتے ہیں، اور وہ کوتا ہی نہیں کرتے ۔“
نیز فرمایا:
وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ
(7-الأعراف:127)
”اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کہ کیا آپ موسیٰ اور ان کی قوم کو یوں ہی رہنے دیں گے کہ وہ ملک میں فساد کرتے پھریں۔ اور وہ آپ کو اور آپ کے معبودوں کو ترک کیے رہیں۔ فرعون نے کہا کہ ہم ابھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے ، اور عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے، اور یقیناً ہم ان پر قابو رکھنے والے ہیں۔ “
ایک دوسرے مقام پر اپنی صفت قہاریت کو یوں بیان کیا:
يَوْمَ هُم بَارِزُونَ ۖ لَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ ۚ لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ
(40-غافر:16)
”جس دن سب لوگ ظاہر ہو جائیں گے ان میں سے کوئی اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔ آج کس کی بادشاہی ہے؟ فقط اللہ کی جو ایک ہے، بہت دبدبے والا ۔ “
17 : الوھاب : بہت زیادہ دینے والا ، سب کچھ عطا کرنے والا
اللہ تعالیٰ کے دلکش اور مسحور کن ناموں میں سے ایک یہ بھی ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ
(14-إبراهيم:39)
”تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے ۔ بے شک میرا رب دعا سننے والا ہے۔ “
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ
(38-ص:35)
”اس نے کہا: اے میرے رب ! تو مجھے بخش دے۔ اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما دے، جو میرے بعد کسی کو سزاوار (میسر ) نہ ہو، بیشک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔“
18 : الرزاق : رزق دینے والا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ
(51-الذاريات:22)
”آسان ہی میں تمھارا رزق ہے، اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔“
شان رزاقیت فقط پر وردگار عالم کے ساتھ مخصوص ہے۔ ذیل میں ہم چند آیات ذکر کرتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ
(51-الذاريات:58)
”بے شک اللہ تو خود ہی رازق ہے، بڑی عزت والا اور زبردست ہے۔ “
وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا ۚ كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
6-(الأنعام:142)
”اور چو پاؤں میں کچھ بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمین سے لگے ہوئے، کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمہیں رزق دیا، اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو ، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔“
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
(2-البقرة:172)
”اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو، تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں دی ہیں ، اور تم اللہ کا شکر کرو، اگر صرف اس کی عبادت کرتے ہو۔“
وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
(62-الجمعة:11)
” اور اللہ ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ “
19 : الفتاح : خوب کھولنے والا ، مدد کرنے والا مشکل کشا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ
(32-السجدة:29)
”آپ فرمادیں! فیصلے کے دن کا فروں کو ان کا ایمان (لا نا) نفع نہ دے گا، اور نہ انھیں مہلت دی جائے گی۔“
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ یوں ارشاد فرماتا ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
(7-الأعراف:96)
”اور اگر بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے ، اور پرہیز گاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی ، تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔“
ایک جگہ فرمایا:
فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِي وَمَن مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
(26-الشعراء:118)
”پس تو مجھ میں اور ان میں کوئی قطعی فیصلہ کردے، اور مجھے اور میرے باایمان ساتھیوں کو نجات دے ۔ “
نیز فرمایا:
قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ
(34-سبأ:26)
” کہہ دیجیے ! اللہ سب کو اکٹھا کرے گا پھر ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا، وہی فیصلہ کرنے والا ، سب جاننے والا ہے۔ “
عبدالرحمن بن ناصر السعدي رحمہ اللہ اسم الفتاح کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
” اللہ تعالیٰ شرعی احکام کے ذریعے سے ، تقدیر کے فیصلوں کے ذریعے، اور جزا اور سزا کے ذریعے سے اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے، وہ اپنے لطف و کرم سے سچے لوگوں کی چشم بصیرت کو کھول دیتا ہے ، ان کے دل اپنی معرفت، محبت اور اپنی طرف جھکاؤ کے لیے کھول دیتا ہے ، اپنے بندوں کے لیے رحمت کے اور طرح طرح کے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے، انہیں وہ اسباب مہیا فرماتا ہے جن سے انہیں دنیا اور آخرت کی بھلائی نصیب ہو جائے ، ارشاد ہے:
مَّا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
(35-فاطر:2)
”اللہ لوگوں کے لیے جو رحمت کھولتا ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا، اور جسے روک لے اس کے بعد اس (رحمت) کو کوئی نہیں بھیج سکتا۔ “
(تفسير السعدي ، تحت هذه الآية)
20 : العلیم : وسیع علم والا
قرآنِ مجید میں جابجا اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کو بیان کیا ہے۔ ذیل میں ہم چند آیات کو ذکر کرتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی یہ صفت آشکارا ہوتی ہے:
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ
(21-الأنبياء:81)
” ہم نے تند و تیز ہوا کو سلیمان کے تابع کر دیا جو اس کے فرمان کے مطابق اس زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی، اور ہم ہر چیز سے باخبر اور دانا ہیں۔ “
وَقَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلِلَّهِ الْمَكْرُ جَمِيعًا ۖ يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ ۗ وَسَيَعْلَمُ الْكُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ
(13-الرعد:42)
”ان سے پہلے لوگوں نے بھی اپنی مکاری میں کمی نہ کی تھی لیکن تمام تدبیر میں اللہ ہی کی ہیں۔ جو شخص جو کچھ کر رہا ہے اللہ کے علم میں ہے کافروں کو ابھی معلوم ہو جائے گا کہ اس جہان کی جزا کس کے لیے ہے۔ “
الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
(16-النحل:28)
” وہ کافر جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے، فرشتے جب ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں اس وقت وہ جھک جاتے ہیں (اور کہتے ہیں ) کہ ہم برائی نہیں کرتے تھے ۔ کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے جو کچھ تم کرتے تھے ۔“
يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ
(40-غافر:19)
”وہ جانتا ہے آنکھوں کی خیانت اور جو وہ سینوں میں چھپاتے ہیں۔ “
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا
(72-الجن:26)
”وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ “
21 : القابض : روزی کو تنگ کرنے والا ، قبض کرنے والا
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(2-البقرة:245)
”کون ہے جو اللہ کو قرض دے اچھا قرض، پھر وہ اسے اس کے لیے کئی گنا زیادہ بڑھادے، اللہ تنگی ( بھی ) دیتا ہے اور فراخی ( بھی ) دیتا ہے، اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔“
22 : الباسط: روزی کو کشادہ کرنے والا ، فراخ کرنے والا ، پھیلانے والا
ارشادِ ربانی ہے:
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(2-البقرة:245)
”کون ہے جو اللہ کو قرض دے اچھا قرض، پھر وہ اسے اس کے لیے کئی گنا زیادہ بڑھادے، اللہ تنگی ( بھی ) دیتا ہے اور فراخی ( بھی ) دیتا ہے، اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔“
ایک جگہ ارشاد فرمایا:
نیز فرمایا:
وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ
(42-الشورى:27)
”اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کی روزی فراخ کر دیتا تو وہ زمین میں فساد بر پا کر دیتے، لیکن وہ اندازے کے ساتھ جو کچھ چاہتا ہے نازل فرماتا ہے، وہ اپنے بندوں سے پورا خبر دار، اور خوب دیکھنے والا ہے۔“
اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ
(13-الرعد:26)
”اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے، اور (جس کے لیے چاہتا ہے ) تنگ کرتا ہے، اور وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے ہیں، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں تھوڑے سے سامان کے علاوہ کچھ نہیں ۔“
کسی کو اگر دنیا کا مال زیادہ مل رہا ہے باوجود یکہ وہ اللہ کا نافرمان ہے تو یہ مقام فرحت ومسرت نہیں کیونکہ یہ مہلت ہے، پتہ نہیں کب یہ مہلت ختم ہو جائے اور نافرمان بندہ کب اللہ تعالی کے شکنجے میں آجائے۔
حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے کوئی آدمی اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکالے اور دیکھے سمندر کے پانی کے مقابلے میں اس کی انگلی میں کتنا پانی آیا ہے۔
صحیح مسلم ، کتاب الجنة ، باب فناء الدنيا وبيان الحشر يوم القيامة۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ” رسول اللہ کا گز ربکری کے مردہ بچے کے پاس سے ہوا تو اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم ! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنا یہ مردہ بکری کا بچہ اپنے مالکوں کے نزدیک اس وقت حقیر تھا جب انہوں نے اسے پھینکا۔ “
سنن ترمذی ، باب ما جاء في هوان الدنيا، رقم: 2320 – سلسلة الصحيحة ، رقم: 940 .
23 : الخافض: نیچے کرنے والا ، پست کرنے والا
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ
(15-الحجر:88)
”آپ ہرگز اپنی نظریں نہ اٹھائیں (آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں) ان چیزوں کی طرف جو ہم نے ان کے مختلف قسم کے لوگوں کو فائدہ اٹھانے کے لیے دی ہیں، اور نہ ان پر غم کریں ، اور آپ اپنا باز ومومنوں کے لیے جھکا دیں ۔“
24 : الرافع : اونچا کرنے والا
اللہ تعالیٰ کی ذات ہی بندے کو رفعتوں اور بلندیوں سے ہم کنار کرتی ہے ۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
(94-الشرح:4)
” اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کیا۔ “
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ
(35-فاطر:10)
” جو شخص عزت چاہتا ہے ، پس عزت سب اللہ کے لیے ہے۔ اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام، اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے، اور جولوگ برائیوں کی خفیہ تدبیریں کرتے ہیں، ان کے لیے سخت عذاب ہے، اور ان لوگوں کی خفیہ تدبیر ہی برباد ہو گی۔“
علامہ شوکانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
”عمل صالح کلمات طیبات کو اللہ کی طرف بلند کرتا ہے، یعنی محض زبان سے اللہ کا ذکر کچھ نہیں جب تک اس کے ساتھ عمل صالح یعنی احکام وفرائض کی ادائیگی نہ ہو۔ بعض کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی عمل صالح کو حکمت طیبات پر بلند فرماتا ہے اس لیے کہ عمل صالح سے ہی اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس کا مرتکب فی الواقع اللہ کی تسبیح وتحمید میں مخلص ہے گویا قول عمل کے بغیر اللہ کے ہاں بے حیثیت ہے۔ “
(فتح القدير : 462،461/2.)
25 : المغفر : عزت دینے والا
عزت دینے والا اللہ ہے، اور کوئی عزت دینے والا نہیں ۔
ارشادِ ربانی ہے:
يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ
(63-المنافقون:8)
”یہ کہتے ہیں کہ اگر اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا۔ سنو ! عزت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے، اور اس کے رسول کے لیے اور ایمان دراوں کے لیے ہے، لیکن یہ منافق بے علم ہیں۔ “
نیز اللہ تعالیٰ اپنے مقدس کلام میں ارشاد فرماتا ہے:
الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا
(4-النساء:139)
”جو لوگ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں؟ بیشک ساری عزت اللہ ہی کے لیے ہے۔“
26 : المذل : ذلت دینے والا حقیر کرنے والا ، ذلیل کرنے والا
ذلت ورسوائی سے دو چار کرنے والا بھی اللہ ہی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
(3-آل عمران:26)
”آپ کہہ دیجیے کہ اے اللہ ! اے تمام جہان کے مالک ! تو جسے چاہے بادشاہی دے، اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے، اور تو جسے چاہے عزت دے، اور جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔“
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ ۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۗ وَمَن يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ
(22-الحج:18)
” کیا تو نے نہیں دیکھا ؟ کہ اللہ کے لیے سجدہ کرتا ہے جو ( بھی ) آسمانوں میں اور جو ( بھی ) زمین میں ہے، اور سورج ، چاند ، ستارے، پہاڑ ، درخت ، چوپائے اور بہت سے انسان (بھی)۔ اور بہت سے وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہو چکا ہے، اور جسے اللہ ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ اور بیشک اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ “
27 : السمیع: بہت سننے والا ، ہر آواز کو سننے والا
ارشاد فرمایا:
قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ
(58-المجادلة:1)
”یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑا کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا ، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔“
ایک مقام پر یوں ہے:
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(7-الأعراف:200)
” اور اگر کبھی شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ سے پناہ طلب کرو۔ یقیناً سب کچھ سننے والا ، اور سب کچھ جاننے والا ہے۔“
28 : البصیر : بہت دیکھنے والا ، ہر چیز ہر جگہ دیکھتا ہے
ارشادِ باری تعالی ہے:
فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ
(3-آل عمران:20)
”پس اگر یہ بھی تابعدار بن جائیں تو یقیناً وہ ہدایت والے ہیں، اور اگر یہ روگردانی کریں تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے، اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔“
ایک اور جگہ فرمایا:
وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ
(42-الشورى:27)
”اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کی روزی فراخ کر دیتا تو وہ زمین میں فساد بر پا کر دیتے، لیکن وہ اندازے کے ساتھ جو کچھ چاہتا ہے نازل فرماتا ہے۔ وہ اپنے بندوں سے پورا خبر دار ہے، اور خوب دیکھنے والا ہے۔“
اللہ تعالیٰ کا ارشادِ عالی ہے:
وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ ۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا
(17-الإسراء:17)
”ہم نے نوح کے بعد بھی بہت سی قومیں ہلاک کیں، اور تیرا رب اپنے بندوں کے گناہوں کی پوری خبر رکھنے والا ، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔“
29 : الحکم: حاکم ، فیصلہ کرنے والا اور حکم چلانے والا
قرآن مجید میں متعدد مواقع پر اللہ تعالیٰ کی صفت حاکمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں ہم چند مقامات کا ذکر کرتے ہیں:
أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
(6-الأنعام:114)
”تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور منصف تلاش کروں ؟ اور وہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصل ( واضح ) کتاب نازل کی ہے، اور جنہیں ہم نے کتاب دی ہے (اہل کتاب ) وہ جانتے ہیں کہ یہ تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کی گئی ہے، سو تم ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ “
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
(10-يونس:109)
” اور آپ اس کی اتباع کرتے رہیے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے، اور صبر کیجیے یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے، اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں میں اچھا ہے۔ “
اور فرمایا:
إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ
(5-المائدة:44)
”بے شک ہم نے نازل کی تورات ، جس میں ہدایت اور روشنی ہے، اس کے مطابق ہمارے انبیاء فیصلہ کرتے تھے ان کے متعلق جو فرماں بردار تھے ان لوگوں کے لیے جو یہودی بنے ، اور رب والے، اور علماء ( بھی ) اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے ، اور اس پر گواہ تھے۔ پس تم لوگوں سے نہ ڈرو، اور مجھ سے ڈرواور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لو، اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے، پس وہی لوگ کافر ہیں ۔ “
30: العدل : انصاف کرنے والا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
(16-النحل:90)
”اللہ تعالیٰ عدل ، بھلائی واحسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ اور تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ “
31 : اللطیف :نرمی و مہربانی کرنے والا ، لطف و کرم کرنے والا ، باریک بین
اللہ تعالیٰ اپنے مقدس کلام میں ارشاد فرماتا ہے:
أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
(67-الملك:14)
” کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے، اور وہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے اور کامل خبر رکھنے والا ہے۔“
ایک مقام پر لقمان علیہ السلام نے زبانی ارشاد فرمایا:
يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ
(31-لقمان:16)
”پیارے بیٹے ! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو، پھر وہ بھی خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہوا سے اللہ تعالٰی ضرور لائے گا، اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین ، کامل خبر رکھنے والا ہے۔“
32 ؛ الخبیر: خبر رکھنے والا ، خبر دار مکمل باخبر
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
(59-الحشر:18)
”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے ، اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔“
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
(24-النور:30)
” مومن مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے، بے شک اللہ اس سے پوری طرح خبر دار ہے جو وہ کرتے ہیں۔ “
33 : الحلیم : بڑے تحمل والا ، بردبار
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا
(17-الإسراء:44)
”ساتوں آسان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے، سبھی اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کیسا تھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو ۔ لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ، وہ بے شک ہمیشہ سے بڑا بردبار، نہایت بخشنے والا ہے۔ “
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
إِن تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ
(64-التغابن:17)
نیز فرمایا:
”اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے تو وہ اسے تمہارے لیے کئی گنا بڑھادے گا، اور تمہیں بخش دے گا۔ اور اللہ بڑا قدرداں، بڑے تحمل والا ہے۔“
قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ
(2-البقرة:263)
” اچھی بات اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد تکلیف پہنچانا ہو، اور اللہ تعالیٰ بے نیاز اور بردبار ( حلم والا) ہے۔“
34 :العظیم : سب سے بڑا، عظمت والا
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ. . . . . وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ
(2-البقرة:255)
”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہمیشہ سے زندہ اور قائم رکھنے والا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان دونوں ( زمین و آسان ) کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں ۔ وہ بلند و برتر ، عظمت والا ہے۔ “
35 : الغفور : بخشنے والا ۔ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا
ارشاد ربانی ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا
(4-النساء:48)
” بے شک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے ، اور اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دیتا ہے، اور جو شخص کسی کو اللہ کا شریک بناتا ہے یقیناً اس نے بہت بڑا گناہ گھڑا۔ “
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ ۚ إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا
(17-الإسراء:25)
”جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے، اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو ہمیشہ سے بخشنے والا ہے۔“
36 : الشکور : قدردان
اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی قدردان ہے۔ قرآن اس کا تذکرہ یوں کرتا ہے:
لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ
(35-فاطر:30)
”تا کہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے، اور اپنے فضل سے انھیں زیادہ بھی دے بیشک وہ بڑا بخشنے والا ، نہایت قدردان ہے۔ “
ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ
(42-الشورى:23)
” یہی وہ ہے جس کی بشارت اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے اور (سنت کے مطابق ) عمل کیے تو کہہ دیجیے ! کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا البتہ محبت رشتہ داری کی ، جو شخص کوئی نیکی کرے ہم اس کے لیے اس کی نیکی میں اور نیکیاں بڑھا دیں گے، بے شک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا (اور ) بہت قدر دان ہے۔“
37 : العلی: بہت بلند ، عالی شان
قرآن میں مذکور ہے:
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
(42-الشورى:51)
” ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذرایعہ، یا پر دے کے پیچھے سے، یا کسی فرشتہ کو بھیجے، اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے، بیشک وہ بے حد بلند ( اور ) کمال حکمت والا ہے ۔“
38 : الکبیر : سب سے بڑا
کبریائی کا مستحق بھی فقط پر وردگارِ عالم ہے۔ ارشاد فرمایا:
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ
(31-لقمان:30)
یہ اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے، اور اللہ کے سوا جنھیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب کچھ باطل ہے، اور اللہ ہی عالی شان اور کبریائی والا ہے۔“
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ
(22-الحج:62)
نیز فرمایا:
” یہ سب اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی یہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے، اور بیشک اللہ ہی بلندی والا اور سب سے بڑا ہے۔“
ذَٰلِكُم بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ ۖ وَإِن يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا ۚ فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ
(40-غافر:12)
”یہ (عذاب) تمہیں اس لیے ہے کہ جب صرف اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا تو تم انکار کر جاتے تھے، اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے ، پس اب حکومت اللہ بلند و بزرگ ہی کی ہے۔“
39 :الحفیظ : حفاظت کرنے والا ، محافظ
اللہ تعالیٰ کی ذات عالی ہی حقیقی محافظ ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
فَإِن تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ ۚ وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّي قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّونَهُ شَيْئًا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ
(11-هود:57)
”پھر اگر تم اعراض کرو، پس میں تم میں جو پیغام تمھیں پہنچانے کے لیے بھیجا گیا تھا، پہنچا چکا۔ اب میرا رب تمھارے علاوہ دوسروں کو تمھارا جانشین بنائے گا، اور تم اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے۔ اور میرا رب یقیناً ہر چیز پر محافظ ہے۔ “
ایک اور جگہ یوں فرمایا:
قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِن قَبْلُ ۖ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
(12-يوسف:64)
” ( یعقوب نے ) کہا کیا میں تم پر ویسا ہی اعتبار کروں جیسے اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں تھا، پس اللہ بہترین حفاظت کرنے والا، اور وہ سب رحم کرنے والے سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“
40 : المقیت : ہر چیز پر نظر رکھنے والا ، مقتدر
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا
(4-النساء:85)
” جو شخص کسی نیکی یا بھلے کام کی سفارش کرے اسے بھی اس کا کچھ حصہ ملے گا، اور جو بدی کی سفارش کرے اس کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت ( نظر ) رکھنے والا ہے۔“
41 : الحسیب: حساب لینے والا کافی ہونے والا
اللہ تعالیٰ اس امر کو یوں بیان کرتا ہے:
وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا
(64-الطلاق:3)
”اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو ۔ اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اسے کافی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ “
ایک جگہ فرمایا:
الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ
(3-آل عمران:173)
” وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پرلشکر جمع کر لیے ہیں تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے، اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔“
ایک جگہ اپنے جلد حساب لینے کو یوں بیان فرمایا:
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
(3-آل عمران:19)
” بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے، اور اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے، اللہ تعالیٰ اس کا جلد حساب لینے والا ہے۔ “
مزید فرمایا:
الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا
(33-الأحزاب:39)
” جو اللہ کا پیغام پہنچایا کرتے تھے اور اسی سے ڈرتے تھے، اور اللہ کے سوا اور کسی سے مطلق نہیں ڈرتے تھے، اور حساب لینے کو اللہ ہی کافی ہے۔“
42 : الجلیل: بزرگی والا مطلق بے پرواہ
ارشادِ ربانی ہے:
تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
(55-الرحمن:78)
”آپ کا رب جو بڑی بزرگی اور عزت والا ہے ۔ “
43 : الکریم : بہت کرم کرنے والا ، بہت سخاوت کرنے والا ، عزت والا
ایک مقام پر اپنی صفت کریمیت کو یوں بیان کیا:
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ
(82-الإنفطار:6)
”اے انسان تجھے اپنے بہت کرم کرنے والے رب سے کس نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔“
44 : الرقیب: نگہبان، نگرانی کرانے والا محافظ
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
(5-المائدة:117)
” میں نے تو رب سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو تو نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو، جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں رہا۔ پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو ہی ان پر مطلع رہا ، اور تو ہر چیز پر شاہد ہے۔“
45 : المجیب : دعا قبول کرنے والا ، جواب دینے والا
اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ”مجيب الدعوات“ ہے ۔ قرآن اس کو یوں بیان کرتا ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
(2-البقرة:186)
”اور جب پوچھیں تم سے (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے بندے میرے بارے میں ،تو آپ کہہ دیں کہ میں تو بہت ہی قریب ہوں۔ میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ۔ جب وہ پکارتا ہے ، لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ میری بات مان لیا کریں، اور مجھ پر یقین رکھیں تا کہ وہ ہدایت پائیں۔ “
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ
(11-هود:61)
”بلاشبہ میرا پروردگار قریب ہے، دعا قبول کرنے والا ہے۔ “
46 : الواسع: کشادہ اور وسعت والا
ارشاد فرمایا:
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
(2-البقرة:115)
”اور مشرق و مغرب سب اللہ ہی کے ہیں، تم جدھر بھی رُخ کرو گے ادھر ہی اللہ کا رُخ ہے۔ بلاشبہ اللہ بڑی وسعت والا ، اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ “
دوسری جگہ فرمایا:
الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ
(53-النجم:32)
نیز فرمایا:
” جو کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں سوائے چھوٹے گناہوں کے۔ بلاشبہ آپ کے رب کی مغفرت بہت وسیع ہے۔“
وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا
(4-النساء:130)
” اور اگر دونوں میاں بیوی الگ ہو جائیں تو اللہ اپنی مہربانی سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت وکشادگی والا اور حکمت والا ہے۔“
47: الحكيم : بڑي حكمت والا ، دانا بينا
وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
(31-لقمان:27)
”اور اگر یہ ہو کہ زمین میں جو بھی درخت ہیں قلمیں بن جائیں، اور سمند اس کی سیاہی ( بن جائیں ) اور اس کے بعد سات سمندر ( اور ہوں ) تو بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں ۔ بیشک اللہ غالب حکمت و دانائی والا ہے۔“
وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
(8-الأنفال:63)
”ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اس نے ڈالی ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارے کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے۔ بے شک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔“
بعض قرآنی مقامات پر عليم حكيم حكيم خبير ، تواب حكيم، واسع حكيم ، حكيم حميد ، على حكيم وغیرہ بھی آیا ہے۔
عبد الرحمن ناصر السعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو بہترین انداز میں پیدا فرمایا:
وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ
(5-المائدة:50)
” یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟“
وہ کسی چیز کو بے مقصد پیدا کرتا ہے ، نہ بے فائدہ کوئی قانون جاری فرماتا ہے، دنیا و آخرت میں اس کا فیصلہ نافذ ہے ، تینوں طرح کے حکم اسی کے لیے ہیں اور ان میں اس کا کوئی شریک نہیں یعنی شریعت ( اور احکام نافذ کرنے ) میں بھی بندوں کے درمیان وہی فیصلہ کرتا ہے، تقدیر میں بھی اور جزا وسزا میں بھی، حکمت کا مطلب ہے
” ہر چیز کو اس کے مقام و مرتبہ پر رکھنا ۔ “
(تفسير السعدي ، ص : 45)
48 : الودود: بہت محبت کرنے والا ، بھلائی چاہنے والا ، دوستی کرنے والا
ارشاد باری تعالی ہے:
وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ
(11-هود:90)
”اور تم اپنے رب سے بخشش مانگو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ۔ بے شک میرا رب نہایت رحم والا ، بہت محبت ( کرنے ) والا ہے۔“
مزید فرمایا:
وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ
(85-البروج:14)
” وہ بڑا بخشنے والا، بہت محبت (کرنے) والا ہے۔“
49 : المجید: بڑی شان والا ، بڑے مرتبے والا ، بزرگی والا
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۖ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ
(11-هود:73)
”انھوں (فرشتوں) نے کہا : کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے، اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں تم پر اے گھر والو! بے شک وہ بے حد تعریف کیا گیا، بڑی شان ومرتبے والا ہے۔ “
50 : الباعث : مردوں کو اٹھانے والا
ارشاد باری تعالی ہے:
ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
(2-البقرة:56)
نیز فرمایا:
”پھر ہم نے تمہیں تمہارے مرنے کے بعد زندہ کیا تا کہ تم شکر کرو۔ “
وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَن فِي الْقُبُورِ
(22-الحج:7)
” اور یہ کہ قیامت قطعاً آنے والی ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ، اور یقیناً اللہ تعالیٰ قبروں والوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔“
51 : الشہید : گواه
ارشاد فرمایا:
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
(3-آل عمران:18)
”اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور وہ عدل کے ساتھ دنیا کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“
مزید فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
(4-النساء:33)
”یقینا اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔“
52 : الحق
اللہ تعالیٰ اپنے مقدس کلام میں ارشاد فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
(4-النساء:170)
”اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر رسول آ گیا ہے سو تم ایمان لاؤ تا کہ تمہارے لیے بہتری ہو، اور اگر تم کافر ہو گئے اللہ ہی کی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اور اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا ( اور ) کمال حکمت والا ہے۔ “
دوسرے مقام پر فرمایا:
إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
(46-الأحقاف:17)
”بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے، وہ جواب دیتا ہے کہ یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں۔ “
مزید فرمایا:
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۖ فَإِن يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
(42-الشورى:24)
” کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اللہ پر جھوٹ گھڑ لیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگا دے، اور اللہ تعالیٰ اپنی باتوں سے جھوٹ کو مٹا دیتا ہے، اور بیچ کو ثابت رکھتا ہے۔ بلاشبہ وہ سینے کی باتوں کو جاننے والا ہے۔“
53 : الوكيل : کارساز ، کام بنانے والا ، بگڑی سنوار نے والا مختار کل
ارشاد ربانی ہے:
﴿إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا﴾
(17-الإسراء:65)
”میرےسچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں، وکیل ہونے کے لحاظ سے تیرا رب کافی ہے۔“
مزید فرمایا:
إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
(11-هود:12)
”آپ تو محض ڈرانے والے ہیں۔ اور ہر چیز پر مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے۔“
نیز فرمایا :
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ
(22-الحج:62)
” یہ سب اس لیے کہ اللہ ہی حق ( سچا ) ہے، اور اس کے سوا جسے یہ پکارتے ہیں وہ باطل (جھوٹ) ہے۔ اور بلاشبہ اللہ ہی بلند و برتر اور سب سے بڑا ہے۔“
54 : القوی: طاقت ور ، بہت قوت والا
اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ
(2-البقرة:165)
”بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو بنا لیتے ہیں، جن سے اللہ کی محبت جیسی محبت کرتے ہیں، حالانکہ جو لوگ ایمان لائے وہ سب سے زیادہ محبت اللہ سے رکھنے والے ہیں، کاش کہ مشرک لوگ جانتے، جب کہ اللہ کے عذابوں کو دیکھ کر (جان لیں گے ) کہ تمام طاقت اللہ ہی کی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔ “
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
(22-الحج:40)
” اور یقینا اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے گا۔ یقیناً اللہ بہت طاقتور اور سب پر غالب ہے۔“
اور فرمایا :
إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ
(11-هود:66)
”بے شک تیرا رب بڑا طاقت والا ، قوی اور غالب ہے۔“
55 : المتین : زبر دست قوت والا
ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ
(51-الذاريات:58)
”بیشک اللہ ہی بے حد رزق دینے والا، قوت والا ، نہایت مضبوط ہے۔“
56 : الولي : اصل دوست، مددگار ، کارساز
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ
(41-فصلت:34)
”نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی ۔ برائی کا بھلائی سے دفاع کرو، پھر تمہارا دشمن ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست ۔ “
مزید چند آیات مبارکہ ملاحظہ ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ ہی حقیقی کارساز ہے۔
اس کے علاوہ کوئی کام بنانے والا نہیں۔
أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۖ فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِيُّ وَهُوَ يُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
(42-الشورى:9)
”یا انھوں نے اللہ کے علاوہ اور کارساز بنا رکھے ہیں، اللہ ہی اصل کارساز ہے وہی مُردوں کو زندہ کرے گا، اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ “
اور فرمایا:
إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ
(7-الأعراف:196)
”بے شک میرا یار ومددگار اللہ ہے جس نے کتاب نازل کی ہے۔ اور وہ نیکوکاروں کا یارومددگار ہے۔ “
سورۃ البقرہ میں ارشاد فرمایا:
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(2-البقرة:256)
”ایمان لانے والوں کا کار ساز اللہ تعالیٰ خود ہے وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے، اور کافروں کے اولیا ء شیاطین ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے۔ “
57 : الحمید: تعریف کے لائق ، تعریف کیا گیا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
(2-البقرة:267)
”اے ایمان والو! تم خرچ کرو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے جو تمہارے لیے زمین سے نکالی ہے ، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ، ہاں ! اگر آنکھیں بند کر لو، اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بڑا بے پروا، اور بے حد خوبیوں والا ہے۔ “
نیز قرآن میں (حمید ) کا مطلب ہے کہ کائنات کی ہر چیز اس کی تعریف کرتی ہے ، اور یہ نام اس انداز میں بیان ہوا ہے ، حميد مجيد حكيم، حميد عزيز حميد، غني حميد، ولي حميد، وغیرہ وغیرہ
58 : المحصیی: شمار کرنے والا ، احاطہ کرنے والا ، گننے والا
ارشاد فرمایا:
لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا
(72-الجن:28)
”تا کہ وہ معلوم کر لے کہ تحقیق انہوں نے اپنے رب کے پیغام پہنچا دیے ہیں، اور اس نے ان تمام چیزوں کا احاطہ کر رکھا ہے جو کچھ ان کے پاس ہے، اور ہر شے کو گن کر شمار کر رکھا ہے۔“
وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا ۚ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ۗ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا
(18-الكهف:49)
” اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا، پس تو مجرموں کو دیکھے گا ڈرنے والے ہوں گے وہ اس سے جواس میں درج ہو گا، اور کہیں گے : ہائے ہماری بربادی ! اس کتاب کو کیا ہے نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے اور نہ بڑی ( ہر حرکت جو ہم نے کی تھی ) مگر اس نے اسے ضبط کر رکھا ہے ، اور انھوں نے جو کچھ کیا تھا اسے موجود پائیں گے۔ اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔“
59 : المبدی : پہلی بار پیدا کرنے والا ، ابتداء کرنے والا
ارشاد ربانی ہے:
قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ۚ ثُمَّ اللَّهُ يُنشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
(29-العنكبوت:20)
”کہہ دیجیے کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ابتداء مخلوق کی پیدائش کی ، پھر اللہ تعالیٰ ہی دوسری نئی پیدائش کریگا۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “
نیز فرمایا:
الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ
(32-السجدة:7)
”جس نے اچھا بنایا ہر چیز کو جو اس نے پیدا کی، اور انسان کی پیدائش کی ابتدا مٹی سے کی۔“
أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
(29-العنكبوت:19)
”کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کس طرح خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر کس طرح اعادہ کرتا ہے۔ یقیناً یہ (اعادہ) اللہ پر سہل ہے۔ “
60 : المعید: دوبارہ پیدا کرنے والا
ارشاد فرمایا:
قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ قُلِ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
(10-يونس:34)
” کہہ دیجیے ! کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو پیدائش کی ابتدا کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ بناتا ہے، کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔ “
61 : المحین : زندہ کرنے والا
هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ
(40-غافر:68)
” وہی ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے، پھر جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو صرف یہ کہتا ہے ” ہو جا سو وہ ہو جاتا ہے۔“
مزید فرمایا:
فَانظُرْ إِلَىٰ آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
(30-الروم:50)
”پس آپ رحمت الہی کے آثار دیکھیں کہ زمین کی موت کے بعد کس طرح اللہ تعالیٰ اسے زندہ کرتا ہے؟ کچھ شک نہیں کہ وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “
62 : الممیت : موت دینے والا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
نیز فرمایا:
وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ
(6-الأنعام:61)
”وہ اپنے بندوں پر پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگران فرشتے بھیجتا ہے حتی کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی جان لے لیتے ہیں، اور وہ ذرہ بھر کوتا ہی نہیں کرتے ۔“
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(2-البقرة:28)
”تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے، اس نے تمہیں زندہ کیا، پھر تمہیں مار ڈالے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر اس کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ “
ایک جگہ ارشاد فرمایا:
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ
(3-آل عمران:145)
”بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مرسکتا، مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے، دنیا کی چاہت والوں کو ہم کچھ دنیا دے دیتے ہیں، اور آخرت کا ثواب چاہنے والوں کو ہم وہ بھی دیں گے۔ اور احسان ماننے والوں کو ہم بہت جلد نیک بدلہ دیں گے۔ “
نیز قرآن میں ہے:
وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ
(15-الحجر:23)
”بے شک ہم ہی زندہ کرتے اور مارتے ہیں، اور ہم ہی وارث ہیں ۔“
63 : الحیی: ہمیشہ زندہ رہنے والا
ارشاد ربانی ہے:
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ
(2-البقرة:255)
”اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ ہمیشہ سے زندہ اور قائم رکھنے والا ہے۔“
64 : القیوم : قائم رکھنے والا ، سنبھالنے والا
وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا
(20-طه:111)
” اور سب چہرے اس زندہ رہنے والے، قائم رکھنے والے کے لیے جھک جائیں گے، اور یقیناً نا کام ہوا جس نے بڑے ظلم کا بوجھ اٹھایا۔“
65 : الواجد : ہر چیز کا پالنے والا
وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ
(24-النور:39)
” اور کافروں کے اعمال مثل اس چپکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں ہو جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا ، ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے۔ اللہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے ۔“
66 : المجید : بزرگی اور بڑی شان والا
اللہ عز وجل کے اسماء حسنی میں سے ” الْمَجِيدُ “ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی عظمت و کبریائی والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ ﴿١٤﴾ ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ
(85-البروج: 14، 15)
”اور وہ بڑا معاف کرنے والا ، محبت کرنے والا ہے۔ وہ عرش والا ، بڑی عظمت والا ہے۔“
67 : الواحد: اکیلا تن تنها
ارشاد فرمایا:
وَقَالَ اللَّهُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَٰهَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ
(16-النحل:51)
”اور اللہ نے فرمایا: دومعبود نہ بناؤ ۔ معبودتو صرف وہی اکیلا ہے۔ پس تم صرف مجھی سے ڈرو۔ “
68 : الاحد : صرف اکیلا ، یکتا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾
(112-الإخلاص)
”کہہ دیجیے وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور نہ ہی کوئی اس کے برابر کا ہے۔“
69 : الصمد : بے نیاز ، بے پرواہ مستغنی
ارشادِ باری تعالی ہے:
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾
(112-الإخلاص1، 2)
”کہہ دیجیے وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے۔“
70 : القادر : قدرت رکھنے والا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ
(6-الأنعام:65)
”کہہ دیجیے! اللہ قدرت والا ہے کہ وہ تم پر تمھارے اوپر سے تمھارے پاؤں کے نیچے سے، تم پر کوئی عذاب مسلط کر دے یا تمھیں فرقے فرقے بنادے۔ “
71 : المقتدر : پوری قدرت والا ، اقتدار والا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كُلِّهَا فَأَخَذْنَاهُمْ أَخْذَ عَزِيزٍ مُّقْتَدِرٍ
(54-القمر:42)
”انہوں نے ہماری آیتوں (احکام اور نشانیوں ) کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں (اس طرح) پکڑا ( جیسے ) ایک غالب اور صاحب قدرت کی پکڑ ( ہوتی ہے)۔“
72: المقدم: آگے کرنے والا ، پہل کرنے والا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ
(36-يس:12)
”بیشک ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے، اور ہم لکھتے ہیں ان کے عمل جو انہوں نے آگے بھیجے، اور جو انہوں نے پیچھے نشان چھوڑے ۔ اور ہر شے کو ہم نے ایک واضح کتاب (لوح محفوظ ) میں ضبط کر رکھا ہے ۔“
مزید فرمایا:
قَالَ لَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُم بِالْوَعِيدِ
(50-ق:28)
”اللہ فرمائے گا: میرے ہاں مت جھگڑو، میں تمھیں پہلے ہی اس کی خبر دے چکا ہوں۔ “
73 : الموخر : پیچھے کرنے والا
ارشاد فرمایا:
فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ
(11-هود:106)
” اور ہم نے ایک معینہ مدت کے لیے اسے مؤخر کیا ہے یعنی پیچھے کر دیا ہے ۔ “
اللہ کا یہ نام سنن ترمذی ، کتاب الدعوات، باب فی اسماء الله الحسنى ، رقم : 3507 اور مستدرك حاکم میں آیا ہے۔
74 : الاول : سب سے اول، پہلا ، ازل سے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(57-الحديد:3)
”وہی پہلے ہے، اور سب سے پیچھے، اور ظاہر ہے، اور چھپا ہوا ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ “
75 : الاخر: سب کے بعد ، پیچھے ، آخری ، ابد تک
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(57-الحديد:3)
”وہی پہلے ہے، اور سب سے پیچھے، اور ظاہر ہے، اور چھپا ہوا ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ “
76 : الظاہر : سب سے ظاہر ، سامنے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(57-الحديد:3)
”وہی پہلے ہے، اور سب سے پیچھے، اور ظاہر ہے، اور چھپا ہوا ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ “
دوسرے مقام پر فرمایا:
أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ
(31-لقمان:20)
” کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے، اور جو کچھ زمین میں ہے، اور تم پر اپنی ظاہر اور پوشیدہ نعمتیں پوری کر دی ہیں، اور لوگوں میں بعض (ایسے ہیں ) جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر کسی علم ، بغیر کسی ہدایت اور بغیر کسی ، روشن کتاب کے ۔ “
77 : الباطن: پوشیده
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھلائی تھی:
أنت الاول ليس قبلك شيء ، وأنت الآخر فليس بعدك شيء ، وأنت الظاهر فليس فوقك شيء ، وأنت الباطن فليس دونك شيء ، اقض عنى الدين وأغنني من الفقر
صحیح مسلم، کتاب الذكر والدعاء ، رقم : 6889 – سنن أبی داؤد، کتاب الأدب، رقم : 5051.
”اے اللہ ! تو ہی اول ہے ، تجھ سے پہلے کچھ نہ تھا۔ تو ہی آخر ہے ، تیرے بعد کچھ نہیں ۔ تو ہی بلند ہے ، تجھ سے اوپر کچھ نہیں ۔ تو ہی باطن ہے ، تیرے علاوہ کچھ نہیں۔ میرا قرض چکا دے اور فقر سے غنی کر دے۔“
78 : الوالی : مالک
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ
(13-الرعد:11)
”اس کے مقرر کیے ہوئے نگران ، بندے کے آگے بھی اور اس کے پیچھے بھی لگے ہوئے ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں، بے شک اللہ نہیں بدلتا کسی قوم کی حالت یہاں تک کہ وہ آپ اپنی حالت نہ بدلیں (اس سے ) جو ان کے دلوں میں ہے، اور اللہ کسی قوم کی سزا کا جب ارادہ کرتا ہے تو اسے ہٹانے کی کوئی صورت نہیں ۔ اس کے علاوہ ان کا کوئی مددگار نہیں ہوسکتا۔“
79 – المتعالی: انتہائی بلند ، سب سے بلند و برتر
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا
(20-طه:114)
”پس اللہ تعالیٰ عالی شان والا ، سچا اور حقیقی بادشاہ ہے، اور آپ قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کریں اس سے پہلے کہ آپ کی طرف اس کی وحی پوری کی جائے ، اور کہو،اے میرے رب ! مجھے علم میں زیادہ کر۔“
نیز اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ
(6-الأنعام:100)
”اور انہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک بنادیا، حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ اور کچھ جانے بغیر وہ اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں بناتے ہیں۔ وہ پاک ہے اور اس سے بلند تر ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔“
80 : البر : نیکی کرنے والا ، بھلائی کرنے والے، احسان کرنے والا
ارشادِ باری تعالی ہے:
إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلُ نَدْعُوهُ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ
(52-الطور:28)
” ہم اس سے پہلے اس کو پکارا کرتے تھے ۔ بلاشبہ وہ بڑا احسان کرنے والا ، اور رحم کرنے والا ہے۔“
81 : التواب: توبہ قبول کرنے والا تو بہ کی توفیق دینے والا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُولَٰئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١٧﴾ وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
(4-النساء:17,18)
”اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں، پھر جلد اس سے باز آجائیں اور توبہ کریں، تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے علم والا ، حکمت والا ہے۔ ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آ جائے تو کہہ دے کہ میں نے توبہ کی ، ان کی تو بہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مرجائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھے ہیں۔ “
نیز فرمایا:
وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
(42-الشورى:25)
” اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے تو بہ قبول فرماتا ہے، اور برائیوں کو معاف کر دیتا ہے، اور جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔“
مزید ارشاد فرمایا:
وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
(9-التوبة:118)
” اور تین شخصوں کے حال پر بھی (مہربانی کی ) جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہو نے لگی ، اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے ، اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ کے سوا کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے ؟ پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی تا کہ وہ تو بہ کریں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول والا، بڑا رحم والا ہے۔ “
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ ، اللہ کے نام التواب کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے تو بہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا اور رجوع کرنے والوں کے گناہ معاف کرنے والا ہے، لہذا جو بھی اللہ کے دربار میں سچے دل سے تو بہ کرے اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، وہ بندوں پر پہلے تو اس انداز سے التفات فرماتا ہے کہ انہیں تو بہ کی توفیق دیتا اور ان کے دل اپنی طرف پھیر لیتا ہے، پھر اس انداز سے التفات فرماتا ہے کہ ان کی توبہ قبول کر کے ان کی غلطیوں سے درگزر فرماتا ہے ۔“
(تفسیر السعدی،ص : 46)
82 : المنتقم: بدلہ لینے والا ، انتقام لینے والا
ارشادِ باری تعالی ہے:
عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ
(5-المائدة:95)
”جو کچھ اس حکم سے پہلے ہو چکا اسے اللہ نے معاف کر دیا، اور جو اس کا اعادہ کرے گا اس سے بدلہ لے گا۔ اور اللہ غالب، بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔ “
83 : العفو : درگزر کرنے والا ، بہت زیادہ معاف کرنے والا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ
(22-الحج:60)
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا ، اور درگزر کرنے والا ہے۔ “
نیز فرمایا:
وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ
(42-الشورى:30)
” تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ اس کی وجہ سے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا، اور وہ تو بہت سی چیزوں سے درگز رفرماتا ہے۔ “
84 : الرءوف : شفقت کرنے والا ، مہربانی کرنے والا ، انتہائی دوست
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
(2-البقرة:207)
” اور لوگوں میں ایک وہ ہے جو اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے۔ اور اللہ بندوں پر بے حد نرمی و مہربانی کرنے والا ہے۔“
85 مالک الملک : سلطنت اور بادشاہت کا مالک
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
(3-آل عمران:26)
”آپ کہہ دیجیے ، اے اللہ ! ملک کے مالک ( بادشاہوں کے بادشاہ ) جسے تو چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے، اور تو جس کو چاہے عزت دیتا ہے، اور جسے چاہے ذلیل کرتا ہے، سب بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ، بلاشبہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ “
86 : ذو الجلال والإكرام : بزرگی والا اور سخاوت والا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ﴿٢٧﴾ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
(55-الرحمن:27,28)
” اور تیرے رب کا چہرہ باقی رہے گا، جو بڑی شان و بزرگی والا ، اور عزت والا ہے۔ پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔“
87 : المقسط: انصاف کرنے والا
اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
(5-المائدة:42)
” بہت سننے والے ہیں، جھوٹ کو بہت کھانے والے حرام کو ، اگر یہ آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کے درمیان فیصلہ کردیں، یا ان سے منہ پھیر لیں (آپ کو اختیار ہے ) اور اگر آپ ان سے منہ پھیر لیں تو ہرگز آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، اور اگر آپ فیصلہ کریں تو ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کریں، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“
نیز ارشاد فرمایا:
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ
(21-الأنبياء:47)
”اور ہم روز قیامت انصاف کا میزان رکھیں گے، لہذا کسی کی کچھ حق تلفی نہ ہو گی ۔ “
88 : الجامع : جمع کرنے والا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
(3-آل عمران:9)
”اے ہمارے رب ! بلا شبہ تو سب لوگوں کو ایک دن جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہیں ۔ بے شک اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔“
مزید فرمایا:
فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
(3-آل عمران:25)
”سو کیا ( حال ہو گا ) جب ہم انہیں اس دن جمع کریں گے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ، اور ہر شخص اپنے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔“
89 : الغنی: بے پرواہ ، بے نیاز
قرآن میں مذکور ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
(35-فاطر:15)
”اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو، اور اللہ ہی سب سے بے پروا ، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔“
قرآن میں ایک اور جگہ یوں آتا ہے:
قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ
(2-البقرة:263)
” اچھی بات کرنا اور درگزر کرنا بہتر ہے اس خیرات سے جس کے بعد ایذا دینا ہو اور اللہ بے نیاز و بردبار ہے۔ “
91 : المغنی : بے پرواہ کرنے والا، بے نیاز کر دینے والا
ارشادِ باری تعالی ہے:
وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ
(93-الضحى:8)
” اور اس نے آپ کوتنگ دست پایا تو غنی کر دیا ۔“
مزید فرمایا:
يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ
(44-الدخان:41)
” جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ بھی کام نہ آئے گا، اور نہ ان کی امداد کی جائے گی۔ “
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ المُغْنِي کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
” اللہ غنی ہے جسے ہر پہلو اور ہر اعتبار سے مکمل اور لامحدودغنا و استغنا حاصل ہے، کیونکہ وہ خود بھی کمال سے متصف ہے، اور اس کی صفات بھی اس قدر کامل ہیں کہ ان میں کسی لحاظ سے کسی نقص کا تصور نہیں کیا جا سکتا، اس کا غنا کے برعکس کیفیت میں ہونا ممکن نہیں، کیونکہ غنا اس کی ذاتی اور لازمی صفات میں سے ہے، آسمان و زمین کے خزانے بلکہ دنیا اور آخرت کے خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں، وہ اپنی تمام مخلوقات کو عمومی غنا عطا فرماتا ہے، اور اپنے خاص بندوں کے دلوں پر ربانی معارف اور ایمانی حقائق کا فیض پہنچا کرغنی کر دیتا ہے۔“
(تفسير السعدي : 51/1)
91 : المانع: روکنے والا
منع کرنا اور عطا کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرض نمازوں سے سلام پھیرنے کے بعد یہ ورد فرمایا کرتے تھے:
اللهم لا مانع لما أعطيت ، ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذالجد منك الجد
صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم : 844 – صحیح مسلم، كتاب المساجد، رقم: 1342.
”اے اللہ ! جسے تو عطا کر دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ، اور جس سے تو روک دے اسے کوئی دینے والا نہیں ، اور کسی دولت مند کو تیرے ہاں اس کی دولت نفع نہیں دے سکے گی۔“
92 : الضار : نقصان دینے والا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا
(72-الجن:21)
” کہہ دیجیے!بلاشبہ میں تمہارے لیے نہ کوئی نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں، اور نہ کسی بھلائی کا۔“
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
(6-الأنعام:17)
”اور اگر تمہیں کوئی سختی پہنچائے تو کوئی دور کرنے والا نہیں کوئی اس کے سوا اس کو، اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر شے پر قادر ہے۔“
93 : النافع : نفع دینے والا
اللہ تعالیٰ کی ذات ہی نفع پہنچانے والی ہے۔ قرآن اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے:
قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
(7-الأعراف:188)
” آپ فرمادیجیے کہ میں اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی نقصان کا مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا، اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ان لوگوں کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں جو ایمان رکھتے ہیں۔ “
نیز قرآن میں مذکور ہے:
وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
(6-الأنعام:17)
”کہہ دیجیے ! کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو ہمیں نہ فائدہ دے سکتے ہیں اور نہ نقصان“
سورۃ یونس میں فرمایا:
قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
(10-يونس:49)
”کہہ دو میں اپنی ذات کے لیے نہ کسی نقصان کا مالک ہوں اور نہ کسی نفع کا مگر جو اللہ چاہے، ہر امت کے لیے ایک مدت ( مہلت ) مقرر ہے۔ جب ان کا وقت آجاتا ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے رہتے ہیں، اور نہ آگے بڑھتے ہیں۔ “
94 : النور: روشن، روشنی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(24-النور:35)
”اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق ہو جس میں چراغ ہو ، یہ چراغ فانوس میں ہو، وہ فانوس ایسا شفاف ہو جیسے چمکتا ہوا ستارہ، اور وہ چراغ زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ مشرق میں ہوتا ہے اور نہ مغرب میں ، اس کے تیل کو اگر آگ نہ بھی چھوئے تو بھی وہ بھڑکنے کے قریب ہوتا ہے، روشنی پر روشنی ہے ، اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے. “
95 : الھادی : ہدایت دینے والا ، رہنمائی دینے والا
اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دینے والا ہے، اس کے علاوہ کوئی اور ہدایت نہیں دے سکتا، چند آیات مبارکہ ملاحظہ ہوں:
وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا
(25-الفرقان:31)
”اور تیرا پروردگار رہنمائی کرنے والا ، اور مددگار کافی ہے۔ “
دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(64-التغابن:11)
”کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر اللہ کے اذن سے، اور جو شخص اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کو خوب جانے والا ہے۔ “
مزید فرمایا:
وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ
(47-محمد:17)
”اور جن لوگوں نے ہدایت قبول کی اس نے انھیں ہدایت میں بڑھا دیا، اور انھیں ان کا تقوی عطا کر دیا۔ “
اور سورۃ بقرہ میں فرمایا:
لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
(2-البقرة:272)
” ان کی ہدایت آپ کا ذمہ نہیں لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اور تم جو مال خرچ کرو گے تو اپنے (ہی) واسطے، اور خرچ نہ کرو مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے، اور تم جو مال خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا بدلہ ملےگا، اور تم پر زیادتی نہ کی جائے گی۔ “
96 : البدیع : بے مثال ، نئی طرح پیدا کرنے والا ، ایجاد کرنے والا
ارشاد باری تعالی ہے:
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ
(2-البقرة:117)
”وہ نئی طرح پیدا کرنے والا ہے آسمانوں کا اور زمین کا، اور جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے بس یہی کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔“
ایک اور جگہ اپنی اس صفت کے متعلق یوں بیان کرتا ہے:
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ ۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(6-الأنعام:101)
” وہ زمین اور آسمانوں کو ایجاد کرنے والا ہے، اس کی اولاد کیسے ہو سکتی ہے؟ جب کہ اس کی بیوی ہی نہیں، اسی نے تو ہر چیز بنائی ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔“
97 : الباقی : ہمیشہ باقی رہنے والا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
(55-الرحمن:27)
”فقط آپ کے رب کی ذات ہی باقی رہ جائے گی جو عزت اور بزرگی والا ہے۔ “
مزید فرمایا:
مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ ۖ وَمَا عِندَ اللَّهِ بَاقٍ ۗ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
(16-النحل:96)
” جو کچھ تمہارے پاس ہے، ختم ہو جائے گا، اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے ۔ اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم ضرور انھیں ان کا اجر بدلے میں دیں گے ان کے بہترین عمل کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔ “
98 : الوارث : حقیقی وارث
ارشاد ربانی ہے:
وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ
(21-الأنبياء:89)
”اور (یاد کرو) زکریا کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑنا ، اور آپ تو سب وارثوں سے بہتر ذات ہیں۔“
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا ۖ إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
(7-الأعراف:128)
” موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ سے مدد مانگو، اور صبر کرو بیشک زمین اللہ ہی کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنادیتا ہے، اور آخرت کی کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں ۔“
نیز فرمایا:
وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ
(15-الحجر:23)
”بلا شبہ ہم زندہ کرتے اور مارتے ہیں، اور ہم ہی وارث ہیں۔ “
99 : الرشید: سیدھی راہ والا ، سیدھی راہ دکھانے والا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ
(21-الأنبياء:51)
”اور یقیناً دی تھی ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام ) کو ہدایت ودانائی اس سے بھی پہلے، اور تھے ہم اس کو خوب جاننے والے ۔ “
100 : الصبور : صبر کرنے والا
اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے الصبور بھی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیث میں اللہ کا یہ نام وارد ہے ۔
سنن ترمذی ، کتاب الدعوات، رقم : 3507 .