اسلام کے پانچ بنیادی اراکین سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

إن الحمد لله نحمده ونستعيته من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

● پہلا رکن : گواہی دینا

شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله

گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں

قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ﴾

﴿الزخرف : 45﴾

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور ان سے پوچھیں جنھیں ہم نے آپ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا، کیا ہم نے رحمان کے سوا کوئی معبود بنائے ہیں، جن کی عبادت کی جائے؟‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾

﴿الانبياء : 25﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری عبادت کرو۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ﴾

﴿الاعراف : 59﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’بلاشبہ یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، تو اس نے کہا، اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، بے شک میں تم پر ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔‘‘

◈ حدیث 1:

﴿عن أبى هريرة قال: قال رسول الله : أشهد أن لا إله إلا الله وأنى رسول الله لا يلقى الله بهما عبد غير شاك فيهما إلا دخل الجنة .﴾
صحیح مسلم، کتاب الایمان ، رقم : 138 .

’’حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

(جس شخص نے یہ گواہی دی کہ :) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں، اور میں (محمد) اللہ کا رسول ہوں، اور پھر جس نے ان دونوں گواہیوں میں شک نہیں کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘

◈ حدیث 2:

﴿وعن معاذؓ قال: قال رسول الله ﷺ: ما من نفس : تموت وهى تشهد أن لا إله إلا الله، وأنى رسول الله، يرجع إلا ذلك إلى قلب موقن إلا غفر الله لها .﴾
مسند احمد: 229/5، سلسله احادیث الصحيحه، رقم : 2278 .

اور حضرت معاذؓ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص اس حالت میں مرا کہ وہ یقین کے ساتھ گواہی دیتا تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی . برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا۔‘‘

◈ حدیث 3:

﴿وعنه قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول: من شهد أن لا إله إلا الله مخلصا من قلبه دخل الجنة .﴾
سلسله احادیث صحیحه، رقم الحديث: 2355.

’’اور حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ یقیناً رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :

جس شخص نے اخلاص قلب کے ساتھ گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘

◈ حدیث 4:

﴿وعنهؓ قال: قال رسول الله : ما من أحد يشهد أن لا اله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله صدقا من قلبه إلا حرمه الله على النار .﴾
صحیح بخاری کتاب العلم ، رقم : 128 .

’’اور حضرت معاذؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، اور بے شک محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالی اس پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے گا۔

◈ حدیث 5:

﴿وعن أبى بكر ، قال: قلت: يارسول الله ﷺ ، ما نجاة هذا الأمر؟ فقال رسول الله : من قبل مني الكلمة التى عرضتها على عمي، فردها على ، فهي له نجاة .﴾
مسند احمد: 6/1، تاریخ بغداد: 272/1۔ شیخ شعیب نے اسے شواہد کی بنا پر ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

’’اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا؟ اے اللہ کے رسول ! نجات کس چیز میں ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے مجھ سے وہ کلمہ قبول کر لیا جو میں نے اپنے چچا پر پیش کیا، اور اس نے انکار کر دیا ، تو وہ اس کی نجات کا باعث ہوگا۔‘‘

◈ حدیث 6:

﴿وعن البراء بن عازبؓ عن النبى ﷺ قال: إذا أقعد المؤمن فى قبره أتى ثم شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله فذلك قوله يثيت الله الذين آمنوا بالقول الثابت .﴾
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : 1369 .

اور حضرت براء بن عازبؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یوں بیان فرمایا ہے:

﴿یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾

’’اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو قولِ ثابت کے ساتھ ثابت قدم رکھتا ہے۔‘‘

◈ حدیث 7:

﴿وعن عبادة بن الصامت قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول: من شهد أن لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله حرم الله عليه النار .﴾
صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم : 142 .

اور حضرت عبادہ بن الصامتؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

کہ جس نے ’’لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ‘‘ کی گواہی دی تو اللہ نے اس پر جہنم کی آگ حرام قرار دی ہے۔

◈ حدیث 8:

﴿وعن عثمان بن عفان قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول: انى لاعلم كلمة لا يقولها عبد حقا من قلبه فيموت على ذلك إلا حرمه الله على النار ، شهادة أن لا إله إلا الله .﴾
مسند احمد بن حنبل 63/1 ، مستدرك حاكم : 72/1 ، صحیح ابن حبان: 696/2- حاکم اور ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

اور حضرت عثمان بن عفانؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

میں وہ کلمہ جانتا ہوں جو بندہ یقین قلب کے ساتھ پڑھتا ہے، اور اس پر اسے موت آجاتی ہے تو اس پر اللہ جہنم کی آگ کو حرام کر دیتا ہے، اور کلمہ ’’لا اِلهَ إِلَّا اللهُ‘‘ کی شہادت ہے۔

● دوسرا رکن : نماز قائم کرنا

﴿وإقام الصلوٰة﴾

﴿قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿الم ‎﴿١﴾‏ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ‎﴿٢﴾‏ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ‎﴿٣﴾﴾

﴿البقرة : 1 تا 3﴾

للہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’الم ۔ یہ کتاب، اس میں کوئی شک نہیں، بیچنے والوں کے لیے سراسر ہدایت ہے۔ وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے اور اس میں سے، جو ہم نے انھیں دیا ہے، خرچ کرتے ہیں۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَاتَّقُوهُ﴾

﴿الانعام : 72﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

’’اور یہ کہ نماز قائم کرو اور اس سے ڈرو۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى:﴿أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ‎﴿٥٨﴾‏ فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ‎﴿٥٩﴾﴾

﴿مريم 59-58﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا نبیوں میں سے، آدم کی اولاد سے اور ان لوگوں میں سے جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد سے اور ان لوگوں سے جنھیں ہم نے ہدایت دی اور ہم نے چن لیا۔ جب ان پر رحمان کی آیات پڑھی جاتی تھیں وہ سجدہ کرتے اور روتے ہوئے گر جاتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ان کی جگہ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے تو وہ عنقریب گمراہی کو ملیں گے۔‘‘

﴿وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾

﴿الروم : 31﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور شرک کرنے والوں سے نہ ہو جاؤ۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾

﴿البقرة : 45﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو اور بلاشبہ وہ یقیناً بہت بڑی ہے مگر ان عاجزی کرنے والوں پر ۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾

﴿التوبة : 71﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ، ان کے بعض بعض کے دوست ہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا ، بے شک اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘

◈ حدیث 9:

﴿وعن معاذ بن جبل قال: كنت مع النبى صلى الله عليه وسلم فى سفر فقال: ألا أخبرك برأس الأمر ، وعموده، وذروة سنامه؟ قال: قلت: بلى يا رسول الله ، قال: رأس الأمر الإسلام ، وعموده الصلاة، وذروة سنامه الجهاد .﴾
سنن ترمذى كتاب الإيمان رقم 2616 ، مسند أحمد: 231/5، رقم: 22016 مصنف عبدالرزاق، رقم: 20303۔ امام ترمذی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ اور علامہ البانیؒ نے اس کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اور حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا :

کیا میں تجھے اسلام کا سر، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتلاؤں؟ میں نے عرض کیا:

اے اللہ کے رسول ! ضرور بتا ئیں ۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

دین اسلام کا سرخود کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سپرد کرنا ہے، اس کا ستون نماز اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔‘‘

◈ حدیث 10:

﴿وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله ﷺ: أقرب ما يكون العبد من ربه وهو ساجد ، فأكثروا الدعاء .﴾
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: 1083 .

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بندہ حالت سجدہ میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعا کیا کرو۔

◈ حدیث 11:

﴿وعنه أنه سمع رسول الله ﷺ يقول: أرأيتم لو أن نهرا بباب أحدكم يغتسل فيه كل يوم خمسا ما تقول ذلك يبغي من . دريه؟ قالوا: لا يبقي من دريه شيئا، قال: فذلك مثل الصلوات الخمس يمحوا الله به الخطايا .﴾
صحیح بخاری کتاب مواقيت الصلوت ،رقم 528، صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم : 1522۔

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو، اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا:

نہیں ، ہرگز نہیں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا :

یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹادیتا ہے۔

◈ حدیث 12:

﴿وعن أبى الدرداء قال أوصاني خليلي صلى الله عليهوسلم: لا تشرك بالله شيئا وإن قطعت وحرقت ، ولا تترك صلاة مكتوبة متعمدا ، فمن تركها متعمدا فقد برئت منه الدمة ، ولا تشرب الخمر فإنها مفتاح كل شر .﴾
سنن ابن ماجة، كتاب الدعاء رقم : 4034 ، إرواء الغليل، رقم: 2086، التعليق الرغيب: 195/1، مشكوة المصابيح ، رقم: 580 – علامہ البانیؒ نے اسے حسن کہا ہے۔

اور حضرت ابو الدرداءؓ سے مروی ہے کہ مجھے میرے انتہائی مخلص دوست رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی:

تم اللہ کے ساتھ کسی غیر کو شریک نہ ٹھہرانا، چاہے تجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا تجھے جلادیا جائے۔ اور فرض نماز کو بھی قصداً نہ چھوڑنا کیونکہ جس نے فرض نماز کو جان بوجھ کر چھوڑا اس سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت اٹھ گئی۔ اور شراب مت پینا کیونکہ وہ ہر برائی کا دروازہ کھولنے والی چیز ہے۔

◈ حدیث 13:

﴿وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله ﷺ: إن أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة من عمله صلاته، فإن صلحت فقد أفلح وأنجح ، وإن فسدت فقد خاب وخسر ، فإن انتقص من فريضته شيء، قال الرب تبارك وتعالى: أنظروا هل لعبدي من تطوع؟ فيكمل بها ما انتقص من الفريضة ، ثم يكون سائر عمله على ذلك .﴾
سنن ترمذی، ابواب الصلاة، رقم: 413- محدث البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

روز قیامت ہر بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب و کامران ہوگا، اور اگر نماز خراب ہوئی تو ناکام و نامراد ہوگا، اگر بندہ کے فرائض میں کچھ کمی ہوئی تو رب تعالیٰ فرمائے گا میرے بندے کے نامہ اعمال میں دیکھو کوئی نفلی عبادت ہے؟ اگر ہوئی تو نفل کے ساتھ فرائض کی کمی پوری کی جائے گی ، پھر اس کے تمام اعمال کا حساب اسی طرح ہوگا۔

◈ حدیث 14:

﴿وعن المغيرة يقول: قام النبى حتى تورمت قدماه ،فقيل له: غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر ، قال: أفلا اكون عبدا شكورا؟﴾
صحيح بخاری، کتاب التفسير، رقم : 4836 .

’’اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رات کو اتنا لمبا قیام فرماتے کہ آپ کے دونوں پاؤں مبارک کو ورم پڑ جاتا۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کر دی ہیں، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘

◈ حدیث 15:

﴿وعن عمرو ابن شعيب عن أبيه عن جده قال: قال رسول الله ﷺ: مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر، وفرقوا بينهم فى المضاجع .﴾
سنن أبو داؤد، كتاب الصلاة، باب متى يؤمر الغلام بالصلاة ، رقم: 495، صحيح أبو داؤد ، للألباني: 144/1-145.

اور حضرت عمرو بن العاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تم اپنی اولاد کو سات برس کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم کرو، جب دس برس کے ہو جائیں تو انہیں نماز نہ پڑھنے پر سزا دو، اور ان کے بستر بھی الگ کر دو۔

◈ حدیث 16:

﴿وعن ابن عمر أن رسول الله ﷺ قال: أمرت أن أقاتل الناس يشهدوا ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله ،ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة﴾
صحیح بخاری ، کتاب الایمان رقم 25 صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم 22۔

اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں حتیٰ کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں۔

● تیسرا رکن: زکوة ادا کرنا

﴿وإيتاء الزكوة﴾

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ‎﴿٣٤﴾‏ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ‎﴿٣٥﴾﴾

﴿التوبة : 34 ، 35﴾

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، تو آپ انھیں درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کے ماتھوں، ان کے پہلوؤں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا :) یہ وہ (مال) ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کر کے رکھا تھا، لہٰذا اب اس کا مزہ چکھو جو تم جمع کرتے رہے تھے۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ‎﴿٣٠﴾‏ وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ‎﴿٣١﴾‏﴾

﴿مریم : 30 – 31﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اس نے کہا بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔ اور مجھے بہت برکت والا بنایا جہاں بھی میں ہوں اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کی خاص تاکید کی ، جب تک میں زندہ رہوں۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ‎﴿٥٤﴾‏ وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا ‎﴿٥٥﴾‏﴾

﴿مريم : 54- 55﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور کتاب میں اسماعیل کا ذکر کرو، یقیناً وہ وعدے کے بچے تھے اور ایسا رسول جو نبی تھے۔ اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے ہاں پسندیدہ تھے۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءَ الزَّكٰوةِۚ-وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ﴾

﴿الانبياء : 73﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے ساتھ رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف نیکیاں کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کی وحی بھیجی اور وہ صرف ہماری عبادت کرنے والے تھے۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَٰى: ﴿فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ﴾

﴿الحج : 78﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’پس نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور اللہ کو مضبوطی سے تھام لو، وہی تمھارا مالک ہے، سو اچھا مالک ہے اور اچھا مددگار ہے۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾

﴿النور : 56﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کا حکم مانو ، تا کہ تم رحم کیے جاؤ ۔‘‘

◈ حدیث 17:

﴿وعن أبى هريرة رضى الله عنه ، قال: قال رسول الله ﷺ: من تصدق بعدل تمرة من كسب طيب، ولا يقبل الله إلا الطيب، وإن الله يتقبلها بيمينه ثم يربيها لصاحبه كما يربي أحدكم فلوه، حتى تكون مثل الجبل﴾
صحیح بخاری کتاب الزكاة، رقم : 1410۔

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

کوئی شخص جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس مال میں سے ایک کھجور کے برابر بھی خرچ کرتا ہے، جو مال اس نے حلال طریقے سے کمایا ہوا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ بھی صرف اسی مال سے ہی دی ہوئی زکوۃ اور صدقات کو قبول کرتا ہے جو حلال طریقہ سے کمایا گیا ہو تو اللہ تعالیٰ زکوۃ وصدقات میں دیے ہوئے اس مال حلال کو دائیں ہاتھ سے قبول فرماتے ہوئے اسے اس طرح پالتے پوستے اور بڑھاتے ہیں جس طرح تم گھوڑی گائے بکری وغیرہ جانوروں کے نومولود بچوں سے پیار کرتے ہوئے انھیں پال پوس کر بڑا کرنے کی کوشش کرتے ہو حتی کہ کھجور کے برابر اللہ کی راہ میں خرچ کیسے ہوئے اس مال کو اللہ تعالیٰ بڑھا بڑھا کر پہاڑ کے برابر بنا دیتے ہیں۔‘‘

◈ حدیث 18:

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: ﴿أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله، وأن محمدا رسول الله ، ويقيموا الصلاة ، ويؤتوا الزكاة ، فإذا فعلوا ذلك عصموا منى دمانهم ، وأموالهم إلا بحق الإسلام ، وحسابهم على الله .﴾
صحیح بخاری، کتاب الإيمان، رقم : 25.

اور حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مجھے میرے اللہ نے یہ حکم دے کر بھیجا ہے کہ میں اس وقت تک جہاد جاری رکھوں، جب تک لوگ یہ تسلیم نہیں کر لیتے کہ ہمارے لیے عبادت کے لائق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس ہی ہے اور حضرت محمد ﷺ یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے رسول ہیں، اور پھر وہ نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں، اور ان کی حلال کمائی میں سے جتنی مقدار میں اللہ تعالیٰ نے بطور زکوۃ ادا ئیگی ان پر فرض کر دی ہے وہ اسے بھی خوشی خوشی ادا کرنا شروع کر دیں اور جب وہ یہ سب کچھ تہہ دل سے تسلیم کرتے ہوئے اس پہ خلوص نیت کے ساتھ عمل پیرا ہو جائیں گے تو وہ سمجھ لیں کہ ان کی جان بھی اور مال بھی سب کچھ محفوظ ہے، الا یہ کہ وہ اسلام لانے کے بعد بھی کوئی ایسا جرم کر بیٹھیں کہ جس کی سزا کے طور پر انھیں مال یا جان سے ہاتھ دھونا پڑے، اور پھر اس کے بعد ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔

◈ حدیث 19:

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِؓ ، قَالَ: ﴿قال رسول الله ﷺ لمعاذ بن جبل حين بعثه إلى اليمن، إنك ستأتي قوما أهل كتاب فإذا جئتهم فادعهم إلى أن يشهدوا أن لا إله إلا الله، وأن محمدا رسول الله، فإن هم أطاعوا لك بذلك، فأخبرهم أن الله قد فرض عليهم خمس صلوات فى كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوا لك بذلك ، فأخبرهم أن الله قد فرض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فترد على فقرائهم ، فإن هم أطاعوا لك بذلك فإياك وكرائم أموالهم واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينه وبين الله حجاب .﴾
صحیح بخاری، کتاب الزكاة، رقم : 1395 .

اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اے معاذ! آپ جن لوگوں کی طرف جارہے ہیں وہ اہل کتاب ہیں۔ سب سے پہلے انہیں اس بات کی دعوت دیں کہ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی سمجھیں، اور اس کے بعد مجھے اللہ تعالیٰ کا سچا رسول سمجھتے ہوئے میری نبوت و رسالت پہ پختہ ایمان ویقین کا اعلان کریں، اگر وہ تمہاری اس دعوت کو قبول کر لیں تو پھر انہیں کہیں کہ وہ مندرجہ ذیل احکامات کی سختی سے پابندی کریں جن میں پہلا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پہ ایک دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ نماز کے اس حکم کی پابندی کا پختہ عہد کریں پھر انہیں نماز کے بعد اسلام کے اگلے بڑے حکم پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیں جو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال میں زکوۃ کو فرض کیا ہے جو ان میں سے امیر لوگوں سے وصول کی جائے گی اور غریب اور نادار لوگوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ اس دعوت کو قبول کر لیں تو پھر زکوۃ کی وصولی کے معاملہ میں آپ کو بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا ، ایک تو زکوۃ کی مد میں جتنا حق بنتا ہے اتنا ہی لینا ہے زیادہ نہیں اور دوسرا یہ کہ زکوۃ مد میں اچھا اچھا مال چن کے لینے کی کوشش نہیں کرنا، اگر ایسا کرو گے تو یہ ظلم ہوگا اور مظلوم کی بددعا سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرو کہ مظلوم کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے اور اس کی قبولیت میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔

◈ حدیث 20:

﴿وعن أبى هريرةؓ أن رسول الله ﷺ قال: قال الله: أنفق يا ابن آدم أنفق عليك .﴾
صحیح بخاری، کتاب النفقات، رقم : 5352.

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

اے ابن آدم تو میرے لیے میری راہ میں خوب خرچ کر میں تجھے جی بھر کے دوں گا۔

◈ حدیث 21:

﴿وعنه عن رسول الله ﷺ قال: ما نقصت صدقة من مال، وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا، وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله .﴾
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : 6592.

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ کی راہ میں صدقہ و زکوۃ کی شکل میں دیا ہوا مال اصل مال میں بالکل نقصان کا باعث نہیں ہوتا اور آدمی جتنا زیادہ دوسروں کے ساتھ درگزر اور معافی سے کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اس کی عزت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے سامنے جتنا زیادہ تواضع اور عاجزی اختیار کرتا چلا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اس کی عزت و وقار میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔

◈ حدیث 22:

﴿وعنه رضى الله عنه أن النبى ﷺ قال: ما من يوم يصبح العباد فيه إلا ملكان ينزلان فيقول أحدهما: اللهم أعط منفقا خلفا، ويقول الآخر: اللهم أعط ممسكا تلفا .﴾
صحیح بخاری کتاب الزكاة، رقم : 1442.

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

انسانی زندگی میں طلوع ہونے والی ہر صبح دوفرشتے زمین پر اتارے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ دعا کرتا رہتا ہے اے اللہ ! تو اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو بہترین نعم البدل عطا فرما۔ اور دوسرا یہ دعا کرتا ہے اے اللہ ! جو بندہ تیرے دیے ہوئے مال میں سے زکوۃ وصدقات کی شکل میں تیرا حق ادا نہیں کرتا تو اس کا مال ضائع کر دے۔

◈ حدیث 23:

﴿وعنهؓ عنه قال قال رسول الله ﷺ: من آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أفرع له زبيبتان، يطوقه يوم القيامة، ثم يأخذ بلهزمتيه، يعني بشدقيه ، ثم يقول: أنا مالك ، أنا كنزك .﴾
صحیح بخاری، کتاب الزكاة، رقم : 1403.

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اتنا مال عطا کر دیا کہ جس میں زکوٰۃ فرض تھی لیکن اس نے مال کی زکوۃ ادا نہیں کی تو اس بے زکاتے مال کو قیامت کے دن انتہائی زہریلا سانپ بنا کر اس شخص کے گلے میں ڈال دیا جائے گا اور وہ اس کے منہ کو کاٹ کاٹ کر کھائے گا، اور کہے گا میں تیرا وہ مال ہوں، میں تیرا وہ خزانہ ہوں (جسے تو سنبھال سنبھال کر رکھتا تھا)۔

◈ حدیث 24:

﴿وعن جرير بن عبد الله قال: بايعت النبى ﷺ على إقام الصلاة وإيتاء الزكاة والنصح لكل مسلم.﴾
صحیح بخاری ، کتاب الزكوة، رقم : 1401۔

’’اور حضرت جریر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی نماز قائم کرنے ، زکوۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کو نصیحت کرنے پر بیعت کی۔‘‘

● چوتھا رکن: رمضان کے روزے رکھنا

وَصَوْمِ رَمَضَانَ

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾

﴿البقرة : 183﴾

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے، جیسے ان لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ‎﴾

﴿البقرة : 187﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور کھاؤ اور پیو، حتی کہ تمھارے لیے صبح کی سفید دھاری کالی دھاری سے واضح (روشن) ہو جائے، پھر تم روزے کو رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھو تو اپنی عورتوں سے ہم بستری نہ کرو یہ اللہ کی حدیں ہیں، لہذا تم ان کے قریب مت جاؤ، اللہ لوگوں کے لیے اپنی آیتیں اسی طرح بیان فرماتا ہے تاکہ وہ متقی بنیں۔

◈ حدیث 25:

﴿وعن أبى هريرةؓ ، عن النبى ﷺ قال: من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه .﴾
صحیح بخاری، کتاب الصوم، رقم : 1901 .

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس ایمان و یقین کے ساتھ کہ رمضان کے روزے میرے اللہ نے فرض کیے ہیں اور رحمتیں برکتیں اور بخششیں میراحسین مقدر بن جانی چاہئیں، تو پھر واقعی اللہ بھی اس بندے کے سابقہ تمام گناہوں کی معافی اور بخشش بھی عطا فرما دیتے ہیں۔

◈ حدیث 26:

﴿وعنه و أن رسول الله ﷺ قال: إذا جاء رمضان فتحت أبواب الجنة، وغلقت أبواب النار، وصفدت الشياطين﴾
صحيح مسلم، کتاب الصيام، رقم : 2495.

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو جاتا ہے تو جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے سب دروازے اچھی طرح بند کر دیے جاتے ہیں، اور تمام شیطانوں کو قید و بند میں ڈال دیا جاتا ہے۔

◈ حدیث 27:

﴿وعن جابر قال: قال رسول الله ﷺ: إن لله – عزوجل – عند كل فطر عتقاء، وذلك فى كل ليلة .﴾
سنن ابن ماجه ، کتاب الصيام، رقم :1643 – محدث البانی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے

اور حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بے شک اللہ تعالیٰ کے روزے دار بندوں میں سے بہت سے ایسے خوش نصیب بندے بھی ہیں جنہیں روزانہ افطار کے وقت جہنم سے آزادی کے پروانے عطا کر دیے جاتے ہیں، اور یہ عتق من النار کی محفل رمضان المبارک کی ہر رات کو سجائی جاتی ہے۔‘‘

◈ حدیث 28:

﴿وعن أبى هريرة ، عن النبى ﷺ: والذى نفس محمد بيده الخلوف قم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك .﴾
صحیح بخاری، کتاب الصوم، رقم : 1904 .

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مجھے اس اللہ کی قسم جو میری جان کا مالک ہے، روزے دار کے منہ سے اٹھنے والی بو کی قدر و قیمت اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری ایسی خوشبوؤں سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔

◈ حدیث 29:

﴿وَعَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: الصَّوْمُ لِي ، وَأَنا أَجْزِى بِهِ ، يَدَعُ شَهَوَتَهُ، وَأَكْلَهُ وَشُرْبَهُ مِنْ أَجْلِى﴾
صحیح بخاری، کتاب التوحيد رقم : 7492 .

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

روزہ اور روزہ دار کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ روزہ دار کا روزہ صرف میرے ہی لیے ہے، اور اس کے اجر وثواب کا تعین بھی میں خود ہی کروں گا یہ دیکھتے ہوئے کہ اس نے دن بھر اپنی تمام خواہشات کو بھی چھوڑے رکھا اور کھانے لینے کے سارے وسائل میسر ہونے کے باوجود بھوک اور پیاس کی تلخیاں بھی سہتا رہا،صرف میرے ہی لیے۔

◈ حدیث 30:

﴿وعنه عن النبى ﷺ، للصائم فرحتان يفرحهما إذا أفطر فرح ، وإذا لقي ربه فرح بصومه .﴾
صحیح بخاری، کتاب الصوم، رقم : 1904 .

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

روزہ دار کے لیے دو خوشی کے موقع ہیں، وہ ان دونوں پر خوش ہوتا ہے:

جب وہ (روزہ) افطار کرتا ہے تو اپنے افطار سے خوش ہوتا ہے، اور جب اپنے رب کو ملے گا تو اپنے روزے (کی وجہ) سے خوش ہوگا۔

◈ حدیث 31:

﴿وعنه رضى الله عنه ، أن رسول الله ﷺ قال: الصيام جنة ، فلا يرفت ، ولا يجهل، وإن امرؤ قاتله أو شاتمه فليقل إني صائم .﴾
صحیح بخاری، کتاب الصوم، رقم : 1894.

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

روزہ جہنم سے بچنے کے لئے ایک ڈھال ہے، اس لئے (روزہ دار) پر پخش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں۔

◈ حدیث 32:

﴿وعن عبد الله بن عمرو ، أن رسول الله ﷺ قال: الصيام والقرآن يشفعان للعبد يوم القيامة ، يقول الصيام: أى رب، منعته الطعام والشهوات بالنهار ، فشفعني فيه ، ويقول القرآن: منعته النوم بالليل ، فشفعني فيه ، قال: فيشفعان .﴾
مسند احمد : 174/2، رقم : 6626 ، صحيح الترغيب والترهيب، رقم : 1429.

اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

روزہ اور قرآن مجید دونوں ہی قیامت کے دن روزہ دار اور قرآن پڑھنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بخشش کی سفارش و شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا اے اللہ ! میں نے اسے دن بھر کھانے پینے اور دیگر خواہشات سے رو کے رکھا اور یہ میری وجہ سے رکا رہا آج میری شفاعت قبول کرتے ہوئے اس کے گناہ معاف فرما کے اسے جنت میں جگہ عطا فرما دے۔ قرآن کہے گا اے اللہ ! میں نے اسے رات بھر سونے سے روکے رکھا اور یہ رکا رہا اور میری تلاوت میں اپنی راتیں گزارتا رہا آج میری شفاعت قبول کرتے ہوئے اسے جہنم کے عذاب سے آزاد فرما دے، تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ روزہ اور قرآن دونوں کی شفاعت قبول فرمائیں گے۔

● پانچواں رکن: بیت اللہ کا حج کرنا

وَحجَ الْبَيْتِ

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى﴾

﴿البقرة : 125﴾

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لیے لوٹ کر آنے کی جگہ اور سراسر امن بنایا، اور تم ابراہیم کی جائے قیام کو نماز کی جگہ بناؤ۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ﴾

﴿آل عمران : 97﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ نے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض کیا ہے جو اس کی طرف سفر کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ ساری دنیا سے بے پروا ہے۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ﴾

﴿الحج : 27﴾

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وہ تیرے پاس پیدل (چل کر) اور ہر لاغر سواری پر (سوار ہو کر) آئیں گے جو ہر دور دراز رستے سے آئیں گی۔‘‘

◈ حدیث 33:

﴿وعن أبى هريرة ، أن رسول الله سئل: أى العمل أفضل؟ فقال: إيمان بالله ورسوله ، قيل: ثم ماذا؟ قال: الجهاد فى سبيل الله ، قيل: ثم ماذا؟ قال: حج مبرور .﴾
صحیح بخاری کتاب الإيمان، رقم : 26.

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون ساعمل افضل ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا پھر کون سا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پوچھا گیا پھر کون سا ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

حج مبرور

◈ حدیث 34:

﴿وعنه رضى الله عنه قال: سمعت النبى ﷺ يقول: من حج لله فلم يرفث ، ولم يفسق ، رجع كيوم ولدته أمه .﴾
صحیح بخاری کتاب الحج ، رقم : 1520.

’’اور حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا جس نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس نے کوئی فحش اور بے ہودہ بات کی نہ اللہ کی نافرمانی کی تو وہ اس طرح (پاک ہو کر) لوٹتا ہے جیسے آج ہی ماں اس کی ماں نے اسے جنا ہے۔‘‘

◈ حدیث 35:

﴿وعن ابن عباس، قال: قال رسول الله ﷺ: تابعوا بين الحج والعمرة، فإنهما ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد .﴾
سنن النسائی، کتاب مناسك الحج، رقم : 2530۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

پے در پے حج و عمرہ (کیا) کرو، کیونکہ وہ دونوں فقر ( غربت) اور گناہوں کو ایسے دور کر دیتے ہیں، جیسے بھٹی لوہے کی میل کچیل دور کر دیتی ہے۔

◈ حدیث 36:

﴿وعن عبد الله قال: قال رسول الله ﷺ: تابعوا بين الحج والعمرة ، فإنهما ينفيان الفقر والذنوب كما ينفى الكير خبث الحديد، والذهب، والفضة، وليس للحج المبرور ثواب دون الجنة .﴾
سنن النسائی، كتاب مناسك الحج ، رقم : 2631 – محدث البانی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔

اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

پے در پے حج و عمرو کرو کیونکہ وہ دونوں (آدمی کو) فقر و گنا ہوں سے ایسے صاف کر دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کی میل کچیل کو دھو دیتی ہے اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔

◈ حدیث 37:

﴿وعن أبى هريرة يقول: قال رسول الله ﷺ: وفد الله ثلاثة: الغازي، والحاج ، والمعتمر .﴾
سنن النسائی، کتاب مناسك الحج ، رقم : 2625۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ کے مہمان تین ہیں۔ جہاد کرنے والا ، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا ۔

◈ حديث 38:

﴿وعنه أن رسول الله ﷺ قال: العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما ، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة .﴾
صحیح مسلم، کتاب الحج ، رقم : 3289۔

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

عمرہ دوسرے عمرہ تک کی (درمیانی مدت) کے تمام گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔

◈ حدیث 39:

﴿وعن ابن عباس لا قال لما رجع النبى من قال: لأم سنان الأنصارية: ما منعك من الحج؟ قالت: أبو فلان – تعني زوجها كان له ناضحان حج على أحدهما والآخر يسقي أرضا لنا، قال: فإن عمرة فى رمضان تقضي حجة أو حجة معى .﴾
صحيح بخارى كتاب جزاء الصيد رقم : 1863.

’’اور حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں جب نبی کریم ﷺ حج سے واپس تشریف لائے تو آپ نے ام سنان انصاریہؓ سے فرمایا تجھے حج سے کس چیز نے روکا ہے؟ تو اس نے جواب دیا میرے خاوند کے پاس پانی بھرنے کے لیے دو ہی اونٹ تھے ، ایک پر وہ حج کرنے چلے گئے اور دوسرا ہماری کھیتی کو سیراب کرتا تھا، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔

◈ حدیث 40:

﴿وعنهؓ قال: بينما رجل واقف بعرفة ، إذ وقع عن راحلته فوقصته ، أو قال فأوقصته ، قال النبى ﷺ: اغسلوه بماء وسدر، وكفنوه فى ثوبين، ولا تحفطوه، ولا تخمروا رأسه ، فإنه يبعث يوم القيامة ملبيا .﴾

’’اور حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک حاجی وقوف عرفہ کے دوران اپنی سواری سے گر پڑا، جس سے اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اس کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو، اور دو کپڑوں (احرام کی دو چادریں) میں کفن دو، اور اس کو خوشبو لگا ؤ، نہ اس کا سر ڈھانچو کیونکہ وہ قیامت کو تلبیہ پکارتے ہوئے اٹھے گا۔

وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے