اسلام کے نواقض، ان کے احکام اور مرتد کی شرعی سزا
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام – مکمل کتاب کا لنک

اسلام کے مزید چند نواقض (اسلام کو توڑنے والے اعمال)

اسلام میں نواقض اسلام کا مفہوم وہ اقوال، افعال یا اعتقادات ہیں جو کسی شخص کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں۔ ان کے بارے میں علمائے کرام کی رائے واضح اور دو ٹوک ہے کہ ان کے ارتکاب سے انسان مرتد ہو جاتا ہے، خواہ وہ یہ عمل مذاقاً کرے یا سنجیدگی سے، سوائے اس کے جو مجبور ہو۔

ان نواقض میں شامل چند اہم امور درج ذیل ہیں:

1. اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں یا فرشتوں کی توہین

– جو شخص اللہ تعالیٰ کو، اس کے کسی رسول کو یا کسی فرشتے کو گالی دیتا ہے وہ کافر ہے۔

2. انبیاء میں سے کسی کا انکار یا ختم نبوت کا انکار

– جو کسی نبی یا رسول کا انکار کرتا ہے، وہ کافر ہے۔
– جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کا قائل ہو، وہ بھی کافر ہے۔

3. شریعت کے فرائض کا انکار

– نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، والدین کی اطاعت اور جہاد جیسے فرائض کا انکار کرنے والا کافر شمار ہو گا۔

4. اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو جائز سمجھنا

– جو شخص زنا، شراب نوشی، چوری، جادو، قتل وغیرہ جیسے حرام اعمال کو جائز سمجھے، وہ کافر ہے۔

5. قرآن مجید کی توہین

– جو شخص قرآن مجید کو گندگی والی جگہ پھینکے، اسے پاؤں تلے روندے یا اس کی توہین کرے، وہ کافر ہے۔

 6. ایمانیات میں سے کسی ایک کا انکار

– جو شخص اللہ، اس کے فرشتوں، رسولوں، کتابوں یا آخرت میں سے کسی ایک پر ایمان نہ رکھے، وہ کافر ہے۔

7. اللہ کی صفات کا انکار

– جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات جیسے کہ **الحي، العلیم، السمیع، البصیر، الرحیم** کا انکار کرے، وہ کافر اور مرتد ہے۔

سنجیدگی یا مذاق، دونوں صورتوں میں حکم یکساں ہے

ان تمام باتوں کا تعلق دین کے بنیادی اصولوں سے ہے۔ چاہے کوئی ان کا ارتکاب سنجیدگی سے کرے یا مذاق میں، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ البتہ وہ شخص جو شدید جبر میں ہو اور صرف جان بچانے کی نیت سے ظاہری طور پر کفر کا اظہار کرے جبکہ دل سے ایمان پر مطمئن ہو، وہ کافر نہیں۔

 **قرآنی دلیل:**

 _”مَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ”_ **(النحل ۱۰۶)**
’’جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے سوائے اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘

_”ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ”_ **(النحل ۱۰۷)**
’’یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا۔ یقینا اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔‘‘

دنیا کی محبت کے سبب کفر

ان آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اسی محبت کے باعث کفر اختیار کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اسلام کے احکام کو صرف اس لیے ترک کرے کہ دنیاوی مال و متاع یا عزت میں کمی نہ آئے، تو وہ بھی کافر شمار ہو گا۔

غزوہ تبوک کا واقعہ اور مذاق میں کفر

غزوہ تبوک کے دوران بعض منافقین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ازراہ مذاق نازیبا باتیں کیں، جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

**”لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ”** **(التوبۃ ۶۶)**
’’بہانے نہ بناؤ یقینا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے۔‘‘

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مذاق میں کہے گئے کفریہ الفاظ بھی انسان کو دائرہ اسلام سے نکال دیتے ہیں۔

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا کلام

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

– توحید کا اقرار **دل، زبان اور عمل** تینوں سے ہونا چاہیے۔
– اگر کوئی شخص صرف زبان یا دل سے توحید کو تسلیم کرے لیکن عمل سے انکار کرے، تو وہ ابلیس یا فرعون کی طرح سرکش کافر ہے۔
– بعض لوگ کہتے ہیں کہ "ہم حق کو مانتے ہیں لیکن عمل نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے معاشرے یا ملک میں یہ رائج نہیں”، تو یہ بھی کفر ہے۔
– اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

**”اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّـهِ ثَمَنًا قَلِيلًا”** **(توبۃ ۹)**
"انہوں نے الله کی آیات کو تھوڑی قیمت میں بیچ دیا۔”

نفاق اور منافق کا انجام

– اگر کوئی شخص دل سے توحید پر ایمان نہ رکھے، چاہے وہ ظاہری طور پر توحید پر عمل کرے، تو وہ منافق ہے اور کفار سے بھی بدتر ہے۔

**”اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ”** **(نساء ۱۴۸)**
"بے شک منافقین جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے۔”

دنیاوی خوف یا حرص کی وجہ سے ترکِ عمل

– دنیاوی نقصان یا عزت کے ڈر سے حق پر عمل نہ کرنا نفاق کی نشانی ہے۔
– بہت سے لوگ جو زبان سے حق کو تسلیم کرتے ہیں، دل سے اس پر مطمئن نہیں ہوتے اور عمل نہیں کرتے۔

قرآن کی دو اہم آیات پر غور

 1. التوبۃ ۶۵:

**”لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ”**

’’تم عذرپیش نہ کرو تم نے اپنے ایمان لانے کے بعد کفرکیا ہے‘‘۔
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب بعض منافقین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں طنزیہ اور مذاقاً کلمات ادا کیے۔ ان کے اس مذاق کو بھی کفر شمار کیا گیا۔

 2. النحل ۱۰۶-۱۰۷:

**مَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١٠٦﴾ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ **

’’جو شخص اپنے ایمان کے بعد الله سے کفر کرے۔ سوائے اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔ مگر جو کوئی کھلے دل سے کفر کرے تو ان پر الله کا غضب ہے۔ اور انہی کے لئے بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا۔‘‘

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو دین پر ترجیح دینے والوں کا کوئی عذر قبول نہیں فرماتا، چاہے وہ کفر دنیاوی فائدے یا اہل و عیال کی محبت کی خاطر کریں۔

جبر کی دو اقسام:

1. **ظاہری جبر**: انسان زبان یا عمل سے مجبور ہو تو معاف ہے بشرطیکہ دل ایمان پر قائم ہو۔
2. **باطنی رکاوٹ**: دنیاوی مفاد، مال، یا شہرت کی خاطر دین ترک کرنا معافی کے قابل نہیں۔

مرتد کا شرعی حکم

 سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ

**عکرمہ رحمہ اللہ** فرماتے ہیں: کچھ مرتدین کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے لایا گیا، آپ نے انہیں زندہ جلا دیا۔
**عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما** نے فرمایا: "میں ایسا نہ کرتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 **”اللہ کے عذاب جیسا کسی کو عذاب نہ دو”**
بلکہ میں انہیں قتل کرتا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 **”جو اپنا دین بدل لے، اسے قتل کر دو”**
 (بخاری: استتابہ المرتدین: ۶۹۲۲)

خون بہانے کے جواز کی تین صورتیں

**عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ** فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

**”جو لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی گواہی دے اس کا خون بہانا حرام ہے سوائے تین وجوہات کے:**
1. قاتل کو قتل کے بدلے قتل کرنا
2. شادی شدہ زانی
3. مرتد یعنی دین ترک کرنے والا
(بخاری ۶۸۷۸، مسلم ۱۶۷۶)

دورِ خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ

– کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا حالانکہ وہ نماز پڑھتے اور روزے رکھتے تھے۔
– **سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ** نے ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور فرمایا:

**”اللہ کی قسم! میں ضرور اس سے لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرے گا”**
(بخاری: ۱۴۰۰، مسلم: ۲۰)

مرتد کو قتل کرنے کا اختیار

– مرتد کو قتل کرنے یا قاتل کو قصاص میں مارنے کا اختیار صرف **مسلمان حکمران** یا اس کے **نائب** کے پاس ہوتا ہے۔
– کوئی بھی عام مسلمان خلیفہ کے حکم کے بغیر ایسا اقدام کرے گا تو اس سے **اصلاح کی بجائے فساد** پیدا ہو گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے