غلط فہمی: اسلام کے مبہم اصولوں کو ہر نظام میں اپنانا
"اسلام دین ہے” کے جملے کو اکثر اس طرح سمجھا جاتا ہے کہ اسلام میں چند ایسے ابدی اصول ہیں جنہیں ہر دور کے مطابق کسی بھی نظامِ زندگی میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق اسلام کوئی معین ہدایت یا مکمل نظام نہیں بلکہ چند عمومی اصولوں کا نام بن جاتا ہے، جنہیں کسی بھی تہذیبی یا معاشی نظام سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔
اس سوچ کے تحت مسلم مفکرین موجودہ دور کے ہر جدید مظہر کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں:
- اگر جمہوریت کا غلبہ ہے تو اسلام کو جمہوری بنایا جاتا ہے۔
- سرمایہ داری نظام کے تحت کارپوریشنز اور بینکوں کی ضرورت ہے تو اسلام میں ان کا متبادل تلاش کیا جاتا ہے۔
- سائنسی ترقی کو علم کا معیار مانا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ ترقی اسلام ہی کی دین ہے۔
- اگر عورت کا سماجی و پیشہ ورانہ کردار اہم ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ اسلام اس کی مکمل حمایت کرتا ہے۔
- میوزک اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کو جمالیاتی ضرورت سمجھا جائے تو یہ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ اسلام بھی ان میں رکاوٹ نہیں۔
الغرض، اس مفروضے کی بنا پر کبھی اسلام کو سوشل ازم سے جوڑ دیا جاتا ہے اور کبھی لبرل ازم کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، گویا اسلام کو دورِ حاضر کے ہر تقاضے کا متبادل فراہم کرنے والا نظریہ سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ تقاضا جائز ہو یا ناجائز۔
اسلام کا اصل مفہوم: اپنی بنیاد پر نظامِ زندگی کا قیام
"اسلام دین ہے” کا درست مفہوم یہ ہے کہ اسلام اپنی بنیادی تعلیمات کی روشنی میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کو ترتیب دیتا ہے، خواہ وہ انفرادی ہو، سماجی ہو یا ریاستی۔ اسلام میں کامیاب زندگی کا اپنا ایک مخصوص تصور ہے، جو کسی دوسرے نظام کی آمیزش قبول نہیں کرتا۔
اسلام کا اپنا معیار:
اسلام باطل نظریات یا تقاضوں کا متبادل فراہم نہیں کرتا، بلکہ ان کو بدلنے اور ان کے خلاف اصلاح کا مطالبہ کرتا ہے۔
انبیاء کی بعثت:
انبیاء کا مقصد یہ نہیں کہ وہ موجودہ باطل نظامات کے ساتھ سمجھوتہ کریں یا انہیں اسلامی بنائیں، بلکہ وہ ان نظریات کی اصلاح کے لیے آتے ہیں جو انسانوں کو غلط سمت میں لے جا رہے ہوتے ہیں۔
جدید مفکرین کی غلطی: دین کا بگاڑ
بدقسمتی سے، آج کے کچھ مسلم مفکرین جدید دنیا کے ہر تقاضے کو پورا کرنے کی فکر میں دین کی اصل شکل کو بگاڑ چکے ہیں۔ ان کے نزدیک دین کو جدید دنیا کے سانچے میں فٹ کرنے کی کوشش ضروری ہے، حالانکہ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دین کی اصل روح متاثر ہو چکی ہے، جبکہ جدید ذہن آج بھی مزید مطالبات ("Do more") کی صدائیں بلند کر رہا ہے۔
اسلام، ہر دور کے لیے جانچنے کا معیار
"اسلام قیامت تک دین ہے” کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ہر دور کے اصول و نظریات کو جانچنے کا پیمانہ ہے۔ یہ ایک ایسا دین ہے جو ہمیشہ محفوظ رہے گا، جیسے دیگر مذاہب کی طرح مسخ نہیں ہوگا۔ اسلام چودہ سو سال سے ہر نسل کو ہدایت فراہم کرتا آیا ہے، اور اس کی تشریح کے لیے کسی نئے مفکر یا اسکالر کی ضرورت نہیں، جو آج پہلی بار نصوص کی وضاحت کرے۔
جدید تعبیرات کو جانچنے کا اصول
اسلام کی ہر نئی تشریح اور تعبیر کو جانچنے کا ایک سادہ پیمانہ یہ ہے کہ دیکھیں آیا اس میں جدید تہذیب کی مخالفت اور ابتدائی اسلامی دور کی طرف رجوع (احیائے اسلام) کا تصور موجود ہے یا نہیں۔
اگر کسی تشریح میں یہ دونوں پہلو نہیں ہیں، تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ تشریح مسلمانوں کو اسلامی تاریخ سے کاٹ کر سرمایہ داری کی تاریخ میں ضم کر دے گی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی تشریحات پیش کرنے والے مفکرین دورِ حاضر کی جاہلیت سے واقف نہیں ہوتے، جس کے نتیجے میں وہ اسلام کو جاہلیت کے ساتھ ملا دیتے ہیں۔
اس پیمانے نے پچھلے ڈیڑھ سو سال میں کبھی غلط نتیجہ نہیں دیا اور ہمیشہ ایسی گمراہ کن تشریحات کی نشاندہی کی ہے۔