اسلام کے بنیادی ماخذ: قرآن، سنت اور اجماع کی شرعی حیثیت
ماخوذ :فتاوی علمیہ، جلد 3: توحید و سنت کے مسائل – صفحہ 76

دین اسلام کا اصل ماخذ کیا ہے؟

سوال:

کیا ہمارے دین اسلام کی تعلیمات کا اصل ماخذ قرآن، سنت اور اجماع ہے؟
(محمد نعیم، نیو خانپور)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جی ہاں! دین اسلام کے بنیادی اور اصل ماخذ تین ہیں:

کتاب اللہ یعنی قرآن مجید

سنت یعنی احادیث نبوی ﷺ

 اجماع اُمت

📚 ماخذ: دیکھئے: ماہنامہ الحدیث حضرو، جلد 1، عدد: 1، صفحہ 4

لزوم جماعت کا ثبوت

ایک حدیث میں "لزوم جماعت” یعنی جماعت کے ساتھ جڑے رہنے کی تاکید آئی ہے:

"لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا، وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ”
"اللہ میری اُمت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا، اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔”
📚 المستدرک، جلد 1، صفحہ 116، حدیث 399، عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، وسندہ صحیح

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی وضاحت

امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 204ھ) نے اجماع کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"وأمْرُ رسول الله بلزوم جماعة المسلمين مما يُحتج به في أن إجماع المسلمين – إن شاءالله لازم”
"اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ جڑے رہنے کے حکم سے دلیل لی جاتی ہے کہ ان شاء اللہ مسلمانوں کا اجماع لازم (یعنی حجت) ہے۔”
📚 کتاب الرسالہ، صفحہ 403، فقرہ: 1105

📚 مزید ملاحظہ کریں: صحیح ابن حبان (الاحسان: 6205، دوسرا نسخہ: 6233)

ایک اور حدیث:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لَنْ تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّ يَدَ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ”
"میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی، لہذا تم جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔”
📚 المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 12، صفحہ 447، حدیث 13623، وسندہ حسن

اجماع کی لغوی تعریف

"اجماع” کا مطلب ہے اتفاق یا کسی بات پر جمع ہونا۔

📚 حوالہ جات:
• تاج العروس، جلد 11، صفحہ 75
• القاموس المحیط، صفحہ 917
• المعجم الوسیط، جلد 1، صفحہ 135
• القاموس الوحید، صفحہ 280

اجماع کی شرعی حیثیت علماء کے اقوال کی روشنی میں

امام ابوحاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 277ھ):

"واتفاق أهل الحديث على شيء يكون حجة”
"اہلِ حدیث کا کسی چیز پر متفق ہونا حجت ہوتا ہے۔”
📚 کتاب المراسیل، صفحہ 192

امام ابوعبید القاسم بن سلام رحمۃ اللہ علیہ:

انہوں نے سر کے آدھے یا چوتھائی حصے کے مسح کے بارے میں فرمایا:

"یہ جائز نہیں ہے الا یہ کہ اس کا علم کتاب، سنت یا اجماع میں ہو۔”
📚 کتاب الطہور، صفحہ 124، تحت حدیث 334

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوعبید بھی اجماع کو حجت مانتے تھے۔

حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا بیان:

"اجماع کا معنی یہ ہے کہ احکام میں سے کسی حکم پر مسلمانوں کے علماء جمع ہوجائیں، اور جب کسی حکم پر اُمت کا اجماع ثابت ہوجائے تو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ علماء کے اجماع سے باہر نکلے، کیونکہ اُمت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی۔
البتہ بہت سے مسائل میں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وہاں اجماع ہے، حالانکہ دراصل وہاں اجماع نہیں ہوتا، بلکہ اس کے مخالف دوسرا قول کتاب و سنت کی روشنی میں زیادہ راجح ہوتا ہے۔”
📚 مجموع فتاویٰ، جلد 20، صفحہ 10

امام عبداللہ بن المبارک رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 181ھ):

"اجماع الناس علي شئي اوثق في نفسي من سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ”
"لوگوں کا کسی چیز پر اجماع میرے نزدیک سفیان، عن منصور، عن ابراہیم، عن علقمہ، عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔”
📚 الکفایہ للخطیب، صفحہ 434، وسندہ حسن

یہ قول اس بات کا قوی ثبوت ہے کہ امام عبداللہ بن المبارک رحمۃ اللہ علیہ اجماع کو زبردست حجت مانتے تھے۔

جدید اہل حدیث علماء کا موقف

حافظ محمد عبداللہ غازیپوری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1337ھ) جو کہ اہل حدیث کے مشہور عالم تھے، انہوں نے بھی اجماع اُمت کو حجت تسلیم کیا ہے۔

📚 ملاحظہ کریں:
• ابراء اہل الحدیث والقرآن، صفحہ 32
• الحدیث حضرو، جلد 1، صفحہ 4

قابلِ توجہ نکتہ

یاد رکھیں!
کتاب و سنت کا وہی مفہوم معتبر ہے جو سلف صالحین اور علمائے اہل سنت سے بلا اختلاف ثابت ہو۔
اور جب تینوں دلائل (قرآن، سنت، اجماع) موجود نہ ہوں تو اجتہاد (مثلاً آثار سلف صالحین سے استدلال وغیرہ) جائز ہے۔

ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے