أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ﴾
”بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد 12 ہے جو اس کی کتاب میں اس روز سے لکھی ہے جب اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں 4 مہینے ادب اور حرمت والے ہیں “[التوبہ: 36]
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب حرمت والے مہینے ہیں “[بخاری 4662، مسلم 1679].
یہ وہ حرمت والے مہینے ہیں جن کی حرمت کو عرب کے کفار نے بھی برقرار رکھا، ان مہینوں میں خاص طور پر گناہ، لڑائی جھگڑا، ظلم و زیادتی اور اشتعال انگیزی منع ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے مہینے محرم کے روزے سب سے بہتر ہیں“ [مسلم 1163].
محرم کی 10 تاریخ یعنی عاشورہ کا دن بڑی تاریخی حیثیت کا حامل ہے، یہود و نصاریٰ حتی کہ قریش کے مشرکین بھی اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ”زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہجرت سے پہلے اس دن کا روزہ رکھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو خود بھی اس دن کا روزہ رکھتے اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے، لیکن جب ماہ رمضان کے روزے فرض کر دیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کے اہتمام کو ترک کر دیا اور فرمایا جو چاہے اس دن کا روزہ رکھے اور جو چاہے اسے ترک کر دے۔ “[بخاری 2002، مسلم 1125].
یہود و نصاریٰ بھی یوم عاشورہ کو بڑی قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے تھے۔
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہود یوم عاشورہ کو (شکرانہ کا) روزہ رکھتے، اس دن( مسرت کا اظہار کرتے ہوئے) عید مناتے اور اپنی عورتوں کو زیورات اور سامان زینت سے مزین کرتے۔ [مسلم 1131].
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں، آپ نے دریافت فرمایا: “یہ روزہ کیسا ہے؟” انہوں نے بتایا کہ یہ دن بڑا بابرکت ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون سے نجات دی، اس بنا پر موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکرانہ اس دن کا روزہ رکھا، پس ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم تمہاری نسبت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریبی اور تعلق دار ہیں“ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا [بخاری 2004، مسلم 1130]
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کروایا کہ آج عاشورہ کا دن ہے لہذا جس نے آج روزہ رکھا وہ اسے پورا کرے اور جس نے روزہ نہیں رکھا وہ بھی بقیہ دن کا روزہ رکھے [بخاری 2007، مسلم 1135].
ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عاشورہ کے دن ہم خود بھی روزہ رکھتیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں، جب ہم انہیں مسجد میں لے جاتیں تو ان کے لیے کھلونا ساتھ لے جاتیں، جب بھوک کی وجہ سے وہ روتا تو ہم اسے بہلانے کے لیے کھلونا دے دیتیں تا کہ وہ شام تک اپنے روزے کو پورا کر لے۔ [بخاری 1960، مسلم 1136].
رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اہتمام ترک فرما دیا۔
معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے یوم عاشورہ کے دن مدینہ میں خطبہ دیا اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آج عاشورہ کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض نہیں کیا اور میں نے روزہ رکھا ہے، تم میں سے جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [بخاری 2003، مسلم 1129].
مگر اس کی فضیلت یوں بیان فرمائی:
ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشورہ کے روزہ کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس روزہ سے گذشتہ ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ [مسند احمد 22904،5/297]
چونکہ یہود بھی اس دن روزہ رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینی شعائر میں ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا تھا، اس لیے آپ نے فرمایا: جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا بھی روزہ رکھوں گا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے سال کے روزہ سے پہلے ہی رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ [مسلم 1134].
آپ نے اپنی امت کو تلقین فرمائی کہ عاشورہ کے روزے کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھو۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عاشورہ کے دن کا روزہ رکھو لیکن یہود کی مخالفت بھی کرو، لہذا ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ رکھو“۔ [مسند احمد 2154،1/294].
اسلامی نقطہ نظر سے عاشورہ کے دن کی یہی حقیقت ہے کہ اس دن اظہار تشکر کے لیے روزہ رکھا جائے، اور محرم کے مہینے کی یہ اہمیت ہے کہ پہلی محرم کا چاند ہمیں ہجرت نبوی کی یاد دلاتا ہے؛ کیونکہ تاریخ اسلام کی ساری آنے والی فتح مندیاں اسی ہجرت نبوی میں پوشیدہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس ہجرت نبوی میں اپنی مدد اور اپنے کلمہ کی بلندی کی یاد اس وقت دلائی جب ظاہری فتح مندیوں کے آثار شروع ہو چکے تھے۔
﴿إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾
”اگر تم نبی کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی جب انہیں کافروں نے نکال دیا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ غار میں تھے، جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے ان پر تسکین نازل فرما کر ان لشکروں سے ان کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے، اللہ غالب اور حکمت والا ہے“۔ [التوبہ: 40]
. محرم الحرام کے مقدس مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے محبوب شہر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی، یہ تاریخ اسلامی کا کوئی معمولی واقعہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اعلیٰ مثال ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بہت سے ملک فتح ہوئے اور حکومت کے دفاتر کے قیام سے حساب و کتاب کے معاملات بہت وسیع ہوئے تو ضرورت محسوس ہوئی کہ سرکاری طور پر ایک سنہ مقرر کیا جائے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذہن اس طرف گیا کہ اسلامی سال کی ابتدا ہجرت کے واقعہ سے کی جائے، یہ اس اسلامی تربیت کا اثر تھا جس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل و دماغ میں قومی خودداری کی روح پھونکی ہوئی تھی، انہوں نے ان سنہ اور تاریخ کو کوئی اہمیت نہیں دی جو اس زمانے میں متمدن اقوام یعنی یہودی، رومی اور ایرانی اقوام میں رائج تھیں بلکہ سب سے الگ اپنی قومی سنہ کا آغاز فرمایا اور اسلامی حکومت کے حساب و کتاب کے لیے ہجری سنہ مقرر فرمایا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمان ہجری سنہ کی بجائے اپنے کاروبار اور معاملات میں عیسوی سنہ استعمال کرتے ہیں، یہ ہماری اسلامی شرف اور اسلامی خودداری کے خلاف ہے، ہمیں اپنے معاملات اسلامی ہجری سنہ، جس کا آغاز محرم سے ہوتا ہے، کے مطابق کرنا چاہیے۔
افسوس!
آج ہمیں اسلامی مہینوں کے نام تک معلوم نہیں، ہاں! اگر کچھ پتہ ہے تو وہ یہ کہ جس مہینے میں روزے رکھے جاتے ہیں وہ ماہ رمضان ہے، جس میں قربانی کی جاتی ہے وہ ذوالحجہ ہے، جس مہینے میں لوگ ماتم کریں وہ محرم ہے، جس مہینے میں عید میلاد النبی منائی جائے وہ ربیع الاول ہے، جس میں حلوہ پکتا ہے وہ شب برات ہے، کتنی المناک صورتحال ہے کہ آج ہمیں چند اسلامی ناموں کا علم ہے؟ ہمیں انگریزی مہینوں کے نام فر فر معلوم ہیں لیکن اسلامی سال کے مہینوں کا کچھ علم نہیں، بعض مہینوں کے نام ان میں ہونے والی بدعات کے حوالے سے ہمیں معلوم ہیں (استغفر اللہ)
عاشورہ اور محرم کی اسلامی نقطہ نظر سے جو اہمیت ہے، وہ آپ نے اوپر احادیث مبارکہ میں ملاحظہ فرمائیں، ہمارے ہاں اس کے علاوہ جو دیگر رسومات اس مہینے میں کی جاتی ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، اس کی مختصر وضاحت حسب ذیل ہے:
(1) آغاز محرم کے ساتھ ہی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی آڑ میں غیر اسلامی رسمیں شروع ہو جاتی ہیں، نوحہ و ماتم کیا جاتا ہے، مرثیہ خوانی ہوتی ہے، گریبان چاک کیے جاتے ہیں، چہروں کو نوچا جاتا ہے، چھریوں اور نیزوں کے ساتھ ماتم کر کے اپنے آپ کو زخمی کیا جاتا ہے، آگ پر ماتم ہوتا ہے، تعزیہ نکلتا ہے اور محرم کی مجالس میں آہ و بکا اور گریہ زاری کی جاتی ہے، اہل بیت کی محبت کی آڑ میں شرک جلی کا اظہار ہوتا ہے، غیر اللہ کی پکار یا علی مدد کے نعرے لگائے جاتے ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو زبان درازیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
پھر محرم کے چاند کے طلوع ہوتے ہی ریڈیو، ٹیلیویژن اور اخبارات صرف اہل تشیع کے ترجمان بن جاتے ہیں اور ان کے شرکیہ اور کفریہ عقائد کی اشاعت و تبلیغ کے لیے مخصوص ہو جاتے ہیں، معلوم یوں ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ کا پہلا مہینہ محرم الحرام صرف اہل تشیع کا مہینہ ہے اور انہیں اس مہینے میں من مانی کارروائیوں کی اجازت ہے، اس طرح ماہ محرم کو صرف کربلا کی قصہ گوئی کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے، اس طرح یہ تاثر عام ہے کہ ماہ محرم کا تقدس شاید صرف سانحہ کربلا کی وجہ سے ہے؛ حالانکہ ماہ محرم میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی شہید کیے گئے۔
شہادت حسین رضی اللہ عنہ پر جو کچھ کیا جاتا ہے، اس کا ثبوت کتاب و سنت میں نہیں ہے، نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کسی کی شہادت پر اس طرح کے کام کیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں احد کی جنگ میں ان کے چچا اور حسین رضی اللہ عنہ کے والد علی رضی اللہ عنہ کے چچا سید الشہداء حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے، ان کی شہادت پر اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا وہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ﴾
”یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے “[الاحزاب: 21]
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں آپ کا نواسہ تھا جب کہ اس کی جان (نکلتے وقت) بے چین اور مضطرب تھی، اس کی یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ [بخاری 1284، مسلم 1923].
انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیٹے ابراہیم کے پاس آئے اور وہ جان کنی کے عالم میں تھے، آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، اور فرمایا: ”بے شک آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم زبان سے وہی بات کہیں گے جو ہمارے رب کو راضی کر دے، اے ابراہیم! ہم تیری جدائی پر یقیناً غمگین ہیں “۔ [بخاری 1303، مسلم 2315].
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو رخساروں کو پیٹے، گریبان چاک کرے اور جاہلیت کے بول بول کر بین کیا۔“ [بخاری 1294، مسلم 103].
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے والی، سر منڈوانے والی اور گریبان چاک کرنے والی عورت سے بیزار ہیں ۔ [بخاری 1296، مسلم 104].
ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کے 3 دن بعد سوگ ختم کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ کسی عورت کو جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں کہ وہ کسی میت پر 3 دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے خاوند کے جس کا سوگ 4 ماہ 10 دن ہے۔ [بخاری 1280، مسلم 1486]
بتائیے! مدت دراز سے عشرہ محرم جو ماتم کے لیے مخصوص ہو چکا ہے کیا اسے کسی طرح بھی دین قرار دیا جا سکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ پھر آغاز محرم کے ساتھ ہی حسین رضی اللہ عنہ کے نام کی پانی کی سبیلیں لگ جاتی ہیں، مٹی کی کچی ٹھوٹھْیوں میں چائے، چاول، حلوہ، کھیر اور سویاں وغیرہ بھر کر ختم شریف دلا کر تقسیم کی جاتی ہیں، لوگوں کو روک روک کر نیاز حسین کے نام پر روپے لیے جاتے ہیں، کیا غیر اللہ کے نام کی یہ نذر و نیاز حرام نہیں ہے؟ سنیے اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ﴾
” تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا گیا ہے ۔“ [المائدہ: 3]
پھر نیاز حسین میں پانی کی سبیل لگانے والوں اور چاول کی دیگ پکانے والوں کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس طرح حسین رضی اللہ عنہ راضی ہو جائیں گے، اور اگر وہ راضی ہو گئے تو اگر میں بے اولاد ہوں تو میری اولاد ہو جائے گی، اگر میں بیمار ہوں تو مجھے شفا مل جائے گی، اگر میں مقدمات میں پھنسا ہوا ہوں تو مجھے اس سے نجات مل جائے گی، یہ عقیدہ تو وہ شرک اکبر ہے جس سے آدمی کا اسلام ختم ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نبی خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کرواتا ہے:
﴿ قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ﴾
”کہہ دو میں تو اپنے لیے نفع و نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جتنا اللہ چاہے“۔ [یونس: 49]
﴿قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا﴾
” کہہ دو کہ میں تمہارے لیے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا“۔ [الجن: 21]
پھر حسین رضی اللہ عنہ کیسے مشکل کشا ہو سکتے ہیں؟
(2) سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سوگ میں ماہ محرم میں شادی نہیں کی جاتی؛ حالانکہ یہ ایک غلط رسم ہے جو مسلمانوں کے ہاں چل نکلی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول میں فوت ہوئے، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور بہت سے اصحاب رسول شہید ہوئے، پھر جن مہینوں میں یہ شہید ہوئے ہیں ان میں شادیاں کیوں کی جاتی ہیں؟
(3) 10 محرم یعنی عاشورہ کے دن قبروں پر جا کر اگر بتیاں جلائی جاتی ہیں اور قبروں کی مرمت کی جاتی ہے، خاص طور پر عورتوں میں اس بات کا بہت رجحان ہے، دس محرم کو قبرستان میں عورتوں اور مردوں کا میلہ لگا ہوتا ہے، خواتین بڑے اہتمام کے ساتھ بن سنور کر قبروں پر مٹی ڈالنے اور اس کی ٹیپ ٹاپ کے لیے جاتی ہیں۔
شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
(4) اس دن اہل و عیال پر خرچ کرنے میں فراخ دلی سے کام لیا جاتا ہے تاکہ سال بھر اللہ تعالیٰ رزق میں وسعت دے، ایسا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
(5) بعض لوگ حسین رضی اللہ عنہ کے سوگ میں منعقد محفلوں میں شرکت کرتے ہیں اور وہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع سے لبریز خرافات سنتے ہیں اور شہادت حسین کے نام پر من گھڑت قصے سنتے ہیں، ان سے ایمان کمزور ہوتا ہے، اس لیے ایسی محفلوں میں شرکت حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾
”گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو“۔ [المائدہ: 2]
ان محفلوں میں اصحاب رسول کو گالیاں دی جاتی ہیں؟ جبکہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کر دو، تم ان کے ایک مٹھی جو کے برابر بھی نہیں ہو سکتے“ [ترمذی 3861].
لہذا ایسی محفلوں میں جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہا جا رہا ہو، شرکت حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾
” اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کرتے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں، اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں“۔ [الانعام: 68]
سوچئے پھر شرک و بدعت کی محفلوں میں شرکت کیسے جائز ہے؟
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صرف رسول اللہ کی اتباع نصیب فرمائے اور ایسی رسومات سے بچنے کی توفیق دے جو اسلام سے متصادم ہیں یا مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقوام کی نقالی میں ایجاد کی گئی ہیں، آمین۔