اسلام میں غیبت اور عیب جوئی کی شرعی حدود و ضوابط
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ – توضیح الاحکام، جلد 2، صفحہ 241

دوسروں کی عیب جوئی اور غیبت کے متعلق شرعی رہنمائی

سوال:

اگر کسی متقی شخص یا نیک گروہ کے عیوب اس نیت سے لوگوں کو بتائے جائیں تاکہ وہ ان عیوب کو دین کا حصہ نہ سمجھ بیٹھیں، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
اسی طرح اگر کاروباری معاملات، رشتہ یا کسی اور ضرورت کے تحت کوئی شخص تم سے تمہارے بھائی کے عیوب کے بارے میں پوچھے، تو کیا اس کی عدم موجودگی میں اس کے عیوب بیان کرنا درست ہے؟
بعض افراد جب کسی کے سامنے اپنے بھائی کی برائی بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں: "ہم یہ بات اس کے سامنے بھی کہہ سکتے ہیں، لہٰذا یہ غیبت نہیں”۔ بعض کا کہنا ہوتا ہے کہ "اگر ہم اس کے سامنے یہ بات کہیں تو وہ برا نہیں منائے گا، اس لیے یہ غیبت نہیں ہے”۔
ان تمام امور کے بارے میں ایک مختصر اور جامع جواب درکار ہے۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  • اگر کسی شخص یا گروہ کے عیوب بیان کرنے کا مقصد شرعی ضرورت اور خیرخواہی ہو، یعنی
    "النصيحة للمسلمين”
    (مسلمانوں کی خیرخواہی)، تو ایسے حالات میں عیوب کا بیان کرنا جائز ہے۔
  • اس کی مثال خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ملتی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اما ابو جهم فلایضع عصاه عن عاتقه و اما معاویة فصعلوک لا مال له»

(صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب المطلقة البائن لا نفقة لها، حدیث: 1480)

  • اگر عیوب بیان کرنے میں کوئی  شرعی عذر نہ ہو اور
    "النصيحة للمسلمين” مسلمانوں کی خیر خواہی
    جیسا مقصد نہ ہو، تو بلاوجہ کسی مسلمان کے بارے میں بات پھیلانا سخت مذموم عمل ہے۔
  • یہ عمل غیبت اور بہتان کہلاتا ہے اور حرام ہے۔
  • غیبت اور بہتان دونوں کبیرہ گناہوں  میں شامل ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1