غصب کرنے والا گناہ گار ہے اور غصب شدہ مال لوٹانا واجب ہے اور کسی مسلمان کا مال اس کی قلبی رضا مندی کے بغیر لینا جائز نہیں
لغوی وضاحت: لفظِ غصب باب غَصَبَ يَعْصِبُ (ضرب) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ہے ”زبردستی کوئی چیز چھین لینا ۔“ باب اِغْتَصَبَ (افتعال ) بھی اسی معنی میں ہے۔
[المنجد: ص/ 208 ، القاموس المحيط: ص/ 154]
اصطلاحی تعریف: کسی دوسرے کا حق چھین لینا اور اس پر زبردستی قبضہ کر لینا۔
[فقه السنة: 323/3]
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ [النساء: 29]
”آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ ۔“
➋ حدیث نبوی ہے کہ :
إنما أموالكم ودمائكم عليكم حرام
”تمہارا مال اور تمہارا خون (آپس میں) تم پر حرام ہے ۔“
[بخارى: 67 ، كتاب العلم: باب قول النبى رب مبلغ أوعى من سامع ، مسلم: 1679 ، ابو داود: 1948]
➌ ایک اور حدیث میں ہے کہ :
من اقتطع شبرا من الأرض ظلما طوقه الله إياه من سبع أرضين
”جس نے ایک بالشت زمین بھی زیادتی کرتے ہوئے کسی سے چھین لی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اتنا حصہ زمین ساتوں زمینوں سے اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیں گے ۔“
[بخاري: 2452 ، 2454 ، كتاب المظالم والغصب: باب إثم من ظلم شيئا من الأرض ، مسلم: 612 ، 1611]
➍ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيبة من نفسه
”کسی مسلمان کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ۔“
[صحيح لغيره: دار قطني: 26/3 ، أحمد: 72/5 ، حافظ ابن حجرؒ فرماتے هيں كه اس روايت كي سند ميں حارث بن محمد الفهري راوي مجهول هے۔ تلخيص الحبير: 46/3 ، اگرچه اس روايت كي سند ميں ضعف هے ليكن ديگر شواهد كي وجه سے يه حديث قوي هو جاتي هے اور درجه صحت تك پهنچ جاتي هے۔ شيخ شعيب ارنؤوط نے اسے صحيح لغيره قرار ديا هے۔ مسند احمد محقق: 21082 ، 20695]
اور ظالم کا کوئی حق نہیں ۔ جس نے کسی قوم کی زمین میں بغیر اجازت فصل کاشت کی اسے پیداوار سے کچھ نہیں ملے گا البتہ اخراجات مل جائیں گے اور جو کسی زمین میں درخت گاڑے گا تو اسے اکھیڑنا ہو گا
➊ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من زرع فى أرض قوم بغير إذنهم فليس له من الزرع شيئ وله نفقه
”جس نے کسی قوم کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیر فصل کاشت کی اسے پیداوار سے کچھ نہیں ملے گا البتہ اخراجات مل جائیں گے ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 350/5 ، 1519 ، ابو داود: 3403 ، كتاب البيوع: باب فى زرع الأرض بغير إذن صاحبها ، ابن ماجة: 2466 ، ترمذي: 1366 ، بيهقي: 136/6 ، ابن أبى شيبة: 89/7 ، منحة المعبود: 278/1 ، مشكل الآثار: 280/3 ، شرح معاني الآثار: 117/4 ، أحمد: 465/3]
وله نفقة کا مفہوم یہ ہے کہ فصل کی کاشت میں جتنی لاگت آئی ہے وہ اسے دے دی جائے گی جبکہ اسے منافع نہیں دیا جائے گا ۔
[قفو الأثر: 1102/3 ، تلخيص الحبير: 54/3 ، عون المعبود: 266/9]
➋ دو آدمی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زمین کا جھگڑا لے کر آئے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کی زمین میں (بغیر اجازت ) کھجور کے درخت گھاڑ دیے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ”زمین مالک کی ہے اور درخت لگانے والا اپنے درخت اکھاڑ لے۔“ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ليس لعرق ظالم حق
”ظالم کی رگ کا کوئی حق نہیں ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2638 – 2639 ، كتاب الخراج: باب فى إحياء الموات ، ابو داود: 3073 – 3074 ، بیھقی: 142/6 ، دارقطنی: 35/3]
غصب شدہ چیز سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں اور جس نے غصب شدہ چیز تلف کر دی تو اس پر اس کی مثل چیز یا اس کی قیمت کی ادائیگی لازم ہے
جیسا کہ ابھی حدیث گزری ہے کہ :
لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيبة من نفسه
”کسی مسلمان کا مال اس کی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ۔“
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ياخذن أحدكم متاع أخيه لاعبا ولا جادا ومن أخذ عصا أخيه فليردها
”تم میں سے کوئی بھی سنجیدگی کی حالت میں ہو یا مذاق کی حالت میں (بغیر اجازت ) اپنے بھائی کی لاٹھی بھی اٹھا لے تو اسے واپس لوٹا دے ۔“
[حسن: صحيح ابو داود: 4183 ، كتاب الأدب: باب من ياخذ الشيئ من مزاح ، ابو داود: 5003 ، ترمذي: 2160 ، الفتح الرباني: 140/15]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی اہلیہ کے گھر تشریف فرما تھے کہ اُمہات المومنین میں سے کسی (حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ) نے خادم کے ہاتھ ایک برتن میں کھانا بھیجا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس برتن کو اپنے ہاتھ سے گرا کر توڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جوڑ کر اس میں کھانا ڈالا اور کہا: ”کھاؤ ۔“ پھر اپنا صحیح برتن (بدلے میں ) واپس بھیج دیا اورٹوٹا ہوا خود رکھ لیا۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
طعام بطعام وإناء بإناء
”کھانے کے بدلے کھانا ہے اور برتن کے بدلے برتن ہے ۔“
[بخارى: 2481 ، كتاب المظالم والغصب: باب إذا كسر قصعة أو شيئا لغيره ، ابو داود: 3567 ، ترمذي: 1359 ، ابن ماجة: 2334 ، نسائي: 3955]