اسلام میں عورتوں کے ختنہ کا تصور – تحقیقی جائزہ
سوال:
عرب اور افریقہ میں عورتوں کا ختنہ کیا جاتا ہے۔ کیا اسلام میں اس کا کوئی تصور پایا جاتا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کے ختنہ کے بارے میں روایات کا جائزہ لیتے ہوئے صاحب عون المعبود (جلد 4، صفحہ 543) نے احادیث کو جمع کیا ہے اور آخر میں اس بارے میں اپنی تحقیق اس طرح پیش کی ہے:
وَحَدِيْثُ خِتَانِ الْمَرْأَةِ رُوِیَ مِنْ أَوْجُهٍ کَثِيْرَةٍ ، وَکُلُّهَا ضَعِيْفَةٌ مَعْلُوْلُةٌ مَخْدُوْشَةٌ لاَ يَصِحُّ الْاِحْتِجَاجُ بِهَا کَمَآ عَرَفْتَ، وَقَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ : لَيْسَ فِی الْخَتَانِ خَبْرٌ يُرْجَعُ إِلَيْهِ وَلاَ سُنَّةٌ يُتَّبَعُ ۔ وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِی التَّمْهِيْدِ: وَالَّذِیْ أَجْمَعَ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُوْنَ أَنَّ الْخَتَانَ لِلرِّجَالِ
ترجمہ:
عورت کے ختنہ کے متعلق کئی اسناد سے احادیث روایت کی گئی ہیں، لیکن یہ تمام کی تمام ضعیف، معلول اور ناقابل اعتماد ہیں، ان سے شرعی دلیل لینا درست نہیں۔ جیسا کہ آپ جان چکے ہیں۔
ابن منذر کہتے ہیں: "ختنہ کے بارے میں کوئی ایسی حدیث موجود نہیں جس کی طرف رجوع کیا جائے یا جس کو سنت قرار دے کر اس کی پیروی کی جائے۔”
ابن عبدالبر نے التمهيد میں لکھا ہے: "جس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے وہ یہ ہے کہ ختنہ صرف مردوں کے لیے ہے۔”
(انتہی، واللہ اعلم)
ختنہ سے متعلق روایت اور اس کی حیثیت
روایت:
الخِتَانُ سُنَّةٌ لِلرِّجَالِ ، وَمَکْرُمَةٌ لِلنِّسَاءِ
(ختنہ مردوں کے لیے سنت ہے اور عورتوں کے لیے ایک عزت افزا عمل)
◈ اس روایت کی بعض اسناد کو امام سیوطی نے "حسن” قرار دیا ہے۔
◈ تاہم، اکثر اہل علم نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
◈ یہاں تک کہ محدثِ وقت، شیخ البانی حفظہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف شمار کیا ہے اور اسے الجامع الصغیر اور السلسلة الضعیفة میں شامل کیا ہے۔
خصالِ فطرت میں ختنہ کا ذکر
رسول اللہ ﷺ نے ختنہ کو فطرت کی صفات میں شامل فرمایا، لیکن وہاں مرد کی تخصیص نہیں فرمائی۔
صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب قتل حمزہ، جلد 2، صفحہ 583 میں مذکور ہے کہ:
غزوۂ اُحد میں جب قتال کے لیے لوگ صف بستہ ہوئے تو سباع نامی کافر نے نکل کر للکارا:
هَلْ مِنْ مُبَارِزٍ قَالَ : فَخَرَجَ إِلَيْهِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ، فَقَالَ : يَا سِبَاعُ يَا ابْنَ أُمِّ أَنْمَارٍ مُقَطِّعَةِ الْبُظُوْرِ أَتُحَادُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ ۔ قَالَ : ثُمَّ شَدَّ عَلَيْهِ فَکَانَ کَأَمْسِ الذَّاهِبِ
ترجمہ:
"کیا کوئی ہے جو مجھ سے لڑے؟”
یہ سن کر حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اس کے مقابلے کے لیے نکلے اور کہنے لگے:
"اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے، جو عورتوں کے بظر (Clitoris) کاٹتی تھی (نائن تھی)، تو اللہ اور اس کے رسول سے مقابلہ کرتا ہے؟”
یہ کہہ کر حمزہ رضی اللہ عنہ نے اس پر حملہ کیا اور اسے فنا کر دیا۔
نتیجہ
◈ اس واقعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عرب میں زمانۂ نزولِ شریعت میں عورتوں کے ختنہ کا رواج تھا۔
◈ اگرچہ کتاب و سنت میں اس عمل کی واضح تائید یا مخالفت موجود نہیں، تاہم چونکہ ممانعت بھی وارد نہیں ہوئی، اس لیے اسلام میں عورت کے ختنہ کا تصور موجود ہے۔
هٰذا ما عندي، والله أعلم بالصواب