شفاعت اور اس کی اقسام
شفاعت کی تعریف
لغوی معنی:
◈ "شفاعت” عربی لفظ "شفع” سے ماخوذ ہے، جو "وتر” (طاق) کی ضد ہے۔
◈ اس کا مطلب ہے کسی ایک کو جوڑ کر جفت بنانا، جیسے ایک کو دو اور تین کو چار بنانا۔
اصطلاحی معنی:
◈ کسی دوسرے کی طرف سے فائدہ حاصل کرنے یا نقصان کو دور کروانے کے لیے واسطہ بنانا۔
◈ اس میں شافع (سفارش کرنے والا)، مشفوع الیہ (جس کے پاس سفارش کی گئی)، اور مشفوع لہ (جس کے لیے سفارش کی گئی) شامل ہوتے ہیں۔
شفاعت کی اقسام
1. صحیح اور ثابت شدہ شفاعت
یہ وہ شفاعت ہے جس کا ذکر قرآن اور سنت میں آیا ہے۔ یہ شفاعت صرف موحدین اور مخلصین کے لیے مخصوص ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
❀ "یا رسول اللہ! لوگوں میں سب سے زیادہ خوش نصیب کون ہوگا جو آپ کی شفاعت سے بہرہ مند ہوگا؟”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ قَالَ لَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ»
’’جس شخص نے خلوص دل کے ساتھ"لا اله الا الله” کہا۔‘‘
(صحیح البخاری، العلم، باب الحرص علی الحديث، ح:۹۹)
اس شفاعت کے لیے تین شرطیں ہیں:
➊ اللہ تعالیٰ شافع سے راضی ہو۔
➋ اللہ تعالیٰ مشفوع لہ سے بھی راضی ہو۔
➌ اللہ تعالیٰ شافع کو شفاعت کی اجازت دے۔
قرآنی دلائل:
❀ سورة النجم، آیت 26:
﴿وَكَم مِن مَلَكٍ فِى السَّمـوتِ لا تُغنى شَفـعَتُهُم شَيـًٔا إِلّا مِن بَعدِ أَن يَأذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشاءُ وَيَرضى﴾
’’اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی مگر بعد ازاں کہ اللہ جس کے لیے چاہے اجازت بخشے اور (سفارش) پسند کرے۔‘‘
❀ سورة البقرة، آیت 255:
﴿مَن ذَا الَّذى يَشفَعُ عِندَهُ إِلّا بِإِذنِهِ﴾
’’کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر (کسی کی) سفارش کر سکے؟‘‘
❀ سورة طه، آیت 109:
﴿يَومَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفـعَةُ إِلّا مَن أَذِنَ لَهُ الرَّحمـنُ وَرَضِىَ لَهُ قَولًا﴾
’’اس روز (کسی کی) سفارش کچھ فائدہ نہ دے گی مگر اس شخص کی جسے اللہ اجازت دے گا اور اس کی بات کو پسند فرمائے گا۔‘‘
❀ سورة الأنبیاء، آیت 28:
﴿وَلا يَشفَعونَ إِلّا لِمَنِ ارتَضى﴾
’’اور وہ (اس کے پاس کسی کی) سفارش نہیں کر سکتے مگر اس شخص کی جس سے اللہ خوش ہو۔‘‘
صحیح شفاعت کی دو مزید اقسام
1.1 شفاعت عامہ
◈ اللہ تعالیٰ جس نیک بندے کو چاہے گا، شفاعت کی اجازت دے گا۔
◈ یہ شفاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، دیگر انبیاء، صدیقین، شہداء، اور صالحین کو حاصل ہے۔
◈ یہ گناہ گار مومنوں کے لیے ہوگی تاکہ وہ جہنم سے نجات حاصل کریں۔
1.2 شفاعت خاصہ
◈ یہ شفاعت صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔
◈ قیامت کے دن جب سب لوگ انتہائی پریشانی اور کرب میں ہوں گے تو وہ شفاعت کے لیے پہلے حضرت آدم، پھر نوح، ابراہیم، موسیٰ، اور عیسیٰ علیہم السلام کے پاس جائیں گے۔
◈ سب انبیاء شفاعت سے معذرت کر لیں گے، پھر لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے، اور آپ اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کریں گے۔
یہی وہ "مقام محمود” ہے جس کا ذکر قرآن میں آیا:
❀ سورة الإسراء، آیت 79:
﴿وَمِنَ الَّيلِ فَتَهَجَّد بِهِ نافِلَةً لَكَ عَسى أَن يَبعَثَكَ رَبُّكَ مَقامًا مَحمودًا﴾
’’اور بعض حصہ شب میں بھی آپ اس (قرآن کی تلاوت) کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھا کریں یہ (شب خیزی اورآہ وسحر گاہی) تمہارے لیے زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے، قریب ہے کہ اللہ آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا۔‘‘
اس شفاعت کی ایک اور صورت:
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل جنت کے لیے جنت میں داخلے کی شفاعت فرمائیں گے۔
◈ جب لوگ پل صراط عبور کریں گے تو ایک مقام پر ان کے دل صاف کیے جائیں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔
2. شفاعت باطلہ
یہ وہ شفاعت ہے جس کا عقیدہ مشرکین رکھتے ہیں، یعنی ان کے معبود اللہ تعالیٰ کے پاس ان کی سفارش کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
❀ سورة المدثر، آیت 48:
﴿فَما تَنفَعُهُم شَفـعَةُ الشّـفِعينَ﴾
’’تو (اس حال میں) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی۔‘‘
وجہ یہ ہے کہ:
◈ اللہ تعالیٰ مشرکین سے راضی نہیں ہے۔
◈ اللہ تعالیٰ کسی کو ان کے لیے شفاعت کی اجازت نہیں دے گا۔
◈ شفاعت صرف ان کے لیے ہے جن سے اللہ راضی ہو۔
مشرکین کا کہنا:
❀ سورة يونس، آیت 18:
﴿هـؤُلاءِ شُفَعـؤُنا عِندَ اللَّهِ﴾
’’یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔‘‘
یہ عقیدہ باطل ہے اور ان کے لیے کسی فائدہ کا باعث نہیں بنے گا بلکہ انہیں اللہ سے مزید دور کر دے گا، کیونکہ وہ بتوں سے تقرب الٰہی کے لیے شفاعت کی امید رکھتے ہیں، جو ان کی نادانی اور گمراہی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب