اسلام میں دیگر مذاہب کی کتابوں کے مطالعے کی شرعی حیثیت
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 211

سوال

یا اسلام میں دیگر مذاہب کی کتابوں کے مطالعے کی اجازت ہے۔ مثلاً تورات، زبور، انجیل وغیرہ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دیگر مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنا جائز ہے، کیونکہ زبانوں کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

﴿وَمِن ءايـتِهِ خَلقُ السَّمـوتِ وَالأَرضِ وَاختِلـفُ أَلسِنَتِكُم وَأَلونِكُم إِنَّ فى ذلِكَ لَءايـتٍ لِلعـلِمينَ ﴿٢٢﴾… سورة الروم

’’اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف (بھی) ہے، دانش مندوں کے لئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں۔‘‘

احادیث سے دلائل

حضرت زید بن ثابتؓ کا واقعہ
زید بن ثابت کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں یہود کی کتاب کی تعلیم حاصل کروں اور فرمایا:
’’میں یہود کی طرف سے خط و کتابت کے سلسلے میں مطمئن نہیں ہوں۔‘‘
حضرت زیدؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے نصف مہینے میں ہی ان کی کتاب میں مہارت حاصل کرلی۔‘‘

شرح:
ملاعلی قاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

لَا يُعْرَفُ فِي الشَّرْعِ تَحْرِيمُ تَعَلُّمِ لُغَةٍ مِنَ اللُّغَاتِ سُرْيَانِيَّةً أَوْ عِبْرَانِيَّةً أَوْ هِنْدِيَّةً أَوْ تُرْكِيَّةً أَوْ فَارِسِيَّةً وَقَدْ قَالَ تَعَالَى ومن آياته خلق السماوات والأرض واختلاف ألسنتكم أَيْ لُغَاتُكُمْ بَلْ هُوَ مِنْ جُمْلَةِ الْمُبَاحَاتِ نَعَمْ يُعَدُّ مِنَ اللَّغْوِ وَمِمَّا لَا يَعْنِي وَهُوَ مَذْمُومٌ عِنْدَ أَرْبَابِ الْكَمَالِ

یعنی: شریعت میں سریانی، عبرانی، ہندی، ترکی یا فارسی وغیرہ زبانیں سیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔ البتہ لغویات یا فضول تعلیم لینا اہلِ کمال کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔

بنی اسرائیل کی حکایات کے بارے میں حدیث
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً وَحَدِّثُوا عَنْ بني إسرائيل وَلَا حَرَجَ وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دین کی تبلیغ کرو اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات منسوب کی، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘

ان احادیث سے حاصل ہونے والے اصول

ان صحیح احادیث سے واضح ہوا کہ:

✿ دوسری زبانیں سیکھنا جائز ہے۔
✿ دیگر منسوخ اور باطل مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ شرائط کے ساتھ جائز ہے۔

مطالعہ کے لیے شرائط

ان کتابوں کا مطالعہ صرف اس مسلمان کے لیے جائز ہے جس میں یہ اوصاف ہوں:

➊ اسلام کے بنیادی عقائد اور احکام میں کامل مہارت اور راسخ العقیدہ مسلمان ہو۔
➋ دینِ اسلام کو مکمل ضابطۂ حیات (دین قیم) مانتا ہو۔
➌ دیگر تمام مذاہب کو اسلام کے مقابلے میں باطل، منسوخ اور تحریف شدہ سمجھتا ہو۔
➍ ان کتابوں کو محرف اور منسوخ مانتا ہو۔
➎ مطالعہ کا مقصد اسلام کی برتری واضح کرنا ہو، نہ کہ مداہنت (خوشامد یا نرمی)۔
➏ مطالعہ کا مقصد اہلِ مذاہب کی حوصلہ افزائی نہ ہو۔
➐ صرف نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کی نیت ہو، بصورت دیگر ان کتابوں کا مطالعہ جائز نہیں۔

حضرت عمر فاروقؓ اور تورات کا واقعہ

حضرت ابوہریرہؓ کی مشہور حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے یہود کی چند حکایات اور مواعظ لکھنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ ﷺ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔

علماء کی وضاحت

چنانچہ تحفۃ الاحوذی میں ہے:

قَالَ السَّيِّدُ جَمَالُ الدِّينِ وَوَجْهُ التَّوْفِيقِ بَيْنَ النَّهْيِ عَنِ الِاشْتِغَالِ بِمَا جَاءَ عَنْهُمْ وَبَيْنَ التَّرْخِيصِ الْمَفْهُومِ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْمُرَادَ بالتحدث ها هنا التَّحَدُّثُ بِالْقَصَصِ مِنَ الْآيَاتِ الْعَجِيبَةِ كَحِكَايَةِ عَوْجِ بْنِ عُنُقٍ وَقَتْلِ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْفُسَهُمْ فِي تَوْبَتِهِمْ مِنْ عِبَادَةِ الْعِجْلِ وَتَفْصِيلِ الْقَصَصِ الْمَذْكُورَةِ فِي الْقُرْآنِ لِأَنَّ فِي ذَلِكَ عِبْرَةً وَمَوْعِظَةً لِأُولِي الْأَلْبَابِ وَأَنَّ الْمُرَادَ بِالنَّهْيِ هُنَاكَ النَّهْيُ عَنْ نَقْلِ أَحْكَامِ كُتُبِهِمْ لِأَنَّ جَمِيعَ الشَّرَائِعِ وَالْأَدْيَانِ مَنْسُوخَةٌ بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم انتهى وحکاية عوج بن عنق كذب محض لا اصل لها. (ص376)

یعنی: دوسری کتابوں کے قصے اور عجیب حکایات بیان کرنے کی اجازت ہے کیونکہ اس میں عبرت اور نصیحت ہے۔ البتہ ان کے احکام نقل کرنا منع ہے کیونکہ شریعتِ محمدیہ ﷺ کے بعد تمام شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں۔

خلاصہ کلام

✿ مذاہبِ باطلہ اور منسوخ کتابوں کا مطالعہ مذکورہ شرائط کے ساتھ جائز ہے۔
✿ لیکن ان کی احکام و شریعت کو لینا یا ان سے متاثر ہونا ناجائز ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے