سوال
داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات بالکل واضح ہے کہ داڑھی انبیاء کرام علیہم السلام کی متوارث سنت ہے، جس کی تصریح قرآن و حدیث دونوں میں موجود ہے۔
قرآن سے دلیل
اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي… ﴿٩٤﴾…طه﴾
"ہارون (علیہ السلام) نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی نہ پکڑ اور میرے سر کے بال نہ کھینچ۔”
یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انبیاء علیہم السلام داڑھی رکھتے تھے، اور یہ ان کی ظاہری سنتوں میں شامل تھی۔
حدیث سے دلائل
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَالِاسْتِنْشَاقُ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ، قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةُ.
(نسائی مع تعلیقات السلفیة: ج2، ص269)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دس چیزیں فطرت (یعنی انبیاء کی سنت) میں شامل ہیں:
➊ مونچھوں کو کاٹنا
➋ ناخن تراشنا
➌ انگلیوں کے جوڑ صاف کرنا
➍ داڑھی بڑھانا
➎ مسواک کرنا
➏ ناک میں پانی ڈالنا
➐ بغل کے بال اکھیڑنا
➑ زیر ناف بال صاف کرنا
➒ استنجاء کرنا
➓ کلی کرنا
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ داڑھی فطرتِ انبیاء اور سنتِ قدیمہ کا حصہ ہے۔
داڑھی بڑھانے کا حکم
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى.
(بخاری: ج2، ص875؛ مسلم: ج1، ص129)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مونچھیں اچھی طرح کتراؤ اور داڑھی بڑھاؤ۔”
صحیح مسلم کی ایک روایت میں الفاظ ہیں: "أوفوا اللحى” یعنی "داڑھی کو مکمل بڑھاؤ”۔
مختلف روایات میں الفاظ
امام نوویؒ لکھتے ہیں:
وأنه وقع عند ابن ماهان ارجوا، وجاء في رواية البخاري وفروا اللحى، فحصل خمس روايات: اعفوا، وأوفوا، وارخوا، وارجوا، و وفروا، ومعناها كلها تركها على حالها، هذا هو الظاهر من الحديث الذي تقتضيه ألفاظه.
(نووی، شرح مسلم: ج1، ص129)
یعنی داڑھی بڑھانے کے متعلق پانچ الفاظ وارد ہوئے ہیں:
اعفوا، اوفوا، ارخوا، ارجوا، وفروا اور ان سب کا مطلب ہے:
"داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دو” — یعنی نہ کاٹو، نہ مونڈو۔
داڑھی منڈوانے کی ممانعت
ان صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ داڑھی مونڈانا یا کترانا جائز نہیں۔ بلکہ داڑھی مونڈانا مجوسیوں (آتش پرستوں) کا عمل ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں فرمایا گیا:
"خالفوا المجوس”
یعنی "مجوسیوں کی مخالفت کرو۔”
کسی بھی صحیح حدیث میں داڑھی کترانے کی اجازت نہیں ملتی۔
ضعیف روایت کا ذکر
ترمذی میں عمرو بن شعیب، عن أبیہ، عن جدہ سے روایت ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا.
(ترمذی مع تحفة الأحوذی: ج4، ص11)
کہ رسول اللہ ﷺ اپنی داڑھی کی لمبائی اور چوڑائی سے کچھ بال کاٹ لیتے تھے۔ لیکن امام ترمذیؒ نے خود اس روایت کو غریب اور ضعیف قرار دیا ہے:
هذا حديث غريب، وسمعت محمد بن إسمعيل يقول: عمر بن هارون مقارب الحديث، لا أعرف له حديثا ليس له أصل، أو قال: ينفرد به إلا هذا الحديث.
(ترمذی مع تحفة الأحوذی: ج4، ص11)
امام عبدالرحمن مبارکپوریؒ لکھتے ہیں کہ عمر بن ہارون متروک راوی ہے، لہٰذا یہ روایت ضعیف اور ناقابلِ استدلال ہے۔
صحابہ کرام کا عمل
❀ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ مٹھی سے زائد بال کاٹ دیتے تھے۔
❀ حافظ ابن حجرؒ نے لکھا کہ حضرت عمرؓ نے بھی ایک شخص کی مٹھی سے زائد داڑھی کاٹ دی تھی۔
❀ اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ بھی مٹھی سے زائد داڑھی کتر دیتے تھے۔
علماء کے نزدیک کم از کم مٹھی بھر داڑھی رکھنا واجب ہے، جبکہ مٹھی سے زائد کترنے والے کو ملامت نہیں کی جا سکتی۔
البتہ داڑھی کو نہ کاٹنا افضل اور زیادہ محفوظ (اسلم) عمل ہے۔
خلاصہ
❀ داڑھی رکھنا انبیاء علیہم السلام کی سنت اور فطری عمل ہے۔
❀ داڑھی مونڈانا غیر اسلامی اور ناجائز عمل ہے۔
❀ کم از کم مٹھی بھر داڑھی رکھنا واجب ہے۔
❀ داڑھی کو اپنی قدرتی حالت پر چھوڑ دینا افضل ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب