وَعَنْهُ مَا قَالَ:رفع القلم عن الصبي حتى يبلغ والنائم حتى يستيقظ وعن المجنون حتى يفيق
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : ”قلم اٹھا لی گئی ہے بچے سے یہاں تک کہ بالغ ہو جائے، سوتے ہوئے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے ، مجنون سے یہاں تک کہ وہ ہوش میں آ جائے ۔
تحقیق و تخریج : یہ حدیث صحیح ہے ۔ یہ حدیث حضرت عائشہ، علی رضی اللہ عنہم اور دیگر بہت سے صحابہ سے مروی ہے، مسند امام احمد بن حنبل : 144، 100/6 ، ابوداود 4398 ، نسائی : 156/6 ، ابن ماجه : 2041، ابن حبان : 1494 مستدرك حاكم : 2/ 59 ، حاکم نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ذہبی نے اس کی موافقت کی ابوداود : 4399 ، 4403؛ ابن حیان 1497 مستدرك حاكم 389، 388/4
فوائد :
➊ اسلام میں تین افراد ایسے ہیں جو بری الذمہ ہیں، عرشی قلم ان کے نام آ جانے پر لکھنے کے لیے جھکتا نہیں ہے ۔
① نابالغ بچہ۔
② سویا ہوا انسان حتی کہ بیدار ہو جائے۔
③ پاگل جب تک صحیح نہ ہو جائے ۔
➋ ہر بچہ بچی معصوم پیدا ہوتے ہیں ۔ بالغ ہونے تک ان کی کوئی نقل و حرکت و افعال کا نوٹس نہیں کیا جاتا ان پر جتنے شرائع اسلام میں تادم بلوغت لاگو نہیں ہوتے ۔ البتہ تربیت دینے یا آداب و فرائض کا عادی بنانے کے لیے ان پر بقدرے سختی سے کام لیا جا سکتا ہے جیسے وضو نماز غسل روزے اخلاقیات اور احترام وتو قیر کرنے کی عادات کو بچوں میں مکمل طور پر راسخ کرنا ۔ لیکن شرعاًً بچے کوئی عمل بھی نہ کریں تو مجرم نہیں ہیں ۔
➌ نیند میں محو انسان مردہ سا ہوتا ہے نیند موت کی بہن ہے ۔ مردوہ میں اور سونے والے میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ مردہ سانس سے خالی ہوتا ہے اور اس میں سانس ہوتی ہے ۔ باقی کیفیت یکساں ہوتی ہے ۔ انسان جو کچھ بھی نیند کی حالت میں کرتا ہے اس کا مواخذہ نہیں ہوتا سوئے سوئے کسی کو گالی دینا تھپڑ مارنا یا خواب میں کسی کو قتل کر دینا ان تمام تر قباحتوں پر سونے والے کو حد یا سزا نہیں دی جا سکتی ۔ سونے سے قبل دھاری دار آلات کو پہنچ سے دور رکھنا ضروری ہے ۔ اکثر ایسے ہو جاتا ہے کہ عورتیں کڑہائی سلائی کا کام کرتے کرتے بستر پر سوئی یا کریشہ بغیر سنبھالے سو جاتی ہیں جو خطرناک انداز میں جسم میں پیوست ہو جاتا ہے ۔ اوقات نماز میں سو یا آدمی مجرم نہیں وہ جس وقت بیدار ہو گا اس وقت نماز کی ادائیگی کا ذمہ دار ٹھہرے گا ۔
➍ اسلام اس آدمی کو مکلف ٹھہراتا ہے جو عاقل بالغ مسلمان ہوتا ہے اور شرائع اسلام کو ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ ایک آدمی جو پاگل ہو حواس باختہ ہو شرعی امور کو سمجھنے اور اپنانے کا شعور نہ رکھتا ہو تو وہ آزاد ہے اس کا کوئی عمل قابل گرفت نہیں ہے اسلام نے ایسے انسان سے سزا و جزا کے ہاتھ اٹھا لیے ہیں ۔ اسی ضمن میں مرگی کا رورہ، حالت مرض میں بےہوشی اور آپریشن میں بےہوشی کا طاری ہونا بھی آ جاتا ہے کیونکہ ان حالات میں انسان اپنے آپ سے غافل ہوتا ہے ہاں ! پاگل دینی لحاظ سے درست ہو جائے یا کسی کو عارضی بےہوشی سے افاقہ مل جائے تو پھر اسلام کے شرائع شروع ہو جائیں گے ۔ پہلے تمام فرائض جو حالت غیر میں رہ گئے ان کی قضائی نہ ہو گی جو مکمل طور پر عرصہ دراز پاگل یا مجنون رہا بعد میں آپریشن کرانے سے یا تقدیر صحیح ہو گیا اس پر روزے نماز وغیرہ کی قضائی نہیں ۔ جو عارضی بے ہوش رہا تین دن سے کم مدت میں تو اس دوران نماز روزہ کی قضائی ہو گی قضائی صرف نماز کے فرائض کی ہوتی ہے نہ کہ سنن و نوافل کی ۔
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : ”قلم اٹھا لی گئی ہے بچے سے یہاں تک کہ بالغ ہو جائے، سوتے ہوئے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے ، مجنون سے یہاں تک کہ وہ ہوش میں آ جائے ۔
تحقیق و تخریج : یہ حدیث صحیح ہے ۔ یہ حدیث حضرت عائشہ، علی رضی اللہ عنہم اور دیگر بہت سے صحابہ سے مروی ہے، مسند امام احمد بن حنبل : 144، 100/6 ، ابوداود 4398 ، نسائی : 156/6 ، ابن ماجه : 2041، ابن حبان : 1494 مستدرك حاكم : 2/ 59 ، حاکم نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ذہبی نے اس کی موافقت کی ابوداود : 4399 ، 4403؛ ابن حیان 1497 مستدرك حاكم 389، 388/4
فوائد :
➊ اسلام میں تین افراد ایسے ہیں جو بری الذمہ ہیں، عرشی قلم ان کے نام آ جانے پر لکھنے کے لیے جھکتا نہیں ہے ۔
① نابالغ بچہ۔
② سویا ہوا انسان حتی کہ بیدار ہو جائے۔
③ پاگل جب تک صحیح نہ ہو جائے ۔
➋ ہر بچہ بچی معصوم پیدا ہوتے ہیں ۔ بالغ ہونے تک ان کی کوئی نقل و حرکت و افعال کا نوٹس نہیں کیا جاتا ان پر جتنے شرائع اسلام میں تادم بلوغت لاگو نہیں ہوتے ۔ البتہ تربیت دینے یا آداب و فرائض کا عادی بنانے کے لیے ان پر بقدرے سختی سے کام لیا جا سکتا ہے جیسے وضو نماز غسل روزے اخلاقیات اور احترام وتو قیر کرنے کی عادات کو بچوں میں مکمل طور پر راسخ کرنا ۔ لیکن شرعاًً بچے کوئی عمل بھی نہ کریں تو مجرم نہیں ہیں ۔
➌ نیند میں محو انسان مردہ سا ہوتا ہے نیند موت کی بہن ہے ۔ مردوہ میں اور سونے والے میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ مردہ سانس سے خالی ہوتا ہے اور اس میں سانس ہوتی ہے ۔ باقی کیفیت یکساں ہوتی ہے ۔ انسان جو کچھ بھی نیند کی حالت میں کرتا ہے اس کا مواخذہ نہیں ہوتا سوئے سوئے کسی کو گالی دینا تھپڑ مارنا یا خواب میں کسی کو قتل کر دینا ان تمام تر قباحتوں پر سونے والے کو حد یا سزا نہیں دی جا سکتی ۔ سونے سے قبل دھاری دار آلات کو پہنچ سے دور رکھنا ضروری ہے ۔ اکثر ایسے ہو جاتا ہے کہ عورتیں کڑہائی سلائی کا کام کرتے کرتے بستر پر سوئی یا کریشہ بغیر سنبھالے سو جاتی ہیں جو خطرناک انداز میں جسم میں پیوست ہو جاتا ہے ۔ اوقات نماز میں سو یا آدمی مجرم نہیں وہ جس وقت بیدار ہو گا اس وقت نماز کی ادائیگی کا ذمہ دار ٹھہرے گا ۔
➍ اسلام اس آدمی کو مکلف ٹھہراتا ہے جو عاقل بالغ مسلمان ہوتا ہے اور شرائع اسلام کو ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ ایک آدمی جو پاگل ہو حواس باختہ ہو شرعی امور کو سمجھنے اور اپنانے کا شعور نہ رکھتا ہو تو وہ آزاد ہے اس کا کوئی عمل قابل گرفت نہیں ہے اسلام نے ایسے انسان سے سزا و جزا کے ہاتھ اٹھا لیے ہیں ۔ اسی ضمن میں مرگی کا رورہ، حالت مرض میں بےہوشی اور آپریشن میں بےہوشی کا طاری ہونا بھی آ جاتا ہے کیونکہ ان حالات میں انسان اپنے آپ سے غافل ہوتا ہے ہاں ! پاگل دینی لحاظ سے درست ہو جائے یا کسی کو عارضی بےہوشی سے افاقہ مل جائے تو پھر اسلام کے شرائع شروع ہو جائیں گے ۔ پہلے تمام فرائض جو حالت غیر میں رہ گئے ان کی قضائی نہ ہو گی جو مکمل طور پر عرصہ دراز پاگل یا مجنون رہا بعد میں آپریشن کرانے سے یا تقدیر صحیح ہو گیا اس پر روزے نماز وغیرہ کی قضائی نہیں ۔ جو عارضی بے ہوش رہا تین دن سے کم مدت میں تو اس دوران نماز روزہ کی قضائی ہو گی قضائی صرف نماز کے فرائض کی ہوتی ہے نہ کہ سنن و نوافل کی ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]