سوال:
اگر کوئی اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے لیے غسل کرنا کیسا ہے؟
جواب:
اسلام قبول کرنے والے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے، جیسا کہ قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إِنَّه أَسْلَمَ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَّغْسِلَ بِمَاءٍ وَّسِدْرٍ .
”وہ مسلمان ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل کرنے کا حکم دیا۔ “
[ مسند الإمام أحمد : 2611، سنن أبى داؤد : 355، سنن النسائي : 188، سنن الترمذي : 605، وقال : حسنٌ، وسندهٗ حسنٌ ]
↰ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (254، 255)، امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 1240) اور امام ابن جارود (14) رحمہم اللہ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، يَسْتَحِبُّونَ لِلرَّجُلِ إِذَا أَسْلَمَ أَنْ يَّغْتَسِلَ وَيَغْسِلَ ثِيَابَه.
”اہلِ علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ جب کوئی شخص مسلمان ہو جائے تو وہ اس کے لیے غسل کرنا اور اپنے کپڑے دھونا مستحب سمجھتے ہیں۔ “
[سنن الترمذي، تحت الحديث : 605 ]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ثُمَامَہ بن اُثال رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِذْهَبُوا بِه إِلٰي حَائِطِ بَنِي فُلَانٍ، فَمُرُوهُ أَنْ يَّغْتَسِلَ
”اسے فلاں شخص کے باغ میں لے جاؤ اور غسل کرنے کا کہو۔ “
[ مسند الإمام أحمد : 304/2، وسندهٗ قويٌّ ]