اسلام قبول اور ترک کرنے والوں کے لیے مختلف سزائیں
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

دین بدلنے کی سزا

سوال: اگر کوئی اسلام سے پھرتا ہے تو اس کی سزا تو قتل ہے لیکن جو اسلام قبول کرتا ہے، اس کی یہ سزا کیوں نہیں؟
جواب: جو دین اسلام قبول کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس کی بندگی کو عملی طور پر اپنا کر اور اس کے اس دین کو خلوص کے ساتھ قبول کر کے اس کی اطاعت کا ثبوت دیتا ہے کہ جسے قبول کرنا اور اس پر ایمان لانا جنوں اور انسانوں میں سے ہر مکلف پر واجب ہے، اور یہ خالق کا اپنی مخلوق پر حق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ» [الذاريات: 56]
”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔“
نیز فرمایا:
«إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ» [آل عمران: 19]
”بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔“
«وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ» [آل عمران: 85]
”اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں سے ہوگا۔“
اس کا ثواب بیان کرتے ہوئے جو اسلام میں داخل ہوتا ہے، ایمان اس کے دل میں جاگزیں ہو جاتا ہے اور نیک اعمال کی صورت میں اس کا اثر اس کے اعضا پر ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ‎ ﴿١٠٧﴾ ‏ خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا» [الكهف: 108,107]
”بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے فردوس کے باغ مہمانی ہوں گے۔“
نیز فرمایا:
«يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ» [الأعراف: 35]
”اے آدم کی اولاد ! اگر کبھی تمہارے پاس واقعی تم میں سے کچھ رسول آئیں، جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کریں تو جو شخص ڈر گیا اور اس نے اصلاح کر لی تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غم کھائیں گے۔“
پھر فرمایا:
«فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ» [طه: 123]
”پھر اگر کبھی واقعی تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔“
نیز فرمایا:
«مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ» [النحل: 97]
”جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناًً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے پاکیزہ زندگی، اور یقیناً ہم انہیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔“
اس مفہوم کی آیات بہت زیادہ ہیں۔ یہ اس شخص کی جزا ہے جو اسلام قبول کرتا ہے۔ اللہ کے رب ہونے، محمد صلى اللہ علیہ وسلم کے نبی اور رسول ہونے، اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوتا، اس کی جزا: ہدایت، نور، دنیا و آخرت میں پاکیزہ زندگی اور جنت کی نعمتوں کا ملنا، اللہ کی رضا کا حصول اور جہنم سے نجات ہے۔
لیکن جو معاملہ الٹ کر دیتا اور آسمان سے نازل ہونے والے حق سے پھر جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے حکم کی مخالفت کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا میں قتل کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے اور آخرت میں جہنم کے ہمیشہ کے عذاب کا سزا وار۔ جس طرح اس بات کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے:
«وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» [البقرة: 217]
”اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے، پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہو گئے اور یہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
[اللجنة الدائمة: 21166]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1