اسلامی نقطۂ نظر سے طوطی کا حکم: حلال یا حرام؟
📚ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 865

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرح متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ طوطی حلال پرندہ ہے یا حرام؟ بینوا توجروا۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طوطی یا دیگر پرندوں کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق ایک بنیادی ضابطہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے:

وہی پرندہ حرام ہوگا جس کے بارے میں کتاب و سنت میں صریح نص موجود ہو، یعنی اس پرندے کا نام لے کر اسے حرام قرار دیا گیا ہو۔
مثال کے طور پر:
کوا
گدھ
وغیرہ۔

◈ اسی طرح وہ تمام پرندے حرام ہیں جو "کل ذی مخلب من الطیر” کے عمومی ضابطہ میں آتے ہیں، یعنی:

"ہر وہ پرندہ جو پنجے کے ساتھ شکار کرتا ہو، وہ حرام ہے۔”

◈ مزید یہ کہ وہ پرندے بھی حرام ہیں جن کے بارے میں شریعت نے قتل کرنے کا حکم دیا ہو۔

طوطی کے متعلق شرعی حکم

اوپر بیان کردہ اصول کی روشنی میں جب ہم غور کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ:

طوطی کے بارے میں شریعت میں کوئی ایسی نص نہیں جس میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہو یا اسے مارنے کا حکم دیا گیا ہو۔
◈ نیز، تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ طوطی ذی مخلب نہیں، یعنی وہ پنجے سے شکار نہیں کرتا۔
◈ البتہ پنجے سے پکڑ کر کھاتا ضرور ہے، مگر اس سے وہ ذی مخلب کے زمرے میں داخل نہیں ہوتا۔

علماء کے اقوال

علامہ الدمیری کی مشہور کتاب "حیوة الحیوان” میں طوطی کے بارے میں اختلافِ رائے نقل کیا گیا ہے:

بعض علماء کے نزدیک طوطی حلال ہے۔
بعض کے نزدیک وہ حرام ہے۔

تاہم حرام کہنے والا قول چنداں قوی نہیں،
جبکہ حلال والا قول زیادہ مضبوط اور درست ہے۔

مزید تفصیل کے لیے:
ابن قدامہ کی کتاب "المغنی”
◄ اور دیگر متعلقہ کتب
کا مطالعہ مفید رہے گا۔

خلاصہ

احقر کے نزدیک طوطی حرام نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے