ذوالارحام
سوال:
ذوالارحام کی تعریف اور ان کی وراثت میں اختلاف بیان کریں؟
جواب:
تعریف: وہ قریبی رشتہ دار جو اصحاب الفرائض یا عصبات میں سے نہ ہوں۔ مثلاً ماموں، خالہ اور پھوپھی وغیرہ۔
وراثت میں اختلاف: ذوالارحام کی وراثت میں دو مذہب ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
① وراثت سے محروم: ایک جماعت کے نزدیک ذوالارحام وارث نہیں بنتے اور اصحاب الفرائض یا عصبات کی عدم موجودگی میں ترکہ بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا۔ اس کے قائل حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عثمان، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم ، سعید بن مسیب، سعید بن جبیر، امام شافعی اور امام مالک رحمہ اللہ عنہم ہیں۔
② وراثت کے مستحق: ایک جماعت کے نزدیک اصحاب الفرائض یا عصبات کی عدم موجودگی میں ذوالارحام وارث بنتے ہیں۔ اس کے قائل اکثر صحابہ کرام جیسے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم ہیں۔
اور یہی نظریہ عمر بن عبد العزیز، شریح، عطاء، طاووس، علقمہ، ابن سیرین، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ عنہم اور بہت سے علماء و فقہاء کا ہے، حتیٰ کہ تیسری صدی ہجری کے بعد بیت المال کا نظام درہم برہم ہونے کی بنا پر چاروں مذاہب اس پر متفق ہو گئے ہیں۔
ملاحظہ: عقلی اور نقلی اعتبار سے دوسرا مذہب راجح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ﴾
”کتاب اللہ میں رشتے دار ایک دوسرے کے (وراثت میں) زیادہ حقدار ہیں۔“
(الانفال 8 : 75)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الخال وارث من لا وارث له
”ماموں وارث ہوگا جس کا کوئی (اصحاب الفرائض یا عصبات میں سے) وارث نہ ہو۔“
(سنن ابی داود، الفرائض، باب فی میراث ذوی الأرحام، حدیث: 2899؛ سنن ابن ماجہ، الفرائض، باب ذوی الأرحام، حدیث: 2738)
عقل بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ ذوالارحام کے میت سے خونی اور اسلامی رشتہ کے دو تعلق ہیں، اور بیت المال کے ساتھ اسلامی والا صرف ایک تعلق ہے۔ اور دو تعلق والا ایک تعلق والے سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔
سوال :
وراست ذوالارحام کی شرائط اور طریقہ تقسیم میں اختلاف ذکر کریں؟
جواب :
وراثت ذوالارحام کی شرائط: ① کوئی صاحب فرض موجود نہ ہو کیونکہ باقی ماندہ ترکہ انہی پر رد ہو جاتا ہے، سوائے زوجین کے کیونکہ ان پر رد نہیں ہوتا۔
② کوئی عصبہ وارث موجود نہ ہو۔
طریقہ تقسیم میں اختلاف: ذوالارحام کی وراثت کے طریقہ تقسیم میں علماء کے مندرجہ ذیل تین گروہ ہیں:
① اہل رحم: ان کے نزدیک تمام موجودہ ذوالارحام میں ترکہ برابر تقسیم کیا جائے گا اور مذکر و مونث، قریب و بعید اور قوی و ضعیف میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔ مثلاً میت نواسہ، نواسی، ماموں، پھوپھی، بھانجا اور بھانجی چھوڑ کر فوت ہوئی تو کل افراد چھ ہیں، اس لیے مسئلہ ”6“ بنایا جائے گا اور ہر ایک کو ایک ملے گا۔
② اہل قرابت: ان کے نزدیک ذوالارحام میں پہلے قرب کا درجہ پھر قوت قرابت کا اعتبار کیا جائے گا اور مذکر و مونث میں فرق ”لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ“ کے مطابق کیا جائے گا۔ مثلاً ایک آدمی بیوی، نواسی اور نواسی کا بیٹا چھوڑ کر فوت ہوا یا ایک آدمی نواسی اور نواسہ چھوڑ کر فوت ہوا تو مسئلہ کا حل مندرجہ ذیل ہوگا:
③ اہل تنزیل: ان کے نزدیک ذوالارحام کو ان اصحاب الفرائض یا عصبات کی جگہ اتارا جائے گا جن کی وجہ سے یہ میت کی طرف منسوب ہیں، مثلاً بیٹیوں کی اولاد بیٹیوں کے قائم مقام اور بہنوں کی اولاد بہنوں کے قائم مقام ہوگی۔
ملاحظہ: دلائل کے اعتبار سے اہل تنزیل کا طریقہ تقسیم راجح ہے اور جمہور علماء، تابعین اور ائمہ کا یہی نظریہ ہے۔
ذوالارحام کی اقسام: ان کی مندرجہ ذیل چار اقسام ہیں:
① جس کو میت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، جیسے بیٹیوں، پوتیوں یا پڑپوتیوں کی اولاد۔
② میت کو جس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، مثلاً جد فاسد (نانا، دادی کا باپ وغیرہ) اور جدہ فاسدہ (نانا کی ماں وغیرہ)۔
③ جن کو میت کے والدین کی طرف منسوب کیا جائے، جیسے مطلق بہنوں کی اولاد، حقیقی یا پدری بھائیوں کی بیٹیاں وغیرہ۔
④ جن کو میت کے دادا یا دادی کی طرف منسوب کیا جائے، جیسے پھوپھی، خالہ، ماموں وغیرہ۔
ترتیب تقسیم: ① اگر ذوالارحام میں سے صرف ایک فرد ہو تو وہ اکیلا تمام ترکہ لے گا۔
② اگر ایک سے زیادہ ہوں اور تمام ایک ہی مرتبہ کے ہوں تو ترکہ ان کے درمیان برابر تقسیم کیا جائے گا اور مذکر و مونث میں برابری کے ساتھ تقسیم کیا جائے گا۔ مثلاً تین نواسیاں اور ایک نواسہ ہو تو مسئلہ ”4“ سے بنے گا اور ہر ایک کو برابر حصہ ملے گا۔
③ اگر ایک سے زیادہ ہوں اور ان کے مراتب مختلف ہوں تو مراتب کے اعتبار سے ترکہ تقسیم کیا جائے گا۔ مدلي به جس کی (وجہ سے میت کا وارث بنتا ہے)کو میت تصور کر کے حصص معلوم کیے جائیں گے۔ مثلاً میت تین خالہ (مختلف) چھوڑ کر فوت ہوئی:
خالائیں ماں کی وجہ سے میت کی طرف منسوب ہیں تو مدلي به (ماں) کو میت تصور کر کے مسئلہ نکالا تو گویا کہ میت کی حقیقی، پدری اور مادری تین بہنیں وارث ہوئیں۔
④ جب ذوالارحام کے ساتھ خاوند یا بیوی میں سے کوئی ہو تو وہ اپنا فرضی حصہ لے گا اور باقی ذوالارحام کے درمیان مذکورہ اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ مثلاً میت بیوی اور تین نواسے چھوڑ کر فوت ہوئی:
⑤ جس کو میت سے دو قرابتیں حاصل ہوں وہ دونوں کی وجہ سے وارث بنے گا۔ مثلاً میت ذوالارحام وارث چھوڑ کر فوت ہوئی کہ ایک نواسی کا بیٹا اور وہی نواسے کا بیٹا بھی ہے اور دوسری صرف نواسی کی بیٹی ہے: