اسلامی عقائد اور سرمایہ دارانہ نظریات کا تقابلی جائزہ

اسلامی فکر میں عقائد اور نظریات کا فرق

اسلامی فکر میں ایک بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ عقائد اور نظریات کو ایک دوسرے سے گڈمڈ کر دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً، نظریاتی اختلافات کو عقائد کا اختلاف سمجھ کر دوسروں پر کفر کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔

عقائد کی وضاحت

عقائد سے مراد بنیادی اسلامی ایمانیات ہیں، جن میں ایمان باللہ، ایمان بالرسالت، قبر، قیامت، جنت، دوزخ وغیرہ شامل ہیں۔ ان عقائد پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لیے لازمی ہے۔ جو ان عقائد سے انکار کرے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے اور اسے کافر کہا جا سکتا ہے۔

نظریات کی وضاحت

نظریات وہ تصورات ہیں جو عقائد کی وضاحت اور ان پر عمل درآمد کے لیے مختلف ہو سکتے ہیں، جیسے دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث کے اختلافات۔ یہ نظریاتی اختلافات ہیں، اعتقادی نہیں، لہٰذا ان کی بنیاد پر کسی کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔

سرمایہ دارانہ نظام کے عقائد

سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی کے تین بنیادی عقائد درج ذیل ہیں:

  • آزادی (Freedom)
  • مساوات (Equality)
  • ترقی (Progress)

1. آزادی (Freedom)

آزادی، سرمایہ دارانہ فکر میں ایک بنیادی نظریہ ہے، جسے یورپ میں 18ویں صدی میں ڈیکارٹ (Descartes) اور کانٹ (Kant) جیسے فلسفیوں نے متعارف کرایا۔ ان کے مطابق انسان حقائق کا خود ادراک کر سکتا ہے اور خدا کا محتاج نہیں۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی خواہشات پوری کرنے کا مکمل اختیار ہو۔

  • سرمایہ دارانہ آزادی کے تحت ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ دوسرے افراد کی آزادی متاثر نہ ہو۔
  • اس اصول کے تحت زنا با الرضا جائز ہے، لیکن چوری جائز نہیں، کیونکہ چوری سے دوسروں کا نقصان ہوتا ہے۔

آزادی کی اسلام کاری کا مسئلہ

کچھ مسلمان آزادی کے مغربی تصور کو اسلامی بنا کر پیش کرتے ہیں کہ اس کا مطلب لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کا بندہ بنانا ہے۔ لیکن حقیقت میں سرمایہ دارانہ آزادی انسان کو خدا کی غلامی سے نکال کر خواہشات کا غلام بنا دیتی ہے۔

2. مساوات (Equality)

سرمایہ دارانہ مساوات کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی مطلق العنان خودمختاری کا دعویٰ کرنے میں برابر ہے اور سرمایہ کی دوڑ میں شامل ہونے پر مجبور ہے۔

  • مساوات سے مراد یہ نہیں کہ وسائل یا مواقع برابر ہوں، بلکہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اصولی طور پر سرمایہ بڑھانے کے مواقع میسر ہوں۔
  • عملی طور پر یہ مساوات موجود نہیں ہوتی، کیونکہ معاشرتی نظام میں دولت اور وسائل چند لوگوں کے پاس جمع ہو جاتے ہیں۔

3. ترقی (Progress)

ترقی کا مطلب سرمایہ کی مسلسل بڑھوتری ہے۔ سرمایہ دارانہ فکر میں ترقی کا مطلب صرف معاشرتی لذتوں (Pleasures) میں اضافہ ہے، جسے GNP (Gross National Production) اور دیگر معاشی پیمانوں سے ناپا جاتا ہے۔

  • سرمایہ دارانہ ترقی کا مقصد معاشرے میں زیادہ سے زیادہ خرچ (Consumption) اور لذت حاصل کرنا ہے۔
  • اسلامی نقطہ نظر سے ترقی کو صرف مادی پیمانے پر ناپنا، انسان کو خواہشات کا غلام بنانا ہے، جو اسلامی اصولوں سے متصادم ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام اور اسلامی فکر

اسلام، آزادی، مساوات، اور ترقی کے سرمایہ دارانہ تصورات کو کلی طور پر مسترد کرتا ہے۔ اسلامی نظام میں:

  • آزادی کا مطلب اللہ کے احکامات کے تابع رہنا ہے۔
  • مساوات کا مطلب تقویٰ کی بنیاد پر برتری تسلیم کرنا ہے، نہ کہ معاشی مساوات۔
  • ترقی کا مطلب مادی لذتوں کے بجائے روحانی اور اخلاقی ترقی ہے۔

سرمایہ دارانہ عدل کا دھوکہ

سرمایہ دارانہ نظام، Human Rights اور Social Rights کے ذریعے مساوات اور انصاف کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن عملی طور پر یہ معاشرتی ناہمواری اور دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا باعث بنتا ہے۔

  • Human Rights میں زندگی، آزادیٔ اظہار، اور حق ملکیت شامل ہیں، لیکن یہ حقوق صرف انہی لوگوں کو مکمل حاصل ہوتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام میں مکمل طور پر شامل ہوں۔
  • Social Rights، جیسے اجتماعی سودے بازی کا حق، سوشل ڈیموکریسی اور فلاحی حقوق کے ذریعے محدود انصاف فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کے ارتکاز کو ختم نہیں کر سکتے۔

سرمایہ دارانہ ترقی کی اسلام کاری

کچھ اسلامی جماعتیں آج سرمایہ دارانہ ترقی کے اصولوں کو اپنانے اور ان کی اسلام کاری کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن یہ اسلامی مقاصدِ شریعت کے خلاف ہے۔ جب تک آزادی، مساوات اور ترقی کے سرمایہ دارانہ تصورات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جاتا، تب تک دین اسلام کا تحفظ اور غلبہ ممکن نہیں۔

نتیجہ

سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد آزادی، مساوات اور ترقی پر ہے، جو انسانی خواہشات کو خدا کی ہدایت پر فوقیت دیتا ہے۔ اسلامی جدوجہد کا اصل مقصد انسانوں کو مسلمان بنانا ہے، نہ کہ انہیں سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بنانا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1