اسلامی نظام عدالت میں وکیل کی جگہ
اسلامی نظام عدالت میں وکیل کی یہی جگہ ہے کہ وہ دو جھگڑنے والوں یعنی مدعی اور مدعٰی علیہ میں سے جس کے دفاع کی ذمے داری لیتا ہے اس کا وکیل ہے، لہٰذا اس پر اور اس کے موکل پر لازم ہے کہ وہ طلب حق میں اعتدال سے کام لے اور مخالف کے ساتھ انصاف کرے۔ اگر وہ دونوں اس کا التزام کریں تو یہ ان دونوں کے لیے بہتر ہے اور اس میں جھگڑوں کے مقدمات نپٹانے میں فیصلہ کرنے والے اور فیصلے کی بھی اعانت ہے۔
اگر مخالف یا اس کا وکیل خود غرضی اور غلبہ پانے کی خواہش رکھتے ہوئے، خواہ یہ باطل کے ساتھ ہی ہو اور دولت کمانے کے لیے چاہے حرام ہی کی ہو، مقدمے میں تلبیس، فریب کاری اور جھگڑے سے کام لیتا ہے، تو یہ دونوں گناہ گار بھی ہوئے۔ انہوں نے باطل طریقے سے لوگوں کا مال بھی کھایا اور جج کو حیرانی اور الجھاؤ کا شکار بھی بنا دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور مہربانی سے اس کو نہ نوازے اور اس کو سیدھی راہ کی توفیق نہ دے تو شائد وہ اس مقدمے میں حق کے ساتھ فیصلہ نہ کر پائے۔
[اللجنة الدائمة: 3339]