اسلامی دنیا میں الحاد: ایک پیچیدہ بحث
اسلامی دنیا میں الحاد کا موضوع ایک پیچیدہ اور گنجلک بحث ہے جس کے مختلف پہلو اور تہہ در تہہ ابہامات ہیں۔ اس مسئلے کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے مسلم دنیا میں موجود ملحدین کی دو بڑی اقسام کو درج ذیل انداز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1. واضح طور پر مذہب کے منکرین
یہ وہ افراد ہیں جو مغربی ملحدین کی طرح مذہب کے مکمل انکار کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک موجودہ دور کی ترقی اور جدیدیت نے مذہب کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے، اور ان کے خیال میں اب دنیا مذہب سے بے نیاز ہو چکی ہے۔ ایسے لوگ اسلامی ممالک اور مسلم معاشرے میں رہتے ہوئے اپنا الحاد عموماً دل میں چھپائے رکھتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا پر فرضی ناموں کے تحت اظہار کرتے ہیں۔ کھلم کھلا مذہب کا انکار ان کے لیے مشکل ہے، کیونکہ اس سے معاشرتی اور قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
2. نیم ملحدین
اس دوسری قسم کے افراد کو "نیم ملحد” کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو داغ دہلوی کے اس مصرعے کے مطابق چلتے ہیں: "صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں”۔ ان کے خیالات کا اظہار مختلف انداز میں ہوتا ہے:
(1) مذہب کو نجی معاملہ قرار دینے والے
یہ وہ افراد ہیں جو بظاہر اسلام سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی سیکولرزم اور لبرلزم کے پردے میں مذہب کو صرف ایک نجی معاملہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مذہب کا معاشرتی، حکومتی اور ریاستی معاملات میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرزِ فکر کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کی عمومی افادیت اور انسانیت کے مسائل کے حل میں اس کی صداقت کا انکار کیا جائے۔ جبکہ اسلام ایک جامع نظام ہے جو زندگی کے ہر پہلو کو محیط کرتا ہے، اور اس میں کسی بھی حکم کا انکار، چاہے وہ زکوٰۃ جیسا حکم ہی کیوں نہ ہو، اسلام کے انکار کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
(2) سائنس اور مذہب کے متضاد ہونے کا نظریہ
یہ وہ لوگ ہیں جو بظاہر اسلام کو مانتے ہیں لیکن اس بات کے قائل ہیں کہ موجودہ دور میں مذہب کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ان کے خیال میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں مذہب کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اس نظریے کا مطلب یہ ہے کہ مسائل کے حل کے لیے مذہب کی بجائے دوسرے نظاموں پر انحصار کیا جائے۔ مذہب کو صرف ایک آثار قدیمہ کی طرح محفوظ رکھنا اور اس سے وابستگی ظاہر کرنا لیکن عملی زندگی میں اس کے احکام پر عمل نہ کرنا، دراصل ایک قسم کا انکار ہی ہے۔
(3) "اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے” کے حامی
یہ وہ افراد ہیں جو ایک طرف اسلام کا اقرار کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف معیشت، سیاست اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مغربی فلسفوں کو اپنانے پر زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک خدا اور مذہب کے انکار پر مبنی سوشلزم اور لبرل جمہوریت جیسے نظام ہی جدید زندگی کے لیے موزوں ہیں۔ یہ لوگ مغربی سوشل سائنسز اور معاشرتی اقدار کو ترقی کی علامت سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
(4) اسلامی احکامات میں مغربی فلسفے کے مطابق ترمیم کرنے والے
یہ وہ افراد ہیں جو اسلامی احکامات کو مغربی فکر و فلسفے کے مطابق ڈھالنے کے قائل ہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ایسے افراد اسلامی مفکرین کی طرح اجتہادی بصیرت کے ساتھ نہیں چلتے، جو شریعت کے مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اسلامی احکام میں تبدیلی کرتے ہیں۔ بلکہ یہ لوگ دراصل مغربی نظریات کے حامی ہوتے ہیں اور اسلام کو اس حد تک ترمیم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ مغربی فلسفے کے موافق نظر آئے۔ ایسے افراد کا اصل مقصد مذہب کو انسان کی عقل کی ایک تخلیق کے طور پر پیش کرنا ہے، اور ان کے نزدیک مذہب کا نام صرف سماجی دباؤ کی وجہ سے برقرار رکھا گیا ہے۔
نتیجہ
اسلامی دنیا میں الحاد کی مختلف شکلیں اور پہلو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ الحادی رجحانات کی جڑیں محض فکری اختلاف تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ان میں سماجی، معاشرتی اور نفسیاتی عوامل بھی شامل ہیں۔ اس مسئلے کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے پیچھے موجود نظریاتی اور فکری چیلنجز کا ادراک کریں اور اسلامی اصولوں کے مطابق ان کا سامنا کریں۔