سوال
موجودہ حالات کے تناظر میں اسرائیلی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کرنا کیسا ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
کفار اور فجار کا اصل مقصد دنیاوی مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے، اور وہ دنیاوی نقصان یا بائیکاٹ سے بہت زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں یقیناً اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے، لیکن یہ بائیکاٹ انفرادی سطح کے بجائے عالمی سطح، یعنی حکومتی سطح پر مؤثر ہوگا۔ اس میں ان کے سفارت خانوں کے ساتھ ساتھ ان کی مصنوعات کا بھی بائیکاٹ شامل ہونا چاہیے۔
اگرچہ انفرادی کوششیں اچھی ہیں، لیکن ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم، یہ ایک حقیقت ہے کہ بائیکاٹ ان کو بے حد متاثر کرتا ہے اور ان کے نظام کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
اس کی مثال سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے بائیکاٹ سے ملتی ہے۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد فرمایا:
"وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”
(صحیح البخاری 4372)
ترجمہ:
اللہ کی قسم! اب تمہارے ہاں یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا، جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دے دیں۔
یہ بائیکاٹ سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک عملی اقدام تھا۔