استعمال شدہ پانی کو صاف کر کے دوبارہ استعمال کرنے کا مسئلہ
سوال:
استعمال شدہ پانی کو صاف کر کے دوبارہ استعمال کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ خاص طور پر وہ پانی جو کسی آبادی سے خارج ہونے والا گندہ پانی ہو اور جسے میکانی تحلیل و تصفیہ (mechanical treatment and purification) کے ذریعے صاف کر کے دوبارہ پینے یا دیگر ضروریات میں استعمال کرنے کا ارادہ ہو۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حاجی صاحب نے علی گڑھ سے واپسی کے کچھ دن بعد ایک رقعہ دکھایا تھا جس میں آپ نے یہ سوال کیا ہے کہ آیا کسی بھی آبادی سے خارج ہونے والے گندے پانی کو میکانی تحلیل و تصفیہ کے بعد دوبارہ پینے یا دیگر ضروری ضروریات کے لیے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں۔
فقہی نقطۂ نظر:
◈ اس بارے میں مختصراً عرض ہے کہ آنحضرت ﷺ کے فضلات (یعنی جسمانی فضلہ جات) کے بارے میں تقریباً تمام مذاہب اربعہ (چاروں فقہی مذاہب) کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ طاہر (پاک) ہیں۔
اس کی بنیاد اس روایت پر ہے:
"ان عبدالله بن الزبير شرب دم حجامة النبى صلى الله عليه وسلم وام ايمن شربت بول النبى صلى الله عليه وسلم”
◈ لیکن آنحضرت ﷺ کے علاوہ دوسرے تمام انسانوں کے فضلات کے بارے میں پوری امت کا اتفاق ہے کہ وہ نجس (ناپاک) ہیں۔
◈ ان فضلات کی نجاست اور ان کا قبل اور دبر سے اخراج ہی ان کے حرام ہونے کی اصل علت اور منع کی بنیاد ہے۔
◈ یہاں ایک اہم نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ کیمیائی تحلیل و تصفیہ کے ذریعے نجاست ختم نہیں ہوتی۔ یعنی صرف سائنسی صفائی یا فلٹریشن سے پانی پاک نہیں ہو جاتا۔
نتیجہ:
◈ لہٰذا میری رائے میں ایسے پانی کا کسی بھی صورت میں پینے (شرباً) یا کھانے (اکلاً) کے طور پر استعمال درست نہیں ہے۔
◈ البتہ اگر واقعی شرعی مجبوری (اضطرار بشرعی) کی حالت ہو تو پھر اس سے متعلق اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
◈ آپ نے خود بھی اس مسئلہ پر ضرور غور و فکر کیا ہوگا، لہٰذا آپ جس نتیجے پر پہنچے ہوں، مجھے بھی مطلع کرنے کی زحمت گوارا فرمائیں۔
(دستخط: عبیداللہ رحمانی – 7؍3؍1402ھ / 5؍1؍1982ء)
مکاتیب شیخ رحمانی بنام مولانا امین اللہ اثری، صفحہ: 147-148
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب