کیا اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی ہے؟
سوال
جنگ خلیج کے دوران کچھ لوگوں نے اسباب اختیار کیے جبکہ کچھ نے انہیں ترک کر کے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے:
کیا اسباب کا اختیار کرنا توکل کے خلاف ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مقدمہ: مومن کی ذمہ داری
مومن پر لازم ہے کہ وہ اپنے دل کو اللہ عزوجل کے ساتھ وابستہ رکھے، اور منفعت حاصل کرنے اور نقصان سے بچنے کے لیے مکمل طور پر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے۔ اللہ وحدہ لا شریک کے ہی ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلِلَّهِ غَيبُ السَّمـوتِ وَالأَرضِ وَإِلَيهِ يُرجَعُ الأَمرُ كُلُّهُ فَاعبُدهُ وَتَوَكَّل عَلَيهِ وَما رَبُّكَ بِغـفِلٍ عَمّا تَعمَلونَ﴾ سورة هود: 123
’’اور آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم اللہ ہی کو ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسا رکھواور جو کچھ تم کر رہے ہو تمہارا پروردگار اس سے بے خبر نہیں۔‘‘
انبیاء کا طرز عمل
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو یہ تعلیم دی:
﴿وَقالَ موسى يـقَومِ إِن كُنتُم ءامَنتُم بِاللَّهِ فَعَلَيهِ تَوَكَّلوا إِن كُنتُم مُسلِمينَ ﴿٨٤﴾ فَقالوا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلنا رَبَّنا لا تَجعَلنا فِتنَةً لِلقَومِ الظّـلِمينَ ﴿٨٥﴾ وَنَجِّنا بِرَحمَتِكَ مِنَ القَومِ الكـفِرينَ ﴿٨٦
سورة يونس: 84-86
’’اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اگر (دل سے) فرمانبردار ہو تو اسی پر بھروسا رکھو۔ تب وہ بولے کہ ہم اللہ ہی پر بھروسا رکھتے ہیں، اے ہمارے پروردگار! ہم کو ظالم لوگوں کے ہاتھوں آزمائش میں نہ ڈال اور اپنی رحمت سے قوم کفار سے نجات بخش۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ﴾ سورة آل عمران: 160
’’اور مومنوں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسا رکھیں۔‘‘
اور مزید فرمایا:
﴿وَمَن يَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسبُهُ إِنَّ اللَّهَ بـلِغُ أَمرِهِ قَد جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَىءٍ قَدرًا﴾ سورة الطلاق: 3
’’اور جو اللہ پر بھروسا رکھے گا تو وہ اس کو کافی ہوگا۔ بلا شبہ اللہ اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کر دیتا ہے، اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘
توکل کے ساتھ اسباب اختیار کرنا
مومن پر واجب ہے کہ وہ اپنے رب، جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے، پر بھروسہ کرے اور حسن ظن رکھے۔
اسی کے ساتھ ساتھ اسے ان شرعی، قدری اور حسی اسباب کو بھی اختیار کرنا چاہیے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنانے کا حکم دیا ہے۔ اسباب کو اختیار کرنا درحقیقت اللہ اور اس کی حکمت پر ایمان لانے کا ایک حصہ ہے۔
اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں۔ اگر ہم سید المتوکلین، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ آپﷺ بھی شرعی اور قدرتی اسباب کو اپنایا کرتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال:
❀ آپﷺ سونے سے پہلے سورہ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر خود کو دم کیا کرتے تھے۔
❀ جنگوں میں آپﷺ زرہ پہنتے تھے۔
❀ جب مشرکین نے مدینہ پر حملہ کی منصوبہ بندی کی تو آپﷺ نے مدینہ کے گرد خندق کھدوائی تھی۔
اسباب کو اپنانا: اللہ کی نعمت اور شکر گزاری
جنگوں کے نقصانات سے بچنے کے لیے جو اسباب استعمال کیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی نعمتوں میں شمار فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَعَلَّمنـهُ صَنعَةَ لَبوسٍ لَكُم لِتُحصِنَكُم مِن بَأسِكُم فَهَل أَنتُم شـكِرونَ﴾ سورة الأنبياء: 80
’’اور ہم نے تمہارے لیے ان کو ایک (طرح کا) لباس بنانا بھی سکھا دیا تاکہ تم کو لڑائی (کے ضرر) سے بچائے، پس تم کو شکر گزار ہونا چاہیے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو مکمل اور مضبوط زرہیں بنانے کا حکم دیا تاکہ وہ میدان جنگ میں دفاع کے کام آئیں۔
جنگی علاقوں میں حفاظتی اقدامات
ان لوگوں کے لیے جو جنگی علاقوں کے قریب رہتے ہیں اور نقصان سے خوفزدہ ہیں:
❀ جسم کو نقصان پہنچانے والی گیسوں سے بچاؤ کے لیے ماسک کا استعمال کرنا جائز ہے۔
❀ ایسے حفاظتی انتظامات کرنا بھی درست ہے جو زہریلی گیسوں کو گھروں تک نہ پہنچنے دیں۔
❀ کھانے پینے کی ضروری اشیاء جمع کر لینا بھی جائز ہے، خاص طور پر جب اندیشہ ہو کہ جنگ کی وجہ سے چیزیں میسر نہ ہوں۔
جتنا زیادہ خطرہ ہو، اتنی زیادہ احتیاط کرنا چاہیے۔
لیکن، اعتماد اور بھروسہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی پر ہونا چاہیے۔
اسباب کے استعمال میں عقیدہ کی درستگی
اسباب کو اپناتے وقت یہ عقیدہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ یہی اسباب منفعت یا مضرت کا اصل ذریعہ ہیں۔
بلکہ مومن کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ:
❀ منفعت و مضرت کا اصل مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
❀ اسباب کو اللہ تعالیٰ کے حکم اور حکمت کے مطابق اپنانا چاہیے۔
❀ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے یہ اسباب عطا کیے اور ان کے استعمال کی اجازت دی۔
دعا
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں فتنوں اور ہلاکتوں سے محفوظ رکھے،
ہمیں اپنی ذات پر مکمل ایمان اور توکل عطا فرمائے،
اور ان اسباب کے اختیار کی توفیق دے جن کی اجازت دی گئی ہے،
اور ان کا استعمال ایسے طریقے سے کرنے کی توفیق دے جس سے وہ ہم سے راضی ہو جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب