ارکانِ ایمان کی مکمل شرح ایمان بالملائکہ، بالکتب، بالرسل، بالآخر، بالقدر
ماخذ: خطبات حافظ محمد اسحاق زاہد، مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

ایمان اسلام کی روح اور بنیاد ہے۔ اسی پر نجات، فلاح اور کامیابی کا دار و مدار ہے۔ قرآنِ مجید میں جہاں بھی نجات، عزت اور فلاح کا ذکر آیا ہے وہاں ایمان کو اس کی شرط قرار دیا گیا ہے۔ ایمان ہی وہ صفت ہے جو انسان کو حیوانیت سے بلند کر کے بندگی کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچاتی ہے۔ ایمان کے بغیر عمل بے جان جسم کی مانند ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾
[النحل: ۹۷]

ترجمہ:
“جو شخص نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ ایمان والا ہو، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ ضرور دیں گے۔”

اور دوسری جگہ فرمایا:

﴿ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ طُوْبٰی لَہُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ ﴾
[الرعد: ۲۹]

ترجمہ:
“جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے، ان کے لیے خوشحالی بھی ہے اور بہترین انجام بھی۔”

ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ہی کامیابی کی بنیاد ہے۔ نیک اعمال اسی وقت قبول ہوتے ہیں جب وہ ایمان کے ساتھ ہوں۔ اگر کوئی شخص اعمالِ صالحہ کرتا ہے لیکن ایمان سے خالی ہے تو وہ اعمال اس کے لیے دنیا و آخرت میں کوئی فائدہ نہیں رکھتے۔

❖ ایمان کی اہمیت

اگر کوئی شخص ایمان کے ساتھ ساتھ کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہو جائے اور توبہ سے پہلے فوت ہو جائے، تو وہ ایمان کی بنیاد پر آخرکار نجات پائے گا۔ اس کی سزا ہو سکتی ہے، مگر وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔

نبی کریم ﷺ کی مشہور حدیثِ شفاعت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ بار بار اللہ سے اپنی امت کی مغفرت کے لیے شفاعت کریں گے اور ہر بار ان لوگوں کو جہنم سے نکلوایا جائے گا جن کے دلوں میں ایمان کا ذرہ برابر حصہ بھی ہوگا۔

آپ ﷺ فرماتے ہیں:

(فَمَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِیْمَانٍ فَأَخْرِجْہُ مِنَ النَّارِ)
[مسلم: ۱۹۳]

ترجمہ:
“جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا، اسے جہنم سے نکال لیا جائے گا۔”

یہ حدیث اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ ایمان نجات کی بنیاد ہے، خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو۔

❖ ایمان کی تعریف

ائمہ اہلِ سنت والجماعۃ کے نزدیک ایمان تین اجزاء پر مشتمل ہے:

➊ قول باللسان: زبان سے اقرار کرنا
➋ اعتقاد بالجنان: دل سے تصدیق کرنا
➌ عمل بالأرکان: اعضاء سے عمل کرنا

یعنی ایمان صرف زبانی اقرار کا نام نہیں بلکہ دل کے یقین اور اعضا کے عمل کا مجموعہ ہے۔ اسی لیے ایمان میں نیکی سے اضافہ اور معصیت سے کمی واقع ہوتی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ إِنَّمَا الْمُؤمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ ﴾
[الأنفال: ۲]

ترجمہ:
“سچے مومن وہ ہیں جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں، اور جب ان پر اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔”

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ایمان میں زیادتی و کمی ہوتی ہے۔ نیک اعمال سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے۔

❖ ایمان اور عمل کا تعلق

ایمان اور عمل لازم و ملزوم ہیں۔ قرآنِ کریم میں جہاں ایمان کا ذکر ہے وہاں عموماً عمل صالح بھی ساتھ بیان ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایمان کافی نہیں بلکہ ایمان کے تقاضے پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ ﴾
[البقرۃ: ۲۵]

ترجمہ:
“(اے نبی!) ان لوگوں کو خوشخبری دے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔”

اسی طرح فرمایا:

﴿ وَالْعَصْرِ ٭ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ٭ إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾
[العصر: ۱–۳]

ترجمہ:
“زمانے کی قسم! یقیناً انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے، نیک عمل کئے، حق کی تلقین اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔”

یہ آیت ایمان اور عمل کے باہمی تعلق کو نہایت جامع انداز میں بیان کرتی ہے۔ ایمان عمل کے بغیر ادھورا ہے، اور عمل ایمان کے بغیر بے اثر۔

ایمان کے عملی مظاہر

ایمان کا تقاضا صرف زبانی اقرار تک محدود نہیں، بلکہ اس کے اثرات انسان کے اعمال و کردار میں ظاہر ہونا لازمی ہیں۔ قرآن مجید میں جابجا ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ ایمان بغیر عمل کے ناقص ہے۔

ایمان کے عملی مظاہر دو پہلو رکھتے ہیں:
➊ اوامر پر عمل
➋ نواہی سے اجتناب

➊ اوامر پر عمل

ایمان کا پہلا عملی تقاضا یہ ہے کہ بندہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام پر عمل کرے۔ یہی ایمان کی علامت اور سچے مومن کی پہچان ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ٭ اَلَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ ٭ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ٭ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ ٭ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ ٭ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ ٭ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ٭ أُولٰئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوْنَ ٭ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ ﴾
[المؤمنون: ۱–۱۱]

ترجمہ:
“یقیناً مومن کامیاب ہو گئے، جو اپنی نمازوں میں عاجزی کرتے ہیں، لغویات سے دور رہتے ہیں، زکاۃ ادا کرتے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، اپنی امانتوں اور عہدوں کا لحاظ رکھتے ہیں، اور اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔ یہی لوگ جنتِ فردوس کے وارث ہیں، جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔”

ان آیات میں مومنوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں، ان میں دل کے اعمال بھی ہیں اور اعضاء کے اعمال بھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان میں اعمال کا داخل ہونا یقینی ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ إِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أُولٰئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ ﴾
[الحجرات: ۱۵]

ترجمہ:
“(حقیقی) مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے، اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی سچے مومن ہیں۔”

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جہاد، قربانی، صبر، صدقہ — یہ سب ایمان کا حصہ ہیں۔

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ جَارَہُ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ)
[بخاری: ۶۴۷۵، مسلم: ۴۷]

ترجمہ:
“جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ خیر کی بات کرے یا خاموش رہے۔ اور جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ اور جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔”

یہ حدیث بتاتی ہے کہ اچھا اخلاق، پڑوسی کا احترام، مہمان نوازی اور خیر کی بات کرنا ایمان کے اجزاء میں سے ہیں۔

➋ نواہی سے اجتناب

ایمان کا دوسرا عملی پہلو یہ ہے کہ بندہ ان تمام چیزوں سے بچے جن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے منع کیا ہے۔

✿ شرک سے اجتناب

یہ سب سے پہلی شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ أُولٰئِکَ لَہُمُ الْأَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ ﴾
[الأنعام: ۸۲]

ترجمہ:
“جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم (یعنی شرک) سے آلودہ نہیں کیا، انہی کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔”

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ کو تشویش ہوئی کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جو ظلم نہ کرتا ہو؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(لَیْسَ ہُوَ کَمَا تَظُنُّوْنَ، إِنَّمَا ہُوَ کَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِہٖ: ﴿ یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ﴾)
[بخاری: ۳۲، مسلم: ۱۲۴]

ترجمہ:
“اس آیت سے مراد وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، بلکہ اس سے مراد شرک ہے، جیسا کہ لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا: اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔”

✿ معاصی (گناہوں) سے اجتناب

گناہوں سے بچنا بھی ایمان کا تقاضا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(لَا یَزْنِی الزَّانِی حِیْنَ یَزْنِی وَہُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَہُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبُہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ)
[بخاری: ۲۴۷۵، مسلم: ۵۷]

ترجمہ:
“زانی، زنا کے وقت مومن نہیں رہتا؛ چور چوری کے وقت مومن نہیں رہتا؛ اور شرابی جب شراب پیتا ہے تو مومن نہیں رہتا۔”

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے ایمان میں ضعف پیدا ہوتا ہے، اگرچہ ایمان بالکلیہ ختم نہیں ہوتا۔

❖ ایمان کے شعبے

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

(اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ – أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّوْنَ – شُعْبَۃً، فَأَفْضَلُہَا قَوْلُ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَدْنَاہَا إِمَاطَۃُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ، وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْإِیْمَانِ)
[مسلم: ۳۵]

ترجمہ:
“ایمان کے ستر یا ساٹھ سے زیادہ شعبے ہیں۔ سب سے اعلیٰ شعبہ ‘لا الٰہ إلا اللہ’ کہنا ہے، اور سب سے ادنیٰ شعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے، اور حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے۔”

یہ حدیث بتاتی ہے کہ ایمان ایک جامع نظامِ حیات ہے جو عقیدہ، عبادت، اخلاق، معاملات، سب کو شامل کرتا ہے۔

ارکانِ ایمان

ایمان کے چھ بنیادی ارکان ہیں جن پر ایمان کی عمارت قائم ہے:

➊ اللہ تعالیٰ پر ایمان
➋ اس کے فرشتوں پر ایمان
➌ اس کی کتابوں پر ایمان
➍ اس کے رسولوں پر ایمان
➎ آخرت کے دن پر ایمان
➏ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان

یہ تمام ارکان قرآن و سنت سے ثابت ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلٰئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیِّینَ ﴾
[البقرۃ: ۱۷۷]

اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

(اَلْإِیْمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ)
[مسلم: ۸]

پہلا رکن: ایمان باللہ

❖ ایمان باللہ کا مفہوم

ایمان باللہ کا مطلب یہ ہے کہ بندہ دل سے یقین رکھے، زبان سے اقرار کرے اور عمل سے ثابت کرے کہ اللہ تعالیٰ ہی واحد رب، معبود اور صفاتِ کمال سے متصف ذات ہے۔ ایمان باللہ دراصل تین بنیادی عقائد پر مشتمل ہے:

➊ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان
➋ اللہ تعالیٰ کی الوہیت پر ایمان
➌ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر ایمان

یہ تینوں مراتب ایمان باللہ کے لازمی تقاضے ہیں، جن پر ایمان کے بغیر بندگی کا مفہوم مکمل نہیں ہوتا۔

 ایمان بالربوبیہ

❖ مفہوم

ایمان بالربوبیہ سے مراد یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا خالق، مالک، مدبر، رازق اور تمام امور کا مختار ہے۔
وہی زندگی دیتا ہے، موت دیتا ہے، عزت و ذلت اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہی نفع و نقصان کا مالک ہے، اور کائنات میں کوئی کام اس کی مشیت کے بغیر نہیں ہوتا۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ یَا أَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ٭ اَلَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَائَ بِنَاءً وَّأَنْزَلَ مِنَ السَّمَائِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّکُمْ ﴾
[البقرۃ: ۲۱–۲۲]

ترجمہ:
“اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا، اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس سے تمہارے لیے پھل بطور رزق پیدا کیے۔”

اسی طرح فرمایا:

﴿ قُلِ اللّٰہُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ إِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾
[آل عمران: ۲۶]

ترجمہ:
“کہہ دیجئے: اے اللہ! بادشاہت کے مالک! تو جسے چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے، تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔”

❖ ربوبیت کے دلائل

کائنات کی تخلیق، اس کا نظم و ضبط، زمین و آسمان کا توازن، سورج و چاند کی حرکت، رات و دن کی گردش، سب اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے جیتے جاگتے دلائل ہیں۔

ارشادِ الٰہی:
﴿ وَجَعَلْنَا فِی الْأَرْضِ رَوَاسِیَ أَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ وَجَعَلْنَا فِیْہَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّہُمْ یَہْتَدُوْنَ ٭ وَجَعَلْنَا السَّمَآئَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا وَہُمْ عَنْ آیَاتِہَا مُعْرِضُوْنَ ٭ وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُوْنَ ﴾
[الأنبیاء: ۳۱–۳۳]

ترجمہ:
“ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے تاکہ وہ تمہیں لے کر ہچکولے نہ کھائے، ہم نے اس میں راستے بنائے تاکہ تم راہ پاؤ، اور آسمان کو محفوظ چھت بنایا مگر لوگ اس کی نشانیوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ وہی ہے جس نے رات اور دن، سورج اور چاند کو پیدا کیا، ان سب کا ایک مقرر مدار ہے جس میں وہ چلتے ہیں۔”

یہ آیات اس امر کا اعلان کرتی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی رب نہیں، کوئی خالق نہیں، اور کوئی کارساز نہیں۔

❖ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت پر غور و فکر کے لیے کئی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔

فرمایا:
﴿ وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُّسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِی بُطُوْنِہٖ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِیْنَ ﴾
[النحل: ۶۶]

ترجمہ:
“اور تمہارے لیے چوپائے جانوروں میں بھی نشانِ عبرت ہے۔ ہم تمہیں ان کے پیٹ سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو غذا کے فضلے اور خون کے درمیان سے نکلتا ہے، جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔”

اسی طرح شہد کی مکھی کے متعلق فرمایا:

﴿ یَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ فِیْہِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ﴾
[النحل: ۶۹]

ترجمہ:
“ان (مکھیوں) کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا مشروب (شہد) نکلتا ہے، جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔”

یہ سب نشانیاں اللہ تعالیٰ کی قدرت، حکمت اور ربوبیت کا مظہر ہیں۔ وہی حیوانات کو رزق دیتا ہے، انہی کے ذریعے انسان کے لیے نفع و شفا کے اسباب پیدا کرتا ہے۔

 ایمان بالالوہیہ

ایمان بالالوہیہ سے مراد یہ ہے کہ عبادت، دعا، امید، خوف، سجدہ، قربانی، نذر، توکل، سب صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔
یہی وہ توحید ہے جس کے لیے تمام انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کیا گیا۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ﴾
[النحل: ۳۶]

ترجمہ:
“ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔”

اور تمام رسولوں نے یہی پیغام دیا:

﴿ اُعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ إِلٰہٍ غَیْرُہُ ﴾
[الأعراف: ۵۹]

ترجمہ:
“تم ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔”

❖ عبادت کی بنیاد صرف اللہ کے لیے

نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذؓ سے فرمایا:

(أَتَدْرِیْ مَا حَقُّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ؟ … حَقُّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ یَّعْبُدُوْہُ وَلَا یُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا)
[متفق علیہ]

ترجمہ:
“کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟ بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔”

اسی لیے عبادت کے تمام پہلو — دعا، قربانی، نذر، توکل، خوف، محبت — صرف اللہ کے لیے ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ٭ لَا شَرِیْکَ لَہُ ﴾
[الأنعام: ۱۶۲–۱۶۳]

ترجمہ:
“کہہ دیجئے: میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب رب العالمین کے لیے ہیں، اس کا کوئی شریک نہیں۔”

 ایمان بالاسماء والصفات

❖ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر ایمان کا مفہوم

ایمان باللہ کا تیسرا لازمی تقاضا یہ ہے کہ بندہ اس بات پر کامل یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ تمام اسمائے حُسنیٰ (اچھے ناموں) سے موسوم اور صفاتِ کمال سے متصف ہے۔
وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا، بے مثال اور بے نیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی مثل ہے اور نہ کوئی شریک۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ وَلِلّٰہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِی أَسْمَائِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾
[الأعراف: ۱۸۰]

ترجمہ:
“اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، پس اسے انہی ناموں سے پکارو، اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں۔ وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔”

❖ اللہ کے ناموں میں کج روی کا مفہوم

اللہ تعالیٰ کے اسماء میں کج روی سے مراد یہ ہے کہ:

➊ اس کے بعض ناموں یا صفات کا انکار کیا جائے۔
➋ ان ناموں کے ظاہر مفہوم کے برخلاف تاویل کی جائے۔
➌ یا ان ناموں کا غلط اطلاق غیر اللہ پر کیا جائے۔

مثلاً اللہ کا نام الرزاق (رزق دینے والا) ہے۔ اگر کوئی غیر اللہ کو رزاق کہے، یا اس سے روزی کی امید رکھے، تو یہ کج روی ہے۔
اسی طرح اللہ کا نام العظیم (بے حد بزرگ) ہے۔ پس اس کے سوا کسی کے سامنے جھکنا، سجدہ کرنا یا عبادت کرنا اس کے حقِ عظمت کی نفی ہے۔

❖ اسمائے حُسنیٰ کی تعداد

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

(إِنَّ لِلّٰہِ تِسْعَۃً وَّتِسْعِیْنَ اسْمًا، مَنْ أَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ، وَہُوَ وِتْرٌ یُّحِبُّ الْوِتْرَ)
[بخاری و مسلم]

ترجمہ:
“اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جو شخص انھیں یاد کرے (یا ان پر ایمان رکھے)، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ بے شک اللہ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔”

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے مخصوص نام ایسے ہیں جن کی معرفت، فہم اور ایمان جنت کا ذریعہ ہے، لیکن اس کے اسماء ان ننانوے تک محدود نہیں — کیونکہ خود نبی ﷺ نے دعا میں فرمایا:
“میں تجھ سے ہر اُس نام کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں جو تو نے اپنی ذات کے لیے رکھا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا، یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا، یا اپنے پاس غیب میں محفوظ رکھا۔”
[مسند احمد: ۳۷۱۲، صحیح]

❖ اللہ کے اسماء و صفات کے عقیدے کی بنیادیں

اہلِ سنت والجماعۃ کے نزدیک اللہ کے اسماء و صفات کے اثبات کی دو بنیادی بنیادیں ہیں:

➊ اثبات:
اللہ کے لیے وہ تمام صفات و نام ثابت کیے جائیں جنہیں قرآن یا سنت نے ذکر کیا ہے، بغیر تحریف (معنی بدلنے)، تعطیل (انکار کرنے)، تکییف (کیفیت بیان کرنے) یا تمثیل (مخلوق سے تشبیہ دینے) کے۔

➋ تنزیہ:
اللہ تعالیٰ ہر طرح کے عیب، نقص، کمی، بھول، تھکن، نیند اور عاجزی سے پاک ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ﴾
[الشوریٰ: ۱۱]

ترجمہ:
“اس جیسی کوئی چیز نہیں، اور وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔”

اور فرمایا:
﴿ وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ﴾
[فصلت: ۴۶]

ترجمہ:
“اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔”

❖ صفاتِ الٰہیہ کے اثبات کے اصول

اللہ تعالیٰ کی صفات کو تسلیم کرتے ہوئے چند امور کا خیال رکھنا لازم ہے:

➊ قرآن و حدیث میں وارد تمام صفات کو حقیقی معنی میں تسلیم کیا جائے۔
➋ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ تمام کامل صفات سے متصف ہے۔
➌ اللہ کی صفات کو مخلوق کی صفات سے مشابہ نہ سمجھا جائے۔
➍ ان صفات کی کیفیت معلوم کرنے کی کوشش نہ کی جائے، کیونکہ اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔
➎ ان صفات کے آثار و اثرات پر ایمان لایا جائے۔

❖ صفتِ استواء کی مثال

اللہ تعالیٰ کی صفتِ "استواء” (عرش پر بلند ہونا) کے بارے میں فرمایا:

﴿ الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی ﴾
[طٰہٰ: ۵]

ترجمہ:
“رحمن عرش پر بلند ہے۔”

اس صفت کے بارے میں اہلِ سنت کا عقیدہ درج ذیل ہے:

➊ استواء کا مفہوم معلوم ہے (بلندی و برتری)، مگر اس کی کیفیت مجہول ہے۔
➋ اللہ کا عرش پر بلند ہونا حقیقی ہے، مجازی نہیں۔
➌ یہ بلندی مخلوق کی بلندی کی مانند نہیں۔
➍ اس کی کیفیت دریافت کرنا یا بیان کرنا بدعت ہے۔
➎ یہ عقیدہ اللہ کی عظمت و کبریائی کی دلیل ہے۔

امام مالکؒ نے فرمایا:
“الاستواء معلوم، والکیف مجہول، والإیمان بہ واجب، والسؤال عنہ بدعۃ”
یعنی “استواء کا معنی معلوم ہے، کیفیت نامعلوم ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور اس کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔”

❖ اللہ تعالیٰ کے بلند و برتر ہونے کا اثبات

اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے لحاظ سے عرش پر بلند ہے، مگر اپنی صفات (علم، قدرت، سمع و بصر) کے لحاظ سے ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ﴾
[البقرۃ: ۲۵۵]

ترجمہ:
“وہ بلند و برتر اور عظمت والا ہے۔”

اور فرمایا:
﴿ وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ ﴾
[الأنعام: ۵۹]

ترجمہ:
“غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔”

پس اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و علم کے ذریعے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، مگر اس کی ذات مخلوق سے بالاتر ہے۔

دوسرا رکن: ایمان بالملائکہ (فرشتوں پر ایمان)

ایمان کے چھ ارکان میں دوسرا رکن ایمان بالملائکہ ہے، یعنی اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے ایک خاص مخلوق فرشتے پیدا فرمائے ہیں، جو نور سے تخلیق کیے گئے ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ کے خاص فرمانبردار، مطیع اور معصوم بندے ہیں۔
وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتے بلکہ صرف وہی انجام دیتے ہیں جس کا حکم اللہ تعالیٰ ان کو دیتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤمَرُوْنَ ﴾
[التحریم: ۶]

ترجمہ:
“وہ (فرشتے) اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے، بلکہ جو حکم دیا جائے، وہی بجا لاتے ہیں۔”

❖ ایمان بالملائکہ کے تقاضے

فرشتوں پر ایمان کے چار بنیادی تقاضے ہیں:

➊ ان کے وجود پر ایمان لانا
➋ ان میں سے جن کے نام معلوم ہیں، ان کے ناموں پر ایمان لانا
➌ ان کے مخصوص اعمال و فرائض پر ایمان لانا
➍ ان کے اوصاف و صفات پر ایمان لانا

➊ فرشتوں کے وجود پر ایمان

قرآن و سنت کی نصوص سے یہ قطعی ثابت ہے کہ فرشتے ایک حقیقت ہیں، محض نورانی خیالات نہیں۔ وہ زندہ، عقل رکھنے والی اور شعور رکھنے والی مخلوق ہیں۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
(خُلِقَتِ الْمَلَائِکَۃُ مِنْ نُوْرٍ)
[مسلم: ۲۹۹۶]

ترجمہ:
“فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں۔”

اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی طاقت و قوت عطا فرمائی ہے کہ وہ بیک وقت کئی کام انجام دیتے ہیں، اور جس شکل میں اللہ کا حکم ہو، اس شکل میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔

➋ مشہور فرشتے اور ان کے نام

قرآن و سنت میں بعض فرشتوں کے نام واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں، جیسے:

❀ جبرائیل علیہ السلام – وحی لانے والے فرشتے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُ ٭ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ﴾
[الشعراء: ۱۹۳–۱۹۴]
ترجمہ:
“روحِ امین (جبرائیل) اسے آپ کے دل پر نازل کرتے ہیں تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں۔”

❀ میکائیل علیہ السلام – بارش اور رزق کے نظام پر مامور
❀ اسرافیل علیہ السلام – صور پھونکنے والے فرشتے
❀ ملک الموت (عزرائیل) – روح قبض کرنے والے فرشتے
❀ مالک علیہ السلام – جہنم کے داروغہ
❀ منکر و نکیر – قبر میں سوال کرنے والے فرشتے
❀ رضوان علیہ السلام – جنت کے دربان

➌ فرشتوں کے فرائض

فرشتوں کے ذمہ مختلف قسم کے کام سپرد کیے گئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا ﴾
[النازعات: ۵]
یعنی “(وہ فرشتے) جو اللہ کے حکم سے امور کو تدبیر کرتے ہیں۔”

ان میں سے چند خاص ذمہ داریاں یہ ہیں:

➊ وحی کی تبلیغ – جبرائیل علیہ السلام کے ذمے
➋ بارش نازل کرنا اور زمین کی نشوونما – میکائیل علیہ السلام کے ذمے
➌ صور پھونکنا – اسرافیل علیہ السلام کے ذمے
➍ روح قبض کرنا – ملک الموت کے ذمے
➎ قبروں میں سوال کرنا – منکر و نکیر کے ذمے
➏ اعمال لکھنا – کراماً کاتبین کے ذمے
➐ انسان کی حفاظت – معقبات (حفاظتی فرشتے) کے ذمے

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِیْنَ ٭ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ ٭ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ﴾
[الانفطار: ۱۰–۱۲]

ترجمہ:
“تم پر محافظ (فرشتے) مقرر ہیں، معزز لکھنے والے، جو جانتے ہیں تم کیا کرتے ہو۔”

➍ فرشتوں کے اوصاف

قرآن و حدیث میں فرشتوں کے کچھ نمایاں اوصاف بیان کیے گئے ہیں:

❖ وہ نورانی مخلوق ہیں۔
❖ وہ بے حد طاقتور اور فرمانبردار ہیں۔
❖ ان کے پر ہوتے ہیں — جبرائیل علیہ السلام کے چھ سو (۶۰۰) پر ہیں۔
❖ وہ کھاتے پیتے نہیں اور نہ ہی سوتے ہیں۔
❖ وہ ہمیشہ عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا یَسْتَحْسِرُوْنَ ٭ یُسَبِّحُوْنَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ ﴾
[الأنبیاء: ۱۹–۲۰]

ترجمہ:
“وہ (فرشتے) عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں۔ وہ رات دن تسبیح کرتے ہیں، کبھی سست نہیں ہوتے۔”

❖ ایمان بالملائکہ کے اثرات

فرشتوں پر ایمان لانے سے بندے کے دل میں یہ کیفیات پیدا ہوتی ہیں:

➊ اللہ کے حضور خشیت و خوف کہ فرشتے ہر وقت اس کے اعمال لکھ رہے ہیں۔
➋ عبادت میں اخلاص کہ انسان جانتا ہے کہ وہ تنہا نہیں، بلکہ اللہ کے فرشتے اس پر نگراں ہیں۔
➌ عمل صالح کا جذبہ کیونکہ نیکیوں کے محافظ فرشتے ہر نیک کام کا ریکارڈ محفوظ کرتے ہیں۔
➍ آخرت کی تیاری کیونکہ فرشتے ہی موت کے وقت روح قبض کرتے ہیں اور قبر میں سوال کرتے ہیں۔

تیسرا رکن: ایمان بالکتب (اللہ کی کتابوں پر ایمان)

ایمان بالکتب ایمان کے چھ ارکان میں سے تیسرا رکن ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اس بات پر کامل یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے کتابیں نازل فرمائیں، جن میں اللہ کے احکام، اوامر و نواہی، وعدے اور وعیدیں بیان کی گئیں۔
یہ کتابیں انبیاء و رسل علیہم السلام پر نازل ہوئیں تاکہ وہ اللہ کے پیغام کو انسانوں تک پہنچائیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ﴾
[الحدید: ۲۵]

ترجمہ:
“یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔”

❖ ایمان بالکتب کے تقاضے

کتبِ الٰہیہ پر ایمان کے چار بنیادی تقاضے ہیں:

➊ ان سب پر ایمان لانا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں۔
➋ جن کے نام اور تفصیلات معلوم ہیں، ان پر ایمان لانا۔
➌ ان میں بیان کردہ احکام پر یقین رکھنا اور ان کی تعظیم کرنا۔
➍ آخری کتاب قرآن مجید کو اللہ کی حتمی، جامع اور ناسخ کتاب ماننا۔

❖ آسمانی کتابیں

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر مختلف ادوار میں کئی کتابیں نازل کیں۔
ان میں مشہور چار آسمانی کتابیں یہ ہیں:

❀ توراۃ — حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔
ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ ﴾
[المائدۃ: ۴۴]
ترجمہ:
“ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔”

❀ زبور — حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی۔
﴿ وَأَتَیْنَا دَاوُدَ زَبُوْرًا ﴾
[النساء: ۱۶۳]
ترجمہ:
“اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔”

❀ انجیل — حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔
﴿ وَأَتَیْنَاہُ الْإِنْجِیْلَ فِیْہِ ہُدًی وَّنُوْرٌ ﴾
[المائدۃ: ۴۶]
ترجمہ:
“اور ہم نے انھیں انجیل عطا کی، جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔”

❀ قرآن مجید — نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا، جو تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور ان پر حاکم ہے۔
﴿ وَنَزَّلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ ﴾
[المائدۃ: ۴۸]

ترجمہ:
“اور ہم نے آپ پر یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان پر نگہبان ہے۔”

❖ سابقہ کتابوں پر ایمان

ہم ان تمام کتابوں پر ایمان لاتے ہیں جو اللہ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائیں، خواہ ان کے نام ہمیں معلوم ہوں یا نہ ہوں۔
لیکن ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ ان میں سے پہلی کتابوں کے اصل نسخے مٹ چکے ہیں، یا ان میں تحریف کر دی گئی ہے، جیسا کہ قرآن خود بیان کرتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِہٖ وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ﴾
[المائدۃ: ۱۳]

ترجمہ:
“انہوں نے (یہود نے) کلمات کو ان کی جگہوں سے بدل دیا، اور اس (ہدایت) کا بڑا حصہ بھلا دیا جو انھیں یاد دلایا گیا تھا۔”

اسی لیے آج جو تورات اور انجیل موجود ہیں، وہ اصل نہیں بلکہ ان میں تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔

❖ قرآن مجید — آخری اور مکمل کتاب

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری، جامع اور مکمل کتاب ہے۔
یہ صرف بنی اسرائیل یا کسی خاص قوم کے لیے نہیں، بلکہ تمام انسانوں اور جنات کے لیے ہدایت ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ﴾
[البقرۃ: ۱۸۵]

ترجمہ:
“رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی کی واضح دلیلیں اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔”

اور فرمایا:
﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ﴾
[سبأ: ۲۸]

ترجمہ:
“ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔”

❖ قرآن کی خصوصیات

قرآن مجید کی چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں:

➊ یہ تحریف سے محفوظ ہے۔
﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ ﴾
[الحجر: ۹]
ترجمہ:
“بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔”

➋ یہ جامع و کامل ہے۔
﴿ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَہُدًی وَّرَحْمَۃً ﴾
[النحل: ۸۹]
ترجمہ:
“اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جو ہر چیز کی وضاحت، ہدایت اور رحمت ہے۔”

➌ یہ تمام سابقہ کتابوں کا ناسخ ہے۔
یعنی اب شریعتِ محمدی ﷺ کے علاوہ کسی سابقہ کتاب یا حکم پر عمل درست نہیں۔

➍ یہ اللہ کا زندہ معجزہ ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔

➎ یہ دلوں کا سکون اور زندگی کا نظام ہے۔
﴿ أَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ﴾
[الرعد: ۲۸]
ترجمہ:
“یاد رکھو! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔”

❖ قرآن پر ایمان کے اثرات

بندہ قرآن کو ہدایت کا واحد معیار سمجھتا ہے۔
اپنی زندگی کے ہر معاملے میں قرآن سے رہنمائی لیتا ہے۔
قرآن کے احکام کو مانتا، پڑھتا، سمجھتا اور عمل کرتا ہے۔
قرآن کے فیصلے کو سب سے برتر قانون تسلیم کرتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ﴾
[النساء: ۶۵]

ترجمہ:
“(اے نبی!) آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ ایمان والے نہیں بن سکتے جب تک کہ آپ کو اپنے تمام باہمی معاملات میں حاکم نہ مان لیں۔”

چوتھا رکن: ایمان بالرسل (رسولوں پر ایمان)

ایمان کے چھ ارکان میں چوتھا رکن ایمان بالرسل ہے، یعنی بندہ اس بات پر کامل یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی رہنمائی کے لیے رسول مبعوث فرمائے، جو اللہ کے برگزیدہ بندے، راست گو، امانت دار اور ہدایت کے چراغ تھے۔
انہوں نے اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچایا، اس میں کسی قسم کی کمی، زیادتی یا تحریف نہیں کی، بلکہ امانت داری کے ساتھ دین کو ادا کیا۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ﴾
[النساء: ۱۶۵]

ترجمہ:
“ہم نے رسولوں کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے سامنے کوئی حجت باقی نہ رہے۔”

رسولوں کی بعثت اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے، کیونکہ ان کے ذریعے ہی انسان حق و باطل میں فرق پہچانتا ہے، اور ہدایت کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔

❖ ایمان بالرسل کے تقاضے

رسولوں پر ایمان کے چار بنیادی تقاضے ہیں:

➊ یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول مبعوث فرمائے۔
➋ ان تمام رسولوں پر ایمان لانا، چاہے ان کے نام معلوم ہوں یا نہ ہوں۔
➌ جس رسول پر اللہ نے کتاب نازل کی، اس کی اتباع کرنا۔
➍ سب سے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو خاتم النبیین ماننا۔

❖ رسولوں کے اوصاف و کمالات

قرآن و سنت میں انبیاء و رسل کے چند نمایاں اوصاف بیان کیے گئے ہیں:

➊ صدق – ہمیشہ سچ بولنا۔
➋ امانت – پیغامِ الٰہی کی ادائیگی میں دیانت دار ہونا۔
➌ بلاغت – اللہ کا پیغام پوری طرح پہنچانا۔
➍ فطانَت – اعلیٰ درجہ کی عقل و بصیرت۔
➎ عصمت – کبائر اور تبلیغ میں خطا سے محفوظ ہونا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ إِلَّا الْبَلَاغُ ﴾
[المائدۃ: ۹۹]

ترجمہ:
“رسول پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔”

❖ تمام رسولوں کا مقصد ایک ہی تھا

تمام انبیاء و رسل کا دین ایک ہی تھا — دینِ اسلام — یعنی صرف اللہ کی عبادت کرنا، اور شرک سے اجتناب۔
ان کی شریعتوں میں جزوی فرق ہوسکتا ہے، مگر عقیدہ، ایمان اور بنیادی دعوت ایک ہی تھی۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّٰہِ الْإِسْلَامُ ﴾
[آل عمران: ۱۹]

ترجمہ:
“یقیناً اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔”

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
(الأَنْبِیَاءُ إِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ، دِیْنُہُمْ وَاحِدٌ)
[بخاری: ۳۴۴۳، مسلم: ۲۳۶۵]

ترجمہ:
“تمام انبیاء ایک باپ کے بیٹے ہیں (یعنی عقیدہ ایک ہے، شریعتوں میں فرق ہے)، ان کا دین ایک ہی ہے۔”

❖ رسول بشر ہیں

تمام رسول انسان تھے، فرشتے یا الوہیت کے حامل نہیں تھے۔ وہ کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، شادی کرتے، مگر گناہوں سے پاک رہتے تھے۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الرُّسُلِ إِلَّا إِنَّہُمْ لَیَأْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْأَسْوَاقِ ﴾
[الفرقان: ۲۰]

ترجمہ:
“ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔”

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ رسولوں کا بشر ہونا انسانوں کے لیے تسلی اور ہدایت کا ذریعہ ہے، کیونکہ وہ انسانی زندگی کے تمام مراحل سے گزر کر دین پر عمل کی عملی مثال بنے۔

❖ رسول علمِ غیب نہیں جانتے

اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔
انبیاء علیہم السلام بھی علمِ غیب سے بے نیاز ہیں، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے انھیں بتا دے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا ﴾
[الجن: ۲۶]

ترجمہ:
“وہی غیب کا جاننے والا ہے، اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔”

❖ انبیاء و رسل کی تعداد

حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا:
“یا رسول اللہ! انبیاء کی تعداد کتنی ہے؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:

(مِائَۃُ أَلْفٍ وَأَرْبَعَۃٌ وَعِشْرُوْنَ أَلْفًا، الرُّسُلُ مِنْہُمْ ثَلَاثُمِائَۃٍ وَخَمْسَۃَ عَشَرَ)
[مسند احمد، صحیحۃ الألبانی: ۵۷۳۷]

ترجمہ:
“انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے، جن میں سے تین سو پندرہ رسول ہیں۔”

❖ نبی اور رسول میں فرق

رسول وہ ہے جسے نئی شریعت دے کر بھیجا گیا۔
نبی وہ ہے جو پچھلی شریعت کی تبلیغ کرتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام نبی تھے، اور حضرت نوح علیہ السلام پہلے رسول۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
(عَشْرَۃُ قُرُوْنٍ بَیْنَ آدَمَ وَنُوْحٍ، کُلُّہُمْ عَلَی الْإِسْلَامِ)
[ابن حبان: ۶۱۹، صحیح]

ترجمہ:
“آدم اور نوح کے درمیان دس نسلیں گزریں، سب اسلام پر تھیں۔”

❖ انبیاء میں فضیلت و مراتب

اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ ﴾
[البقرۃ: ۲۵۳]

ترجمہ:
“یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔”

سب سے بلند مرتبہ والے پانچ رسول اولو العزم کہلاتے ہیں:
نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد ﷺ۔

﴿ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ﴾
[الاحقاف: ۳۵]

ترجمہ:
“پس آپ صبر کریں جیسے اولو العزم رسولوں نے صبر کیا۔”

رسولِ اکرم ﷺ کی خصوصیات اور فضائل

❖ خاتم النبیین

ایمان بالرسل کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ آخری نبی اور رسول ہیں۔
آپ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی نئی شریعت نازل ہوگی۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ ﴾
[الاحزاب: ۴۰]

ترجمہ:
“محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔”

اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
(لَا نَبِیَّ بَعْدِی)
[بخاری: ۳۴۵۵، مسلم: ۱۸۴۲]

ترجمہ:
“میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔”

یہ عقیدہ ایمان بالرسل کا بنیادی جز ہے، اور اس کا انکار انسان کو اسلام کے دائرے سے خارج کر دیتا ہے۔

❖ نبی ﷺ کی بعثتِ عامہ

پہلے انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قوموں کے لیے بھیجے جاتے تھے، لیکن نبی اکرم ﷺ کو تمام انسانوں اور جنات کے لیے مبعوث فرمایا گیا۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ﴾
[الأنبیاء: ۱۰۷]

ترجمہ:
“ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔”

اور فرمایا:
﴿ قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعًا ﴾
[الاعراف: ۱۵۸]

ترجمہ:
“(اے نبی!) فرما دیجیے، اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔”

❖ نبی ﷺ پر نازل ہونے والی شریعت کی جامعیت

آپ ﷺ پر نازل ہونے والی شریعت — یعنی قرآن و سنت — تمام سابقہ شریعتوں کی تکمیل اور خاتمہ ہے۔
اسلام نے انسانی زندگی کے ہر پہلو — عبادات، معاملات، اخلاق، سیاست، معاشرت، عدالت، تجارت — کے لیے مکمل راہِ ہدایت فراہم کی۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیْنًا ﴾
[المائدۃ: ۳]

ترجمہ:
“آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔”

❖ آپ ﷺ کے معجزات

نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار معجزات عطا فرمائے، جن میں سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے جو قیامت تک زندہ اور ناقابلِ تغیر رہے گا۔

دیگر معجزات میں شامل ہیں:

➊ چاند کا دو ٹکڑے ہونا — ﴿ اِنْشَقَّ الْقَمَرُ ﴾ [القمر: ۱]
➋ تھوڑے کھانے سے کثرتِ برکت
➌ انگلیوں سے پانی کا بہنا
➍ درختوں اور پتھروں کا سلام کرنا
➎ آسمانی سفر معراج

یہ تمام معجزات نبی ﷺ کی سچائی اور رسالت کے روشن دلائل ہیں۔

❖ نبی ﷺ کی رسالت کی عالمی ذمہ داری

آپ ﷺ کی دعوت صرف جزیرۂ عرب تک محدود نہ تھی بلکہ پوری انسانیت کے لیے تھی۔
آپ نے قیصرِ روم، کسریٰ، نجاشی اور دیگر بادشاہوں کو اسلام کی دعوت پر مبنی خطوط ارسال کیے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام ایک عالمی دین ہے جو رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی تفریق سے بالاتر ہے۔

❖ نبی ﷺ کی سنت کی اطاعت فرض ہے

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبی ﷺ کی اطاعت کو ایمان کا لازمی حصہ قرار دیا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ﴾
[النساء: ۸۰]

ترجمہ:
“جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔”

اور فرمایا:
﴿ وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ﴾
[الحشر: ۷]

ترجمہ:
“رسول تمہیں جو کچھ دیں، وہ لے لو، اور جس چیز سے روکیں، اس سے باز آ جاؤ۔”

یہ آیات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ مسلمان نبی ﷺ کی سنت کو قرآن کے بعد ہدایت کا دوسرا بنیادی ماخذ سمجھیں۔

❖ نبی ﷺ کی شفاعتِ کبریٰ

روزِ قیامت سب انبیاء و رسل شفاعت سے انکار کر دیں گے، مگر نبی اکرم ﷺ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنی امت کی شفاعت کریں گے۔

آپ ﷺ نے فرمایا:
(أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَلَا فَخْرَ)
[مسلم: ۲۲۷۸]

ترجمہ:
“میں قیامت کے دن اولادِ آدم کا سردار ہوں، اور یہ فخر کے طور پر نہیں کہتا۔”

❖ آپ ﷺ کی امت کی فضیلت

نبی ﷺ کی امت کو اللہ تعالیٰ نے سب امتوں پر فضیلت دی، کیونکہ یہ امت آخری نبی کی پیروکار ہے، اور اس کے سپرد دعوتِ الی اللہ کا فریضہ ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ﴾
[آل عمران: ۱۱۰]

ترجمہ:
“تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔”

پانچواں رکن: ایمان بالیوم الآخر (قیامت اور آخرت پر ایمان)

❖ تمہید

ایمان کے چھ ارکان میں پانچواں رکن ایمان بالیوم الآخر ہے۔
یعنی بندہ اس بات پر یقین رکھے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب یہ دنیا فنا ہو جائے گی، تمام مخلوق دوبارہ زندہ کی جائے گی، اپنے اعمال کا حساب دے گی، نیک لوگ جنت میں جائیں گے اور بدکار جہنم میں داخل ہوں گے۔
یہی دن یومِ قیامت، یوم الحساب، یوم الجزاء اور الآخرة کے ناموں سے قرآن و سنت میں بیان ہوا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا أَنْ لَّنْ یُبْعَثُوْا قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ﴾
[التغابن: ۷]

ترجمہ:
“کافروں نے گمان کیا کہ وہ دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے۔ کہہ دیجیے: کیوں نہیں، میرے رب کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر تمہیں تمہارے اعمال کی خبر دی جائے گی۔”

❖ ایمان بالآخرہ کا معنی

ایمان بالآخرہ سے مراد ہے:

➊ موت کے بعد زندگی پر ایمان لانا۔
➋ قبروں میں سوال و جواب پر ایمان رکھنا۔
➌ قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جانے (بعث بعد الموت) پر یقین رکھنا۔
➍ اعمال کے حساب، میزان، صراط اور جزا و سزا پر یقین رکھنا۔
➎ جنت و جہنم کے ابدی وجود پر ایمان رکھنا۔

❖ قیامت کے دن کے نام

قرآن میں قیامت کے کئی نام آئے ہیں جو اس دن کی ہیبت اور ہولناکی کو ظاہر کرتے ہیں:

➊ یوم القیامہ – اٹھنے کا دن
➋ یوم الحساب – حساب کا دن
➌ یوم الدین – بدلے کا دن
➍ الساعة – گھڑی
➎ یوم البعث – دوبارہ زندہ کیے جانے کا دن
➏ یوم الخلود – ہمیشہ رہنے کا دن

❖ قیامت پر ایمان کی اہمیت

قرآن مجید نے ایمان بالآخرہ کو ایمان باللہ کے بعد سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔
کیونکہ آخرت پر ایمان ہی انسان کو جواب دہی کا احساس دیتا ہے، نیکی پر ابھارتا اور گناہوں سے روکتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَاءَ اللّٰہِ فَإِنَّ أَجَلَ اللّٰہِ لَآتٍ ﴾
[العنکبوت: ۵]

ترجمہ:
“جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے، تو یقیناً اللہ کا مقررہ وقت آنے والا ہے۔”

❖ قیامت کی حقیقت

قرآن و سنت کی روشنی میں قیامت کے دو بڑے مراحل ہیں:

➊ قیامتِ صغریٰ (چھوٹی قیامت) – یعنی موت۔
جب کسی انسان کی موت آتی ہے تو اس کی قیامت قائم ہو جاتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ ﴾ [آل عمران: ۱۸۵]
“ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔”

➋ قیامتِ کبریٰ (بڑی قیامت) – جب صور پھونکا جائے گا اور تمام انسان اپنی قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَإِذَا ہُمْ مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلٰی رَبِّہِمْ یَنْسِلُوْنَ ﴾
[یس: ۵۱]

ترجمہ:
“جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو وہ فوراً اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑیں گے۔”

❖ صور پھونکنے کے مراحل

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صور تین مرتبہ پھونکا جائے گا:

نفخۃ الفزع (ہولناک چیخ) – جس سے سب گھبرا اٹھیں گے۔
نفخۃ الصعق (موت کی پھونک) – سب مر جائیں گے۔
نفخۃ البعث (دوبارہ زندہ ہونے کی پھونک) – سب اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ وَیَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللّٰہُ ﴾
[النمل: ۸۷]

❖ حشر و نشر (دوبارہ زندہ ہونا)

قیامت کے دن تمام انسان میدانِ حشر میں جمع کیے جائیں گے۔
کوئی ننگا، بھوکا، پیاسا اور پسینے میں شرابور ہوگا، اپنے اعمال کے مطابق۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
(یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا)
[بخاری: ۳۳۴۹، مسلم: ۲۸۵۹]

ترجمہ:
“قیامت کے دن لوگ ننگے، بےخطنہ اور ننگے پاؤں جمع کیے جائیں گے۔”

حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا مرد و عورت سب ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
“اے عائشہ! معاملہ اس دن اتنا سخت ہوگا کہ کوئی کسی کی طرف دیکھنے کی فرصت نہ پائے گا۔”

❖ میزان (اعمال کا ترازو)

قیامت کے دن اعمال کا وزن کیا جائے گا، نیکی اور بدی کی قدر معلوم ہوگی۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ٭ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْا أَنْفُسَہُمْ ﴾
[المؤمنون: ۱۰۲–۱۰۳]

ترجمہ:
“جس کے نیکیوں کے پلڑے بھاری ہوں گے، وہ کامیاب ہوگا، اور جس کے ہلکے ہوں گے، وہ خود اپنے آپ کو خسارے میں ڈالے گا۔”

❖ صراط (پلِ صراط)

جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل ہوگا جسے صراط کہا جاتا ہے۔
یہ تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہوگا۔
ہر شخص کو اس پر سے گزرنا ہوگا۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
(یُضْرَبُ الصِّرَاطُ عَلَی جَہَنَّمَ، فَأَکُوْنُ أَنَا وَأُمَّتِیْ أَوَّلَ مَنْ یُجِیْزُہَا)
[بخاری: ۶۵۴۳، مسلم: ۱۸۳]

ترجمہ:
“جہنم پر پل صراط رکھا جائے گا، اور میں اور میری امت اس پر سے گزرنے والے اولین ہوں گے۔”

❖ حوضِ کوثر

نبی ﷺ کو قیامت کے دن حوضِ کوثر عطا کیا جائے گا۔
جو مومن اس کے پانی سے پی لے گا، وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ ﴾
[الکوثر: ۱]

ترجمہ:
“بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے۔”

❖ شفاعتِ کبریٰ

اس دن تمام لوگ شفاعت کے لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں گے، اور آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
پہلے بیان شدہ “حدیث الشفاعہ” اسی حقیقت پر دلیل ہے۔

❖ جنت و جہنم پر ایمان

آخرت پر ایمان میں یہ عقیدہ بھی شامل ہے کہ جنت و جہنم حق ہیں، وہ موجود ہیں اور ہمیشہ قائم رہیں گی۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ ﴾
[آل عمران: ۱۳۳]
“(جنت) متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔”

اور فرمایا:
﴿ أُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ ﴾
[البقرۃ: ۲۴]
“(جہنم) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔”

چھٹا رکن: ایمان بالقدر (تقدیر پر ایمان)

❖ تمہید

ایمان کے چھ ارکان میں آخری رکن ایمان بالقدر ہے، یعنی اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا۔
یہ رکن ایمان کی تکمیل کے لیے لازم ہے۔
تقدیر پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم، فیصلے، ارادے اور پیدا کرنے کے مطابق واقع ہوتی ہے — نہ کوئی چیز اس کے علم سے باہر ہے، نہ اس کے اختیار سے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ إِنَّا کُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ ﴾
[القمر: ۴۹]

ترجمہ:
“ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے اور تقدیر کے مطابق پیدا کیا ہے۔”

اور نبی ﷺ نے فرمایا:
(اَلْإِیْمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ)
[مسلم: ۸]

ترجمہ:
“ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔”

❖ ایمان بالقدر کے چار بنیادی مراتب

تقدیر پر ایمان چار درجوں پر مشتمل ہے، اور ان پر ایمان رکھنا ضروری ہے:

علم (علمِ الٰہی پر ایمان)
یعنی یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پہلے سے جان رکھا ہے۔
اس کے علم میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں۔
وہ جانتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے، کیا ہو چکا، اور کیا ہونے والا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَائِ وَالْأَرْضِ ﴾
[الحج: ۷۰]

ترجمہ:
“کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ آسمان و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے؟”

یہ علم نہ کسی کے ذریعے حاصل ہوا، نہ بعد میں بڑھا — بلکہ ازل سے کامل ہے۔

کتابہ (لکھ دینا)
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے۔
یعنی تمام مخلوقات کے حالات، واقعات، عمریں، رزق، نفع و نقصان، سب ازل سے لکھے جا چکے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِیْ أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَہَا ﴾
[الحدید: ۲۲]

ترجمہ:
“زمین میں یا تمہاری جانوں پر جو بھی مصیبت آتی ہے، وہ اس سے پہلے کتاب میں لکھی جا چکی ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔”

اور فرمایا:
﴿ وَکُلُّ شَیْءٍ أَحْصَیْنَاہُ فِیْ إِمَامٍ مُّبِیْنٍ ﴾
[یس: ۱۲]
“ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں محفوظ کر رکھا ہے۔”

مشیئۃ (اللہ کی مشیت پر ایمان)
یعنی یہ ایمان رکھنا کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے — وہ چاہے تو واقع ہو، نہ چاہے تو نہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ وَمَا تَشَاؤُوْنَ إِلَّا أَنْ یَّشَاءَ اللّٰہُ ﴾
[الانسان: ۳۰]

ترجمہ:
“تم کچھ نہیں چاہ سکتے مگر جو اللہ چاہے۔”

اسی لیے مومن ہر معاملے میں کہتا ہے:
”ما شاء اللہ، لا قوۃ إلا باللہ“ — “جو اللہ چاہے، وہی ہوتا ہے، اس کے سوا کوئی طاقت نہیں۔”

خلق (اللہ کی تخلیق پر ایمان)
اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کا خالق ہے — انسان کے افعال، ارادے، حرکات و سکنات، سب اسی کی تخلیق سے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾
[الصافات: ۹۶]

ترجمہ:
“اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو بھی۔”

یہ عقیدہ بندے کو یہ سمجھاتا ہے کہ نیکی ہو یا بدی، سب اللہ کی مشیت اور علم کے تحت ہے، البتہ اختیار و ارادہ انسان کے لیے ہے، ذمہ داری اس پر ہے۔

❖ تقدیر پر ایمان کے ثمرات

ایمان بالقدر سے بندے کے دل میں چند عظیم اخلاق و صفات پیدا ہوتی ہیں:

➊ اطمینان و سکون: بندہ جانتا ہے کہ جو ہونا تھا، وہ ہو گیا، اور جو نہیں ہونا تھا، وہ نہیں ہوا۔
➋ صبر و رضا: مصیبت پر صبر، اور اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا۔
➌ تکبر سے حفاظت: کامیابی پر غرور نہیں کرتا، کیونکہ جانتا ہے کہ توفیق اللہ کی طرف سے ہے۔
➍ گناہ سے اجتناب: یہ علم کہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے، انسان کو نافرمانی سے روکتا ہے۔

❖ نبی ﷺ کی تعلیم

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
(اِعْلَمْ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ)
[ترمذی: ۲۵۱۶، صحیح الجامع: ۷۹۵۷]

ترجمہ:
“جان لو! جو چیز تمہیں پہنچی وہ تم سے خطا نہیں ہو سکتی تھی، اور جو تم سے چوک گئی، وہ تمہیں پہنچنے والی نہ تھی۔”

یہ حدیث ایمان بالقدر کی حقیقت کو واضح کرتی ہے — کہ ہر کام اللہ کے فیصلے کے مطابق ہوتا ہے۔

❖ غلط فہمیوں کا ازالہ

کچھ لوگ تقدیر کے نام پر اپنی کوتاہیوں کا جواز ڈھونڈتے ہیں۔
یہ غلط ہے، کیونکہ اللہ نے انسان کو اختیار بھی دیا ہے — وہ چاہے تو نیکی کرے یا گناہ، مگر انجام اسی کے فیصلے سے ہوگا۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ ﴾
[الکہف: ۲۹]

“جو چاہے ایمان لائے، اور جو چاہے کفر کرے۔”

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ نے انسان کو عمل کا اختیار دیا ہے، لیکن نتیجہ اسی کے علم و مشیت کے مطابق ہوتا ہے۔

❖ ایمان بالقدر کے بغیر ایمان ناقص ہے

نبی ﷺ نے فرمایا:
(لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّٰی یُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ)
[ترمذی: ۲۱۴۵، صحیح]

ترجمہ:
“کوئی بندہ مؤمن نہیں بن سکتا جب تک اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہ لائے۔”

🌷 نتیجہ

ایمان کا تصور اسلام میں محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی اور اخلاقی نظامِ حیات ہے۔
جو بندہ اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، آخرت اور تقدیر پر حقیقی ایمان رکھتا ہے، وہ زندگی کے ہر مرحلے میں اللہ کی رضا کو مقدم جانتا ہے۔

❖ ایمان باللہ بندے کو توحید اور اخلاص سکھاتا ہے۔
❖ ایمان بالملائکہ اسے احساسِ ذمہ داری دیتا ہے۔
❖ ایمان بالکتب اسے علم و ہدایت کی روشنی عطا کرتا ہے۔
❖ ایمان بالرسل اسے اطاعتِ رسول ﷺ اور اتباعِ سنت کا پابند بناتا ہے۔
❖ ایمان بالآخر اسے آخرت کی جواب دہی کا احساس دلاتا ہے۔
❖ ایمان بالقدر اسے سکون، صبر اور تسلیم و رضا کے مقام پر پہنچاتا ہے۔

ایمان کے یہ ارکان باہم مربوط اور ایمانِ کامل کے ستون ہیں۔
جس نے ان پر ایمان لایا اور ان کے تقاضوں پر عمل کیا، اس کے لیے دنیا میں عزت اور آخرت میں جنت کی بشارت ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ﴾
[النحل: ۹۷]
ترجمہ:
“جو کوئی نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔”

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے