اذان کے احکام و مسائل

تحریر: علامہ عبدالولی عبدالقوی حفظ اللہ

اذان کے احکام و مسائل
(1) اذان کا لغوی و اصطلاحی معنی
”اذان“ عربی زبان کا لفظ ہے ، لغت میں جس کے معنی ”الاعلام“ یعنی خبر دینے کے ہیں ،
اسی معنی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
و أذان من اللہ ورسولہ ۔ ۔ (تو بہ (3)
”اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے خبر ہے ۔ “ [مختار الصحاح ص 12 ، النهاية فى غريب الاثرا / 68 ، التعريفات للجرجاني ص 30]
اور اصطلاح شرع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت معلوم الفاظ کے ذریعہ وقت نماز کی خبر دینا اذان کہلاتا ہے ۔
[التعريفات الجرجاني ص 30، سبل السلام 164/1 ، فتح الباري 94/2]
——————

(2) اذان کی مشروعیت کب اور کیسے ہوئی:
اہل علم کے راجح قول کے مطابق اذان مدینہ منورہ میں پہلی سن ہجری میں
فرض کی گئی ۔
[سبل السلام 1/ 165 ، نيل الاوطار 64/2 ، تحفة الاحوذي 623/1]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ اذان کس سن میں فرض کی گئی ، راجح یہ ہے کہ پہلی سن ہجری میں فرض کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ دوسری سن ہجری میں
فرض کی گئی ۔ [فتح الباري 93/2]

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمان مدینہ منورہ تشریف لائے ، تو نماز کے وقت کا اندازہ کر کے نماز کے لئے اکٹھا ہو جاتے تھے ، اس وقت تک نماز کے لئے اعلان نہیں ہوتا تھا ، ایک روز صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس موضوع پر گفتگو کی کہ نماز کے اوقات کا اعلان کیسے کیا جائے؟ تو کچھ لوگوں نے یہ تجویز دی کہ نصاری کی طرح ناقوس بجایا جائے ، بعض نے کہا کہ یہود کی طرح سنکھ بنا لیا جائے ، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہ کسی کو مقرر کر دیا جائے کہ وہ نماز کا اعلان کر دیا کرے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بلال !
کھڑے ہو اور نماز کا اعلان کرو ۔
[بخاري 604 ، مسلم 377]

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی خبر دینے کے لئے ناقوس بنانے کا حکم دیا ، مجھے سوتے میں ایک شخص دکھائی دیا جو اپنے ہاتھ میں ناقوس لئے ہوئے تھا ، میں نے اس سے کہا: اے اللہ کے بندے ! کیا تم اس ناقوس کو بیچو گے؟ اس نے مجھ سے دریافت کیا ، اس ناقوس کو کیا کرو گے؟ میں نے کہا: ہم اس سے لوگوں کو نماز کے لئے بلایا کریں گے ،
اس نے کہا: کیا میں تم کو اس سے بہتر چیز نہ بتلا دوں؟ میں نے کہا کیوں نہیں ،
اس شخص نے کہا کہو:
الله اكبر ، الله كبر ، الله اكبر الله اكبر ، أشهد أن لا اله الا الله ، أشهد أن لا اله الا الله، أشهد أن محمدا رسول الله ، أشهد أن محمدا رسول الله ، حى على الصلاة ، حي على الصلاة ، حي على الفلاح ، حي على الفلاح ، الله اكبر الله اكبر ، لا اله الا الله
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر وہ شخص مجھ سے تھوڑا سا دور ہٹ
گیا ، پھر کہا: جب نماز کھڑی کرو ، تو یہ کہو:
الله اكبر ، الله اكبر ، أشهد أن لا اله الا الله ، أشهد أن محمدا رسول الله ، حى على الصلاة ، حي على الفلاح ، قد قامت الصلاة ، قد قامت الصلاة ، الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کے پاس آیا اور جو خواب میں نے دیکھا تھا بیان کیا ، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان شاء اللہ یہ خواب سچا ہے ، بلال کے ساتھ کھڑے ہو اور جو کلمات تم نے خواب میں دیکھے ہیں بلال کو بتلاؤ وہ اذان دیں ، کیوں کہ ان کی آواز تم سے بلند ہے ، عبداللہ بن زید کہتے ہیں کہ میں بلال کے ساتھ کھڑا ہو گیا ، میں ان کو اذان کے کلمات بتلاتا جاتا اور وہ پکارتے جاتے تھے ، اذان کی اس آواز کو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
نے سنا وہ اپنے گھر میں تھے ، تو جلدی سے چادر گھسیٹتے ہوئے نکل آئے اور
کہنے لگے ، اے اللہ کے رسول ! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے بھی خواب میں اسی طرح دیکھا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ”اللہ ہی کے لئے حمد ہے ۔ “
[ابوداؤد 499 حسن صحيح عند الالباني رحمه الله ، صحيح ابوداؤد / 98 ح469]
——————

(3) اذان کے فضائل:
اذان ایک بہت بڑا کار خیر اور ایک عظیم نیکی کا کام ہے ، اللہ نے اس پر بے پایاں اجر و ثواب رکھا ہے ، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو يعلم الناس مافى النداء و الصف الأول ثم لم يجدوا الا أن
يستهموا عليه لاستهموا و لو يعلمون ما فى التهجير لاستبقوا اليه
ولو يعلمون ما فى العتمة و الصبح لاتوهما و لو حبوا

اگر لوگوں کو اذان اور پہلی صف کا ثواب معلوم ہو جائے تو اس کے لئے ضرور قرعہ اندازی کریں اور اگر نماز کے لئے پہلے جانے کی فضیلت معلوم ہو جائے تو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور اگر عشاء اور فجر کی فضیلت جان لیں تو اس میں ضرور آئیں ، خواہ گھٹنوں کے بل ہی آنا پڑے ۔
[بخاري 615 ، مسلم 437]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اذان اور مؤذن کے بہت سے فضائل ثابت ہیں ، ہم ذیل میں بعض فضائل کا ذکر کرتے ہیں:
روز قیامت مؤذن کے لئے ہر مخلوق گواہی دے گی:
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فانه لا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا انس الا شهد له يوم القيامة
”مؤذن کی آواز کو جنات ، انسان اور جو چیز سنتی ہے ، وہ قیامت کے روز اس
کے لئے گواہی دے گی ۔“ [بخاري 609]

روز قیامت اذان دینے والوں کی گردنیں لمبی ہوں گی:
قیامت کے دن اذان دینے والوں کی گردنیں لمبی ہوں گی ، جو عند اللہ ان
کے نمایاں مقام اور اعلیٰ قدر و منزلت کی غماز ہوں گی ۔
جیسا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کو
فرماتے ہوئے سنا:
المؤذنون أطول الناس أعناقا يوم القيامة
قیامت کے دن اذان دینے والوں کی گردنیں لمبی ہوں گی (یعنی اللہ کا نام بلند کرنے کی وجہ سے وہ نمایاں ہوں گے ) ۔
[مسلم 387]

جہاں تک مؤذن کی آواز پہنچتی ہے وہاں تک اس کے گناہ بخش
دئیے جاتے ہیں اور جو نمازی بھی اس کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اسے
اس کے برابر ثواب ملتا ہے:

براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان الله و ملائكته يصلون على الصف المقدم و المؤذن يغفر له بمد صوته و يصدقه من سمعه من رطب و يابس و له مثل أجر من صلى معه
بیشک اللہ پہلی صف والوں پر رحمت نازل فرماتا اور اس کے فرشتے ان کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں اور موذن کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں جہاں تک اس کی آواز پہنچتی ہے اور ہر تر و خشک جو بھی اس کی آواز سنتا ہے ، اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس کو ہر نمازی کے برابر ثواب ملتا ہے جو اس کے ساتھ نماز پڑھے ۔
[نسائي 646 صحيح عند الالباني رحمه الله ، صحيح النسائي 214/1]

اذان دینے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائے مغفرت سے بہرہ مند ہیں:
الامام ضامن و المؤذن موتمن اللهم أرشد الأئمة واغفر للمؤذنين
”امام نگراں ہے اور مؤذن امین ہے ، اے اللہ ! تو اماموں کو ہدایت دے اور
موذنوں کو بخش دے ۔“ [ابوداؤدح 517 ، ترمذي ح 207 صحيح عند الالباني رحمه الله ، صحيح ابوداؤد 155/1]

اذان کے ذریعہ گناہ بخشے جاتے اور بندہ مسلم کو جنت میں داخلہ نصیب ہوتا ہے:
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
يعجب ربك من راعى غنم فى راس شظية بجبل يؤذن بالصلاة ويصلى فيقول: الله – عز وجل – انظروا الى عبدى هذا يؤذن و يقيم يخاف منى فقد غفرت لعبدى و أدخلته الجنة
تمہارا رب بکری کے اس چرواہے سے خو ش ہوتا ہے جو ایک پہاڑ کی چوٹی میں رہ کر اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے ، اللہ عزوجل (فرشتوں سے ) فرماتا ہے ، میرے اس بندے کو دیکھو کہ وہ میرے ڈر سے اذان دیتا ہے اور اقامت کہتا ہے ، میں نے اپنے اس بندے کو بخش دیا اور اس کو جنت میں داخل کر دیا ۔
[ابوداؤد 1203 صحيح عند الالباني، صحيح ابوداؤدا / 329]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، بلال رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اذان دی ، جب خامو ش ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے یہ کلمات یقین دل سے کہے وہ جنت میں داخل ہوا ۔
[النسائي 673 حسن عند الالباني ، صحيح النسائي 1/ 221]

جس نے بارہ سال تک اذان دی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أذن ثنتى عشرة سنة وجبت له الجنة و كتب له بكل أذان
ستون حسنة و بكل اقامة ثلاثون حسنة

جس نے بارہ سال تک اذان دی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی ، اور ہر اذان کے بدلے اس کے لئے ساٹھ نیکیاں اور ہر اقامت کے بدلے تیس نیکیاں لکھی گئیں ۔
[ابن ماجه 735 صحيح عند الالباني ، صحيح ابن ماجه 226/1]

اذان آتش دوزخ سے حفاظت کا سامان ہے:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک سفر میں ایک شخص کو الله اكبر ، الله اكبر کہتے ہوئے سنا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ فطرت پر ہے ، پھر جب اس نے أشهد لا اله الا الله کہا: تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جہنم سے نکل گیا ، لوگ اس شخص کی جانب بڑھے ، تو وہ بکری کا
چرواہا تھا ، نماز کا وقت ہوا تو وہ کھڑا ہو کر اذان دینے لگا ۔
[صحيح ابن خزيمه 1/ 208 ح 399 ، صحيح ابن حبان 550/4 صحيح عند الالباني ،
صحيح الترغيب والترهيب 1 / 217 ح 245]

اذان کی آواز سن کر شیطان دور بھاگتا ہے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا نودي للصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لا يسمع التاذين فاذا قضى النداء أقبل حتى اذا ثو ب للصلاة أدبر حتى اذا قضى التثويب أقبل حتى يخطر بين المرء و نفسه يقول: اذكر كذا اذكر كذا لما لم يكن يذكر حتى يظل الرجل لا يدرى كم صلى
جب نماز کے لئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے ، جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو وہ واپس آ جاتا ہے ، پھر جب تکبیر کہی جاتی ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے ، جب تکبیر ختم ہوتی ہے تو پھر آ جاتا ہے تاکہ آدمی کے دل میں وسوسہ پیدا کرے کہ فلاں بات یاد کرو ، فلاں بات یاد کرو ، وہ باتیں جو اسے کبھی یاد نہیں آتی تھیں یہاں تک کہ آدمی کو پتہ نہیں چلتا کہ کتنی نماز پڑھی ۔
[بخاري 608 مسلم 389]

——————

(4) اذان کا حکم:
پنجوقتہ نمازوں اور جمعہ کے لئے اذان عورتوں کے علاوہ مردوں پر فرض کفایہ ہے ، اگر بعض لوگوں نے اسے انجام دے دیا تو باقی لوگ گناہ سے بری ہو گئے ، اور اگر بستی میں کوئی بھی اذان نہ دے تو سب کے سب گناہ گار ہوں گے ۔ اس کی دلیل مالک بن حویرث کی روایت ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فاذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم . . . . . .
جب نماز کا وقت ہو جائے تو کوئی ایک اذان دے ۔
[بخاري 628 مسلم 674]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ (کوئی ایک اذان دے) اذان کے فرض کفایہ
ہونے کی دلیل ہے ۔
——————

(5) اذان کے کلمات:
الله اكبر ، الله كبر ، الله اكبر ، الله اكبر ، أشهد أن لا اله الا الله ، أشهد أن لا اله الا الله، أشهد أن محمدا رسول الله ، أشهد أن
محمدا رسول الله ، حى على الصلاة ، حي على الصلاة ، حي على
الفلاح ، حي على الفلاح ، الله اكبر ، الله اكبر ، لا اله الا الله

اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی (سچا ) معبود نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی (سچا ) معبود نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ، نماز کی طرف آؤ ، نماز کی طرف آؤ ۔ کامیابی کی طرف آؤ ، کامیابی کی طرف آؤ ۔ اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ۔

دوہری اذان:
اذان میں شہادت کے چاروں کلمات پہلے دھیمی آواز سے کہنا اور پھر دوبارہ بلند آواز سے کہنا ترجیع کہلاتا ہے ۔
ابومحذورہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود مجھے اذان سکھلائی ، پس آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذان اس طرح کہو:
الله اكبر ، الله كبر ، الله اكبر ، الله اكبر ، أشهد أن لا اله الا الله ، أشهد أن لا اله الا الله أشهد أن محمدا رسول الله ، أشهد أن محمدا رسول الله ، (پھر دو بارہ بآواز بلند کہو) أشهد أن لا اله الا الله ، أشهد أن لا اله الا الله، أشهد أن محمدا رسول الله ، أشهد أن محمدا رسول الله ، حى على الصلاة ، حي على الصلاة ، حي على
الفلاح ، حي على الفلاح ، الله اكبر ، الله اكبر ، لا اله الا الله

[ابوداؤد 503 ، نسائي 632 صحيح عند الالباني ، صحيح ابوداؤد 101]
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اس مسئلہ میں درست محمدثین اور ان کے موافق لوگوں کا طریقہ ہے کہ جو چیز بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ اسے جائز کہتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کو ناپسند نہیں کرتے ہیں ، جب قراءتوں اور تشہد کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اذان واقامت کے مختلف طریقے ثابت ہیں تو کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت کو ناپسند کرے جسے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے امت کے لئے
مسنون قرار دیا ہے ۔ [مجموع فتاوي ابن تيميه 66/22]
——————

(6) فجر سے پہلے اذان دینا:
فجر سے پہلے اذان دینا مشروع ہے تاکہ سویا ہوا شخص بیدار ہو جائے ، روزہ رکھنا چاہے تو سحری کر لے ، وتر باقی ہو تو پڑھ لے اور جو تہجد میں مشغول ہو وہ
کچھ آرام کر کے نماز فجر کے لئے چاق و چوبند ہو جائے وغیرہ ۔
جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يمنعن أحدكم أو أحدا منكم اذان بلال من سحوره فانه يؤذن
أو ينادى بليل ليرجع قائمكم ولينبه نائمكم

کوئی بلال کی اذان سن کر سحری کھانا نہ چھوڑے کیوں کہ وہ رات کو اذان دیتے ہیں تاکہ تم میں سے تہجد پڑھنے والا تہجد سے فارغ ہو جائے اور سونے
والا بیدار ہو جائے ۔ [بخاري 621 ، مسلم 1093]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس کا معنی یہ ہے کہ تہجد پڑھنے والا اپنے آرام کی جانب لوٹ جائے تاکہ نماز فجر کے لئے چاک و چوبند ہو کر اٹھے یا روزہ رکھنا چاہتا ہو تو سحری کر لے اور اسی طرح سویا ہوا شخص بیدار ہو جائے تاکہ غسل وغیرہ کر کے نماز فجر کے
لئے تیار ہو جائے ۔ “ [فتح الباري 124/2]
اور جب فجر طلوع ہو جائے تو نماز فجر کے لئے دوبارہ اذان دی جائے ۔
افضل یہ ہے کہ دوبارہ اذان دینے والا دوسرا شخص ہو ، تاکہ لوگ آواز سن کر دونوں اذانوں کے فرق سے آگاہ ہو جائیں ، نیز ان دونوں اذانوں کے بیچ
فاصلہ تھوڑا ہو ۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو مؤذن تھے ، ایک بلال اور دوسرے عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ) فرمایا:
ان بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم ، قال:
و لم يكن بينهما الا أن ينزل هذا و يرقى هذا

بلال رات میں اذان دیتے ہیں تو ان کی اذان سن کر تم کھاؤ اور پیو ، یہاں تک کہ عبد اللہ بن ام مکتوم اذان دیں ، راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں کی اذان میں فرق صرف اتنا تھا کہ ایک اذان دے کر اترتے اور دوسرے اذان دینے
کے لئے چڑھتے ۔ [مسلم 1092]
◈ امام نووی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ فجر سے پہلے اذان دیتے تھے ، پھر اذان کے بعد دعا وغیرہ کے لئے ٹھہرے رہتے ، پھر طلوع فجر کا انتظار کرتے جب طلوع فجر قریب ہو جاتی تو اترتے اور عبداللہ بن ام مکتوم کو خبر کرتے وہ وضو وغیرہ کر کے تیار ہو جاتے اور منارہ پر چڑھ کر فجر طلوع ہوتے ہی اذان
شروع کر دیتے ۔ [شرح النووي على صحيح مسلم 203/4]
اذان فجر میں الصلاة خير من النوم کا اضافہ کرنا:
ابومحذورہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان کی تعلیم دی اور فرمایا:
فان كان صلاة الصبح قلت: الصلاة خير من النوم ، الصلاة خير من النوم
فجر کی اذان میں حي على الفلاح کے بعد دو بار یہ کلمات زیادہ کہو:
الصلاة خير من النوم، الصلاة خير من النوم
نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے ۔
[ابوداؤد503 صحيح عندالالباني ، صحيح ابوداؤد 148]
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صبح کی اذان میں حي على الفلاح
کے بعد الصلاة خير من النوم کہنا سنت ہے ۔
[صحيح ابن خزيمه 202/1 386]
◈ علامہ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”پہلی اذان جس کا ذکر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جس کا مقصد نماز فجر کے قریب ہونے کی بابت لوگوں کو آگاہ کرنا ہے ، اس میں الصلاة خير من النوم کہنا مشروع نہیں ہے ، کیوں کہ ابھی نماز کا وقت داخل نہیں ہوا ہے ، اور اگر دونوں اذانوں میں الصلاة خير من النوم کہا جائے تو لوگ شبہہ کے شکار ہو جائیں گے ، لہٰذا الصلاة خير من النوم صرف اس اذان میں کہنا ہے جو طلوع فجر کے بعد دی جاتی ہے ۔ “ [مجموع فتاوي مقالات متنوع 342/10]
——————

(7) اذان کا جواب دینا:
اذان کا جواب دینا مسنون ہے واجب نہیں ہے ۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! مؤذن اذان دینے کی وجہ سے ہم پر فضیات رکھتے ہیں ، (تو ہمیں کوئی ایسا عمل بتلائیے کہ ہم بھی اس فضیات تک پہنچ جائیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بھی انہیں کلمات کو کہو جو وہ کہتے ہیں ، جب اذان کے جواب سے فارغ ہو جاؤ تواللہ سے سوال کرو تمہیں عطا
کرے گا ۔ [ابوداود 520 حسن صحيح عندا الالباني ، صحيح ابوداؤد 157]

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذاسمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن
جب تم اذان کی آواز سنو تو ویسے ہی کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے ۔ [بخاري 611 ، مسلم 383]
عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب مؤذن کہے: ” الله اكبر ، الله اكبر اور کوئی شخص جواب میں کہے
الله اكبر ، الله اكبر “ پھر جب مؤذن کہے: اشهد أن لا اله الا الله تو جواب میں کہے: أشهد أن لا اله الا الله پھر جب مؤذن کہے: أشهد
أن محمدا رسول الله
تو جواب میں کہے: أشهد أن محمدا رسول الله پھر جب مؤذن کہے: حى على الصلاة تو جواب میں کہے: لا حول و لا قوة الا بالله پھر جب مؤذن کہے: حي على الفلاح تو جواب میں کہے: لا حول ولا قوة الا بالله پھر جب مؤذن کہے: الله اكبر الله اكبر تو جواب میں کہے: الله اكبر الله اكبر پھر جب مؤذن کہے: لا اله الا الله تو جواب میں کہے: لا اله الا الله ، جو شخص صدق دل سے مؤذن کے کلمات کا جواب دے ، وہ جنت میں داخل ہو جائے گا ۔
[مسلم حديث نمبر 385]
ابو رافع بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مؤذن کی آواز سنتے تو ویسے ہی کہتے جس طرح مؤذن کہتا یہاں تک کہ جب مؤذن حي على الصلاة اور حي على الفلاح پر پہنچ جاتا ، تو آپ یہ اس کے جواب میں لا حول ولا قوة الا بالله کہتے ۔
[مسند احمد 6 / 1391 ، الجامع الصغير ص 1888 صحيح عند الالباني ،
لاحاديث الصحيه 5/ 105 2575]

——————

(8) اذان کے بعد کی دعائیں:
اذان کے بعد نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ سے وسیلہ کا
سوال کیا جائے ۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
اذاسمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا على فانه من صلى
على صلاة صلى الله عليه بها عشرا ثم سلوا الله لى الوسيلة

جب تم مؤذن کی آواز سنو تو ویسے ہی کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے ، پھر میرے اوپر دورد بھیجو ، کیوں کہ جو شخص میرے اوپر ایک بار درود بھیجتا ہے ، اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، پھر اللہ سے میرے لئے وسیلہ کا سوال کرو ۔
[مسلم 384]
چنانچہ اذان کے ختم ہونے پر ہر مسلمان مرد و عورت ایک بار درود پڑھیں ، پھر
مندرجہ ذیل دعا پڑھیں اور اللہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وسیلہ کا سوال کریں ۔
اللهم رب هذه الدعوة التامة و الصلاة القائمة آت محمد
الوسيلة والفضيلة وابعثه مقامامحمود الذى وعدته

اس پوری پکار (اذان) کے اور (قیامت تک) قائم رہنے والی نماز کے رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور بزرگی عطا فرما اور انہیں مقام محمود میں پہنچا جس کا
تو نے ان سے وعدہ کیا ہے ۔
جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص اذان سن کر یہ دعا پڑھے اللهم رب هذه الدعوة التامة و الصلاة . . . . . .
اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت واجب ہو جاتی ہے ۔
[بخاري حديث نمبر 614]
سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص مؤذن کی اذان سن کر مندرجہ ذیل دعا پڑھے اس کے گناہ بخش دیے
جاتے ہیں ۔
أشهد أن لا اله الا الله وحده لا شريك له و أن محمدا عبده
ورسوله ، رضيت بالله ربا و بمحمد رسولا و بالاسلام دينا

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی (سچا) معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ، میں اللہ سے راضی ہو گیا رب ہونے کی حیثیت سے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے رسول ہونے کی حیثیت
سے اور اسلام سے دین ہونے کی حیثیت سے ۔
[مسلم حديث نمبر 386]
وسیلہ کی تشریح:
وسیلہ کے متعلق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
فانها منزلة فى الجنة لا تنبغى الا لعبد من عباد الله و أرجو أن
أكون أنا هو

وسیلہ جنت میں ایک مقام ہے جو صرف ایک بندے کے لائق ہے اور میں
امید رکھتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں ۔ [مسلم 384]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے معلوم ہوا کہ وسیلہ بہشت کے ایک بلند و بالا
درجے کا نام ہے ۔
◈ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وسیلہ جنت میں ایک اعلیٰ مقام کا نام ہے ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور جنت
میں آپ کا گھر ہے اور جنت کی یہ جگہ عرش الہی سے انتہائی قریب ہے ۔
[تفسير بن كثير 73/2]
——————

(9) اذان کی شرائط:
اذان کے لئے کچھ شرائط ہیں ، جن پر اذان کی صحت کا دارومدار ہے ، ذیل
میں ہم ان شرطوں کا ذکر کرتے ہیں:
پہلی شرط:
وقت کا داخل ہونا:
اذان کے لئے شرط ہے کہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد اذان دی جائے ، اگر کسی نے وقت سے پہلے اذان دے دی ، تو وہ اذان درست نہیں ہے ، اسے چاہئے کہ نماز کا وقت ہونے کے بعد دوبارہ اذان دے ، تاکہ لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ پہلی اذان غلط تھی ، کیوں کہ اذان وقت کے داخل ہونے کی
خبر ہے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فاذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم . . . . . .
جب نماز کا وقت ہو جائے تو کوئی ایک اذان دے ۔
◈ علامہ ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اہل علم کا اجماع ہے کہ سنت سے یہ ہے کہ نماز کا وقت ہونے کے بعد اذان دی جائے ، کیوں کہ اذان کی مشروعیت کا مقصد نماز کے وقت کی بابت خبر دینا ہے ، چنانچہ وقت سے پہلے اذان دینا جائز نہیں ہے ، کیوں اس سے
اذان کا مقصد فوت ہو جائے گا ۔ [الا جماع لا بن المند رص 39 ، المغني 62/2]
دوسری شرط:
ترتیب
اذان کے کلمات بالترتیب ادا کئے جائیں ، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ، چنانچہ اگر مؤذن اذان کے کلمات کو پلٹ دے ، تو یہ اذان درست نہیں ہے ، کیوں کہ اذان عبادت ہے اور ہر عبادت کو اسی طرح انجام دینا
ضروری ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔
رسول اللہ اللہ نے فرمایا:
من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ، غیر قابل قبول ہے ۔

تیسری شرط:
اذان کے کلمات کو بغیر انقطاع کے تسلسل کے ساتھ کہنا:
اذان کے تسلسل کے ساتھ ہونے کا معنی یہ ہے کہ مؤذن اذان کے جملوں
میں لمبا فاصلہ نہ کرے اور اگر کھانسی ، چھینک یا کسی اور وجہ سے تھوڑا فاصلہ ہو جائے تو بوجہ ضرورت اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر فاصلہ لمبا ہو تو شرط موالاۃ (تسلسل) کے فوت ہو جانے کی وجہ سے اذان باطل ہو جائے گی ، اور اگر دوران اذان حرام گفتگو کر بیٹھے مثلاً کسی کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا ، تو اس سے
اذان باطل ہو جائے گی گرچہ گفتگو مختصر
ہو
◈ امام مرداوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر اذان کے جملوں میں لمبی خاموشی یا بہت زیادہ بات چیت یا حرام گفتگو
سے فاصلہ ہو جائے تو اس اذان کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا ۔
[الا انصاف للمرداوي 86/3]

چوتھی شرط:
اذان میں کوئی ایسی غلطی نہ کرے جس سے معنی میں تبدیلی واقع ہو:
◈علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اگر مؤذن اذان میں ایسی غلطی کرے جس سے معنی میں تبدیلی واقع ہو جائے تو وہ اذان درست نہیں ہے مثلاً کہے: الله اكبار ، اور اگر ایسی غلطی کرے کہ اس سے معنی میں تبدیلی واقع نہ ہو تو اذان کراہت کے ساتھ درست
ہے مثلاً کہے: الله اكبر تو اس سے معنی میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے۔“
[اشرح مع 62/2]

پانچویں شرط:
کلمات اذان کی تعداد سنت کے مطابق ہو:
مؤذن اذان کے کلمات میں اپنی جانب سے کوئی کمی یا زیادتی نہ کرے ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد کلمات کی پابندی کرے ، اگر اس نے اپنی جانب سے کوئی کلمہ کم یا زیادہ کر دیا تو اس کی اذان باطل ہے ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ، غیر قابل قبول ہے ۔
——————

(10) مؤذن کی شرائط:
مؤذن کے لئے کچھ شرائط ہیں جن شرطوں کے پائے جانے پر اذان کی
صحت کا دارومدار ہے ، ہم ذیل میں ان شرطوں کا ذکر کرتے ہیں:
پہلی شرط: مؤذن مسلمان ہو ، چنانچہ کسی کافر کی دی ہوئی اذان درست نہیں ہے ۔
دوسری شرط: مؤذن صاحب عقل ہو ، دیوانہ نہ ہو ، چنانچہ کسی دیوانہ کی اذان
درست نہیں ہے ، کیوں کہ وہ عبادات کی ذمہ داری سے خارج ہے ۔
تیسری شرط: ممیز ہو: یعنی سن تمییز کو پہنچ چکا ہو ، سن تمیز سات سال ہے ، یعنی سات سال سے
چھوٹے بچے کی اذان درست نہیں ہے ۔
چوتھی شرط: مرد ہو ، چنانچہ عورت کی اذان درست نہیں ہے ۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ليس على النساء أذان ولا اقامة
عورتوں پر اذان و اقامت نہیں ہے ۔ [سنن الكبري بيهقي 1/ 408]
نیز یہ کہ اذان میں آواز کا بلند کرنا مشروع ہے اور عورت اس کی اہل نہیں ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کرے ، اسی بنا پر عورت بآواز بلند تلبیہ نہیں پڑھے گی اور
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اہل خانہ کی امامت کا حکم دیا تو ایک بوڑھے مرد کو مؤذن متعین کیا ۔
[منار السبيل 1/ 87 ، شرح العمد: 102/2]
◈ قاضی شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اذان وقت نماز کے داخلہ کی خبر اور اس کے لئے بلاوا ہے ، چنانچہ اس
مقصد کا حصول آواز بلند کئے بغیر ممکن نہیں ہے ، جب کہ عورت کو پردہ کا حکم ہے ، نیز عہد نبوی اور عہد صحابہ و تابعین و تبع تابعین میں نہیں سنا گیا کہ کسی
عورت نے اذان دی ہو ۔
[السيل الجرارا / 199 ، الروضة الندية / 77]
فتوی کمیٹی سعودی عرب کے ایک فتوی میں کہا گیا ہے:
علماء کے صحیح قول کے مطابق عورت کے لئے اذان نہیں ہے ، کیوں کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اور حضرات خلفاء راشدین کے عہد میں کبھی کسی عورت
نے اذان نہیں کہی تھی ۔
[فتاوي اللجنة الدائمة 82/9]
پانچویں شرط: عادل ہو:
مؤذن کے لئے شرط ہے کہ عادل ہو ، یعنی ظاہری طور پر اس میں عدالت ہو ،
فاسق نہ ہو ، فاسق وہ ہے جو بعض کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو ۔
◈ صاحب منار السبیل فرماتے ہیں:
فاسق کی اذان درست نہیں ہے ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو امانت کے وصف سے متصف فرمایا ہے ، اور فاسق غیر امین ہے اور وہ جس کا فسق ظاہر نہ ہو بلکہ پوشیدہ ہو اس کی اذان درست ہے ۔
[منار السبيل 87/1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الامام ضامن و المؤذن مو تمن اللهم أرشد الأئمة واغفر للمؤذنين
امام نگراں ہے اور مؤذن امین ہے ، اے اللہ ! تو اماموں کو ہدایت دے اور
موذنوں کو بخش دے ۔
[ابوداؤدح 517 ترمذي ح 207 صحيح عند الالباني ، صحيح ابوداودا / 155]
مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو امین سے موصوف فرمایا ہے ۔
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فاسق کی اذان کفایت کرے گی یا نہیں ، اس بارے میں اہل علم کی دو
رائیں ہیں ، زیادہ قوی بات یہ ہے کہ فاسق کی اذان امر نبوی کی مخالفت کی وجہ
سے کفایت نہیں کرے گی ۔
[الفتاوي الكبري 321/5]
اس مسئلہ میں راجح بات یہ ہے کہ فاسق کی اذان بالکراہت جائز ہے ، لیکن عادل افراد کے ہوتے ہوئے اسے مؤذن متعین کرنا جائز نہیں ہے ، البتہ اگر وہ کبھی کسی وجہ سے اذان دے دے ، تو اس کی اذان بالکراہت درست ہے ،
اذان دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
رہا مسئلہ ایسے فاسق کی اذان کا جو مجاہر ہو ، جو اپنے گناہوں پر نازاں و فرحاں ہو،
ان کا فخریہ طور پر اعلان کرتا پھرتا ہو ، تو اس کی اذان درست نہیں ہے ۔
——————

(11) مؤذن کے آداب:
مؤذن کی کچھ صفات ہیں مؤذن کو چاہیے کہ ان اوصاف سے متصف ہو ۔
(1) مؤذن رضائے الہٰی کے حصول کے لئے اذان دے:
مؤذن رضائے الہٰی کی خاطر اذان دے اور اس پر مزدوری نہ لے ۔
عثمان بن ابوالعاص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے
رسول ! مجھے میری قوم کا امام بنا دیجئے تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أنت امامهم و اقتد بأضعفهم و اتخذ مؤذنا لا ياخذ على أذانه أجرا
تم ان کے امام ہو ، کمزوروں کا خیال رکھو اور ایک ایسا مؤذن مقرر کر لو جو اپنی
اذان پر مزدوری نہ لے ۔
[ابوداؤد 53 صحيح عند الالباني ، صحيح ابوداؤد 159]
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے ، انہوں نے مؤذن کے لئے اپنی اذان پر مزدوری لینے کو مکروہ گردانا ہے اور رضائے
الہٰی کی خاطر اذان دینے کو مستحب کہا ہے ۔
[سنن الترمذي ص 59 طبعه دارا اسلام رياض]
ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: میں اللہ کی خاطر آپ سے محبت رکھتا ہوں ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: تم گواہ رہو کہ میں اللہ کی خاطر تمہیں ناپسند کرتا ہوں ، اس شخص نے پوچھا: ، کیوں؟ تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اپنی اذان میں غلطی کرتے ہو اور اس پر مزدوری لیتے ہو ۔
[سلسلة الاحاديث الصحيحه 61/1]

(2) باوضو ہو:
مؤذن کے حق میں افضل یہ ہے کہ باوضو ہو کر اذان دے ، کیوں کہ اذان ذکر کی قبیل سے ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کے لئے باوضو ہونے کو پسند
فرمایا ہے ۔
مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور
سلام کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے ، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب نہیں دیا ،
یہاں تک کہ وضو کر لیا ، پھر آپ نے مہاجر بن قنفد سے معذرت کی اور فرمایا کہ میں نے بغیر طہارت کے اللہ کا ذکر کرنا ناپسند کیا ۔ (اس وجہ سے
تمہارے سلام کا جواب نہیں دیا )
[ابوداؤد، صحيح عند الالباني ، صحيح ابوداؤد 136]
لیکن اگر موذن بغیر وضو کے اذان دے دے ، تو بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔
جیسا کہ ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا:
بغیر وضو کے اذان دینے میں کوئی حرج
نہیں ہے ۔ [صحيح بخاري تعليقاً ص 104 ، مصنف ابن ابي شيبه 1 / 191]

(3) اونچی جگہ سے اذان دے:
قبیلہ بنو النجار کی ایک عورت بیان کرتی ہیں کہ میرا گھر سب گھروں میں جو مسجد کے اردگرد تھے اونچا تھا ، بلال رضی اللہ عنہ اس پر آ کر فجر کی اذان دیا کرتے تھے وہ فجر سے پہلے آکر وہاں بیٹھتے ، صبح صادق کو دیکھتے رہتے ، صبح صادق ہو جاتی تو انگڑائی لیتے (کیوں کہ بیٹھے بیٹھے تھک جاتے تھے ) پھر فرماتے: اے پروردگار ! میں تیرا شکر کرتا ہوں اور قریش کے لوگوں کی بابت تجھ سے مدد چاہتا ہوں کہ وہ
تیرے دین کو قائم کریں (مسلمان ہو جائیں) پھر اذان دیتے تھے ۔ [ابوداؤد 519 حسن عند الالباني ، صحيح ابوداود ح 487]

(4) قبلہ رو کھڑے ہو کر اذان دے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: قم فاذن ”کھڑے ہو اور اذان کہو ۔“
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موذنین قبلہ رو کھڑے ہو کر اذان دیا کرتے تھے ۔ چنانچہ افضل کھڑے ہو کر اذان دینا ہے لیکن اگر موذن کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر اذان دے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
حسن العبدی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوزید الانصاری کو دیکھا کہ وہ
بیٹھ کر اذان دے رہے تھے اور ان کا پاؤں اللہ کی راہ میں زخمی ہو گیا تھا ۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1394/1 حسن، عند الباني]

(5) مؤذن خوش آواز ہو:
ابومحذورہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی آواز پسند
آگئی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کو اذان سکھلائی ۔
[سنن الدار مي 1/ 291 صحيح ابن خزيمه 1 / 195 ح 7 37]
یہ حدیث صحیح ہے ۔ [النمر
المستطاب ص 152]

◈ امام صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”مستحب ہے کہ مؤذن خو ش آواز ہو ۔“
[سبل السلام 170/1]
——————

(12) مسنونات اذان
اذان کے بعض مسنونات ہیں جنھیں ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں:
(1) دونوں انگلیوں کو کانوں میں ڈالنا:
مؤذن کے لئے مسنون ہے کہ اذان دیتے وقت اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے
دونوں کانوں میں ڈال لے ۔
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ اذان کہتے
ہوئے اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈالے ہوئے تھے ۔
[ترمذي 197 مسند احمد 2/ 308 صحيح عند الالباني ، صحيح الترمذي 1/ 126]
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اہل علم کے نزدیک اس پر عمل ہے کہ وہ موذن کے لئے اپنی دونوں انگلیوں
کو کانوں میں داخل کرنے کو مستحب قرار دیتے ہیں ۔
[سنن الترمذي ص 55]

(2) حــى عـلـى الصلاة پر گردن دائیں طرف اور حی علی الفلاح پر بائیں طرف گھمانا:
مؤذن کے لئے مسنون ہے کہ جب حي على الصلاة پر پہنچے تو اپنی گردن
دائیں طرف اور جب حي على الفلاح پر پہنچے تو بائیں طرف گھمائے ۔
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ جب وہ حي على الصلاة اور حي على الفلاح پر پہنچے تو اپنی گردن کو گھمایا اور خود نہ گھومے ۔ [ابوداود 520 ، سنن الكبري بيهقي 395/1 صحيح عند الالباني] ،
[المستطاب ص 167 ، تمام المنتة ص 150]

(3) اذان فجر میں الصلاة خير من النوم کہنا:
نماز فجر میں حي على الفلاح کے بعد الصلاة خير من النوم کہنا مسنون ہے ۔
ابومحذورہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان کی تعلیم دی اور فرمایا:
فان كان صلاة الصبح قلت: الصلاة خير من النوم الصلاة خير من النوم
فجر کی اذان میں حي على الفلاح کے بعد دو بار یہ کلمات زیادہ کہو: الصلاة خير من النوم ، الصلاة خير من النوم ”نماز نیند سے بہتر ہے ، نماز نیند سے بہتر ہے ۔“
[ابوداؤد 500، صحيح عند الالباني، صحيح ابوداؤد 138]
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صبح کی اذان میں حي على الفلاح
کے بعد الصلاة خير من النوم کہناسنت ہے ۔
[ صحيح ابن خزيمه /233 صحيح عند الالباني ، المستطاب ص 132]
مجاہد بیان کرتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا تو کسی شخص نے اذان ظہر یا عصر میں الصلاة خير من النوم کہا: ، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے
کہا: ہمیں یہاں سے نکالو کیوں کہ یہ بدعت ہے ۔ [ابوداؤد 538 ، حسن عند الالباني ، صحيح ابوداؤد 161 ح 504]
اور مصنف عبد الرزاق 475/1“ کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمیں اس بدعتی
کے پاس سے نکالو ۔

(4) اول وقت میں اذان دینا:
مؤذن کو چاہیے کہ اول وقت میں اذان دے ۔
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ اذان وقت سے مؤخر نہیں
کرتے تھے ، بسا اوقات اقامت تھوڑی مؤخر کر دیتے ۔
[ابن ماجه 713 ، حسن عند الالباني ، صحيح ابن ماجہ 590 ]
——————

دوسری فصل:
اقامت کے احکام و مسائل
(1) اقامت کا لغوی و شرعی معنی
اقامت لفظ اقام کا مصدر ہے ، جس کے معنی کسی چیز کے قائم کرنے کے ہیں ، اور اصلاح شرع میں شرعاً ثابت مخصوص الفاظ کے ذریعہ نماز کے
لئے کھڑے ہونے کی خبر دینا ہے ۔
[علي المذاهب ربعه 484/1 ، الشرح المجمع 36/2]

(2) اقامت کی فضیلت:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا نودي للصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لا يسمع التاذين فاذا قضى النداء اقبل حتى اذا ثو ب للصلاة أدبر حتى اذا قضى التثويب اقبل حتى يخطر بين المرء و نفسه يقول: اذكر كذا اذكر كذا لما لم يكن يذكر حتى يظل
الرجل لا يدرى كم صلى

جب نماز کے لئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے ، جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو
وہ واپس آ جاتا ہے ، یہاں تک کہ جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر بھاگ جاتا ہے ، جب اقامت ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے تاکہ آدمی کے دل میں وسوسہ پیدا کرے کہ فلاں بات یاد کرو ، فلاں بات یاد کرو ، وہ باتیں جو اسے کبھی یاد نہیں آتی تھیں یہاں تک کہ آدمی کو پتہ نہیں چلتاکہ کتنی نماز پڑھی ۔
[ بخاري 608 مسلم 389/ 19]
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا ثو ب بالصلاة فتحت ابواب السماء و استجيب الدعاء
جب نماز کے لئے اقامت کہی جاتی ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دعا قبول کی جاتی ہے ۔
[صحيح الترغيب والترهيب 223/1 260]
(3) اقامت کا حکم:
اذان کی طرح پنج وقتہ نمازوں اور نماز جمعہ کے لئے اقامت فرض کفایہ ہے ۔
[ منار السبيل 85/1 منتهي الارادات 139/1]

(4) اقامت کا طریقہ:
احادیث میں اقامت کے دو طریقے وارد ہوئے ہیں ، ہم ذیل میں انہیں
ذکر کرتے ہیں:
پہلا طریقہ:
الله اكبر ، الله اكبر ، اشهد أن لا اله الا الله ، أشهد أن محمد
رسول الله حي على الصلاة ، حي على الفلاح ، قد قامت
الصلاة ، قد قامت الصلاة ، الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بلال کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کے کلمات کو
جفت اور اقامت کے کلمات کو طاق کہیں سوائے قد قامت الصلاۃ کے ۔
[بخاري 605 مسلم 378]
ابور افع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اذان کے کلمات کو دو دو بار اور اقامت کے کلمات کو ایک ایک
بار کہتے تھے ۔
[ ابن ماجه 732 ، دارقطني 1/ 241 صحيح عند الالباني ، صحيح ابن ماجه/133 ح 598]

دوسر اطریقہ:
الله اكبر ، الله كبر ، الله اكبر ، الله اكبر ، أشهد أن لا اله الا الله ، أشهد أن لا اله الا الله، أشهد أن محمدا رسول الله ، أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة ، حي على الصلاة ، حى على الفلاح ، حى على الفلاح ، قد قامت الصلاة ، قد قامت
الصلاة ، الله الله اكبر ، الله اكبر ، لا اله الا الله
[ابوداؤد 502 ، ابن ماجه 709 صحيح عند الالباني ، صحيح ابوداؤد 100]
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”کلمات اذان کو دو بار اور اقامت کے کلمات کو ایک بار کہنے کی احادیث دوسری احادیث کے مقابل باعتبار سند زیادہ صحیح ہیں اور بیشتر علماء کا اسی پر عمل ہے، نیز حرمیں ، حجاز ، شام ، یمن اور دیار مصر وغیرہ میں اسی پر عمل جاری ہے۔“
[ سبل السلام 1/ 169]

(5) اقامت کا جواب دینا:
اقامت کا جواب دینے سے متعلق سنن ابوداؤد کی ایک حدیث ہے ، جو ضعیف ،
لائق احتجاج نہیں ہے ، راج یہ کہ اقامت کا جواب نہیں دیا جائے گا ۔
[ فتاوي اركان الاسلام ص 287]

(6) اذان واقامت کے درمیان فاصلہ
اذان کا مقصد نماز کا وقت ہونے کی خبر دینا ہے ، چنانچہ اذان اور اقامت کے درمیان اتنا وقت رکھا جائے کہ نمازی نماز کے لئے تیار ہو کر مسجد پہنچ جائے ، مثلاً کوئی کھانا کھا رہا ہو تو کھانے سے ، وضو کرنے والا وضو سے فارغ ہو جائے ، اور مسجد میں موجود نمازی سنت پڑھ لیں ، وغیرہ ۔
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بين كل أذانين صلاة بين كل أذانين صلاة ثم قال فى الثالثة: لمن شاء
ہر دو اذان (یعنی اذان واقامت) کے مابین نماز ہے ، ہر دو اذان (یعنی
اذان واقامت) کے مابین نماز ہے ، پھر تیسری بار فرمایا: اس شخص کے لئے جو چاہے ۔ [بخاري 627، مسلم 838]
انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ہم لوگوں کی عادت تھی کہ جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو لوگ دوڑ کر ستونوں کی آڑ میں چلے جاتے
اور دو رکعت نماز پڑھتے ۔ [بخاري 625 مسلم 837]
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يا بلال ! اجعل بين أذانك و اقامتك نفسا يفرغ الآكل من طعامه
فى مهل ويقضى المتؤضى حاجته فى مهل

اے بلال ! اپنی اذان اور اقامت میں اتنی مہلت رکھو کہ کھانے والا آسانی سے
اپنے کھانے سے اور وضو کرنے والا آسانی سے اپنے وضو سے فارغ ہو جائے ۔
[ مسند احمد 35 207 حسن عند الالباني ، صحيح الجامع 93/1 ]
الحمد لله الذى بنعمته تتم الصالحات
وصلى الله على نبينا محمد و على آله و صحبه أجمعين

یہ تحریر اب تک 99 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 2 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔