اذان و اقامت کا مسنون طریقہ
عن أنس رضى الله عنه قال: أمر بلال أن يشفع الأذان وأن يوتر الإقامة إلا الإقامة
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا تھا کہ اذان دہری اور اقامت اکہری کہیں، مگر اقامت (قد قامت الصلوة ) کے الفاظ دو بار کہیں۔ [صحیح البخاری: 85/1 ح 605 واللفظ له، صحیح مسلم: 164/1 ح 378]
اسی حدیث کی ایک دوسری سند میں آیا ہے:
أن رسول الله أمر بلالا
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا۔ [سنن النسائی مع حاشیہ السندھی: ج 103 ح 628]
فوائد:
(1)اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ اذان کے الفاظ درج ذیل ہیں:
الله أكبر الله أكبر، الله أكبر الله أكبر – أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله – أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله – حي على الصلوة، حي على الصلوة – حي على الفلاح، حي على الفلاح – الله أكبر الله أكبر – لا إله إلا الله ۔
اور اقامت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
الله أكبر، الله أكبر – أشهد أن لا إله إلا الله – أشهد أن محمدا رسول الله – حي على الصلوة – حي على الفلاح – قد قامت الصلوة، قد قامت الصلوة الله أكبر، الله أكبر – لا إله إلا الله
(2)مصنف عبد الرزاق کی ایک روایت میں آیا ہے: إن بلالا كان يثنى الأذان ويثني الإقامة بے شک بلال رضی اللہ عنہ اذان اور اقامت دہری کہا کرتے تھے۔ لیکن یہ حدیث بلحاظ سند ضعیف ہے۔
(ا)اس کا راوی ابراہیم النخعی مدلس ہے۔ [کتاب المدلسين للعراقی ص 24، 35 و اسماء المدلسين للسیوطی ص 93]
اس کی یہ روایت ”عن“ کے ساتھ ہے۔ مدلس کی ”عن“ والی روایت محدثین کے علاوہ دیوبندی اور بریلویوں کے نزدیک بھی ضعیف ہوتی ہے۔ دیکھیے خزائن السنن: 1/1، فتاوی رضویہ 245/5، 266
(ب) اس کا دوسرا راوی حماد بن ابی سلیمان ہے۔ دیکھیے مصنف عبدالرزاق 462/1 ح1790
حماد مذکور مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ مختلط بھی ہے۔ [طبقات المدلسین تحقیقی: 2/45]
حافظ ہیثمی نے کہا:
ولا يقبل من حديث حماد إلا ما رواه عنه القدماء بشعبة وسفيان الثوري والدستوائي، ومن عدا هؤلاء رووا عنه بعد الإختلاط
یعنی حماد کی صرف وہی روایت مقبول ہے جو اس کے قدیم شاگردوں: شعبہ، سفیان ثوری اور (ہشام) الدستوائی نے بیان کی ہے، ان کے علاوہ سب لوگوں نے اس سے اختلاط کے بعد سنا ہے۔ [مجمع الزوائد 119/1، 120]
لہذا معمر کی حماد مذکور سے روایت ضعیف ہے، عدم تصریح سماع کا مسئلہ علیحدہ ہے۔
(3) ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی جس روایت میں دہری اقامت کا ذکر آیا ہے اس میں اذان بھی دہری ہے یعنی چار دفعہ أشهد أن لا إله إلا الله اور چار دفعہ أشهد أن محمدا رسول الله ہے۔ [سنن ابی داود: 502]
اس طریقے سے عمل کیا جائے تو صحیح ہے ورنہ دہری اذان کا ارتکاب کرتے ہوئے، اقامت اس حدیث سے لینا اور اذان حدیث بلال سے لینا سخت نا انصافی ہے۔
(4)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے ورنہ ناممکن ہے۔ آپ دیکھ لیں جو حضرات دہری اقامت کہتے ہیں وہ دہری اذان کبھی نہیں کہتے، پتہ نہیں اتباع سنت سے انہیں کیا بیر ہے؟ اللہ تعالیٰ اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔