اذان اول وقت میں دینی رہنمائی
اذان دینا اول وقت میں مشروع ہے، جبکہ اقامت امام کے آنے پر ہونی چاہیے۔
حدیث مبارکہ:
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"سیدنا بلال رضی اللہ عنہ زوال کے وقت اذان کہہ دیتے تھے لیکن جب تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لیے) نہ نکلتے اقامت نہ کہتے۔ پس جب آپ نکلتے تو آپ کو دیکھ کر اقامت کہتے۔”
(مسلم، المساجد، متی یقوم الناس للصلاۃ، 606)
نیند کی وجہ سے اذان میں غلطی
اگر مؤذن سے نیند کی وجہ سے غلطی ہو جائے تو اسے تسلیم کرنا اور اعلان کرنا چاہیے۔
حدیث مبارکہ:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
"ایک دن سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے فجر کے طلوع ہونے سے پہلے اذان کہہ دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’واپس جاؤ اور اعلان کرو کہ بندہ سو گیا تھا۔‘ (نیند کی وجہ سے غلطی ہوئی)
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ واپس گئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ بے شک بندہ سو گیا تھا۔”
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب فی الاذان قبل دخول الوقت، 235)
اذان کے بعد دعا کا وقت
اذان کے بعد کا وقت دعا کی قبولیت کے لیے نہایت اہم مانا گیا ہے۔
حدیث مبارکہ:
سیدنا مکحول رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’دعا کی قبولیت لشکروں کے ٹکرانے کے وقت، نماز کی اقامت کے وقت اور بارش کے نزول کے وقت تلاش کرو۔‘”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی، 9641)
ایک اور حدیث:
سیدنا عبد ﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا:
’جیسے مؤذن کہتا ہے تو بھی اسی طرح جواب دے، پھر جب تو جواب سے فارغ ہو جائے تو (دعا) مانگ! تیری دعا قبول کی جائے گی۔‘”
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب مایقول اذا سمع الموذن، 425۔ امام ابن حبان: 592 نے صحیح کہا)
مزید روایت:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’اذان اور تکبیر کے درمیان ﷲ تعالیٰ دعا رد نہیں فرماتا۔‘”
(ابو داود: 125، ترمذی، الصلاۃ، باب: ما جاء فی ان الدعاء لا یرد بین الأذان والإقامۃ، 212۔ ترمذی نے حسن صحیح کہا)
بیماری اور وباء کے دوران گھروں میں اذان دینا
بعض لوگ وباء اور بیماریوں کے دوران گھروں میں اذانیں دیتے ہیں، مگر:
یہ عمل سنت سے ثابت نہیں، کیونکہ اس حوالے سے پیش کی جانے والی تمام روایات ضعیف ہیں۔