ادھار لی ہوئی چیز کا انکار کرنے کی وجہ سے ہاتھ کاٹا جائے گا
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مخزومی عورت ادھار سامان لے کر اس کا انکار کر دیتی تھی ۔
فأمر النبى صلى الله عليه وسلم بقطع يدها
”تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3694 ، كتاب الحدود: باب فى القطع فى العارية إذا جحدت ، احمد: 151/2 ، ابو داود: 4395 ، نسائي: 70/8 ، مشكل الآثار: 97/3]
(احمدؒ ، اسحاقؒ ، ابن حزم: ، اہل ظاہر ) ادھار لی ہوئی چیز کے انکار پر ہاتھ کاٹا جائے گا ۔
(جمہور ) ہاتھ کاٹنا واجب نہیں کیونکہ قرآن میں سارق کا ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے اور یہ لغوی اعتبار سے سارق نہیں ۔
[نيل الأوطار: 585/4 ، المحلى بالآثار: 358/12]
(ابن قیمؒ ) ادھار کا انکار بھی سرقہ میں شامل ہے ۔
[زاد المعاد: 50/5]
(صدیق حسن خانؒ ) اگرچه لغوی اعتبار سے سارق نہیں لیکن شرعی اعتبار سے تو سارق ہے اور شرع کو لغت پر ترجیح حاصل ہے ۔
[الروضة الندية: 605/2]
(شوکانیؒ ) یہ حدیث امانت کا انکار کرنے والے پر بھی صادق آتی ہے کہ بلا شبہ وہ چور ہے اور برحق بات یہی ہے کہ امانت کا انکار کرنے والے کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا اور یہ ان دلائل سے خاص ہو گا جن میں حرز کا اعتبار ہے ۔
[نيل الأوطار: 586/4]
(راجح ) امام احمدؒ وغیرہ کا موقف ہی اقرب الی الحدیث معلوم ہوتا ہے ۔
علاوہ ازیں جس روایت میں ہے کہ اس عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ایک چادر چرائی تھی ، وہ ضعیف ہے ۔
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 555 ، كتاب الحدود: باب الشفاعة فى الحدود ، ابن ماجة: 2548 ، ابن ابي شيبة: 474/5 ، 28081 ، حاكم: 379/4 ، بيهقي: 281/8]