ادھار لی گئی چیز واپس کرتے وقت قیمت کا تعین شرعی اصول
ماخوذ : احکام و مسائل، خرید و فروخت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 386

سوال کا پس منظر

جب ایک جیسی اشیاء کو آپس میں بیچنے کی بات ہو (یعنی جن کی جنس ایک ہو)، تو شریعت میں اس پر دو شرائط لاگو ہوتی ہیں:

یداً بید (یعنی ہاتھوں ہاتھ لین دین ہو)

مثلاً بمثل (یعنی مقدار یا وزن میں برابری ہو)

عام مشاہدہ ہے کہ گھروں اور محلّوں میں لوگ ایک دوسرے سے آٹا یا دیگر اشیاء ادھار لیتے ہیں اور بعد میں واپس کرتے ہیں۔ اس طرح:

◈ ایک طرف سے یہ معاملہ یداً بید کے مطابق نہیں ہوتا (کیونکہ سامان فوری واپس نہیں کیا جاتا)، بلکہ یہ نسیئۃ (ادھار) ہوتا ہے۔

◈ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت جائز ہے؟

مزید یہ کہ اگر واپس کرنے والا شخص وہی چیز واپس نہ کرے بلکہ اس کے بدلے پیسے ادا کرے، تو:

◈ وہ پیسے اس دن کے حساب سے دیے جائیں گے جب اس نے چیز لی تھی؟

◈ یا اس دن کے حساب سے جب وہ پیسے ادا کر رہا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کسی چیز کی خرید و فروخت مثلاً بمثل اور یداً بید کی شرط کے ساتھ ہو، تو یہ خاص طور پر بیع (خرید و فروخت) کے معاملات پر لاگو ہوتا ہے۔

آپ نے جو صورت بیان کی ہے وہ دراصل:

عاریہ (عارضی طور پر کسی کو چیز دینا)

◈ یا ادھار (نسیئۃ) پر دینا

کی مثال ہے۔ اور عاریہ اور ادھار کے معاملات پر یداً بید کا اصول لاگو نہیں ہوتا۔ اگر ایسا کیا جائے تو پھر عاریہ اور ادھار دونوں ہی حرام قرار پائیں گے، جو کہ شریعت میں نہیں ہے۔

البتہ:

اگر عاریہ یا ادھار میں سود (ربا) شامل ہو جائے، تو وہ صورت ناجائز اور حرام ہو جائے گی۔

مثلاً:

◈ اگر کوئی شخص کسی کو آٹا، چینی یا کوئی اور چیز ادھار دے، اور واپس کرنے کے وقت اصل چیز کی بجائے اس کی قیمت وصول کرے،

◈ اور یہ لین دین سود کا حیلہ نہ ہو یا حقیقتاً سود نہ بنے،

◈ تو یہ جائز ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے